صبر و تحمل مومن کی اخلاقی صفات
نامساعد حالات، تکالیف اور پریشانی اﷲ کی طرف سے آزمائش ہیں ان حالات میں صبروتحمل کامظاہرہ اورﷲ ہی سے مددطلب کرنی چاہیے
لاہور:
سورۂ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے: '' اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں گے، ہم اﷲ ہی کے ہیں اور اﷲ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔''
مذکورہ آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان کو زندگی میں دو طرح کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے، کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی راحت تو کبھی دکھ، کبھی قہقہے، کبھی آہیں اور سسکیاں، کبھی آرام و سکون تو کبھی بے چینی و اضطراب، کبھی صحت کی لذتیں تو کبھی بیماری کی آہ و بکا، کبھی رزق کی فراخی تو کبھی تنگی، کبھی شہنائی تو کبھی ماتم، کبھی نئی زندگی، نئے پھول کی آمد پر مبارک باد تو کبھی موت پر تعزیت غرض یہ کہ زندگی اسی کا نام ہے۔ تصویر کے یہ دونوں رخ دنیاوی زندگی کی فطرت میں داخل ہیں۔
خوشیوں، لذتوں اور مسرتوں سے بھرپور زندگی تو انسان کو بہت دل کش اور بھلی معلوم ہوتی ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ میری کوششوں اور محنت کا پھل ہے۔ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سب کچھ ربِ کائنات کا فضل و کرم ہے۔ جب گردشِ زمانہ میں مصائب و آلام آتے ہیں تو انسان گھبرا اٹھتا ہے، چیختا ہے اور چیخ و پکار اور آہ و بکار میں اپنے مالک کو بھی بھول جاتا ہے بل کہ گلے شکوے کرنے لگتا ہے۔
ایمان والوں کی یہ خاص صفت ہے کہ وہ مصائب و آلام اور مشکلات میں صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں۔ اپنے آپ کو اﷲ کے سپرد کرتے ہیں، اسی پر بھروسا کرتے ہیں اور اسی سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ اﷲ کی رضا میں راضی ہوتے ہیں اور اﷲ سے گلے شکوے نہیں کرتے۔
ایک مومن ہر طرح کے حالات میں ایسا طرز عمل اختیار کرتا ہے جو ایمان اور اﷲ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ ایک مثبت رویہ اختیار کرتا ہے یعنی صبر و شکر۔ وہ مصائب و آلام میں بھی صبر و تحمل سے کام لیتا ہے جب کہ خوش حالی، فراخی و فراوانی میں اﷲ کا شکر ادا کرتا ہے یعنی زبان سے کلمات تشکر ادا کرتا، دل میں اﷲ کی عظمت کا احساس اور اپنے اعمال سے اﷲ کے احکام کی بجا آوری کرتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورہ ابراہیم میں شکر گزاری کرنے والوں کے لیے فرمایا ہے۔
'' اگر شکر ادا کروگے تو تمہیں اور زیادہ دیا جائے گا۔ ''
قرآن کریم کی سورۂ ہود میں ارشاد ربانی ہے: '' اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے اور اگر اس مصیبت کے بعد ہم اسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میری ساری مصیبتیں دُھل گئیں، پس وہ اترانے لگتا ہے، شیخی بگھارنے لگتا ہے مگر اس عیب سے پاک اگر کوئی ہے تو بس وہ لوگ ہیں، جو صبر کرتے اور نیک کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی مغفرت اور بڑا اجر ہے۔''
مذکورہ آیات میں مومنین کی یہ نشانی بیان فرمائی گئی کہ وہ زوال نعمت کے وقت صبر سے کام لیتے ہیں اور عطائے نعمت کے وقت اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور اعمالِ صالح بجا لاتے ہیں۔ زوالِ نعمت کے وقت ایک مسلمان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ نامساعد حالات، تکالیف اور پریشانی اﷲ کی طرف سے میری آزمائش ہے۔
ان حالات میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اﷲ ہی سے مدد طلب کرنی چاہیے اور اس بات پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ اﷲ کے سوا اور کوئی ان مشکلات کو دور نہیں کرسکتا۔ بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بل کہ صبر و استقلال سے کام لینا چاہیے۔ کیوں کہ یہ اﷲ پاک کا وعدہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے بڑا اجر ہے۔ اس لیے آزمائشوں سے کبھی گھبرانا یا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ آزمائشوں میں تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین انبیاؑ کو بھی ڈالا تھا۔
جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جان کی قربانی مانگ کر آزمائش میں ڈالا گیا، حضرت ایوب علیہ السلام نے صبر و استقامت کا عظیم مظاہرہ کیا اور اﷲ تعالیٰ نے نعم العبد کا لقب عطا فرمایا۔
خاتم الانبیا ﷺ کی تو پوری زندگی آزمائشوں سے عبارت ہے۔ یتیمی کی حالت میں پیدائش و پرورش، چھوٹی سی عمر میں تمام قریبی سہاروں کا چھن جانا، اعلان نبوت کے بعد قدم قدم پر مخالفت اور مظالم کا سامنا، لیکن رحمتِ عالمؐ کی طبیعت اور مزاج پر ذرا بھی ملال نہیں آیا اور آپؐ صبر و استقلال سے اپنے اس مشن کا جاری رکھتے ہیں۔ جس کام کے لیے اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو چنا تھا آپؐ نے دین کی سربلندی اور کفر کو مٹانے کے لیے ان تمام تکالیف اور مشکلات کو صبر و استقلال اور خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
یہ بات ہمارے تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہے کہ جن لوگوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، اﷲ تبارک و تعالیٰ نے نہ صرف ان کی تکالیف اور غم کو دور کیا بل کہ غیر متوقع خوشیاں بھی عطا کیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ نیک لوگوں پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں زیادہ آتی ہیں دراصل یہ ان لوگوں کی خوش بختی ہے کہ ان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا خصوصی تعلق ہے، یہ تو انبیاؑ اور صحابہ کرامؓ والی قسمت ہے جسے نصیب ہوجائے۔
دورِ حاضر میں امتِ مسلمہ آزمائشوں سے گزر رہی ہے، نامساعد حالات، انتشار و اختلافات اور اندرونی و بیرونی سازشیں اپنے عروج پر ہیں، اس پر ہمیں صبر کرنا چاہیے اور اپنی حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ اے رب کائنات امتِ مسلمہ کی آزمائشوں کو دور فرما دے، مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کے جذبات کو فروغ دے، مسلمانوں کو وہ نورِ بصیرت عطا فرما دے کہ سارے اختلافات کو مٹا کر متحد ہوجائیں اور ایک ایسی طاقت بن کر ابھریں کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ (آمین)
سورۂ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے: '' اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں گے، ہم اﷲ ہی کے ہیں اور اﷲ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوش خبری دے دو، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔''
مذکورہ آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان کو زندگی میں دو طرح کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے، کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی راحت تو کبھی دکھ، کبھی قہقہے، کبھی آہیں اور سسکیاں، کبھی آرام و سکون تو کبھی بے چینی و اضطراب، کبھی صحت کی لذتیں تو کبھی بیماری کی آہ و بکا، کبھی رزق کی فراخی تو کبھی تنگی، کبھی شہنائی تو کبھی ماتم، کبھی نئی زندگی، نئے پھول کی آمد پر مبارک باد تو کبھی موت پر تعزیت غرض یہ کہ زندگی اسی کا نام ہے۔ تصویر کے یہ دونوں رخ دنیاوی زندگی کی فطرت میں داخل ہیں۔
خوشیوں، لذتوں اور مسرتوں سے بھرپور زندگی تو انسان کو بہت دل کش اور بھلی معلوم ہوتی ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ میری کوششوں اور محنت کا پھل ہے۔ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سب کچھ ربِ کائنات کا فضل و کرم ہے۔ جب گردشِ زمانہ میں مصائب و آلام آتے ہیں تو انسان گھبرا اٹھتا ہے، چیختا ہے اور چیخ و پکار اور آہ و بکار میں اپنے مالک کو بھی بھول جاتا ہے بل کہ گلے شکوے کرنے لگتا ہے۔
ایمان والوں کی یہ خاص صفت ہے کہ وہ مصائب و آلام اور مشکلات میں صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں۔ اپنے آپ کو اﷲ کے سپرد کرتے ہیں، اسی پر بھروسا کرتے ہیں اور اسی سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ اﷲ کی رضا میں راضی ہوتے ہیں اور اﷲ سے گلے شکوے نہیں کرتے۔
