داعش بھی خوش اسرائیل بھی مسرور
عمومی طور پر سبھی سربراہان مملکت نے ڈونلڈٹرمپ کو جیت کی مبارک باد پیش کی ہے
ISLAMABAD:
ری پبلیکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نام زد ہوجانے کے بعد انتخابی مہم اور صدارتی مباحث کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے بیانات نے انھیں انتہاپسند ظاہر کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد مسلمان مخالف جذبات اور انتہاپسندی پر رکھی تھی۔
ٹرمپ کے ان خیالات نے جہاں امریکا میں رہائش پذیر چالیس لاکھ مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا وہیں معتدل امریکی باشندوں نے بھی ٹرمپ کی انتہاپسندی کو مسترد کردیا۔ علاوہ ازیں امریکا سے باہر بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ نہ جانے سپرپاور کے نومنتخب صدر کا شدت پسند مزاج دنیا پر کیا غضب ڈھائے گا۔
عمومی طور پر سبھی سربراہان مملکت نے ڈونلڈٹرمپ کو جیت کی مبارک باد پیش کی ہے مگر چند ممالک میں خصوصاً ان کی جیت پر خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔ ان میں سرفہرست بھارت ہے۔ ٹرمپ کے مسلمان مخالف بیان نے انتہاپسند ہندوؤں میں خوشی کی لہر دوڑا دی تھی۔ پھر اس وقت ان کی خوشی دوچند ہوگئی جب انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ہندوستان کے ساتھ دوستانہ روابط پروان چڑھانے کی بات کی۔ اب ٹرمپ کی جیت پر انتہاپسند بھارتی حکومت کی مسرت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا۔
اس کا اندازہ بھارتی وزیراعظم کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغامات سے ہوتا ہے جن میں وہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران ہندوستان دوست خیالات کے اظہار پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہند،امریکا تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں۔
امریکا کے سخت حریف روس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا خیر مقدم کیا ہے جسے بین الاقوامی سطح پر قدرے حیرانی سے دیکھا جارہا ہے۔ ٹرمپ کو اپنے پیغام میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ موجودہ روس امریکا تعلقات کو دوستانہ تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن امید ہے کہ نئے امریکی صدر کی آمد کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مزید تعمیری بات چیت ممکن ہوگی۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران روس کے بارے میں سخت رائے کا اظہار کرنے سے گریز کیا تھا۔ اس کے برعکس وہ روسی صدر کو مضبوط لیڈر کہتے ہوئے روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر زور دیتے رہے۔ ایک موقع پر انھوں نے یہ بیان بھی دیا کہ پوتن یوکرین پر چڑھائی نہیں کریں گے۔ اس بیان پر انھیں ہلیری نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے روس کا ہمدرد کہہ دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اکثر بیانات الجھے ہوئے ہوتے ہیں مگر روس کے بارے میں ان کے خیالات واضح اور امید افزا رہے ہیں۔ وہ حریف ملک کے ساتھ بہتر اور پائیدار تعلقات کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔ اسی لیے مستقبل کے روس، امریکا تعلقات میں بہتری کی امیدیں ظاہر کی جارہی ہیں۔ تاہم کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ امریکا کے لیے گوربا چوف ثابت ہوں گے اور پوتن ان کے ذریعے امریکا کو زوال کی جانب گام زن کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔
دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کام یابی پر اظہار مسرت کیا ہے جو ایک حیران کُن بات ہے کیوں کہ اس تنظیم کے خلاف جنگ میں امریکی افواج بھی حصہ لے رہی ہیں۔ خوشی کے اظہار کی وجہ بیان کرتے ہوئے افغانستان میں داعش کے اہم کمانڈر عمرخراسانی نے بین الاقوامی خبررساں ادارے سے کہا،'' یہ آدمی (ڈونلڈ ٹرمپ) پاگل جنونی ہے۔ مسلمانوں کی نفرت میں اس نے جو الفاظ ادا کیے ہیں وہ ہمارا کام آسان تر کردیں گے اور ہمیں ہزاروں نئے کارکنان میسر آئیں گے۔ ''
