ٹرمپ رُوپ بہروپ

نیویارک ایسی گنجان ترین ریاست، جہاں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں

tanveer.qaisar@express.com.pk

نوے کے عشرے میں مجھے امریکا جانے کا پہلی بار موقع ملا تو ممتاز ترین امریکی ریاست ''نیویارک'' کا میئر ڈی ڈی تھا۔ نام تو اُس کا ڈیوڈ ڈنکن تھا لیکن اُسے عمومی طور پر ''ڈی ڈی'' ہی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ڈی ڈی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ نیویارک کی تاریخ کا وہ پہلا سیاہ فام میئر بنا تھا۔ امریکی آئین کے مطابق کسی بھی ریاست کا منتخب شدہ میئر ہی ریاست کا اصل حکمران ہوتا ہے۔

نیویارک ایسی گنجان ترین ریاست، جہاں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں اور درجنوں ممالک سے آئے امیگرینٹس کی رنگ برنگی نسلیں آباد ہیں، میں کسی کالے کا حکمران بننا کوئی معمولی کامیابی نہیں تھی۔ ڈنکن صاحب بجا طور پر اپنے نصیب اور کامیابی پر رشک کر سکتے تھے۔مذکورہ ریاست کے سیاہ فام باشندے، جن کے آباؤ اجداد کو صدیوں قبل سفید فام حکمران غلام بنا کر اس عظیم برِاعظم پر پابجولاں لائے تھے، ڈی ڈی کے میئر بننے پر ہر جگہ مسرت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

اُن کی ''مسرتوں'' سے بہت سے غیر کالے عاجز بھی آ چکے تھے اور خوفزدہ بھی تھے۔ مجھے جہاں بھی جانے اور لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، تقریباً سبھی نے کُھلے اور دبے لفظوں میں اس شکایت کا اظہار کیا کہ جب سے ڈی ڈی منتخب ہوا ہے، کالوں نے ہماری جان شکنجے میں جکڑ لی ہے۔ ڈی ڈی کالوں کے جرائم کا براہ راست ذمے دار تو نہ تھا لیکن یہ تاثر گہرا ہو چکا تھا کہ کالے میئر کا وجود جرائم پیشہ سیاہ فاموں کے لیے شہ کا مُوجب ضرور بن گیا ہے۔

نیویارک شہر میں کنسٹرکشن اور ٹیکسی ڈرائیونگ کا کاروبار زیادہ تر پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی نژاد امریکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہی لوگ زیادہ تر نیویارک کے کالے غنڈوں کی زیادتیوں اور بدمعاشیوں کا ہدف بن رہے تھے۔ وہ مذکورہ نسل کے ٹیکسی ڈرائیوروں کو لُوٹتے بھی تھے اور جو کوئی مزاحمت کرتا، اُسے بے دریغ قتل کر دیا جاتا۔

کنسٹرکشن سے وابستہ افراد سے دن دیہاڑے بھتہ وصول کیا جاتا۔ شکایات درج کروائی جاتی تھیں اور گرفتاریاں بھی عمل میں آتی تھیں لیکن وارداتیں تھیں کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں؛ چنانچہ متاثرہ کمیونٹی کے ہر فرد کے لبوں پر یہی الفاظ تھے کہ ڈی ڈی کا اقتدار اس ظلم کی اصل وجہ ہے۔

نیویارک کے پانچوں حصوں (بروکلین، کوئنز، مین ہیٹن، برونکس اور لونگ آئی لینڈ) میں مجھے گھومنے پھرنے اور لوگوں سے ملنے جلنے کے کئی مواقع میسر آئے، ہر جگہ یہی شکایات تھیں۔ کالوں نے جینا حرام بنا دیا تھا۔ اکژیت کا کہناتھا کہ اب میئر کے انتخابات آئے اور ڈی ڈی دوبارہ کھڑا ہوا تو اُسے ہماری طرف سے ووٹ ہر گز نہیں ملیں گے۔

اگلی بار نیویارک کے میئر کا انتخاب ہونے لگا تو اتفاق سے مَیں پھر اِسی داستانوی شہر میں تھا۔ یہ الیکشن بڑا ہی ہنگامہ خیز اور طوفانی تھا۔ ایک طرف ڈی ڈی تھا اور دوسری طرف سفید فام اطالوی نژاد روڈی جولیانی۔ الیکشن کمپین میں مذکورہ اور متاثرہ کمیونٹیز نے یوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جیسے یہ اُن کی اپنی برادری کا انتخاب ہو رہا ہے۔ مجھے خود بھی پاکستانیوں کے کئی اجتماعات میں شریک ہونے کا موقع ملا۔


پاکستانی نژاد امریکیوں نے روڈی جولیانی کے لیے لاکھوں ڈالر کا چندہ بھی اکٹھا کیا اور اُسے اپنے اجتماعات میں مدعو بھی کرتے اور یہ بھی یقین دلاتے کہ ہم سب کا غیر مشروط ووٹ آپ کے لیے ہے؛ چنانچہ پولنگ والے دن پاکستانیوں، بھارتیوں اور بنگلہ دیشیوں کا اکٹھا ووٹ ڈی ڈی کے مخالف اور مقابل مسٹر جولیانی کو پڑا۔ نتائج سامنے آئے تو ڈی ڈی بُری طرح ہار گیا تھا۔ ''ہمارے'' سب لوگ مطمئن اور شانت ہو گئے تھے۔

