پانامہ کی گمشدہ فائلیں

آف شور کمپنیوں کے بارے میں تقریباً دو لاکھ پندرہ ہزار خفیہ فائلیں جن میں خفیہ اکاؤنٹس کی تفصیلات ہیں

RAMADI:
آف شور کمپنیوں کے بارے میں تقریباً دو لاکھ پندرہ ہزار خفیہ فائلیں جن میں خفیہ اکاؤنٹس کی تفصیلات ہیں جو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انکشاف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں مالیاتی اور قانونی تفصیلات شامل ہیں جن میں مجرموں اور منشیات کے اسمگلروں کے راز بھی افشا کیے گئے ہیں علاوہ ازیں موجودہ اور سابقہ لیڈروں اور ان کے قریبی عزیزوں اور دوستوں کے نام بھی شامل ہیں جن پر ٹیکسوں کی ادائیگی نہ کر کے پیسے بچائے گئے یا منی لانڈرنگ کرنے کے الزامات ہیں وغیرہ وغیرہ۔

وراثت بچانے یا ملک کے دیگر ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے جو کہ بالعموم قانونی نہیں ہوتی کیونکہ ملک میں اس پر ٹیکسوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہوتی اور یہ رقم منی لانڈرنگ کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن اس سے بھی بڑا جرم غلط بیانات جاری کرنا اور مبالغہ آرائی سے کام لینا ہوتاہے بالخصوص اگر یہ کام اعلیٰ سرکاری مناصب کے حامل لوگ کریں۔

''جان ڈوئی'' John Doeکے عنوان سے ایک گمنام ذریعے نے 11.5 ملین (1کروڑ 15لاکھ) دستاویزات فراہم کیں جن کا کمپیوٹر کی اصطلاح میں حجم 2.6 ٹیٹرا بائیٹس (2600 جی بی) بنتا ہے جو پانامہ کی ایک لافرم موزیک فونیسکا Mossack Fonecaکی طرف سے ہیں جو مختلف حصوں میں تحقیقاتی رپورٹروں' فریڈرک اوبرمائرFrederik Obermaier اور بستیان اوبر مائر Bastian Obermaierکو جرمن اخبار Sueddeustche zeitung(SDZ) کے اسٹاف میں شامل ہیں۔

افشاء شدہ اعدادوشمار میں لاکھوں ای میلز' فوٹو گراف' نقشے' پی ڈی ایف دستاویزات' سپریڈ شیٹس اور کمپنی کے ڈیٹا بیس کی انٹریاں شامل ہیں جن میں بین الاقوامی جرنلسٹوں کے تحقیقاتی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) سے مدد کی درخواست کی گئی ہے۔ آئی سی آئی جے نے یہ تمام اعدادوشمار 80 ممالک میں اپنی پارٹنر ایجنسیوں کو بھجوا دیے ہیں جن میں 350 سے زیادہ صحافی کام کرتے ہیں۔ اس کام میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔

پانامہ پیپرز کے نام سے بین الاقوامی بیسٹ سیلر کتاب کے دسویں باب کا عنوان ''اسپارکس فلائی'' ہے جس پر تحقیقاتی صحافیوں کو انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ ان صحافیوں میں فریڈرک اوبرمیئر اور بستیان اوبر میئر شامل ہیں (جو آپس میں بھائی نہیں ہیں)۔ وزیراعظم اور ان کی فیملی کا ذکر مختلف مراسلوں میں ہے۔ جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے ان کمپنیوں کے ذریعے لندن میں لگژری اپارٹمنٹس خریدے۔ ان دونوں کمپنیوں کا ذکر ان اعدادوشمار میں موجود ہے۔