داعش کی طرح القاعدہ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا خیرمقدم کیا ہے۔ شام میں القاعدہ کے اتحادی جہادی گروپ فتح الشام کے ترجمان حمزہ القریبی نے ٹوئٹ کیا،''ٹرمپ کی فتح جمہوری نظاموں کی افادیت کے گُن گانے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ آج کے بعد سے ہمیں مغرب کی ریشہ دوانیوں کی نشان دہی کے لیے پریس ریلیزوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ٹرمپ کی ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کرنا ہی کافی ہوگا۔''
امریکا میں سفید فام انتہاپسندوں کی کئی تنظیمیں موجود ہیں۔ دائیں بازو کی ان تنظیموں میں دی کلین (ٹرپل کے) کا نام نمایاں ہے۔ امریکی معاشرے کی تطہیر کے نام پر یہ تنظیم تین تحاریک بھی چلا چکی ہے۔ اس تنظیم کے اراکین سیاہ فاموں اور مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ کی فتح کے ساتھ ہی امریکا میں مسلمان لڑکیوں کے حجاب نوچنے کے کئی واقعات ہوئے۔ ان واقعات میں ملوث افراد کا تعلق یقینی طور پر دی کلین اور دوسری انتہا پسند تنظیموں سے تھا۔ ڈونلڈ کے انتہاپسندانہ خیالات کے پیش نظر دی کلین نے بھی ان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
مسلم دشمنی میں سرفہرست اسرائیل میں بھی ٹرمپ کی کام یابی پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کی کام یابی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے امریکا اسرائیل کے تعلقات کے مزید استحکام کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔
امریکا اور باقی دنیا کے لیے یہ کوئی خوش کُن منظرنامہ نہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران اعلان کردہ اقدامات پر عمل کرتے ہیں تو امریکا سمیت پوری دنیا میں نفرت بڑھے گی۔ ان اقدامات سے خانہ جنگی اور بعدازاں تیسری عالمی جنگ کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔
ری پبلیکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نام زد ہوجانے کے بعد انتخابی مہم اور صدارتی مباحث کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے بیانات نے انھیں انتہاپسند ظاہر کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد مسلمان مخالف جذبات اور انتہاپسندی پر رکھی تھی۔
ٹرمپ کے ان خیالات نے جہاں امریکا میں رہائش پذیر چالیس لاکھ مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا وہیں معتدل امریکی باشندوں نے بھی ٹرمپ کی انتہاپسندی کو مسترد کردیا۔ علاوہ ازیں امریکا سے باہر بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ نہ جانے سپرپاور کے نومنتخب صدر کا شدت پسند مزاج دنیا پر کیا غضب ڈھائے گا۔
عمومی طور پر سبھی سربراہان مملکت نے ڈونلڈٹرمپ کو جیت کی مبارک باد پیش کی ہے مگر چند ممالک میں خصوصاً ان کی جیت پر خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔ ان میں سرفہرست بھارت ہے۔ ٹرمپ کے مسلمان مخالف بیان نے انتہاپسند ہندوؤں میں خوشی کی لہر دوڑا دی تھی۔ پھر اس وقت ان کی خوشی دوچند ہوگئی جب انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ہندوستان کے ساتھ دوستانہ روابط پروان چڑھانے کی بات کی۔ اب ٹرمپ کی جیت پر انتہاپسند بھارتی حکومت کی مسرت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا۔
اس کا اندازہ بھارتی وزیراعظم کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغامات سے ہوتا ہے جن میں وہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران ہندوستان دوست خیالات کے اظہار پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہند،امریکا تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں۔
