جج صاحب

نومبرکامہینہ شروع ہی سے میرے لیے بہت بوجھل ہوتاہے

raomanzarhayat@gmail.com

نومبرکامہینہ شروع ہی سے میرے لیے بہت بوجھل ہوتاہے۔ دوسرا ہفتہ مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔ ایسے لگتاہے کہ وقت کاایک سیلاب ہے اورمیں تنکے کی طرح مسلسل بہتا چلا جارہا ہوں۔ نہ رکنے والا، آنسوؤں سے لبریزسیلاب۔ وجہ انتہائی ذاتی ہے۔ چندبرس پہلے نومبرکے دوسرے ہفتے میں میرے والدہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ایک ایسے راستے پرجس کے مسافرکبھی بھی پلٹ کرنہیں آتے۔منوں مٹی اوڑھ کرشہر خموشاں میں سو جاتے ہیں۔ ابدی نیند۔

لائل پورسے میراتعلق انتہائی گہرا ہے۔ والدین اسی شہرمیں دائمی نیندسورہے ہیں۔پہلی جماعت سے لے کر ساتویں جماعت تک ڈی پی ایس اسکول میں تعلیم حاصل کی۔جناح کالونی کا342نمبرگھرمیرے ذہن پرنقش ہے۔342کانمبرذہن پرتوکیا،میری روح تک پرنقش ہو چکا ہے۔ نہ مٹنے والانشان۔والدصاحب اس وقت وکالت کیاکرتے تھے۔والدہ خواتین کالج میں لیکچرار تھیں۔عجیب ساوقت تھا۔

لگتا ہے کہ کہیں گم ہوگیا ہے۔ وقت کی دبیزلہریں ایک دوسرے کوڈھانپ لیتی ہیں۔ مگرکبھی کبھی گزراہواوقت غم کی ایک مجسم تصویر بن کر سامنے دوبارہ آن کھڑا ہوتا ہے۔ جناح کالونی میں صرف دوکاریں ہوتیں تھیں۔ یا شائد تین ہوں۔1961-1963ء کی بات ہے اس وقت والد صاحب کے پاس chevroletگاڑی تھی۔ سفید رنگ کی بڑی سی گاڑی۔ گاڑی انتہائی مختلف طریقے سے اسٹارٹ ہوتی تھی۔ ڈرائیور ایک بڑا سا اوزار لے کرانجن کے ساتھ منسلک گراری کوباہرسے گھماتا تھا۔

پورے شورکے ساتھ گاڑی اسٹارٹ ہوجاتی تھی۔یہ وہ زمانہ تھاجس وقت چابی سے چلنے والی گاڑیاں مارکیٹ میں نہیں آئی تھیں۔ پرانے زمانے کی گاڑیاں تو شائد اب عجوبہ سانظرآتی ہیں۔ یہ بڑی سی گاڑی، یادِایام میں ایک جادوکی گاڑی لگتی ہے۔ ہیری پوٹرکے ناول کی مانندایک دیومالائی سواری۔میرے والدخود گاڑی بہت کم چلاتے تھے۔غفارڈرائیورکی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ گاڑی کو درست حالت میں رکھے۔

ایک انتہائی اہم بات کہ گاڑی کی گھرمیں موجودگی کے باوجودسائیکل پراسکول جاتاتھا۔جناح کالونی سے ڈی پی ایس اسکول قدرے دور تھا مگر والد صاحب کاحکم تھا کہ بچے سائیکل پرہی اسکول جائینگے۔اس وقت عجیب سا لگتاتھاکہ گھرمیں ایک گاڑی کھڑی ہے لیکن سائیکل پر اسکول جارہا ہوں۔اب سوچتاہوں توبالکل درست لگتا ہے۔

بچوں کوکسی صورت میں آسائش کااسیرنہیں بننا چاہیے۔خیربات جناح کالونی کی ہورہی تھی۔ والد صاحب کادسترخوان بہت وسیع تھا۔یاد ہے کہ کئی باراتنے مہمان ہوتے تھے کہ چائے کا انتظام گھرسے منسلک ایک ہال میں کرناپڑتاتھا۔مگرتمام اشیاء سادہ سی ہوتی تھیں۔کسی تصنع اوربناوٹ کے بغیر۔ تکلف بھی حددرجہ کم تھا۔

