انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں کو 250روپے یومیہ ملتے تھے
یہ رضاکارمحکمہ صحت کے ملازم ہیں نہ عالمی ادارہ صحت انھیں اپناملازم سمجھتا ہے
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے چلائی جانے والی انسدادپولیومہم کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بننے والی رضاکارخواتین کویومیہ250 روپے معاوضہ ملتا تھا۔
یہ معاوضہ پولیومہم کے دوران تمام رضاکاروں کواداکیاجاتا ہے۔انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پولیومہم کاانتظارکرتی ہیں کہ مہم شروع ہوتوان کوساڑھے 7سوروپے مل جائیں گے۔ رضاکاروں کویہ معاوضہ تین دن پولیو مہم اورمزید ایک دن پولیوماپنگ (مانیٹرنگ)کرنے اورپولیورپورٹ تیارکرنے کے بعددیاجاتا ہے۔ یہ معمولی سی رقم ان ورکروں کو پولیومہم میں شرکت کاثبوت دیے جانے کے ایک ہفتے بعدجاری کی جاتی ہے، ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیومہم کے دوران 100فیصد رضاکاروںکاتعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔
یہ رضاکارمحکمہ صحت کے ملازم ہوتے ہیںنہ عالمی ادارہ صحت انھیں اپناملازم سمجھتا ہے۔ بچوںکوپولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کیلیے اپناقومی فریضہ اداکرنے والی خواتین رضاکارمنگل کو دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں لیکن محکمہ صحت سمیت کسی بھی ادارے نے ان کے اہلخانہ کی کفایت کیلیے کوئی اعلان نہیں کیا۔انسداد پولیو مہم کے دوران فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی کنیز کا شوہر محنت کش ہے، مقتولہ معاشی پریشانیوں کی وجہ سے گھر گھر جا کر لوگوں کو قطرے پلاتی تھی تاکہ کچھ پیسے آجائیں۔
یہ بات مقتولہ کے پڑوسی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔ انھوں نے بتایا کہ کنیر فاطمہ کا شوہر خادم حسین راج مستری کا کام کرتا ہے، شہر کے حالات کی وجہ سے اسے کبھی کام ملتا تو کبھی ایک ایک ہفتے گھر پر بیٹھا رہتا ہے۔ کنیز بی بی ڈھائی سو روپے کی خاطر گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلاتی تھی۔ زخمی اسد عرفراشد نے بتایا کہ واردات کے وقت وہ ایک گھر کے بچوں کو قطرے پلانے کے بعد گھر کے دروازے پر نمبر لگا رہا تھا کہ 2 ملزمان آئے اور اچانک فائرنگ کر دی ۔
یہ معاوضہ پولیومہم کے دوران تمام رضاکاروں کواداکیاجاتا ہے۔انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پولیومہم کاانتظارکرتی ہیں کہ مہم شروع ہوتوان کوساڑھے 7سوروپے مل جائیں گے۔ رضاکاروں کویہ معاوضہ تین دن پولیو مہم اورمزید ایک دن پولیوماپنگ (مانیٹرنگ)کرنے اورپولیورپورٹ تیارکرنے کے بعددیاجاتا ہے۔ یہ معمولی سی رقم ان ورکروں کو پولیومہم میں شرکت کاثبوت دیے جانے کے ایک ہفتے بعدجاری کی جاتی ہے، ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیومہم کے دوران 100فیصد رضاکاروںکاتعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔
یہ رضاکارمحکمہ صحت کے ملازم ہوتے ہیںنہ عالمی ادارہ صحت انھیں اپناملازم سمجھتا ہے۔ بچوںکوپولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کیلیے اپناقومی فریضہ اداکرنے والی خواتین رضاکارمنگل کو دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں لیکن محکمہ صحت سمیت کسی بھی ادارے نے ان کے اہلخانہ کی کفایت کیلیے کوئی اعلان نہیں کیا۔انسداد پولیو مہم کے دوران فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی کنیز کا شوہر محنت کش ہے، مقتولہ معاشی پریشانیوں کی وجہ سے گھر گھر جا کر لوگوں کو قطرے پلاتی تھی تاکہ کچھ پیسے آجائیں۔
یہ بات مقتولہ کے پڑوسی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔ انھوں نے بتایا کہ کنیر فاطمہ کا شوہر خادم حسین راج مستری کا کام کرتا ہے، شہر کے حالات کی وجہ سے اسے کبھی کام ملتا تو کبھی ایک ایک ہفتے گھر پر بیٹھا رہتا ہے۔ کنیز بی بی ڈھائی سو روپے کی خاطر گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلاتی تھی۔ زخمی اسد عرفراشد نے بتایا کہ واردات کے وقت وہ ایک گھر کے بچوں کو قطرے پلانے کے بعد گھر کے دروازے پر نمبر لگا رہا تھا کہ 2 ملزمان آئے اور اچانک فائرنگ کر دی ۔