یہ سال کیسا رہا
اﷲ کرے نیا سال ہم سب پاکستانیوں کے لیے خوشیاں لے کر آئے۔
نئے سال کی آمد آمد ہے، رخصت ہونے والا 2012 کا سال کہیں خوشیاں لایا تو کہیں غم چھایا، کہیں ترقی پروان چڑھی تو کہیں زوال آیا، یہ سال بھی معیشت کی بحالی کے لیے کچھ اچھا ثابت نہ ہو سکا اس سال میں امن و امان کی خراب صورت حال نے ملکی معیشت کو مزید زبوں حال کر دیا جس کی وجہ سے مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ جب کہ کئی بڑے یونٹس ملک میں جاری توانائی کے بحران کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے بھی مالی سال 2012 کے لیے سالانہ رپورٹ میں ملکی معیشت کو مخدوش قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جون کے اختتام تک ملک میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک برقرار رہے گی۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پہلی بار حکومت کے اکنامک منیجرز کے دعوے کے برعکس اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ اس سال بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا اور سرمایہ کاروں نے ملک میں نئی سرمایہ کاری کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیا۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 70 لاکھ افراد دو سے تین ماہ تک بے روزگار رہے اور ملک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال نے پوری معیشت کو متاثر کیا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں ہونے والے تیزی سے اضافے کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ ملک کا پہیہ چلے اور روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں۔
اقتصادی ماہرین کا خیال تھا کہ 2012ملک کی معیشت کے لیے مزید چیلنجز والا سال ہو گا جس میں قومی اقتصادیات کو سال 2008 جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس سال میں معیشت کو نادہندگی کے خطرات سے بچانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں یا پھر چین سمیت ان دیگر ممالک سے جن کے تعلقات پاکستان سے اچھے ہیں امداد کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق ملک کی معیشت جس ڈگر پر چل رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیندہ سال بھی ملکی معیشت کا تیزی سے ترقی کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان کے ایک اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی کا خیال ہے کہ آیندہ سال بیرونی قرضوں کی قسط کی ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشکل ترین ہو گا۔ اگر اس سال انتخابات ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی جماعت ملک سے بیرونی قرضوں کے خاتمے اور ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے پالیسیوں میں تبدیلیاں لاتی ہے تو اس کے اثرات معاشی ترقی کی رفتار کو دوبارہ تیزی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ 2012 ملک کی معیشت کے لیے اچھا سال ثابت نہ ہو سکااور ملک مہنگائی کی لپیٹ میں رہا، 2012کے اختتام پر ہمیں ملکی معیشت کے حوالے سے مزید بری خبریں سننے کو ملیں، اداروں کی تباہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔
ادارے ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اپنے دائرہ کار میں ملک کو بہتر سے بہتر اور مضبوط اور عوام کو خوشحال بنانے کے لیے کام کرتے رہیں، اداروں کا میکنزم کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، ان کے کمزور ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کمزور ہوا ہے، گزشتہ مالی سال کے بارے میں اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ اس کا ثبوت ہے جس میں ملک کی اقتصادی حالت تشویشناک ظاہر کی گئی ہے اور اس کی بڑی ذمے داری تمام متعلقہ اداروں کی کمزوری کو قراردیا گیا ہے، ظاہر ہے گڈ گورننس کا مطلب ہی اداروں کو مضبوط بنانا ہوتا ہے کیونکہ حکومت انھی سے چلتی ہے جب ادارے کمزور ہوں گے تو کرپشن کی دیمک ان کو لگ چکی ہو گی تو کسی بھی طرح کی گڈ گورننس ممکن نہیں، اس خرابی کا سب سے بڑا اظہار عوام کی حالت زار یعنی معیشت سے ہوتا ہے۔ ملک میں تقریباً تمام ادارے بری طرح کمزور ہو چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ادارے کمزور نہیں بلکہ یکسر ناکام اور تباہ ہو چکے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال پی آئی اے کا ادارہ ہے جو کرپشن کی وجہ سے تباہی سے دو چار ہے، اب تو آئے دن پی آئی اے کے جہاز حادثات کا شکار ہو رہے ہیں، یہ ہماری اپنی قومی ایئرلائن کا حال ہے جس ملک کے ادارے خود تباہی کا شکار ہوں وہ عوام کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔
