بھٹائی اور ماورائی جمالیات

یورپ میں فلسفے کی تاریخ میں کانٹ امانوئیل کو اہم حیثیت حاصل ہے

shabnumg@yahoo.com

یورپ میں فلسفے کی تاریخ میں کانٹ امانوئیل کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف برکلے، جان لاک اور ہیوم تھے، جن کے افکار کا انگلستان میں چرچا تھا تو فرانس میں والٹئر، دیکارت اور روسو کے فن و فکر کے اثرات چھائے ہوئے تھے، جرمن فراسفر کانٹ نے ایک طرف Transcendental Aesthetic ماورائی جمالیات کی بات کی ہے تو کانٹ کا کہناہے کہ علم کی حاصلات فقط عقلی ادراک کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے ماورائی جمالیات کی ضرورت ہے۔

ایک ایسا رویہ جو ایشیا کی خاصیت اور سچائی سے جڑا ہو اس کی نظر میں سچائی کو شعور کی منزل دریافت کرسکتی ہے، کانٹ کی نظر میں ذہن کی عظیم تخلیق کو سماج کی اصلاح کے لیے وقف ہونا ضروری ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کانٹ کے ان حوالوں کے قریب تر ہے کیوںکہ آفاقی رویے یکساں طور پر داخلی احساس سے تعلق رکھتے ہیں مگر یہاں فقط ماورائی جمالیات کے حوالے سے بات ہوگی، شاہ کا ماورائی حسن ان کی باطن کی آنکھ کا جوہر ہے یہ عقل و سمجھ سے بالاتر ہے، یہ محض دیکھنے اور محسوس کرنے کا میکانکی انداز نہیں ہے بلکہ اس مشاہدے میں شاعر کی روح دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ داخلی کیفیات کا ثمر ہیں بقول لطیف کے:

رخ محبوب کی صباحت دیکھ
جیسے روشن ہو صبح کا تارہ

شاہ کے تخلیقی عمل میں بصری تاثر، شعور کی خوبصورتی میں جذب ہوجاتا ہے کانٹ کے نزدیک بھی سچائی کو شعور کا عرفان دریافت کرتا ہے تاکہ علمیت من میں آگہی کا دیا روشن نہ ہو تو اشیا کے مابین تعلق کی خوبصورتی کا ادراک ممکن نہیں ہے ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو ذہن کا کام Catalyst (عمل انگیز) جیسا ہے جو تبدیلی کا محرک کہلاتا ہے، انسان کے ذہن میں مکمل کائنات بس رہی ہے۔

بھٹائی رومی کے مداح تھے۔ رومی کا بھی یہی خیال ہے کہ کائنات تک پہنچ وجود کے داخلی دروازے سے گزر کر ممکن ہو پاتی ہے۔

ماورائی جمالیات کا تعلق حسیاتی طور پر متحرک اور فعال ہونے کے راز میں پوشیدہ ہے۔ بھٹائی اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں:

ایک صدا ایک گونج، سننے میں ہیں دو
غور سے گرسن لو، مخرج ان کا ایک ہے


یہ سوچ یا گمان کی کیفیت فطری زندگی سے دوری کا نتیجہ ہے، جہاں بے یقینی ہوگی وہاں سچائی، خوبصورتی اور محبت ناپید دکھائی دیتی ہے اور انسان حسیاتی طور پر غیر متحرک ہوجاتا ہے۔ تمام تر منفی رویے اور جذبے اس سے سوچ اور سمجھ کا سلیقہ چھین لیتے ہیں۔ لہٰذا خوبصورتی کو سمجھنے اور سراہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا در اصل علم کی بنیاد اگر ناپختہ ہے تو عمل کا دروازہ بند ملتا ہے، علم اور عمل کی مطابقت کردار میں پختگی لے کر آتی ہے، مسند، عہدہ یا رتبہ ذہنی پختگی اور فکری توازن کو ظاہر نہیں کرتے، عمل ہی فن و فکر کے پرکھنے کی کسوٹی ہے۔

شاہ لطیف کی ماورائی جمالیات دھرتی کی جڑوں سے پھوٹ نکلتی ہے زمین کا مشاہدہ اور تجربہ ان کے شعر کی خوبصورتی ہے۔ تمام تر مثالیں، استعارے اور محاورے زمین کی رنگینیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ فطرت کی قربت اور مشاہدہ شاعر کو حسیاتی طور پر تحرک عطا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ علم انسان کی محبت اور فطری زندگی کی سمجھ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ سوچ میں وسعت رابطے کے ہنر سے پیدا ہوتی ہے۔