ایک مومن ہر طرح کے حالات میں ایسا طرز عمل اختیار کرتا ہے جو ایمان اور اﷲ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ ایک مثبت رویہ اختیار کرتا ہے یعنی صبر و شکر۔ وہ مصائب و آلام میں بھی صبر و تحمل سے کام لیتا ہے جب کہ خوش حالی، فراخی و فراوانی میں اﷲ کا شکر ادا کرتا ہے یعنی زبان سے کلمات تشکر ادا کرتا، دل میں اﷲ کی عظمت کا احساس اور اپنے اعمال سے اﷲ کے احکام کی بجا آوری کرتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورہ ابراہیم میں شکر گزاری کرنے والوں کے لیے فرمایا ہے۔
'' اگر شکر ادا کروگے تو تمہیں اور زیادہ دیا جائے گا۔ ''
قرآن کریم کی سورۂ ہود میں ارشاد ربانی ہے: '' اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے اور اگر اس مصیبت کے بعد ہم اسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میری ساری مصیبتیں دُھل گئیں، پس وہ اترانے لگتا ہے، شیخی بگھارنے لگتا ہے مگر اس عیب سے پاک اگر کوئی ہے تو بس وہ لوگ ہیں، جو صبر کرتے اور نیک کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی مغفرت اور بڑا اجر ہے۔''
مذکورہ آیات میں مومنین کی یہ نشانی بیان فرمائی گئی کہ وہ زوال نعمت کے وقت صبر سے کام لیتے ہیں اور عطائے نعمت کے وقت اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور اعمالِ صالح بجا لاتے ہیں۔ زوالِ نعمت کے وقت ایک مسلمان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ نامساعد حالات، تکالیف اور پریشانی اﷲ کی طرف سے میری آزمائش ہے۔
ان حالات میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اﷲ ہی سے مدد طلب کرنی چاہیے اور اس بات پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ اﷲ کے سوا اور کوئی ان مشکلات کو دور نہیں کرسکتا۔ بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بل کہ صبر و استقلال سے کام لینا چاہیے۔ کیوں کہ یہ اﷲ پاک کا وعدہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے بڑا اجر ہے۔ اس لیے آزمائشوں سے کبھی گھبرانا یا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ آزمائشوں میں تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین انبیاؑ کو بھی ڈالا تھا۔
جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جان کی قربانی مانگ کر آزمائش میں ڈالا گیا، حضرت ایوب علیہ السلام نے صبر و استقامت کا عظیم مظاہرہ کیا اور اﷲ تعالیٰ نے نعم العبد کا لقب عطا فرمایا۔
خاتم الانبیا ﷺ کی تو پوری زندگی آزمائشوں سے عبارت ہے۔ یتیمی کی حالت میں پیدائش و پرورش، چھوٹی سی عمر میں تمام قریبی سہاروں کا چھن جانا، اعلان نبوت کے بعد قدم قدم پر مخالفت اور مظالم کا سامنا، لیکن رحمتِ عالمؐ کی طبیعت اور مزاج پر ذرا بھی ملال نہیں آیا اور آپؐ صبر و استقلال سے اپنے اس مشن کا جاری رکھتے ہیں۔ جس کام کے لیے اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو چنا تھا آپؐ نے دین کی سربلندی اور کفر کو مٹانے کے لیے ان تمام تکالیف اور مشکلات کو صبر و استقلال اور خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
یہ بات ہمارے تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہے کہ جن لوگوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، اﷲ تبارک و تعالیٰ نے نہ صرف ان کی تکالیف اور غم کو دور کیا بل کہ غیر متوقع خوشیاں بھی عطا کیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ نیک لوگوں پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں زیادہ آتی ہیں دراصل یہ ان لوگوں کی خوش بختی ہے کہ ان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا خصوصی تعلق ہے، یہ تو انبیاؑ اور صحابہ کرامؓ والی قسمت ہے جسے نصیب ہوجائے۔
دورِ حاضر میں امتِ مسلمہ آزمائشوں سے گزر رہی ہے، نامساعد حالات، انتشار و اختلافات اور اندرونی و بیرونی سازشیں اپنے عروج پر ہیں، اس پر ہمیں صبر کرنا چاہیے اور اپنی حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ اے رب کائنات امتِ مسلمہ کی آزمائشوں کو دور فرما دے، مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کے جذبات کو فروغ دے، مسلمانوں کو وہ نورِ بصیرت عطا فرما دے کہ سارے اختلافات کو مٹا کر متحد ہوجائیں اور ایک ایسی طاقت بن کر ابھریں کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ (آمین)