ان دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2012ء تک ان کی ملکیت مریم نواز شریف کے پاس تھی۔ ٹیم نے آف شور کمپنیوں کا افشاء کیا ان میں لیکسم برگ لیکس اور سوئس لیکس بھی شامل ہیں۔ آخر شریف فیملی نے فریڈرک اوبر مائر اور بستیان اوبر مارئر کے خلاف عدالتی کارروائی کیوں نہیں کی' اگر ان کا نام انھیں بدنام کرنے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم نواز شریف کا تعلق ہے تو انھوں نے اس گروپ کے خلاف جس نے یہ اعدادوشمار پاکستان بھجوائے ہیں 1999ء میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا۔


باور کیا جاتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان لوگوں کے نام آف شور اکاؤنٹس میں سے خارج کیے جا سکتے ہیں۔ مقامی تحقیقاتی حکام کے لیے بھی کچھ مواد شامل کر لیا گیا ہے۔ جب دوسرے ممالک میں آف شور اکاؤنٹس دیے جا سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ اپریل 2016ء میں بنیادی اعدادوشمار میں سے تھوک کے حساب سے نام خارج کر دیے گئے۔

ایک آسٹریلوی کمپنی نے ایک نہایت شاندار فورنزک آئی ٹی سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس کا نام Nuix PTY Limited ہے۔ اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اعدادوشمار کی بھرمار کے باوجود ناقابل حصول پی ڈی ایف' تصاویر اور سکین شدہ دستاویز پلک جھپکنے میں تلاش کرسکتا ہے۔Nuix میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی بھی تحقیقات کر سکتا ہے۔ اسی نے آئی سی آئی جے کے نیٹ ورک کو لاکھوں افشا ہونیوالے دستاویزات میں سے موزک فونسیکا کے کلائنٹس کو مطلوبہ مواد بہم پہنچایا۔

Nuix کی وائس پریذیڈنٹ انجیلا بنٹنگ نے رپورٹروں کو بتایا، ''جو ہم نے کیا ہے اس کے نتیجے میں آئی سی آئی جے مطلوبہ معلومات تک رسائی کے قابل ہوئی کیونکہ یہ مہینوں کا نہیں بلکہ سال ہا سال کا کام تھا' ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) نے کرپشن کے خلاف ہونیوالے اجلاس جو 15نومبر 2016ء کو جنیوا میں ہوا اس میں یہ مظاہرہ کیا گیا کہ کس طرح متذکرہ سافٹ ویئر کرپشن کے معاملات میں رسائی حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

Nuix اب اپنے سافٹ ویئر کو 65ممالک میں فروخت کر رہی ہے جن میں اقوام متحدہ کے ساتھ امریکی سیکریٹ سروس اور دنیا کے بہت سارے قانون نافذ کرنیوالے ادارے شامل ہیں۔ کرپشن اور منظم جرائم کا کھوج لگانے کے لیے جس کے ڈانڈے دہشتگردی کے ساتھ مل جاتے ہیں یہ سافٹ ویئر بہت بااعتماد ایجاد ہے۔

Nuix کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان' ایف آئی اے' کسٹمز' نیب' انٹیلی جنس سروسز وغیرہ کی طرف سے قابل عمل لائسنس مل چکا ہے لہٰذا اب کسی بھی فراڈ' جرم' منی لانڈرنگ' ٹیکس نادہندگی کی بآسانی کھوج لگائی جا سکتی ہے۔ اگر ہماری ایجنسیوں کے پاس یہ سافٹ ویئر ہو تو پھر ٹیکس نادہندگان یا منی لانڈرنگ کرنیوالوں کو ہدف بنانے میں آخر کیا چیز مانع ہو سکتی ہے؟

5 نومبر کو قطری شہزادے کی طرف سے اچانک نمودار ہونیوالے خط سے اس معاملے کا نیا رخ سامنے آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں پر پانامہ لیکس کے حوالے سے الزامات ہیں' اب وہ بآسانی بری ہو جائیں گے۔ انصاف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب Nuix کے پروگرام کے ذریعے اوریجنل ڈیٹا کا معائنہ کیا جائے۔ لہٰذا یہ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ کسی کو بچ نکلنے کا موقع نہ دے۔
Load Next Story