شاہ لطیف کی شاعری میں سماجی شعور کی شمع صدیوں سے روشن ہے، کانٹ بھی ذہنی عظیم تخلیق کو سماج کی اصلاح سے منسوب، وقف کرنے کا کہتا ہے۔ لہٰذا ذات کی سمجھ محبت اور فطرت کے لازوال رویوں سے روشناس کراتی ہے۔ شاہ کی شاعری کا محور انسان اور انسانی جذبے ہیں۔ اس شاعری کا محور عام لوگ ہیں۔

وہ عام لوگ جو دن رات محنت کرکے ہمیں غذا، کپڑا، مکان اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں یہ لوگ ہماری بقا کا وسیلہ ہیں۔ اگر عظیم سوچ، فکر و فلسفہ ان کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے نہیں ہے تو یہ چاند کا نوالا توڑ کے بھوک نہیں مٹاسکتے۔ نظریوں کی چادر سے تن نہیں ڈھکا جاسکتا، بنیادی ضرورتوں کی فراہمی نہ ہو تو خوبصورتی ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہے لہٰذا شاہ لطیف سندھ کو سرسبز دیکھنے کے ساتھ تمام عالم کو آباد ہونے کی دعا دیتے ہیں۔

اس شاعری میں عام لوگوں کے لیے خود انحصاری کا درس ہے گرمی ہو یا سردی رخصت سفر باندھ لینے کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی میں وقت کی اہمیت ہے ہر کام وقت پر ہونا چاہیے، یہ وقت اگر ہاتھ سے نکل گیا تو انسان منزل کے نشان ڈھونڈتا رہ جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ چلنے سے لمحوں کا عرفان عطا ہوتا ہے ہر لمحے، ہر گھڑی کا اپنا ایک الگ الہامی اثر ہے خیال اور وقت کی فریکوئنسی یکجا ہونے سے تصور کو تعبیر عطا ہوتی ہے۔

صوفی وقت کا گہرا دوست ہے۔ اسے ہر لمحے کی قدر و قیمت کا اندازہ ہے اگر رات، پچھلا پہر خود آگہی کا عرفان عطا کرتا ہے تو سرمئی صبح کے اجالے دل کو تشکر کے احساس سے لبریز کردیتے ہیں، سہ پہر خوابوں کی تجدید ہے تو شام کی خاموشی ادراک کے جوہر سے آشنا شاہ صاحب اس جگہ کو جادو نگری سے تشبیہ دیتے ہیں جو خود بینی کے رنگ دکھاتی ہے، خیال کی رعنائی بھی فطرت کے حسن کا تسلسل ہے۔ انسان کی زندگی میں سب کچھ ہے مگر محبت نہیں ہے تو وہ خیال کی معرفت تک نہیں پہنچ سکتا تعلق کی روشنی کو محسوس نہیں کرسکتا، ذات کے خلا میں بھٹکتا رہتا ہے تمام منظر بے معنی ہوجاتے ہیں۔

کانٹ اس سچائی کی بات کرتا ہے جو داخلی کیفیات کا عکس ہے اس کی نظر میں انسانی ذہن مستقل سوچ کی تبدیلی کے زیر اثر رہتا ہے ور ان تجربات کو تصور کے سانچے میں ڈھالنے کا مجاز ہے۔ فطری زندگی و کائنات بھی تغیر پذیر ہیں لہٰذا نظریات ور ان کی تشریح بھی بدل جاتی ہے مگر دائمی سچائی وہی رہ کر مستقل موجود رہتی ہے شاہ صاحب کو چاند کی خوبصورت، محبوب کے حسن کے سامنے ماند دکھائی دیتی ہے۔

چاند کی روشنی دن میں غائب ہوجاتی ہے لہٰذا چاند کے حسن کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگر چاند کی برقی رو جس طرح لہروں کو بے چین کردیتی ہے بالکل اسی طرح یہ محبت بھرے احساس کو اپنی جانب کھینچتی ہے یہ چاند جو زمین سے 239,000 میلوں کے فاصلے پر ہے لیکن زمین پر اس کی روشنی کے اثرات طبعی و جذبات طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ پورے چاند کی رات 75 فی صد مثبت آیونز فضا مین گردش کرتے ہیں ور احساس کی نزاکت کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

زمین پر اسی فی صد پانی موجود ہے انسانی جسم میں بھی اتنی مقدار میں پانی موجود ہے پورے چاند کی رات کے وقت چاند، سورج اور زمین وحدت بن جاتے ہیں۔ گہرائی میں جاکر چیزوں کی گہرائی اور ربط باہمی کا احساس ہوتا ہے لیکن صوفن کسی تشریح کے بغیر ابدی سچ کو جان لیتا ہے لہٰذا بند آنکھوں سے بھی منزل کے نشان پالیتا ہے۔
Load Next Story