اداروں کے کام نہ کر سکنے کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں ایک سیاسی عدم استحکام اور دوسرا کرپشن جس کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ کرپشن پر قابو پانا حکومت کی ذمے داری ہے اور جو سیاسی عدم استحکام میں بھی وہ براہ راست شریک ہوتی ہے اقتدار بجائے خود مقصد نہیں ہوتا بلکہ ملک اور عوام کی خدمت کے مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ حکومت اداروں اور معیشت کو بہتر بنانے میں ناکام رہی، توانائی کا بحران، سرمایہ کاری میں کمی، ملک میں سلامتی کی مخدوش صورت حال اس کا بنیادی سبب ہیں، ملک میں سرمایہ کاری 1974کے بعد اب سب سے نچلی سطح پر ہے اس سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ اقتصادی مسائل کو جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے اور تمام سیاستدان اس پر توجہ اور اپنی صلاحیتیں مرکوز کریں۔ یہ سال جرائم کا سال رہا تو غلط نہ ہو گا، قتل و غارت، اغواء اور ڈکیتیوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی، کراچی شہر کا کوئی علاقہ ٹارگٹ کلنگ سے نہ بچ سکا، اس سال کئی گھرانوں نے اپنے پیاروں کو منوں مٹی تلے دفن کیا، کئی بچے یتیم ہوئے، کئی عورتیں بیوہ ہوئیں، کئی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، محرم الحرام میں کئی جگہ بم دھماکے ہوئے اور معصوم شہری جاں بحق ہوئے، معصوم شہریوں کے علاوہ پولیس اور رینجرز کو بھی نشانہ بنایا گیا، اب تک کئی پولیس اور رینجرز والے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
جو ادارے عوام کی حفاظت کے لیے ہیں وہ خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں تو عوام کو کیا تحفظ دے سکیں گے؟ اغواء برائے تاوان کے کافی کیس سامنے آئے۔ اغواء کاروں کی جانب سے مختلف حربے استعمال کیے جانے کے بعد ان کی پکڑ مشکل رہتی ہے۔ سال رواں میں اسٹریٹ کرائمز اپنے عروج پر رہا، لاتعداد لوگ اس کے شکار ہوئے، بچے، بوڑھے، نوجوان، عورتیں ... کراچی شہر کا کوئی فرد باقی نہیں بچا ہو گا جو اسٹریٹ کرائمز کا شکار نہ بنا ہو۔ گھروں میں ڈکیتیوں کی وارداتیں دن دہاڑے ہو رہی ہیں، کراچی میں مختلف علاقوں میں گھروں میں ڈکیتی کی وارداتیں کرنے والے گروہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، وارداتوں میں ملوث بعض گرفتار گروہوں کے ارکان سے کی گئی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ گروں میں کام کرنے والی عورتوں اور ڈرائیور مافیا نے ان وارداتوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ شہری عام طور پر ان دو کرداروں کو اپنے قریب رکھتے ہیں اور یہ دونوں خاندانوں کے تمام رازوں سے واقفیت رکھتے ہیں جس کی بناء پر وہ گھروں میں ڈکیتی و چوری کی وارداتوں میں ملوث گروہوں سے ملتے ہوتے ہیں۔رواں سال کئی بینک ڈکیتیاں ہوئیں، بینک ڈکیتیوں کے حوالے سے یہ سال بڑا خطرناک ثابت ہوا، مختلف علاقوں میں بینک ڈکیتیاں ہوئیں، پولیس حکام وارداتوں میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔
یہ سال جرائم پیشہ افراد کی کامیابی کا سال رہا۔ ایک طرف دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب رہے اور دوسری طرف ہمارے حکمران وقت اور سیاستدان اپنے جلسے جلسوں میں تقریر کرتے نظر آئے اب تک عوام کی مشکلات ویسی کی ویسی ہیں۔ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، مگر ہمارے سیاستدانوں کے بیانات میں آئے دن تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں، ملک کے حالات بد سے بدترین کی جانب گامزن ہیں عوام کے اندر اب کئی سوالات اور مایوسی پائی جاتی ہے ہمارے پاکستان کو 2012 کے سال نے اندھیروں اور کالے بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خدا کرے 2013کا سال روشنی، خوشی، اجالے کا سال ثابت ہو اور یہ کالے بادل ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں، عوام کی مایوسیاں ختم ہو جائیں، ہم عوام معجزے کے منتظر ہیں کہ کاش! ملک میں امن و امان قائم ہو جائے، ملک ترقی کی طرف پھر سے گامزن ہو جائے، خدا کرے 2013 کا سال ہمیں یہ ساری خوشیاں دے اور ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار کی ہوس کے بجائے عوام اور ملک کے لیے اقدامات کرے۔ اﷲ کرے نیا سال ہم سب پاکستانیوں کے لیے خوشیاں لے کر آئے۔
