لہو لہو میرا دیس
اسکول کی ابتدائی جماعت میں اس نظم کو بطور ٹیبلو پیش کرنا آج تک نہ صرف یاد ہے
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان
اسکول کی ابتدائی جماعت میں اس نظم کو بطور ٹیبلو پیش کرنا آج تک نہ صرف یاد ہے بلکہ وہ جذبہ بھی جو اس نغمے پر ہاتھ سے قائداعظم کے روپ میں اپنی ہم جماعت کی جانب سے بار بار اشارہ کرتے ہوئے جو دلی کیفیت تھی کہ یہ ہماری ہم جماعت نہیں بلکہ واقعی قائداعظم ہیں، جن کا احترام کرنا اور جن کے اس عظیم احسان کو کبھی بھی فراموش نہ کرنا ہی اس قوم کی نجات کا ذریعہ ہے۔ نسل نو کو شاید خود ہم نے وہ احساسات اور جذبات جان بوجھ کر منتقل نہیں کیے جو ہمیں ہمارے اساتذہ اور والدین نے دیے تھے۔
اگر یہ جذبات، یہ عشق وطن کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا تو شاید اس کا سبب سابق آقاؤں کے کاسہ لیسوں کا اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر جذبہ حب الوطنی کی جڑ پر کلہاڑی چلانا بھی رہا ہے۔ انگریزوں نے جن کو ''اپنوں'' کے بجائے بدیسی آقاؤں سے وفاداری کے عوض نوازا تو بہت، مگر رکھا اپنے پاؤں تلے ہی۔ چنانچہ جب ان کو کھلی چھٹی آزادی کی صورت میں ملی تو اپنے آقاؤں سے حاصل کی ہوئی جاگیروں کے ذریعے ملک کو مال غنیمت سمجھ کر اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قابض ہونے کا خواب بیدار آنکھوں سے دیکھنے لگے۔
تقدیر نے ہمیں قائداعظم اور ان کے وفادار رفقا سے جلد ہی محروم کردیا، جن کو ملک کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ روز اول سے ہی ملک کی درست سمت کا تعین نہ ہوسکا۔ وہ ملک جو بیس لاکھ انسانی جانوں اور ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کے بعد معرض وجود میں آیا تھا، سب کچھ سہہ کر بھی آزادی کے متوالے اس امید پر جی رہے تھے کہ ایک دن ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگا، ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں، بلکہ آیندہ نسلوں کا مستقبل تابناک اور زندگی پرامن بنائیں گی۔ مگر ایسا کبھی نہ ہوسکا ہم میں کوئی کمی، خامی نہ تھی، تعلیم یافتہ، محنت کش، سیاسی شعور، تہذیب و شائستگی سے آگاہ، انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال افراد کی کمی نہ تھی، مگر جب ادارے اپنے دائرہ کار کے بجائے دوسروں کے معاملات میں دخل انداز ہوں، باصلاحیت اور باہنر افراد کے بجائے تمام ادارے نااہلوں، غیر ذمے داروں اور بے ہنر افراد کے ہاتھوں میں محض اس لیے دے دیے جائیں کہ وہ ہمارے مفاد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اور ملک پر ہمارے پنجے مضبوطی سے گڑ جائیں گے، ایوانوں میں ہمیشہ ہمارے بیٹی، پوتے، بھائی، بھتیجے ہی براجمان رہیں گے تو مجال ہے کسی کی کہ وہ عوام کے مفاد میں کوئی بل ایوان سے منظور ہونے دیں۔
یہ وہ لوگ تھے جو جانتے تھے کہ اگر ملک کی شرح خواندگی مرحلہ وار بڑھتی رہی تو عام آدمی باشعور اور اپنے حق و اہلیت سے آگاہ ہوگا، لہٰذا جو نظام تعلیم تھا ان کو مزید نکھارنے، بین الاقوامی معیار تک لانے کے بجائے اس ہی کی جڑ کاٹ دی گئی اور نمائشی تعلیم کا زور و شور سے آغاز ہوا، جو چند حقیقی معنوں میں اپنے اپنے شعبے میں ماہر یا صحیح طور پر پڑھے لکھے ''بچے ہیں چند ہی جو زیب دار ماں کے لیے'' وہ سب سرکاری تعلیمی درس گاہوں سے ہی فارغ التحصیل تھے یا ہیں۔ جدید نظامِ تعلیم نے تو اب تک کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر، پروفیسر عبدالسلام، غالب، میر یا اقبال پیدا کیا نہیں بلکہ اپنی زبان، ثقافت، مذہب، روایات سب کا جنازہ دھوم دھام سے اٹھادیا۔
انگریز تو بن نہ سکے مگر مقامی بھی نہ رہے۔ تعلیم کے نام پر جو جہالت، تعصب، انتہا پسندی اور دوسروں کی اندھی تقلید سامنے آئی اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑی، احساس برتری، صوبائی تعصب، غرور و تکبر نے ملک کو دولخت کردیا، مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی، مجال ہے جو رویوں میں ذرا تبدیلی آئی ہو۔ چھوٹے صوبے آج بھی احساس محرومی کا شکار ہیں مگر کوئی اس صورتحال کے تدارک پر آمادہ نہیں۔
اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں اور صورتحال پر کسی کی نظر نہیں، پڑوسی گھر میں گھسے آرہے ہیں، عالمی سطح پر اپنے رویے پڑھارہے ہیں، ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرکے ہمیں عالمی تنہائی سے دو چار کرنے کا عزم رکھتے ہیں، اور ہم ہیں کہ بدعنوانی، اقربا پروری، شاہانہ طرز حکمرانی کو اپنائے ہوئے جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔
خیبر سے کراچی تک آگ لگی ہے، عام آدمی سے اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں، محنت کش والدین سے ان کی امیدیں، بچوں سے باپ، سہاگن سے اس کا سہاگ، بہنوں سے بھائی آئے دن چھینے جارہے ہیں مگر ہر بڑے سانحے کے بعد ''بزدل حملہ آور'' کہہ کر قوم کو سانحات برداشت کرنے کا عادی بنایا جارہا ہے۔ ابھی 2016 ختم ہونے میں ڈیڑھ ماہ باقی ہے جب کہ محض بلوچستان ہی میں جنوری سے 12 نومبر تک تقریباً 5 بڑے سانحات ہوچکے ہیں جب کہ ملک کے طول و عرض میں اور بھی کئی واقعات قتل و دہشت گردی کے اس کے علاوہ ہوئے ہیں مگر ہر واردات کے بعد ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود مختصر عرصے بعد پھر کوئی قیامت ہمارے سروں پر ڈھائی جاتی ہے۔
23،24 اکتوبر کی درمیانی شب کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کالج پر دہشت گردوں نے یلغار کی۔ 26 اکتوبر کے اخبارات میں عسکری و سیاسی قیادت کے اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر اور بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ جب سابق وزیراعظم اور تمام اہم شخصیات کے نظریاتی بیانات شہدا کے ورثا سے اظہار ہمدردی، تمام اہم حفاظتی ذمے داروں کی طرف سے اعلیٰ سطح اجلاس بھی سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کی روایت برقرار رہی، نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل درآمد کے دلاسے مگر محض 19 دن بعد پھر ایک بڑا سانحہ ابتدائی اطلاعات کی رو سے 52 افراد لقمہ اجل اور 100 سے زائد زخمی ہوئے، جب کہ ان اعداد و شمار میں اضافے کا قوی امکان ہے۔
ادھر گڈانی کے حادثے میں درجنوں افراد زندہ جل گئے، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، آتشزدگی اور ٹریفک حادثات میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہاہے مگر کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ضرب عضب کی کامیابی کے باوجود حادثوں کا تواتر سے رونما ہونا حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، سیاسی قیادت یوں بھی بدعنوانی، نااہلی اور بیڈ گورننس کے الزامات میں گھری ہوئی ہے۔
ضرب عضب کے ساتھ اگر سیاسی قیادت ان کے شانہ بہ شانہ اندرونی معاملات پر گرفت مضبوط رکھتی تو بڑی تعداد میں شہری و فوجی جوانوں کے جانی نقصان کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ تازہ سانحہ اس کا واضح ثبوت ہے کہ اطلاعات کے باوجود سخت تو در کنار عام حفاظتی انتظام بھی نہ تھا۔ ایسے حالات کے باوجود جن مقامات پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو جانے کیوں اعلیٰ حفاظتی انتظام کا فقدان نظر آتا ہے؟ ایک جانب ملک مسلسل دہشت گردوں کی زد پر ہے اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت بھی جاری ہے اس صورت حال میں ہمارے سیاست دانوں کا کردار بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر آج بھی یہ ملکی بقا و سالمیت کی خاطر متحد و متفق نہ ہوئے تو کیا خاکم بدہن ملک کو کھنڈر بنانے کے بعد ہوںگے؟ بشرط خود باقی رہ گئے تو ... کیوںکہ یہ سب اختلافات، الزامات ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ملک کے ہوتے ہوئے ہی ممکن ہیں خدانخواستہ ملک نہ رہے یا اس کی خود مختاری پر آنچ آجائے تو سب سیاسی اکڑ دھری کی دھری رہ جائے گی۔ لگتا ہے کہ شاید ہمارے سیاست دانوں کا ایجنڈا ہی دشمن کو طاقت اور ملک کو کمزور کرنا ہے۔