روڈی جولیانی نے اختیارات سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ جن لوگوں کو شر پھیلانے، ڈاکے ڈالنے، بھتہ وصول کرنے اور ڈرائیوروں کو قتل کرنے کی عادتیں پڑ چکی ہیں، تائب ہو جائیں، ورنہ اُن سے واقعی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ عادی وارداتیوں نے اسے خالی خولی انتظامی دھمکی سمجھا اور اپنی وارداتیں جاری رکھیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے پر آج ہمیں ڈی ڈی اور جولیانی کی کہانی پھر سے یاد آنے لگی ہے، اِس سوال کے ساتھ کہ آیا جن امریکی ووٹروں نے ٹرمپ کو بھاری اکثریت سے، ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں، اپنا صدر چُنا ہے، اُن کے آدرشوں اور امیدوں پر پورا اتر سکیں گے؟ اِن انتخابات میں ڈیموکریٹس ہار گئے اور ٹرمپ کی شکل میں ریپبلکن جیت چکے ہیں۔ نتائج توقعات اور کیے گئے سرویز کے برعکس سامنے آئے ہیں۔ ایک دنیا سناٹے اور حیرت میں مبتلا ہے۔

ری پبلکن سابق میئر جولیانی بھی الیکشن میں ٹرمپ کے ہمقدم تھے۔ جیت کے بعد ٹرمپ نے اپنے شاداں اور فرحاں ووٹروں سے پہلا خطاب کیا تو روڈی جولیانی بھی وہاں موجود تھے۔ ستر سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن کا ہاتھ ہوا میں لہرا کر اُن کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ کہا جارہا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر، جولیانی کو اپنا خصوصی وزیر اور مشیر بھی بنائیں گے۔ ٹرمپ نیویارک کے جَم پَل ہیں۔ رواں لمحوں میں نیویارک ریاست کے دونوں منتخب سینیٹرز ریپبلکن ہیں۔ گورنر بھی اسی پارٹی کا ہے۔

نیویارک کا موجودہ میئر، مسٹر بلازیو، بھی ریپبلکن ہے۔ ٹرمپ صاحب تجربے، عالمی شہرت اور دانشوری میں ہیلری کے مقابلے میں کمتر حیثیت کے حامل ہیں لیکن اُن کے دیے گئے نعروں پر امریکیوں نے اعتبار کیا ہے۔ اب ووٹروں کے اعتبار اور اُن سے کیے گئے وعدوں پر پورا اترنے کے لیے ٹرمپ کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔ امریکا کے شدت پسند سفید فاموں کی آرزوؤں میں رنگ بھرنا ہوگا۔ ٹرمپ کی شخصیت اگرچہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ وہ خود بھی نسلی طور پر مہاجر ہیں۔ اُن کے دادا جرمن اور دادی اسکاٹش تھیں لیکن ٹرمپ صاحب معاشی اور سیاسی مہاجرین پر امریکا کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں۔ (ان کی اہلیہ، ملانیا، بھی غیر امریکی ہیں جنھیں ابھی چند سال پہلے ہی امریکی شہریت ملی ہے) امریکی مسلمانوں پر وہ اپنی تقاریر میں بار بار عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔

اب مسلم دشمن امریکی جماعتوں اور گروہوں، جن میں KKK ایسا فرقہ تمام حدوں سے تجاوز کر رہا ہے، کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے وہ آگے بڑھیں گے تو اُن کے لیے راستہ یقینا آسان نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود اُنہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ اپنا رنگ دکھانا ہو گا، وگرنہ اُن کے شدت پسند ووٹر اُن کا جینا دُوبھر کر دیں گے۔ پہلے بھی مسلمانوں کو ہی نقصان اٹھانا پڑا تھا اور اب پھر شائد مسلمانوں ہی کو نقصان اٹھانا پڑے۔

امریکی مسلمان عورتوں کے سروں سے حجاب کھینچنے اور امریکی مسلمانوں کے خلاف وال چاکنگ کا قابل مذمت آغاز تو ہوچکا ہے۔ سولہ نومبر 2016ء کو CNN نے امریکی ریاست فلوریڈا میں رہنے والی ایک مسلمان ادیبہ خاتون، ایلا محتشم، کا طویل انٹرویو نشر کیا ہے۔ یہ خاتون گزشتہ بارہ برس سے حجاب پہنتی آرہی ہیں۔ انھوں نے انٹرویو میں کہا کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے ہیں، میں نے اسکارف اوڑھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ لوگ اب زیادہ جرأت کے ساتھ حجاب والی مسلمان خواتین کو دھمکانے لگے ہیں۔
Load Next Story