پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں
ملک میں کم ضرر پولیس بلوچستان اور کے پی کے کی شمارکی جاتی ہے
پولیس افسروں اور اہلکاروں کی ہلاکتوں اور حملوں کے جتنے واقعات بلوچستان، کے پی کے اور سندھ ،کراچی میں ہوئے اتنے واقعات ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نہیں ہوئے۔ ملک میں کم ضرر پولیس بلوچستان اور کے پی کے کی شمارکی جاتی ہے جب کہ رشوت کے حصول کے لیے مظالم، لا قانونیت کی انتہا کردینے میں پنجاب اورکراچی پولیس سب سے بدنام ہے۔
اندرون سندھ وڈیروں، سیاسی رہنماؤں کی پولیس میں مداخلت کے باعث بے گناہ افراد کم رشوت میں چھوٹ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے بے گناہ پکڑے جانے والوں کی رہائی کے معاملات علاقائی وڈیروں اور سیاسی افراد کے ذریعے ملے ہوتے ہیں، جن میں ان افراد کے علاوہ پولیس کا حصہ بھی ہوتا ہے جب کہ رشوت دے کر رہا ہونے والے بے گناہوں پر علاقائی وڈیروں اورسیاسی افراد کا احسان الگ ہوتا ہے جو انھیں جتایا بھی جاتا رہتا ہے۔
پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں میں بلوچستان سرفہرست ہے جہاں پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں بے گناہ تقریباً 61 نوجوان کیڈٹس کو نشانہ بنایا گیا جو دہشت گردوں کا نشانہ بنی جن کی حفاظت کی پوری ذمے داری بلوچستان حکومت کی تھیجسے اس سانحے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ سانحہ بلوچستان کی مجرمانہ غفلت کا ایک واضح ثبوت ہے مگر اس کے ذمے داروں کو سزا ملے گی نہ روک تھام کے لیے عملی طور پر موثر اقدامات ہوںگے اور عوام کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ملک بھر میں یونہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور سال رواں اکتوبر تک کراچی میں مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 27 ہوچکی ہے جن میں زیادہ تعداد ہیڈ کانسٹیبلز اور سپاہیوں کی ہے ۔ کراچی میں 1992 کے آپریشن کے بعد سے پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں کمی نہیں آئی پہلے آپریشن کے اہم کرداروں کو ٹارگٹ کیا گیا، جن کے لیے کہا گیا کہ انھوں نے جرائم پیشہ عناصرکے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن کو سیاسی اور متنازعہ بنا دیا تھا اور وہ آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے سے کہیں زیادہ مال بنانے کا مقابلہ تھا۔
مذکورہ آپریشن میں اصل جرائم پیشہ عناصر غائب ہوگئے تھے اور جنرل نصیر اﷲ بابر کی نگرانی میں ایک پارٹی کو نشانہ بنایاگیا تھا اور جو بھی پکڑا یا مارا جاتا تھا وہ ایک ہی پارٹی کے کھاتے میں جاتا تھا اور سیکڑوں بے گناہ افراد بھی پولیس بربریت کا نشانہ بنائے گئے اورماورائے عدالت قتل کا ریکارڈ قائم ہوا تھا۔ 1996 میں وقت بدلا اور حکومت کی تبدیلی کے بعد آپریشن کا خاص نشانہ بننے والی پارٹی اقتدار میں شریک ہوئی توکراچی آپریشن میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں افسروں نے تو معافی تلافی کرکے جان کی امان پا لی مگر پولیس اہلکاروں پر حملوں کا سلسلہ نہیں رُک سکا۔
کراچی پولیس نے گزشتہ 25 سالوں سے یہ ریت بنا رکھی ہے کہ زیر عتاب آنے والوں ہی کو ہر کام اور جرم کا مرتکب سمجھو اور بے گناہوں سے کوئی رعایت نہ برتو،اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں سابق گورنر سندھ حکیم سعید سمیت متعدد سیاسی رہنما نشانہ بنے تو اعلیٰ پولیس افسر بھی محفوظ نہیں رہے۔
طالبان اورکالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن میں پولیس سمیت دوسرے گروپوں کا کافی جانی نقصان ہوا اور پولیس کے ہاتھوں جو بھی پکڑا کم اور مارا زیادہ گیا وہ طالبان کا سرکردہ یا کالعدم تنظیموں کا بڑا ہی قرار پایا اور دہشت گردوں نے بھی کراچی میں حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو اپنے نشانے پر رکھا۔