والدصاحب طبیعت کے بہت سخت تھے۔میری جرات ہی نہیں تھی کہ کبھی ان سے کھل کربات کرسکوں۔ بچپن تو دورکی بات ہے 1984ء میں اسسٹنٹ کمشنربن چکا تھا۔تب بھی اپنے والدکے سامنے بیٹھ نہیں سکتاتھا۔کھڑارہ کربات کرتاتھا۔والدصاحب کی وکالت بہت اچھی چل رہی تھی۔یادہے کہ وہ کراچی تک عدالتوں میں پیش ہوتے تھے۔لائل پورسے اس وقت کراچی تک فضائی سفر شروع ہوچکاتھا۔ائیرپورٹ پر خاردارتاریں لگی ہوتی تھیں۔ ہوائی جہازمیں سے مسافراترتے ہوئے صاف دکھائی دیتے تھے۔

والد صاحب جب بھی کراچی سے واپس آتے تو میرے لیے کھیلنے کاایک ڈبہMechano ضرور لاتے۔ ڈبے میں بہت سی تصاویرہوتی تھیں۔ تصویروں کے مطابق ڈبے میں پلاسٹک کے رنگ برنگے ٹکڑے موجودہوتے تھے۔تصویروں کے حساب سے چیزوں کوجوڑجوڑ کر بناتا رہتاتھا۔یہ کھیل انتہائی دلچسپ اورپُرکشش تھا۔بہت کم بچوں کے پاسMechanoہوتاتھا۔والدصاحب جب بھی کراچی سے واپس آتے تومجھے ایک نیاڈبہ ضرورمل جاتا۔

1970ء کا الیکشن نزدیک تھا۔ والدصاحب کے ایک دوست راؤہاشم صاحب گھرتشریف لائے۔ان کے مطابق پیپلزپارٹی اگلے الیکشن میں کامیاب ہوگی۔ والد صاحب کو پیپلزپارٹی کاٹکٹ لینے پرقائل کرتے رہے۔ میرے دادا اور والدمسلم لیگی ذہن کے تھے۔ دادا، راؤاختر نے والدصاحب کوپیپلزپارٹی کاٹکٹ لینے سے انکار کروادیا۔1970ء کا الیکشن سمندری سے لڑا۔ والدمحترم نے نیشنل اسمبلی کاالیکشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پرلڑا۔یہ دورانیہ پیپلز پارٹی کاسیلاب تھا۔ہماری آبائی سیٹ سے محمدخان، ایم این اے بن گئے۔


الیکشن ہارنے کے بعدمیں نے اپنے والدکوایک لمحے کے لیے بھی پریشان نہیں دیکھا۔ والد صاحب کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔جب آج اپنے آپ سے موازنہ کرتا ہوں توان کے برابرکے تعلقات قطعاً نہیں ہیں۔1970ء کا وہ دن میرے ذہن میں دھندلادھند لا سا ہے۔بدقسمت دن جب پاکستان ٹوٹ گیاتھا۔مجھے بالکل پتہ نہیں تھاکہ ملک کیا ہوتا ہے۔

مغربی اورمشرقی پاکستان میں کیافرق ہے۔ مگرہمارے گھر میں سوگ کی سی کیفیت تھی۔ میرے والدین کی حالت ایسی تھی کہ گھرمیں کوئی بہت بڑاسانحہ ہوچکاہے۔مجھے اس قدراحساس تھا کہ کوئی بڑی بُری چیز ہوگئی ہے۔میرے والداوروالدہ پورادن زارو قطار روتے رہے تھے۔گھرمیں چولہاٹھنڈارہاتھا۔آج کل لوگوں کو احساس نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بدولت مغربی پاکستان کے اکثرگھروں میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔ایسے لگتا تھا کہ ہرگھرمیں کوئی ذاتی سانحہ پیش آیاہے۔

1972ء یاشائد73ء میں والدصاحب نے ایک اور الیکشن میں حصہ لیا۔یہ وکلاء کی بارکونسل کاالیکشن تھا۔آج کل کی طرح ضلعی یا ڈویژنل سطح کے الیکشن کے حلقے نہیں تھے بلکہ وکلاء کے بارکونسل کے الیکشن کاحلقہ بے حدوسیع ہوتا تھا۔ اس الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میرے والدمحترم کے بعدمیرے چچاراؤاسلم مرتے دم تک پنجاب بارکونسل کے ممبررہے۔اس زمانے میں کالے رنگ کابڑاسافون گھرمیں لگاہواتھا۔میں نے پنڈی گھیپ سے ایک فون آنے پررزلٹ نوٹ کیاتھا۔

بارکونسل کے ممبران انتہائی پُروقاراورمہذب طریقے سے وکالت سے منسلک لوگوں کی خدمت کرتے تھے۔بارکونسل کاذکرمیں نے اس لیے کیاکہ میرے خاندان میں تین وکیل تھے۔ میرے والداوردوچچا۔چچاعبدالرحیم توآج بھی سمندری میں پریکٹس کررہے ہیں۔پیرانہ سالی کی بدولت اب شاذو نادر ہی کچہری جانے کااتفاق ہوتاہے۔قصہ مختصریہ کہ قانون سے منسلک لوگوں کودیکھنے کااتفاق مجھے بچپن سے ہی ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے وکلاء ویسے بھی بہت کم تھے۔

