امریکی معاشرے کی نمو اور بقا کا راز
ڈونلڈ ٹرمپ اب اتفاق سے امریکی معاشرے کے روح رواں بن چکے ہیں
ڈونلڈ ٹرمپ اب اتفاق سے امریکی معاشرے کے روح رواں بن چکے ہیں، وہ ہوش مندی میں نہیں بلکہ لڑکپن سے ہی ایسے تھے کہ وہ باپ کے کنٹرول میں نہ تھے، اسی لیے ان کے والد نے بچپن ہی میں کیڈٹ اسکول میں داخل کروا دیا تھا تاکہ وہ من مانی کی روش ترک کر دیں اور تابعدار اور ڈسپلن سے آشنا ہو جائیں، مگر انھوں نے اپنی روش نہ بدلی اور آخرکار خاک ان کو وہاں ہی لے گئی جہاں کا خمیر تھا۔ اور قسمت نے بھی ان کا ساتھ دیا اور وہ اکنامکس میں خوش قسمتی سے گریجویٹ بھی ہو گئے اور ایک ٹی وی پروگرام نے ان کو شہرت کے عروج پر پہنچا دیا جو ''دی اپرنٹس'' The Apprentice کے نام سے مشہور ہوا۔
اس پروگرام نے نہ صرف ان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ دولت کے بام عروج پر بھی بٹھا دیا۔ ہر پروگرام پر 3 لاکھ 75 ہزار ڈالر کا ان کو معاوضہ ملتا رہا۔ وہ زندگی بھر شوبز اور اسی قسم کے کاروبار سے منسلک رہے اور اتفاق سے ان کی رفیق حیات بھی معروف ماڈل گرل تھیں۔ دونوں نے مل کر دولت کی دنیا میں زبردست کمائی کی۔
نسلی اعتبار سے دونوں مغربی دنیا سے وابستہ رہے تھے۔ ان کے والدین نے امریکا میں آ کر مستقل سکونت اختیار کی مگر دونوں مرد و زن تارکین وطن کے سخت مخالف ہیں اور فکری طور پر کوئی بلند پایہ افکار کے مالک نہیں بلکہ ٹرمپ بیوی کے مقابلے میں زیادہ سخت گیر مزاج کے مالک ہیں اور سیاسی نظریات میں بھی شدت پسندی ہے۔
1950ء کی دہائی میں جب کوریا کی جنگ چل رہی تھی، کم ال سنگ شمالی کوریا کے صدر تھے، ماؤزے تنگ چین کے لیڈر تھے اور اس جنگ میں شمالی کوریا نے چین کی مدد سے جنوبی کوریا کو زبردست شکست دی تھی اور آخر میں اقوام متحدہ کو بیچ بچاؤ کرنا پڑا تھا، جو قضیہ آج تک جوں کا توں ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ ان کا اختیار ہوتا تو وہ چین پر ایٹم بم مار دیتے مگر ان کو معلوم نہ تھا کہ ان کے مدمقابل اس وقت تاریخ کی دو عظیم ترین شخصیات ماؤزے تنگ اورکم ال سنگ تھے۔
ماؤزے تنگ اس وقت امریکا کو کاغذی شیر کہا کرتے تھے مگر ان کے حالیہ دنوں کے ان خیالات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے اور کمزور ملکوں کو یہ کس طرح دیکھتے ہیں اور ان کی سوچ کا انداز کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ دائیں بازو کی بدترین سوچ کے مالک ہیں۔ امریکی ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اپنے قائد کے طور پر لائے ہیں، کچھ تو ان کو دبائیں گے اور کچھ ان کی باتیں مانیں گے۔
انتخاب سے قبل انھوں نے سعودی حکمرانوں کو زبردست تنبیہ کر دی اور کہا کہ میں اگر اقتدار پر قابض ہوا تو بشارالاسد کو پورے حقوق دوں گا اور شام کو بے تاج بادشاہ مانوں گا ۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکا پر نائن الیون کرنے والے تمام کے تمام سعودی تھے، پھر بھی یہ خوب مذاق ہے کہ حملہ عراق پر کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارتکاری کس راستہ پر جاتی ہے اور یمن کی جنگ کس راستے پر جاتی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستان پچاس ملکی اتحاد میں شامل نہ ہوا۔