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان
اسکول کی ابتدائی جماعت میں اس نظم کو بطور ٹیبلو پیش کرنا آج تک نہ صرف یاد ہے بلکہ وہ جذبہ بھی جو اس نغمے پر ہاتھ سے قائداعظم کے روپ میں اپنی ہم جماعت کی جانب سے بار بار اشارہ کرتے ہوئے جو دلی کیفیت تھی کہ یہ ہماری ہم جماعت نہیں بلکہ واقعی قائداعظم ہیں، جن کا احترام کرنا اور جن کے اس عظیم احسان کو کبھی بھی فراموش نہ کرنا ہی اس قوم کی نجات کا ذریعہ ہے۔ نسل نو کو شاید خود ہم نے وہ احساسات اور جذبات جان بوجھ کر منتقل نہیں کیے جو ہمیں ہمارے اساتذہ اور والدین نے دیے تھے۔
اگر یہ جذبات، یہ عشق وطن کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا تو شاید اس کا سبب سابق آقاؤں کے کاسہ لیسوں کا اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر جذبہ حب الوطنی کی جڑ پر کلہاڑی چلانا بھی رہا ہے۔ انگریزوں نے جن کو ''اپنوں'' کے بجائے بدیسی آقاؤں سے وفاداری کے عوض نوازا تو بہت، مگر رکھا اپنے پاؤں تلے ہی۔ چنانچہ جب ان کو کھلی چھٹی آزادی کی صورت میں ملی تو اپنے آقاؤں سے حاصل کی ہوئی جاگیروں کے ذریعے ملک کو مال غنیمت سمجھ کر اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قابض ہونے کا خواب بیدار آنکھوں سے دیکھنے لگے۔
تقدیر نے ہمیں قائداعظم اور ان کے وفادار رفقا سے جلد ہی محروم کردیا، جن کو ملک کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ روز اول سے ہی ملک کی درست سمت کا تعین نہ ہوسکا۔ وہ ملک جو بیس لاکھ انسانی جانوں اور ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کے بعد معرض وجود میں آیا تھا، سب کچھ سہہ کر بھی آزادی کے متوالے اس امید پر جی رہے تھے کہ ایک دن ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگا، ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں، بلکہ آیندہ نسلوں کا مستقبل تابناک اور زندگی پرامن بنائیں گی۔ مگر ایسا کبھی نہ ہوسکا ہم میں کوئی کمی، خامی نہ تھی، تعلیم یافتہ، محنت کش، سیاسی شعور، تہذیب و شائستگی سے آگاہ، انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال افراد کی کمی نہ تھی، مگر جب ادارے اپنے دائرہ کار کے بجائے دوسروں کے معاملات میں دخل انداز ہوں، باصلاحیت اور باہنر افراد کے بجائے تمام ادارے نااہلوں، غیر ذمے داروں اور بے ہنر افراد کے ہاتھوں میں محض اس لیے دے دیے جائیں کہ وہ ہمارے مفاد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اور ملک پر ہمارے پنجے مضبوطی سے گڑ جائیں گے، ایوانوں میں ہمیشہ ہمارے بیٹی، پوتے، بھائی، بھتیجے ہی براجمان رہیں گے تو مجال ہے کسی کی کہ وہ عوام کے مفاد میں کوئی بل ایوان سے منظور ہونے دیں۔
یہ وہ لوگ تھے جو جانتے تھے کہ اگر ملک کی شرح خواندگی مرحلہ وار بڑھتی رہی تو عام آدمی باشعور اور اپنے حق و اہلیت سے آگاہ ہوگا، لہٰذا جو نظام تعلیم تھا ان کو مزید نکھارنے، بین الاقوامی معیار تک لانے کے بجائے اس ہی کی جڑ کاٹ دی گئی اور نمائشی تعلیم کا زور و شور سے آغاز ہوا، جو چند حقیقی معنوں میں اپنے اپنے شعبے میں ماہر یا صحیح طور پر پڑھے لکھے ''بچے ہیں چند ہی جو زیب دار ماں کے لیے'' وہ سب سرکاری تعلیمی درس گاہوں سے ہی فارغ التحصیل تھے یا ہیں۔ جدید نظامِ تعلیم نے تو اب تک کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر، پروفیسر عبدالسلام، غالب، میر یا اقبال پیدا کیا نہیں بلکہ اپنی زبان، ثقافت، مذہب، روایات سب کا جنازہ دھوم دھام سے اٹھادیا۔
انگریز تو بن نہ سکے مگر مقامی بھی نہ رہے۔ تعلیم کے نام پر جو جہالت، تعصب، انتہا پسندی اور دوسروں کی اندھی تقلید سامنے آئی اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑی، احساس برتری، صوبائی تعصب، غرور و تکبر نے ملک کو دولخت کردیا، مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی، مجال ہے جو رویوں میں ذرا تبدیلی آئی ہو۔ چھوٹے صوبے آج بھی احساس محرومی کا شکار ہیں مگر کوئی اس صورتحال کے تدارک پر آمادہ نہیں۔
اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں اور صورتحال پر کسی کی نظر نہیں، پڑوسی گھر میں گھسے آرہے ہیں، عالمی سطح پر اپنے رویے پڑھارہے ہیں، ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرکے ہمیں عالمی تنہائی سے دو چار کرنے کا عزم رکھتے ہیں، اور ہم ہیں کہ بدعنوانی، اقربا پروری، شاہانہ طرز حکمرانی کو اپنائے ہوئے جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔
خیبر سے کراچی تک آگ لگی ہے، عام آدمی سے اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں، محنت کش والدین سے ان کی امیدیں، بچوں سے باپ، سہاگن سے اس کا سہاگ، بہنوں سے بھائی آئے دن چھینے جارہے ہیں مگر ہر بڑے سانحے کے بعد ''بزدل حملہ آور'' کہہ کر قوم کو سانحات برداشت کرنے کا عادی بنایا جارہا ہے۔ ابھی 2016 ختم ہونے میں ڈیڑھ ماہ باقی ہے جب کہ محض بلوچستان ہی میں جنوری سے 12 نومبر تک تقریباً 5 بڑے سانحات ہوچکے ہیں جب کہ ملک کے طول و عرض میں اور بھی کئی واقعات قتل و دہشت گردی کے اس کے علاوہ ہوئے ہیں مگر ہر واردات کے بعد ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود مختصر عرصے بعد پھر کوئی قیامت ہمارے سروں پر ڈھائی جاتی ہے۔
23،24 اکتوبر کی درمیانی شب کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کالج پر دہشت گردوں نے یلغار کی۔ 26 اکتوبر کے اخبارات میں عسکری و سیاسی قیادت کے اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر اور بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ جب سابق وزیراعظم اور تمام اہم شخصیات کے نظریاتی بیانات شہدا کے ورثا سے اظہار ہمدردی، تمام اہم حفاظتی ذمے داروں کی طرف سے اعلیٰ سطح اجلاس بھی سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کی روایت برقرار رہی، نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل درآمد کے دلاسے مگر محض 19 دن بعد پھر ایک بڑا سانحہ ابتدائی اطلاعات کی رو سے 52 افراد لقمہ اجل اور 100 سے زائد زخمی ہوئے، جب کہ ان اعداد و شمار میں اضافے کا قوی امکان ہے۔
ادھر گڈانی کے حادثے میں درجنوں افراد زندہ جل گئے، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، آتشزدگی اور ٹریفک حادثات میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہاہے مگر کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ضرب عضب کی کامیابی کے باوجود حادثوں کا تواتر سے رونما ہونا حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، سیاسی قیادت یوں بھی بدعنوانی، نااہلی اور بیڈ گورننس کے الزامات میں گھری ہوئی ہے۔
ضرب عضب کے ساتھ اگر سیاسی قیادت ان کے شانہ بہ شانہ اندرونی معاملات پر گرفت مضبوط رکھتی تو بڑی تعداد میں شہری و فوجی جوانوں کے جانی نقصان کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ تازہ سانحہ اس کا واضح ثبوت ہے کہ اطلاعات کے باوجود سخت تو در کنار عام حفاظتی انتظام بھی نہ تھا۔ ایسے حالات کے باوجود جن مقامات پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو جانے کیوں اعلیٰ حفاظتی انتظام کا فقدان نظر آتا ہے؟ ایک جانب ملک مسلسل دہشت گردوں کی زد پر ہے اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت بھی جاری ہے اس صورت حال میں ہمارے سیاست دانوں کا کردار بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر آج بھی یہ ملکی بقا و سالمیت کی خاطر متحد و متفق نہ ہوئے تو کیا خاکم بدہن ملک کو کھنڈر بنانے کے بعد ہوںگے؟ بشرط خود باقی رہ گئے تو ... کیوںکہ یہ سب اختلافات، الزامات ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ملک کے ہوتے ہوئے ہی ممکن ہیں خدانخواستہ ملک نہ رہے یا اس کی خود مختاری پر آنچ آجائے تو سب سیاسی اکڑ دھری کی دھری رہ جائے گی۔ لگتا ہے کہ شاید ہمارے سیاست دانوں کا ایجنڈا ہی دشمن کو طاقت اور ملک کو کمزور کرنا ہے۔