’’میں ایک اداس آدمی ہوں‘‘

ممتاز مفتی کی طرح ڈاکٹر ارشد رضوی کی کہانیاں بھی جنس کے موضوع سے نکل کر کردار بُنتی ہیں۔

منٹو اور عبداﷲ حسین نے صحیح معنوں میں لکھنے پر اُکسایا، ڈاکٹر ارشد رضوی . فوٹو : فائل

نہ تو وہ ترقی پسند ہیں، نہ ہی جدیدی۔ البتہ جدیدیت کی تحریک سے جنم لینے والی تجریدیت کے پوری طرح قائل ہیں۔ یہی رنگ اُن کی تخلیقات میں غالب ہے، مگر لایعنیت کی وہ مخالفت کرتے ہیں!

یہ مُدرس، محقق اور افسانہ نگار، ڈاکٹر ارشد رضوی کی کہانی ہے، جنھیں ادبی تحاریک سے زیادہ لکھاریوں نے متاثر کیا۔ جن دو ادیبوں نے صحیح معنوں میں لکھنے پر اُکسایا، وہ ہیں منٹو اور عبداﷲ حسین۔ ممتاز مفتی کی طرح اُن کی کہانیاں بھی جنس کے موضوع سے نکل کر کردار بُنتی ہیں، اور پھر تنہائی کی جانب بڑھ جاتی ہیں۔ 2003 میں اُن کا افسانوی مجموعہ ''ایک سا موسم'' شایع ہوا، جو بیس کہانیوں پر مشتمل تھا۔ پہلے افسانے اور پہلے مجموعے کی اشاعت میں اٹھارہ برس کا طویل وقفہ ہے۔ اِس تعلق سے کہتے ہیں کہ اُنھوں نے کم لکھا۔ جب کبھی کوئی کہانی سُوجھی، تو اُس پر مہینوں کام کیا۔ دوسرا مجموعہ ''کچھ بے ترتیب کہانیاں'' اشاعت کے قریب ہے۔

ڈاکٹر ارشد اِس وقت پاکستان اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، سرسید یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ریسرچ کا آغاز اُنھوں نے 96ء میں کیا۔ ''پاکستان کا آئینی اور سیاسی پس منظر'' اُن کا موضوع تھا۔ ڈاکٹر ابوذرواجدی سپروائزر تھے۔ 2002 میں اُنھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ تحقیق کا نچوڑ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،''پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آئین کو وہ اہمیت نہیں دی گئی، جو اِسے ملنی چاہیے تھی، جس کی وجہ سے ہمارے سیاسی ادارے کم زور ہوئے۔'' اُن کے مطابق آئین شکنی کے سلسلے کا باقاعدہ آغاز گورنر جنرل، غلام محمد سے ہوتا ہے، جس کے باعث مستقبل میں سیاسی شخصیات اور اداروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

اُن کا پورا نام ارشد جاوید رضوی ہے۔ اجداد کا تعلق امروہے سے تھا۔ تقسیم کے سمے اُن کے بڑوں نے ہجرت کی، اور لاہور کو مسکن بنایا۔ وہیں نومبر 1960 میں اُنھوں نے انیس احمد رضوی کے گھر آنکھ کھولی، جو سرکاری ملازم کی حیثیت سے لاہور چڑیا گھر سے منسلک تھے۔ رہایش اچھرہ کے علاقے میں تھی۔ مولانا مودودی کی رہایش گاہ اُن کے مکان سے چار گلیاں دُور تھی۔

ایک بہن، تین بھائیوں میں ارشد رضوی بڑے ہیں۔ گوکہ دوستوں کا حلقہ کبھی محدود نہیں رہا، مگر بچپن ہی سے تنہائی پسند ہیں۔ ہجوم میں اکیلے ہونے کا احساس تب سے ساتھ ہے۔ شرارتوں سے دُور ہی رہے۔ کھیلوں میں کرکٹ کا تجربہ کیا۔ والد سے دوستانہ روابط رہے۔ اُنھوں نے کبھی اپنے سپوت پر روک نہیں لگائی۔ اُن ہی کے ذوق مطالعہ کے طفیل ارشد رضوی کا کتابوں سے پالا پڑا۔ بتاتے ہیں، والد کمیونزم سے متاثر تھے، مارکس اور لینن کی کتابیں اُن کے مطالعے میں رہتی تھیں۔ نوجوانی میں گھر کے ماحول نے ارشد رضوی کو مارکسی نظریات سے لیس کیا، جن میں آنے والا وقت دھیرے دھیرے تبدیلیاں لایا۔ والدہ کی بابت کہتے ہیں، اُنھوں نے گھر کو سمیٹ کر رکھا، اور اپنی اولاد کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔



جماعت اسلامی کے ادارے ''نیا مدرسہ'' سے 78ء میں اُنھوں نے آرٹس سے میٹرک کیا۔ اسی زمانے میں سیاسی شعور بیدار ہوا۔ بھٹو صاحب سے وہ بہت متاثر تھے۔ 85ء میں اُنھوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ وہاں ''پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن'' کے رکن کی حیثیت سے خاصے فعال رہے۔ مال روڈ پر ہونے والے احتجاج کے دوران اُن پر لاٹھی چارج ہوا۔ گرفتار ہوئے، چند گھنٹے حوالات میں گزرے، اُنھیں چھڑانے کے لیے والد کو تھانے آنا پڑا۔ اِس تعلق سے کہتے ہیں، والد صاحب اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سیاسی جدوجہد کے دوران جیل جانا قابل فخر بات ہے، مگر باپ کی حیثیت سے وہ تھوڑے پریشان بھی تھے۔


اُسی زمانے میں شہرقائد کا رخ کیا۔ بتاتے ہیں، اُن کے والد نے ریٹائرمینٹ سے کچھ عرصے قبل ''سی اے'' کا مرحلہ طے کیا تھا، جس کی بنیاد پر کراچی میں ملازمت کی پیش کش ہوئی۔ یوں پورا خاندان یہاں منتقل ہوگیا۔ ارشد رضوی نے جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں داخلہ لے لیا، جہاں سے 89ء میں ماسٹرز کیا۔ اُس عرصے میں سیاسی سرگرمیوں سے دُور رہے، البتہ ادبی سرگرمیوں نے مصروف تھا۔

پہلی ملازمت انکم ٹیکس کے محکمے میں کی، جہاں انسپکٹر کی حیثیت سے وہ گیارہ سو روپے وصول کیا کرتے تھے۔ ماسٹرز کے بعد تدریس کی جانب آگئے، اور ''کامکس انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایجوکیشن'' سے منسلک ہوگئے۔ ہمدرد یونیورسٹی اور آغا خان ایجوکیشن بورڈ میں خاصا وقت گزارا۔ پھر راشد آباد کا رخ کیا، جہاں پاک بحریہ کے کالج میں سوشل سائنسز کا ونگ تشکیل دیا۔ 2006 میں کراچی لوٹے، اور سرسید یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔

فکشن کے مطالعے کا آغاز عبداﷲ حسین کے ناول ''اداس نسلیں'' سے ہوتا ہے۔ لاہور میں جس محلے میں رہایش تھی، وہیں افسانہ نگار، اسد مفتی کا مکان تھا، جہاں کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا۔ عبداﷲ حسین بھی اُن کے ہاں آیا کرتے تھے۔ وہیں نوجوان ارشد رضوی کی اپنے پسندیدہ ادیب سے ملاقات ہوئی۔ پہلا دیوان جو ہاتھ لگا، وہ منیر نیازی کا تھا۔ ایک بار مطالعے کی لت پڑ گئی، تو تمام بڑے ادیبوں کو چاٹ ڈالا۔

لکھنے کا تو بچپن ہی سے شوق تھا۔ باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ پھر کہانیوں کی جانب متوجہ ہوئے۔ معروف شاعر اور عربی کے اسکالر، ڈاکٹر خورشید رضوی اُن کے پھوپھی زاد بھائی ہیں، اُن کی ادبی سرگرمیوں نے ارشد رضوی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ لاہور چھوڑنے سے قبل سات آٹھ کہانیاں لکھی تھیں۔ بدقسمتی سے یہ کہانیاں کراچی آتے ہوئے ٹرین ہی میں رہ گئیں۔ یہاں حسنین جعفری سے ملے، جن کے طفیل عبید اﷲ علیم سے ملاقات ہوئی، جن سے مل کر ادب کی آفاقیت اُن پر آشکار ہوئی۔ پھر نصیرترابی، شاہد حمید اور احمد نوید سے ملاقات ہوئی۔ جون صاحب سے سامنا ہوا۔ ادبی سرگرمیاں کا سلسلہ شروع ہوا، تو سنجیدگی سے افسانہ نگاری کی جانب متوجہ ہوئے۔ احمد ہمیش کے پرچے ''تشکیل'' میں اُن کا پہلا افسانہ ''سدھارتھ'' شایع ہوا۔ آنے والے برسوں میں ''تشکیل'' میں تواتر سے چھپے۔ ''ادب لطیف'' میں بھی تخلیقات نے جگہ پائی۔

