ریکوڈک معاہدے میں وفاقی حکومت فریق نہیں سپریم کورٹ

ایک گورنر نے معاہدہ مستردکیا، دوسرے نے مارشل لاء کے دوران کاغذپرمنظوری دیدی، چیف جسٹس، آج خالد انور جواب الجواب دینگے

وزارت دفاع کینٹ بورڈزمیں الیکشن کے التوا کے مراسلہ سے دستبردارہوجائے، سپریم کورٹ، کمانڈر شہبازنے ایڈوائس کیلیے مہلت مانگ لی۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے کنٹونمنٹ بورڈکے علاقوں میں الیکشن کرانے کے مقدمہ میں وزارت دفاع کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہارکیا ہے اور آبزرویشن دی ہے کہ اگر الیکشن کرانے کی سمری کی منظوری وقت طلب ہو تو وزارت دفاع الیکشن موخرکرنے کے لیٹر سے دستبردار ہو جائے۔

گزشتہ روز وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے عدالت کو بتایا کہ سمری وزیر اعظم کو بھیج دی گئی ہے، منظوری کی صورت میں الیکشن کا اعلان کر دیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا وزیر اعظم کی منظوری سے الیکشن مئی2012 سے 4مئی2013 تک موخر ہے۔ عدالت نے اس موقف پر حیرانی کا اظہارکیا۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے کہا آخرکس قانون کے تحت الیکشن موخرکیے گئے، انھوں نے کہا سویلین پر حکمرانی سول قانون کے تحت ہوتی ہے،کنٹونمنٹ میں سویلین بھی ہوتے ہیں، سول نمائندوں نے اپنا اور دفاع والوں نے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا چودہ سال سے الیکشن نہ کرانے کی وجوہ کیا ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا حکومتی معاملات میں مرضی نہیں چلتی کہ دل نے چاہا اور الیکش موخر ہوئے، انھوں نے کہا اس بارے میں قانون پر عمل کرنا پڑے گا، عدالت نے وزارت دفاع کو الیکشن موخرکرنے کے لیٹر سے دستبرداری کا آپشن دیا جس پرکمانڈر شہباز نے ایڈوائس کیلیے مہلت طلب کی۔ عدالت نے مزید سماعت دو ہفتے کیلیے ملتوی کرکے الیکشن کمیشن سے وضاحت طلب کی کہ کیا عام انتخابات کے دوران کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بلدیاتی الیکشن ممکن ہوسکیںگے۔ دریں اثناء ریکوڈک کیس میں بی ایچ پی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں، آج ٹی تھیان کاپرکمپنی کے وکیل خالد انور جواب الجواب دینگے ۔




چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ہے کہ عدالت دیکھے گی کہ معاہدے میں پاکستان کی خود مختاری کا خیال رکھا گیاہے یا نہیں۔ بی ایچ پی کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے منگل کودلائل نمٹاتے ہوئے تین رکنی بینچ کو بتایا ریکوڈک کا معاہدہ قانون کے مطابق ہے، کوئی غیر قانونی طریقہ کار نہیں اپنا یا گیا ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے معاہدے میں حکومت پاکستان فریق نہیں، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی پارٹی ہے، ایک گورنر نے معاہدہ مستردکیا جبکہ مارشل لاء کے دوران دوسرے گورنر نے منظوری دی، عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ منظوری کیسے دی گئی کیونکہ گورنر نے ایک ایسے کاغذ پر منظوری دی ہے جس کو لیٹر پیڈ بھی نہیںکہا جا سکتا۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے کہا محکمہ قانون نے معاہدے کی مخالفت کی تھی۔
Load Next Story