یہ عجیب بات ہے کہ امریکی میڈیا سی این این CNN اور برطانوی بی بی سی بھی ہلیری کی جیت کی پیش گوئی میں مصروف تھے، مگر نتائج دیکھیں اور امریکی ریاستوں کے نقشے پر نظر ڈالیں تو 60 فیصد سے زائد کم آبادی والی ریاستیں ٹرمپ کے ساتھ نظر آئیں گی، البتہ نیویارک، نیوجرسی اور اس جیسی شائستہ بڑی ریاستیں ہلیری کلنٹن کے ہمراہ ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑا بھونچال آنے کو ہے اور اس کے اثرات ترکی پر بھی پڑیں گے اور سب سے زیادہ پاکستان پر سفارتی لیول پر، کیونکہ پاکستان کے حکمران ذہنی طور پر ٹرمپ کی آمد کے متوقع نہ تھے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تیاری کی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آنے کو تھا کہ پاکستان کے لیڈران شام میں اپنی فوجیں روانہ کرنے والے تھے مگر مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورت حال اور یمن کے تنازعے نے پاکستان کو دور رکھا، ورنہ ترکی کے فریب میں آنے کو تھے۔
ترکی کی بھی دلفریب سیاسی منطق ہے، ابھی ترک صدر پاکستان آئے تھے، ان کی آمد کے جہاں اور مقاصد تھے وہاں ایک مقصد جو پاکستانی روزنامے بیان کر رہے تھے وہ یہ کہ پاکستان میں فوجی اور سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی میں کمی کرنا تھا، جب کہ پاکستان میں بظاہر فوج اور سیاست دانوں میں وہ دوری نظر نہ آئی، جس کی پیشگوئی کی جا رہی تھی، جب کہ ترکی خود اس دور سے گزر رہا ہے۔ بظاہر جس مقصد کے لیے وہ پاکستان آ رہے تھے ترکی شام کی حکومت کو گرانے میں پیش پیش تھا جس کی وجہ سے ٹرمپ حکومت اس سے بہت فاصلے پر کھڑی ہے۔
ملک میں فوجی بغاوت اور روسی صدر پیوتن سے محاذ آرائی کے بعد نئے سرے سے تعلقات استوار کیے گئے اور اس کے لیے بہ نفس نفیس ترک صدر نے پیوتن سے کریملن میں نئے تعلقات واضح کیے۔ لہٰذا ترکی کا عالمی سیاست میں فی الحال کوئی کردار نہیں، الیپو میں جو ہزاروں باغی محصور ہیں، ان کے مستقبل کی ضمانت اب نہیں دی جا سکتی کیوںکہ داعش مخالف حکومت نے ریاست ہائے متحدہ کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اب اس کوشش میں ہیں کہ وہ معلوم کریں کہ امریکا کی کون سی لابی (Lobby) داعش کی مدد کرتی تھی، مگر اس بار امریکا کے حالات ویسے بالکل نہیں جیسے عام انتخابات کے بعد ہوتے تھے۔ گو کہ ہلیری کلنٹن نے ہار مان لی اور اپنی شکست کا ذمے دار ایف بی آئی (FBI) کو قرار دیا، جس نے عام انتخابات سے چند یوم قبل ہلیری کی ای میلز کا کا شوشہ کھڑا کر دیا۔