یادیں بازیافت کرتے ہوئے وہ عبیداﷲ علیم اور احمد ہمیش کے گھر ہونے والی نشستوں کا ذکر کرتے ہیں، جہاں گھنٹوں ادب پر بات ہوتی۔ پھر آرٹس کونسل میں بیٹھنے لگے، جہاں ''نشست'' کے نام سے ایک ادبی حلقہ بنایا، جس کے تحت لگ بھگ دس برس تک ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ حسنین جعفری کے انتقال کے بعد ''نشست'' کی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں۔ بعد کے برسوں میں کسی خاص حلقے سے نہیں جُڑے۔ سبب تنہائی پسندی ہی کو گردانتے ہیں۔

اُن کے افسانوی مجموعے ''ایک سا موسم'' کا پیش لفظ احمد ہمیش نے لکھا تھا۔ یہ مجموعہ اُن ہی کے ادارے ''تشکیل پبلی کیشن'' سے شایع ہوا۔ کہتے ہیں، اِس معاملے نے ناقدین کے ردعمل پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ''ایک جانب جہاں اِس کی بہت پزیرائی ہوئی، عام قارئین نے اِسے پسند کیا، وہیں لاہور کے ادبی حلقوں نے اِسے، احمد ہمیش سے تعلق کی بنیاد پر، کُلی طور پر رد کر دیا۔ اِسی وجہ سے عبدالعزیز عزمی نے مجھے احمد ہمیش سے پیش لفظ لکھوانے سے منع کیا تھا۔ میں احمد ہمیش سے بہت متاثر ہوں۔ وہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ اُنھوں نے میری بہت راہ نمائی کی، مگر اِس خدشے یا اندیشے کے پیش نظر کہ مجھ پر اُن کی چھاپ نہ لگ جائے، میں بڑی مشکل سے احمد ہمیش کی شخصیت کے اثر سے باہر نکلا!''

خود کو سبزی خور گرداننے والے ارشد صاحب عام طور سے پینٹ شرٹ میں نظر آتے ہیں۔ فریدہ خانم کی آواز اُنھیں اچھی لگتی ہے۔ رواں برس ریلیز ہونے والی فلم ''برفی'' پسند آئی۔ عرفان خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ منٹو پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔ ہم عصروں میں عبدالعزیز عزمی کو سراہتے ہیں۔ شعرا میں جون ایلیا، عبیداﷲ علیم، نصیر ترابی اور ڈاکٹر خورشید رضوی کا نام لیتے ہیں۔ فیض صاحب کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔ زمانۂ طالب علمی اُن سے خاصی ملاقاتیں رہی۔ کالج جانے کے بجائے ماڈل ٹائون میں واقع فیض صاحب کے گھر چلے جاتے، وہاں گھنٹوں بیٹھتے۔ سارتر کا ناول ''NAUSEA'' اُن کا پہلا انتخاب ہے۔ ہرمین ہیسے کے ناول ''سدھارتھ'' کا بھی ذکر آتا ہے۔

اردو ادب میں ''اداس نسلیں'' اچھا لگا۔ 89ء میں شادی ہوئی۔ دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں ہی زیر تعلیم ہیں۔ بچوں سے دوستانہ روابط ہیں۔ یقین رکھتے ہیں کہ انسان خود بہ خود سیکھ جاتا ہے۔ ''اِسی لیے بچوں پر اپنی شخصیت نہیں تھوپنی چاہیے، اُن کی شخصیت کو نمو کو موقع دینا چاہیے۔'' بیگم کے کردار کو سراہتے ہوئے اُنھیں اپنے افسانوں کی پہلی قاری قرار دیتے ہیں۔ ''اُنھوں نے ادبی سرگرمیوں میں میرا بھرپور ساتھ دیا!'' پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنا زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ والد کے انتقال کے سمے گہرے غم سے سامنا ہوا۔ مستقبل میں ناول لکھنے کا ارادہ ہے۔ پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ کا بھی منصوبہ ہے۔ اپنی بابت کہتے ہیں،''اداسی کی رو مجھ میں ہمیشہ رہتی ہے۔ میں ایک اداس آدمی ہوں۔ اور یہ سمجھ نہیں پاتا کہ اِس کی کیا وجہ ہے۔''
Load Next Story