دہشت گردوں نے جہاں کراچی میںاہم اداروں، بے گناہ افراد اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا وہاں وہ اپنے جانی نقصان کے باوجود منظم کارروائیاں کرتے رہے اور پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا گیا، جو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے پر مجبور تھے۔
کراچی پولیس کے ایک ایس ایس پی نے طالبان اورکالعدم تنظیموں کے جنگجوؤں کو مارنے میں بڑا نام بنایا مگر ان کے مبینہ مقابلوں میں پولیس کا نقصان نہیں ہوتا تھا اور صرف مبینہ دہشت گرد ہی مارے جاتے تھے جس کا بدلہ بعد میں دہشت گرد پولیس اہلکاروں سے لینے لگے کیونکہ اعلیٰ پولیس افسران اپنی حفاظت کا تو موثر انتظام کرکے گھر اور دفتر سے نکلتے تھے اور اگر ان پر حملہ بھی ہوا تو کراچی میں ایس ایس پی چوہدری اسلم کے سوا کوئی بڑا نام والا اعلیٰ افسر ان کے ہاتھ نہیں آسکا جن کو بھی بڑے منصوبے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
دہشت گردوں نے کراچی میں اب عام پولیس اہلکاروں اورچھوٹے پولیس افسروں کو اپنا ٹارگٹ بنا رکھا ہے جنھیں نشانہ بنانا آسان ہے کیوںکہ عام پولیس اہلکار کسی حفاظت کے بغیر ڈیوٹی دیتے ہیں۔کراچی میں اسلحہ نہ رکھنے والے ٹریفک اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو ان کی حفاظت کے لیے مسلح اہلکار کی ڈیوٹی لگا دی گئی جو موثر ثابت بھی ہوئی۔
کراچی میں وہ پولیس اہلکار نشانہ بنے جو تنہا مل گئے یا موٹر سائیکل پر دو مل کر گشت پر ہوتے تھے ۔کراچی پولیس اہلکار دہشت گردوں کا آسان ہدف اس لیے بھی ہیں کہ وہ اہم شاہراہوں کے علاوہ عام سڑکوں اور گلیوں محلوں میں بھی مل جاتے ہیں محلے گلیوں اور عام سڑکوں پر گھومتے ان اہلکاروں کی اکثریت سرکاری گشت پر کم اور رشوت وصولی مہم پر زیادہ ملتی ہے اور یہ غیر قانونی طور پر اندرون شہر یہ ڈھونڈتے ہیں کہ کس رہائشی علاقے میں مکان کی چھت ڈالی جارہی ہے اور دیہی اور کچی آبادیوں میں کون تجاوزات قائم کررہا ہے۔
یہ اہلکار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسے شکاروں کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے پولیس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ایسے لوگ اگر غلط یا غیر قانونی تعمیرات کررہے ہوں تو انھیں روکنا متعلقہ بلدیاتی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے پولیس کے اہلکاروں کی نہیں مگر پولیس اہلکار جائز تعمیرات کرنے والوں کو بھی خوامخواہ تنگ کرکے مٹھائی کے نام پر بھتہ وصول کرتے ہیں۔
اندرون شہر پولیس موبائلوں میں گشت کم اور تعمیری بھتے وصولی پر خصوصی نظر رکھتے ہیں اور رقم وصول کرنے کے بعد دوسری تیسری موبائل اور موٹر سائیکل پر گشت کرنے والوں کو بھی نشاندہی کرکے بھیجتے ہیں اور رقم نہ ملنے پر مزدوروں کو موبائل میں بٹھاکر تعمیری کام بند کرا دیتے ہیں۔
بجلی کے کنڈوں سے گنے کی مشینیں چلانے والے بجلی چوری سے پنکچر لگانے والوں کو پکڑنا کے الیکٹرک کا کام ہے مگر یہ کام بھی پولیس اہلکار رشوت وصولی کے لیے کرتے ہیں کیوںکہ پولیس تھانوں میں گشت کے نام پر ان ہی اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے جس میں جان اہلکاروں کی خطرے میں ہوتی ہے مگر کمائی میں بڑا حصہ ایس ایچ او تھانہ محرر کا ہوتا ہے۔
عام پولیس اہلکاروں میں اکثریت کم پڑھے لکھوں کی ہوتی ہے جو شاہراہوں پر گاڑیوں کے کاغذات چیک کرتے ہیں اور اے ایس آئی یا سب انسپکٹر محفوظ ہوکر موبائل میں بیٹھا ہوتا ہے اور شکار پھانستا ہے۔ ایسے موقعے پر اگر جرائم پیشہ افراد کو روکا جائے تو وہ رکنے کی بجائے فائرنگ کرکے نکل جاتے ہیں اور ان کی فائرنگ کا نشانہ موبائل کے پاس کھڑے اہلکار بنتے ہیں اور ان کے انچارج بچ جاتے ہیں۔
