پاکستان کے امیج کو معاف کردیں

وزیر اعلیٰ و وزیر داخلہ بلوچستان کے بیانات کے علاوہ زیادہ تر قبرستان سی خاموشی چھائی رہی

moazzamhai@hotmail.com

QUETTA:
آپ صرف چند لمحوں کے لیے تصورکیجیے کہ 24 اکتوبر کوکوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھارت میں کہیں ہوا ہوتا اورکوئٹہ میں شہید ہونے والے 61 پاکستانی کیڈٹس کی تعدادکے آدھے کے بھی آدھے بھارتی کیڈٹس مارے گئے ہوتے تو کیا کچھ ہوتا اورکیا کیا کچھ نہیں ہوتا۔ مثلاً ابھی یہ حملہ جاری ہی ہوتا کہ ہندوستانی میڈیا نہ صرف اس کا الزام پاکستان پہ لگا چکا ہوتا بلکہ حملہ آوروں کی پاکستان میں اپنے ماں باپ یار دوستوں سے موبائل فون پہ کی جانے والی گفتگو بھی سنوا چکا ہوتا۔

ادھر پاکستان میں ہندوستانی میڈیا کے پارٹنر میڈیا والے فوراً کے فوراً پنجاب کے کسی دور دراز گاؤں میں مبینہ پاکستانی دہشت گرد کے گھر تک بھی پہنچ چکے ہوتے اور پوری دنیا کو فاتحانہ اپنے اس کارنامے کا بتا رہے ہوتے۔ اس حملے کے ختم ہونے سے پہلے ہی ہندوستانی حکومت نے اس کا الزام باقاعدہ طور پر پاکستان پر لگا دیا ہوتا اور دنیا بھر میں بھارتی سفارت خانوں اور تنظیموں کے غل غپاڑے سے متاثر ہوکر امریکا سے یورپ اور جاپان سے آسٹریلیا تک کی حکومتیں اپنے اپنے انداز میں پاکستان کی سرزنش کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے یک زبان ہوکر ''ڈومور'' کا مطالبہ بھی کر رہی ہوتیں۔

ادھر پاکستان کی حکومت پوری دلسوزی سے ہندوستانی حکومت کو یقین دلا رہی ہوتی کہ اس اندوہناک معاملے کی پوری تحقیقات کی جائیں گی۔ مزید یہ کہ پاکستانی حکومت اور دفاعی اداروں کے قومی سلامتی کے اجلاس سے یہ ''خبر'' کسی نظر نہ آنے والی شخصیت کے ذریعے ''لیک'' ہوچکی ہوتی کہ دنیا بھر میں تمام برائیوں کی جڑ دراصل پاکستان کے دفاعی ادارے ہیں اور حکومت متعلقہ اخبارکے متعلقہ صحافی کو یہ خبر پہنچائی جاچکی ہوتی جو بیٹھے بٹھائے یکایک بہادر اور تحقیقاتی جرنلسٹ کا اونچا رتبہ پا چکا ہوتا اور اپنے ''تجربات'' اب دنیا بھر میں شیئر کرتا پھر رہا ہوتا کہ کس بے جگری سے اس نے پاکستان جیسے برے ملک کو بے نقاب کیا۔ لیکن کوئٹہ واقعے پہ، 61 پاکستانی کیڈٹس کی شہادت پہ تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

وزیر اعلیٰ و وزیر داخلہ بلوچستان کے بیانات کے علاوہ زیادہ تر قبرستان سی خاموشی چھائی رہی۔ بھارتی پروگراموں پہ پابندی کے غم سے نڈھال پاکستانی میڈیا بھی دو تین دن میں کوئٹہ واقعہ بھول بھال گیا۔ وزیر اعظم اور ان کے عالی مرتبت ٹیلنٹڈ وزرا کرام نے بھی بھارت کے خلاف لب کشائی کچھ زیادہ مناسب نہیں سمجھی۔ کچھ حاسدین و ناقدین وزیر اعظم کے خلاف زہر افشانی کرتے پھرتے ہیں کہ ان کے بھارتی وزیر اعظم مودی سے فیملی کی سطح کے تعلقات اور بھارتی صنعت کاروں سے مبینہ کاروباری تعلقات ہیں چنانچہ وہ بھارت کے خلاف کچھ زیادہ نہیں کہتے کہ کہیں بھارتیوں کی نظر میں ان کا امیج خراب نہ ہوجائے۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک لغو سی بات ہے۔ ہمارے وزیراعظم ہم سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں جنھیں نہ صرف پاکستانیوں بلکہ آزاد کشمیر کے کشمیریوں نے بھی اپنے اعتماد سے سرفرازکیا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں ہماری قوت گویائی کی سدا بہارکمیابی سے پاکستان بے چارے کے بے چارے امیج کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہورہا۔ادھر پشاورہائی کورٹ میں سی پیک پر رٹ دائرکرکے خیبر پختونخوا حکومت نے بھی پاکستان کے امیج کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ یہ قدم چینی سفیر کے عمران خان سے ہونے والی ملاقات کے بعد اٹھایا گیا۔