بقول ہلیری کلنٹن کے وہ ایف بی آئی کے الزامات کا پوری طور پر جواب نہ دے سکیں اور ٹرمپ نے اس موقع کا کافی فائدہ اٹھایا، جب کہ ٹرمپ نے دوران الیکشن یہ واضح کیا تھا کہ وہ ہرگز اپنی شکست تسلیم نہ کریںگے کیوںکہ وہ جیتے ہوئے ہیں، جب کہ ہلیری نے اصولی طور پر اپنی ہار تسلیم کر لی ہے، مگر ہلیری کے ووٹر شکست ماننے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ہلیری نے ٹرمپ کے مقابلے میں گنجان علاقوں سے زیادہ ووٹ لیے اور تعداد بھی زیادہ تھی، مگر بکھرے ہوئے علاقوں اور ریاستوں میں انھیں شکست اٹھانی پڑی اور خاص طور سے الیکٹورل ووٹوں میں ہلیری کو شکست ہوئی، جب کہ یہ عمل جمہوریت کے بنیادی اصول ایک فرد ایک ووٹ اور ایک رائے کے اصول سے متصادم ہے۔
اسی لیے ٹرمپ ٹاور کے سامنے ہزاروں لوگ دھرنا دیے بیٹھے ہیں مگر ان سب چیزوں کے باوجود کچھ نہ ہو گا کیوںکہ الیکٹورل ووٹوں کے اصول میں اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں اور دنیا میں امریکی جمہوریت کی جگ ہنسائی ہوتی رہے گی۔ خود ڈیموکریٹک پارٹی الیکٹورل ووٹوں کے نظام میں تبدیلی کی خواہاں نہیں ہے۔
درحقیقت جس قومیت کا نعرہ ٹرمپ نے بلند کیا ہے امریکا میں اس کی کوئی اساس نہیں ہے، کیونکہ تاریخی اور اصولی اعتبار سے ریڈ انڈین (RED INDIAN) ہی امریکا کے اصل باشندے ہیں، مگر جس طرح قدرتی اور جنگی اعتبار سے امریکی معاشرہ ترتیب پایا ہے وہ آبادکاروں کی ایک بڑی بستی ہے، جو مغربی دنیا سے آ کر آباد ہوئی، لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ اگر خاص امریکی عنصر کو وہاں کے ساکنوں میں تلاش کریںگے تو امریکی معاشرہ بکھر جائے گا۔
ہر سفید فام کی ایک پشت قبل کا جائزہ اگر لیا جائے گا تو اس کے تانے بانے مغربی دنیا سے ہی ملیںگے۔ امریکی معاشرہ مشترکہ تہذیب، ملاپ اور قومیتوں کے مرکبات کے خمیر سے مل کر آگے بڑھا ہے اور بڑھے گا، اس کا احساس انھیں جلد ہو جائے گا اور اپنی امیگریشن پالیسی انھیں جلد تبدیل کرنی ہو گی کیوںکہ امریکی معاشرہ کا پودا انھی عناصر کو اپنے میں ضم کر کے آگے بڑھا ہے اور یہی اس کی بقا اور نمو کا راز ہے۔
اس پروگرام نے نہ صرف ان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ دولت کے بام عروج پر بھی بٹھا دیا۔ ہر پروگرام پر 3 لاکھ 75 ہزار ڈالر کا ان کو معاوضہ ملتا رہا۔ وہ زندگی بھر شوبز اور اسی قسم کے کاروبار سے منسلک رہے اور اتفاق سے ان کی رفیق حیات بھی معروف ماڈل گرل تھیں۔ دونوں نے مل کر دولت کی دنیا میں زبردست کمائی کی۔
نسلی اعتبار سے دونوں مغربی دنیا سے وابستہ رہے تھے۔ ان کے والدین نے امریکا میں آ کر مستقل سکونت اختیار کی مگر دونوں مرد و زن تارکین وطن کے سخت مخالف ہیں اور فکری طور پر کوئی بلند پایہ افکار کے مالک نہیں بلکہ ٹرمپ بیوی کے مقابلے میں زیادہ سخت گیر مزاج کے مالک ہیں اور سیاسی نظریات میں بھی شدت پسندی ہے۔
1950ء کی دہائی میں جب کوریا کی جنگ چل رہی تھی، کم ال سنگ شمالی کوریا کے صدر تھے، ماؤزے تنگ چین کے لیڈر تھے اور اس جنگ میں شمالی کوریا نے چین کی مدد سے جنوبی کوریا کو زبردست شکست دی تھی اور آخر میں اقوام متحدہ کو بیچ بچاؤ کرنا پڑا تھا، جو قضیہ آج تک جوں کا توں ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ ان کا اختیار ہوتا تو وہ چین پر ایٹم بم مار دیتے مگر ان کو معلوم نہ تھا کہ ان کے مدمقابل اس وقت تاریخ کی دو عظیم ترین شخصیات ماؤزے تنگ اورکم ال سنگ تھے۔