کراچی میں پولیس اہلکاروں کی زیادہ ہلاکتیں کمانے میں مصروف اہلکاروں یا تنہا مل جانے والے اہلکاروں کی ہورہی ہیں کیوںکہ ان کی اپنی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اور ان کا افسر محفوظ جگہ بیٹھا ہوتا ہے اور ایسے میں شہید ہونے والے اہلکاروں کو معاوضہ حکومت دیتی ہے اور افسر محفوظ اور مزے میں رہتے ہیں۔
اندرون سندھ وڈیروں، سیاسی رہنماؤں کی پولیس میں مداخلت کے باعث بے گناہ افراد کم رشوت میں چھوٹ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے بے گناہ پکڑے جانے والوں کی رہائی کے معاملات علاقائی وڈیروں اور سیاسی افراد کے ذریعے ملے ہوتے ہیں، جن میں ان افراد کے علاوہ پولیس کا حصہ بھی ہوتا ہے جب کہ رشوت دے کر رہا ہونے والے بے گناہوں پر علاقائی وڈیروں اورسیاسی افراد کا احسان الگ ہوتا ہے جو انھیں جتایا بھی جاتا رہتا ہے۔
پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں میں بلوچستان سرفہرست ہے جہاں پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں بے گناہ تقریباً 61 نوجوان کیڈٹس کو نشانہ بنایا گیا جو دہشت گردوں کا نشانہ بنی جن کی حفاظت کی پوری ذمے داری بلوچستان حکومت کی تھیجسے اس سانحے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ سانحہ بلوچستان کی مجرمانہ غفلت کا ایک واضح ثبوت ہے مگر اس کے ذمے داروں کو سزا ملے گی نہ روک تھام کے لیے عملی طور پر موثر اقدامات ہوںگے اور عوام کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ملک بھر میں یونہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور سال رواں اکتوبر تک کراچی میں مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 27 ہوچکی ہے جن میں زیادہ تعداد ہیڈ کانسٹیبلز اور سپاہیوں کی ہے ۔ کراچی میں 1992 کے آپریشن کے بعد سے پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں کمی نہیں آئی پہلے آپریشن کے اہم کرداروں کو ٹارگٹ کیا گیا، جن کے لیے کہا گیا کہ انھوں نے جرائم پیشہ عناصرکے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن کو سیاسی اور متنازعہ بنا دیا تھا اور وہ آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے سے کہیں زیادہ مال بنانے کا مقابلہ تھا۔
مذکورہ آپریشن میں اصل جرائم پیشہ عناصر غائب ہوگئے تھے اور جنرل نصیر اﷲ بابر کی نگرانی میں ایک پارٹی کو نشانہ بنایاگیا تھا اور جو بھی پکڑا یا مارا جاتا تھا وہ ایک ہی پارٹی کے کھاتے میں جاتا تھا اور سیکڑوں بے گناہ افراد بھی پولیس بربریت کا نشانہ بنائے گئے اورماورائے عدالت قتل کا ریکارڈ قائم ہوا تھا۔ 1996 میں وقت بدلا اور حکومت کی تبدیلی کے بعد آپریشن کا خاص نشانہ بننے والی پارٹی اقتدار میں شریک ہوئی توکراچی آپریشن میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں افسروں نے تو معافی تلافی کرکے جان کی امان پا لی مگر پولیس اہلکاروں پر حملوں کا سلسلہ نہیں رُک سکا۔
کراچی پولیس نے گزشتہ 25 سالوں سے یہ ریت بنا رکھی ہے کہ زیر عتاب آنے والوں ہی کو ہر کام اور جرم کا مرتکب سمجھو اور بے گناہوں سے کوئی رعایت نہ برتو،اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں سابق گورنر سندھ حکیم سعید سمیت متعدد سیاسی رہنما نشانہ بنے تو اعلیٰ پولیس افسر بھی محفوظ نہیں رہے۔
طالبان اورکالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن میں پولیس سمیت دوسرے گروپوں کا کافی جانی نقصان ہوا اور پولیس کے ہاتھوں جو بھی پکڑا کم اور مارا زیادہ گیا وہ طالبان کا سرکردہ یا کالعدم تنظیموں کا بڑا ہی قرار پایا اور دہشت گردوں نے بھی کراچی میں حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو اپنے نشانے پر رکھا۔
دہشت گردوں نے جہاں کراچی میںاہم اداروں، بے گناہ افراد اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا وہاں وہ اپنے جانی نقصان کے باوجود منظم کارروائیاں کرتے رہے اور پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا گیا، جو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے پر مجبور تھے۔