امریکا کے سخت حریف روس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا خیر مقدم کیا ہے جسے بین الاقوامی سطح پر قدرے حیرانی سے دیکھا جارہا ہے۔ ٹرمپ کو اپنے پیغام میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ موجودہ روس امریکا تعلقات کو دوستانہ تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن امید ہے کہ نئے امریکی صدر کی آمد کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مزید تعمیری بات چیت ممکن ہوگی۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران روس کے بارے میں سخت رائے کا اظہار کرنے سے گریز کیا تھا۔ اس کے برعکس وہ روسی صدر کو مضبوط لیڈر کہتے ہوئے روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر زور دیتے رہے۔ ایک موقع پر انھوں نے یہ بیان بھی دیا کہ پوتن یوکرین پر چڑھائی نہیں کریں گے۔ اس بیان پر انھیں ہلیری نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے روس کا ہمدرد کہہ دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اکثر بیانات الجھے ہوئے ہوتے ہیں مگر روس کے بارے میں ان کے خیالات واضح اور امید افزا رہے ہیں۔ وہ حریف ملک کے ساتھ بہتر اور پائیدار تعلقات کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔ اسی لیے مستقبل کے روس، امریکا تعلقات میں بہتری کی امیدیں ظاہر کی جارہی ہیں۔ تاہم کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ امریکا کے لیے گوربا چوف ثابت ہوں گے اور پوتن ان کے ذریعے امریکا کو زوال کی جانب گام زن کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔
دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کام یابی پر اظہار مسرت کیا ہے جو ایک حیران کُن بات ہے کیوں کہ اس تنظیم کے خلاف جنگ میں امریکی افواج بھی حصہ لے رہی ہیں۔ خوشی کے اظہار کی وجہ بیان کرتے ہوئے افغانستان میں داعش کے اہم کمانڈر عمرخراسانی نے بین الاقوامی خبررساں ادارے سے کہا،'' یہ آدمی (ڈونلڈ ٹرمپ) پاگل جنونی ہے۔ مسلمانوں کی نفرت میں اس نے جو الفاظ ادا کیے ہیں وہ ہمارا کام آسان تر کردیں گے اور ہمیں ہزاروں نئے کارکنان میسر آئیں گے۔ ''
داعش کی طرح القاعدہ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا خیرمقدم کیا ہے۔ شام میں القاعدہ کے اتحادی جہادی گروپ فتح الشام کے ترجمان حمزہ القریبی نے ٹوئٹ کیا،''ٹرمپ کی فتح جمہوری نظاموں کی افادیت کے گُن گانے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ آج کے بعد سے ہمیں مغرب کی ریشہ دوانیوں کی نشان دہی کے لیے پریس ریلیزوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ٹرمپ کی ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کرنا ہی کافی ہوگا۔''
امریکا میں سفید فام انتہاپسندوں کی کئی تنظیمیں موجود ہیں۔ دائیں بازو کی ان تنظیموں میں دی کلین (ٹرپل کے) کا نام نمایاں ہے۔ امریکی معاشرے کی تطہیر کے نام پر یہ تنظیم تین تحاریک بھی چلا چکی ہے۔ اس تنظیم کے اراکین سیاہ فاموں اور مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ کی فتح کے ساتھ ہی امریکا میں مسلمان لڑکیوں کے حجاب نوچنے کے کئی واقعات ہوئے۔ ان واقعات میں ملوث افراد کا تعلق یقینی طور پر دی کلین اور دوسری انتہا پسند تنظیموں سے تھا۔ ڈونلڈ کے انتہاپسندانہ خیالات کے پیش نظر دی کلین نے بھی ان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
مسلم دشمنی میں سرفہرست اسرائیل میں بھی ٹرمپ کی کام یابی پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کی کام یابی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے امریکا اسرائیل کے تعلقات کے مزید استحکام کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔
امریکا اور باقی دنیا کے لیے یہ کوئی خوش کُن منظرنامہ نہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران اعلان کردہ اقدامات پر عمل کرتے ہیں تو امریکا سمیت پوری دنیا میں نفرت بڑھے گی۔ ان اقدامات سے خانہ جنگی اور بعدازاں تیسری عالمی جنگ کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