ماؤزے تنگ اس وقت امریکا کو کاغذی شیر کہا کرتے تھے مگر ان کے حالیہ دنوں کے ان خیالات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے اور کمزور ملکوں کو یہ کس طرح دیکھتے ہیں اور ان کی سوچ کا انداز کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ دائیں بازو کی بدترین سوچ کے مالک ہیں۔ امریکی ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اپنے قائد کے طور پر لائے ہیں، کچھ تو ان کو دبائیں گے اور کچھ ان کی باتیں مانیں گے۔
انتخاب سے قبل انھوں نے سعودی حکمرانوں کو زبردست تنبیہ کر دی اور کہا کہ میں اگر اقتدار پر قابض ہوا تو بشارالاسد کو پورے حقوق دوں گا اور شام کو بے تاج بادشاہ مانوں گا ۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکا پر نائن الیون کرنے والے تمام کے تمام سعودی تھے، پھر بھی یہ خوب مذاق ہے کہ حملہ عراق پر کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارتکاری کس راستہ پر جاتی ہے اور یمن کی جنگ کس راستے پر جاتی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستان پچاس ملکی اتحاد میں شامل نہ ہوا۔
یہ عجیب بات ہے کہ امریکی میڈیا سی این این CNN اور برطانوی بی بی سی بھی ہلیری کی جیت کی پیش گوئی میں مصروف تھے، مگر نتائج دیکھیں اور امریکی ریاستوں کے نقشے پر نظر ڈالیں تو 60 فیصد سے زائد کم آبادی والی ریاستیں ٹرمپ کے ساتھ نظر آئیں گی، البتہ نیویارک، نیوجرسی اور اس جیسی شائستہ بڑی ریاستیں ہلیری کلنٹن کے ہمراہ ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑا بھونچال آنے کو ہے اور اس کے اثرات ترکی پر بھی پڑیں گے اور سب سے زیادہ پاکستان پر سفارتی لیول پر، کیونکہ پاکستان کے حکمران ذہنی طور پر ٹرمپ کی آمد کے متوقع نہ تھے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تیاری کی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آنے کو تھا کہ پاکستان کے لیڈران شام میں اپنی فوجیں روانہ کرنے والے تھے مگر مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورت حال اور یمن کے تنازعے نے پاکستان کو دور رکھا، ورنہ ترکی کے فریب میں آنے کو تھے۔
ترکی کی بھی دلفریب سیاسی منطق ہے، ابھی ترک صدر پاکستان آئے تھے، ان کی آمد کے جہاں اور مقاصد تھے وہاں ایک مقصد جو پاکستانی روزنامے بیان کر رہے تھے وہ یہ کہ پاکستان میں فوجی اور سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی میں کمی کرنا تھا، جب کہ پاکستان میں بظاہر فوج اور سیاست دانوں میں وہ دوری نظر نہ آئی، جس کی پیشگوئی کی جا رہی تھی، جب کہ ترکی خود اس دور سے گزر رہا ہے۔ بظاہر جس مقصد کے لیے وہ پاکستان آ رہے تھے ترکی شام کی حکومت کو گرانے میں پیش پیش تھا جس کی وجہ سے ٹرمپ حکومت اس سے بہت فاصلے پر کھڑی ہے۔