پی ٹی آئی اور خیبرپختونخوا حکومت کے کچھ حاسدین و ناقدین ہرزہ سرائی کرتے پھر رہے ہیں کہ وہ ملک میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے خلاف اپنی ''جدوجہد'' سے اے این پی کا سا بلند و بالا سیاسی مقام حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں اور یہ کہ اگر دنیا میں کوئی بھولا بھٹکا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو آجائے تو ہم پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور یہ کہ سی پیک ایک اقتصادی روٹ ہے نہ کہ پبلک ویلفیئر پراجیکٹ چنانچہ سرمایہ کار قدرتی طور پر اپنے اقتصادی مفادات اور سہولتیں بھی دیکھیں گے نہ کہ صرف ہمارے مقامی سیاسی مسئلے مسائل اور یہ کہ کتنا اچھا ہوتا کہ خیبر پختونخوا حکومت عدالت میں رٹ دائر کرنے کے بجائے سی پیک کے لیے اپنی طرف سے سہولتوں اور ترغیبات کا پیکیج تیار کرتی، چینی حکومت اور چینی سرمایہ کاروں سے نت نئے منصوبوں، نئے آئیڈیاز پہ بات کرتی۔ ظاہر ہے کہ یہ سب لغو سی باتیں ہیں۔

پی ٹی آئی قیادت اور خیبرپختونخوا حکومت ہم سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں۔ ملک بھر کے عوام ان پہ واحد قومی اپوزیشن کے طور پر اعتماد کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ 1960 کی دہائی کے بعد پہلی بار ملک میں وسیع اقتصادی سرگرمیوں کے خلاف نت نئے مسئلوں اور جھگڑوں سے پاکستان بے چارے کے بے چارے امیج کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہورہا۔

ادھر اور لیڈیز اینڈ جینٹل مین بھی پاکستان کے امیج کے سلسلے میں اپنی ذمے داریوں سے غافل نہیں مثلاً ملک میں فضائیہ کے جنگی طیاروں سے لے کر سی ای او کی سیٹ تک باہمت محنتی خواتین کی کامیابیوں کی کوئی کمی نہیں مگر ہماری ایک محترم خاتون پاکستان میں خواتین کے ساتھ بھیانک ترین سلوک ایک سے بڑھ کر ایک ''دستاویزی'' فلموں کے ذریعے دکھا کر دنیا کو بتاتی ہیں کہ دیکھیں یہ ملک اس سے کہیں زیادہ برا اور بھیانک ہے کہ جتنا آپ اسے سمجھتے ہیں۔

دنیا انھیں پاکستان کے امیج کے لیے ان کی ان تھک خدمات پر ایوارڈز اور ہمارے غیر جانبدار دانشور داد دیتے ہیں۔ یہ تمام محترم لیڈیز اینڈ جینٹل مین وغیرہ وغیرہ ہم سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں اور جانتے ہیں کہ اس ملک کے امیج کے ساتھ انھیں کیا کرنا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان کی انتھک کوششوں کے بعد بھی بے چارے پاکستان کا بے چارہ امیج کچھ اچھا نہیں ہو رہا۔ کچھ مثالیں ذرا دیکھیے دنیا میں پاکستان کے امیج کی ۔

''پاکستان دنیا میں چوتھا سب سے غیر محفوظ ملک قرار'' گلوبل ٹریول اینڈ ٹوررزم رپورٹ بائی ورلڈ اکنامک فورم اکتوبر 2016۔ ''پاکستانی پاسپورٹ بین الاقوامی سفر کے لیے دوسرے نمبر پہ بدترین پاسپورٹ۔'' ہینلے اینڈ پارٹنرز فروری 2016۔ ''دنیا بھر میں بدترین شہرت کے حامل ملکوں میں پاکستان کا تیسرا نمبر۔'' ریپ ٹریک انڈیکس، رپوٹیشن انسٹیٹیوٹ، اگست 2016۔ یہ صرف اس سال کی چند مثالیں ہیںپچھلے چند سالوں میں ہر سال ایسی کئی مثالیں ملیں گی مثلا ''پاکستان امریکا میں 10 انتہائی غیر مقبول ممالک کی لسٹ میں شامل'' گیلپ 2008 ورلڈ افیئرز سروے۔

''پاکستان دنیا بھر میں پانچ کم ترین مقبول قوموں میں شامل۔'' بی بی سی ورلڈ گلوبل سروے 2009 ریلیز۔ ''پاکستان دنیا بھر میں ناکام ریاستوں میں 10 ویں ناکام ترین ریاست۔'' 2010 فیلڈ اسٹیٹس انڈیکس بائی فارن پالیسی میگزین اینڈ فنڈ فار پیس۔ ہم بے شک دنیا بھر میں اپنا ذاتی امیج سنوارتے رہیں یہ ہمارا پیدائشی حق ہے مگر کتنا اچھا ہو کہ ہم پاکستان کے امیج کو اس کے حال پہ چھوڑ دیں یہ پہلے ہی سے بہت نمایاں ہے۔ ہماری مزید کاوشوں سے محرومی اس کا حق ہے۔
Load Next Story