آج بھی ایک مقدس پیشہ ہے مگراس وقت یہ مقدس ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شاندارپیشہ تھا۔کیڈٹ کالج حسن ابدال جانے کے بعد شائد نویں یادسویں میں مجھے والدہ کی جانب سے خط ملاکہ والدجج بن گئے ہیں اورانکی تعیناتی ملتان ہوگئی ہے۔ بالکل اندازہ نہیں تھا کہ جج کیاہوتا ہے۔ بچپن سے دو ججوں کے نام یادتھے۔ایک شیخ وحیدجوبعدازاں ہائیکورٹ کے جج بن گئے۔دوسرے راؤاقبال وہ بھی بعد میں ہائیکورٹ کے جج بنے۔یہ دونوں درویش صفت لوگ لائل پورمیں سول جج کے طورپرکام کرتے تھے۔

چھٹیوں میں ملتان پہنچاتومعلوم ہواکہ والدصاحب ایڈیشنل سیشن جج بن چکے ہیں۔چندہفتوں بعدمجھے ایک عجیب سااحساس ہواکہ والدمیں ایک بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے۔وہ مکمل اکیلے رہتے ہیں۔ان جیسامجلسی انسان عدلیہ میں آنے کے بعد اس درجہ تبدیل ہوگا،میرے گمان تک میں نہیں تھا۔ جج صاحب میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ کتابی حد تک اکیلے رہنے کے قائل ہوچکے تھے۔ان کے ایک دو بچپن کے دوستوں کے علاوہ کبھی کوئی بھی انھیں ملنے نہیں آتا تھا۔

دوسری بات یہ تھی کہ ان کے مالی وسائل حددرجہ کم ہوچکے تھے۔ لائل پورکے کامیاب وکیل ہونے کی بدولت وہ ہردوتین سال بعد کار بدلنے کی استطاعت رکھتے تھے۔مگرجج بننے کے بعدان کے وسائل اس درجہ کم تھے کہ ریٹائرڈمنٹ تک اپنی گاڑی تبدیل نہ کرسکے۔ گھرمیں کھانے کی چیزوں میں بھی بہت حدتک سادگی آچکی تھی۔ ملتان کی شدیدگرمی میں بھی گھرمیں صرف پنکھے تھے۔

جج صاحب کے کمرے میں اینٹوں کا بنا ہوا ایک بہت بڑادیسی ائیر کولر لگاہوا تھا۔ پہلے میرے والدسفرکے لیے اپنی گاڑی استعمال کرتے تھے۔ اب وہ اکثر ٹرین یابس میں سفرکرلیتے تھے۔سترکی دہائی میں ویسے جج صاحبان انتہائی سادہ سی زندگی گزارتے تھے۔مجھے آج تک یادہے کہ کئی جج صاحبان مہینے کے آخرمیں ایک دوسرے سے اُدھار لے کر آخری ہفتہ گزاراکرتے تھے۔

کالم میں تنگی کی وجہ سے اکثرواقعات نہیں لکھ سکتا۔ سوچتا ہوں تولکھنے کی ہمت بھی نہیں ہے۔عدلیہ میں کس کس سطح کے ولی اور ایماندارآدمی موجودتھے،آج بات کریں تو لگے گاکہ مبالغہ سے کام لیاجارہاہے۔سیشن جج کی سطح کے لوگ بسوں، ویگنوں، سائیکلوں اور ٹرینوں میں سفرکرتے رہتے تھے۔بالکل عام مسافروں کی طرح۔ مجھے آج کل کی عدلیہ کے حالات معلوم نہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے والد پوری نوکری میں اپناذاتی گھر نہیں بناسکے۔

ایک گھرمیری والدہ نے بڑی ہمت اور قرض لے کرخودکھڑے ہوکر بنوایا۔اگروہ گھرنہ بنواتیں تو شائدہم تمام لوگ تاندلیاوالہ میں آبائی گھرمیں منتقل ہونے پر مجبور ہو جاتے۔ایک دہائی پہلے گیارہ نومبرکی صبح کومیری والدہ نے فون کرکے بتایاکہ بیٹا، جج صاحب فوت ہوچکے ہیں۔ لائل پورگاڑی چلاکرکیسے پہنچا، یاد نہیں۔ مگرایک اَمرکااعتراف کرناچاہتا ہوں، میں نے اپنے والدکوانتقال کے بعد پہچانا۔ پہلے ان سے بہت دور رہا۔ان سے دوستی ہی ان کے انتقال کے بعدہوئی۔
Load Next Story