ملک میں فوجی بغاوت اور روسی صدر پیوتن سے محاذ آرائی کے بعد نئے سرے سے تعلقات استوار کیے گئے اور اس کے لیے بہ نفس نفیس ترک صدر نے پیوتن سے کریملن میں نئے تعلقات واضح کیے۔ لہٰذا ترکی کا عالمی سیاست میں فی الحال کوئی کردار نہیں، الیپو میں جو ہزاروں باغی محصور ہیں، ان کے مستقبل کی ضمانت اب نہیں دی جا سکتی کیوںکہ داعش مخالف حکومت نے ریاست ہائے متحدہ کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اب اس کوشش میں ہیں کہ وہ معلوم کریں کہ امریکا کی کون سی لابی (Lobby) داعش کی مدد کرتی تھی، مگر اس بار امریکا کے حالات ویسے بالکل نہیں جیسے عام انتخابات کے بعد ہوتے تھے۔ گو کہ ہلیری کلنٹن نے ہار مان لی اور اپنی شکست کا ذمے دار ایف بی آئی (FBI) کو قرار دیا، جس نے عام انتخابات سے چند یوم قبل ہلیری کی ای میلز کا کا شوشہ کھڑا کر دیا۔
بقول ہلیری کلنٹن کے وہ ایف بی آئی کے الزامات کا پوری طور پر جواب نہ دے سکیں اور ٹرمپ نے اس موقع کا کافی فائدہ اٹھایا، جب کہ ٹرمپ نے دوران الیکشن یہ واضح کیا تھا کہ وہ ہرگز اپنی شکست تسلیم نہ کریںگے کیوںکہ وہ جیتے ہوئے ہیں، جب کہ ہلیری نے اصولی طور پر اپنی ہار تسلیم کر لی ہے، مگر ہلیری کے ووٹر شکست ماننے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ہلیری نے ٹرمپ کے مقابلے میں گنجان علاقوں سے زیادہ ووٹ لیے اور تعداد بھی زیادہ تھی، مگر بکھرے ہوئے علاقوں اور ریاستوں میں انھیں شکست اٹھانی پڑی اور خاص طور سے الیکٹورل ووٹوں میں ہلیری کو شکست ہوئی، جب کہ یہ عمل جمہوریت کے بنیادی اصول ایک فرد ایک ووٹ اور ایک رائے کے اصول سے متصادم ہے۔
اسی لیے ٹرمپ ٹاور کے سامنے ہزاروں لوگ دھرنا دیے بیٹھے ہیں مگر ان سب چیزوں کے باوجود کچھ نہ ہو گا کیوںکہ الیکٹورل ووٹوں کے اصول میں اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں اور دنیا میں امریکی جمہوریت کی جگ ہنسائی ہوتی رہے گی۔ خود ڈیموکریٹک پارٹی الیکٹورل ووٹوں کے نظام میں تبدیلی کی خواہاں نہیں ہے۔
درحقیقت جس قومیت کا نعرہ ٹرمپ نے بلند کیا ہے امریکا میں اس کی کوئی اساس نہیں ہے، کیونکہ تاریخی اور اصولی اعتبار سے ریڈ انڈین (RED INDIAN) ہی امریکا کے اصل باشندے ہیں، مگر جس طرح قدرتی اور جنگی اعتبار سے امریکی معاشرہ ترتیب پایا ہے وہ آبادکاروں کی ایک بڑی بستی ہے، جو مغربی دنیا سے آ کر آباد ہوئی، لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ اگر خاص امریکی عنصر کو وہاں کے ساکنوں میں تلاش کریںگے تو امریکی معاشرہ بکھر جائے گا۔
ہر سفید فام کی ایک پشت قبل کا جائزہ اگر لیا جائے گا تو اس کے تانے بانے مغربی دنیا سے ہی ملیںگے۔ امریکی معاشرہ مشترکہ تہذیب، ملاپ اور قومیتوں کے مرکبات کے خمیر سے مل کر آگے بڑھا ہے اور بڑھے گا، اس کا احساس انھیں جلد ہو جائے گا اور اپنی امیگریشن پالیسی انھیں جلد تبدیل کرنی ہو گی کیوںکہ امریکی معاشرہ کا پودا انھی عناصر کو اپنے میں ضم کر کے آگے بڑھا ہے اور یہی اس کی بقا اور نمو کا راز ہے۔