کراچی پولیس کے ایک ایس ایس پی نے طالبان اورکالعدم تنظیموں کے جنگجوؤں کو مارنے میں بڑا نام بنایا مگر ان کے مبینہ مقابلوں میں پولیس کا نقصان نہیں ہوتا تھا اور صرف مبینہ دہشت گرد ہی مارے جاتے تھے جس کا بدلہ بعد میں دہشت گرد پولیس اہلکاروں سے لینے لگے کیونکہ اعلیٰ پولیس افسران اپنی حفاظت کا تو موثر انتظام کرکے گھر اور دفتر سے نکلتے تھے اور اگر ان پر حملہ بھی ہوا تو کراچی میں ایس ایس پی چوہدری اسلم کے سوا کوئی بڑا نام والا اعلیٰ افسر ان کے ہاتھ نہیں آسکا جن کو بھی بڑے منصوبے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
دہشت گردوں نے کراچی میں اب عام پولیس اہلکاروں اورچھوٹے پولیس افسروں کو اپنا ٹارگٹ بنا رکھا ہے جنھیں نشانہ بنانا آسان ہے کیوںکہ عام پولیس اہلکار کسی حفاظت کے بغیر ڈیوٹی دیتے ہیں۔کراچی میں اسلحہ نہ رکھنے والے ٹریفک اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو ان کی حفاظت کے لیے مسلح اہلکار کی ڈیوٹی لگا دی گئی جو موثر ثابت بھی ہوئی۔
کراچی میں وہ پولیس اہلکار نشانہ بنے جو تنہا مل گئے یا موٹر سائیکل پر دو مل کر گشت پر ہوتے تھے ۔کراچی پولیس اہلکار دہشت گردوں کا آسان ہدف اس لیے بھی ہیں کہ وہ اہم شاہراہوں کے علاوہ عام سڑکوں اور گلیوں محلوں میں بھی مل جاتے ہیں محلے گلیوں اور عام سڑکوں پر گھومتے ان اہلکاروں کی اکثریت سرکاری گشت پر کم اور رشوت وصولی مہم پر زیادہ ملتی ہے اور یہ غیر قانونی طور پر اندرون شہر یہ ڈھونڈتے ہیں کہ کس رہائشی علاقے میں مکان کی چھت ڈالی جارہی ہے اور دیہی اور کچی آبادیوں میں کون تجاوزات قائم کررہا ہے۔
یہ اہلکار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسے شکاروں کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے پولیس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ایسے لوگ اگر غلط یا غیر قانونی تعمیرات کررہے ہوں تو انھیں روکنا متعلقہ بلدیاتی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے پولیس کے اہلکاروں کی نہیں مگر پولیس اہلکار جائز تعمیرات کرنے والوں کو بھی خوامخواہ تنگ کرکے مٹھائی کے نام پر بھتہ وصول کرتے ہیں۔
اندرون شہر پولیس موبائلوں میں گشت کم اور تعمیری بھتے وصولی پر خصوصی نظر رکھتے ہیں اور رقم وصول کرنے کے بعد دوسری تیسری موبائل اور موٹر سائیکل پر گشت کرنے والوں کو بھی نشاندہی کرکے بھیجتے ہیں اور رقم نہ ملنے پر مزدوروں کو موبائل میں بٹھاکر تعمیری کام بند کرا دیتے ہیں۔
بجلی کے کنڈوں سے گنے کی مشینیں چلانے والے بجلی چوری سے پنکچر لگانے والوں کو پکڑنا کے الیکٹرک کا کام ہے مگر یہ کام بھی پولیس اہلکار رشوت وصولی کے لیے کرتے ہیں کیوںکہ پولیس تھانوں میں گشت کے نام پر ان ہی اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے جس میں جان اہلکاروں کی خطرے میں ہوتی ہے مگر کمائی میں بڑا حصہ ایس ایچ او تھانہ محرر کا ہوتا ہے۔
عام پولیس اہلکاروں میں اکثریت کم پڑھے لکھوں کی ہوتی ہے جو شاہراہوں پر گاڑیوں کے کاغذات چیک کرتے ہیں اور اے ایس آئی یا سب انسپکٹر محفوظ ہوکر موبائل میں بیٹھا ہوتا ہے اور شکار پھانستا ہے۔ ایسے موقعے پر اگر جرائم پیشہ افراد کو روکا جائے تو وہ رکنے کی بجائے فائرنگ کرکے نکل جاتے ہیں اور ان کی فائرنگ کا نشانہ موبائل کے پاس کھڑے اہلکار بنتے ہیں اور ان کے انچارج بچ جاتے ہیں۔
کراچی میں پولیس اہلکاروں کی زیادہ ہلاکتیں کمانے میں مصروف اہلکاروں یا تنہا مل جانے والے اہلکاروں کی ہورہی ہیں کیوںکہ ان کی اپنی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اور ان کا افسر محفوظ جگہ بیٹھا ہوتا ہے اور ایسے میں شہید ہونے والے اہلکاروں کو معاوضہ حکومت دیتی ہے اور افسر محفوظ اور مزے میں رہتے ہیں۔