اقتصادی ماہرین کا خیال تھا کہ 2012ملک کی معیشت کے لیے مزید چیلنجز والا سال ہو گا جس میں قومی اقتصادیات کو سال 2008 جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس سال میں معیشت کو نادہندگی کے خطرات سے بچانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں یا پھر چین سمیت ان دیگر ممالک سے جن کے تعلقات پاکستان سے اچھے ہیں امداد کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق ملک کی معیشت جس ڈگر پر چل رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیندہ سال بھی ملکی معیشت کا تیزی سے ترقی کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان کے ایک اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی کا خیال ہے کہ آیندہ سال بیرونی قرضوں کی قسط کی ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشکل ترین ہو گا۔ اگر اس سال انتخابات ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی جماعت ملک سے بیرونی قرضوں کے خاتمے اور ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے پالیسیوں میں تبدیلیاں لاتی ہے تو اس کے اثرات معاشی ترقی کی رفتار کو دوبارہ تیزی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ 2012 ملک کی معیشت کے لیے اچھا سال ثابت نہ ہو سکااور ملک مہنگائی کی لپیٹ میں رہا، 2012کے اختتام پر ہمیں ملکی معیشت کے حوالے سے مزید بری خبریں سننے کو ملیں، اداروں کی تباہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔
ادارے ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اپنے دائرہ کار میں ملک کو بہتر سے بہتر اور مضبوط اور عوام کو خوشحال بنانے کے لیے کام کرتے رہیں، اداروں کا میکنزم کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، ان کے کمزور ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کمزور ہوا ہے، گزشتہ مالی سال کے بارے میں اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ اس کا ثبوت ہے جس میں ملک کی اقتصادی حالت تشویشناک ظاہر کی گئی ہے اور اس کی بڑی ذمے داری تمام متعلقہ اداروں کی کمزوری کو قراردیا گیا ہے، ظاہر ہے گڈ گورننس کا مطلب ہی اداروں کو مضبوط بنانا ہوتا ہے کیونکہ حکومت انھی سے چلتی ہے جب ادارے کمزور ہوں گے تو کرپشن کی دیمک ان کو لگ چکی ہو گی تو کسی بھی طرح کی گڈ گورننس ممکن نہیں، اس خرابی کا سب سے بڑا اظہار عوام کی حالت زار یعنی معیشت سے ہوتا ہے۔ ملک میں تقریباً تمام ادارے بری طرح کمزور ہو چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ادارے کمزور نہیں بلکہ یکسر ناکام اور تباہ ہو چکے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال پی آئی اے کا ادارہ ہے جو کرپشن کی وجہ سے تباہی سے دو چار ہے، اب تو آئے دن پی آئی اے کے جہاز حادثات کا شکار ہو رہے ہیں، یہ ہماری اپنی قومی ایئرلائن کا حال ہے جس ملک کے ادارے خود تباہی کا شکار ہوں وہ عوام کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔
اداروں کے کام نہ کر سکنے کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں ایک سیاسی عدم استحکام اور دوسرا کرپشن جس کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ کرپشن پر قابو پانا حکومت کی ذمے داری ہے اور جو سیاسی عدم استحکام میں بھی وہ براہ راست شریک ہوتی ہے اقتدار بجائے خود مقصد نہیں ہوتا بلکہ ملک اور عوام کی خدمت کے مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ حکومت اداروں اور معیشت کو بہتر بنانے میں ناکام رہی، توانائی کا بحران، سرمایہ کاری میں کمی، ملک میں سلامتی کی مخدوش صورت حال اس کا بنیادی سبب ہیں، ملک میں سرمایہ کاری 1974کے بعد اب سب سے نچلی سطح پر ہے اس سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ اقتصادی مسائل کو جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے اور تمام سیاستدان اس پر توجہ اور اپنی صلاحیتیں مرکوز کریں۔ یہ سال جرائم کا سال رہا تو غلط نہ ہو گا، قتل و غارت، اغواء اور ڈکیتیوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی، کراچی شہر کا کوئی علاقہ ٹارگٹ کلنگ سے نہ بچ سکا، اس سال کئی گھرانوں نے اپنے پیاروں کو منوں مٹی تلے دفن کیا، کئی بچے یتیم ہوئے، کئی عورتیں بیوہ ہوئیں، کئی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، محرم الحرام میں کئی جگہ بم دھماکے ہوئے اور معصوم شہری جاں بحق ہوئے، معصوم شہریوں کے علاوہ پولیس اور رینجرز کو بھی نشانہ بنایا گیا، اب تک کئی پولیس اور رینجرز والے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
جو ادارے عوام کی حفاظت کے لیے ہیں وہ خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں تو عوام کو کیا تحفظ دے سکیں گے؟ اغواء برائے تاوان کے کافی کیس سامنے آئے۔ اغواء کاروں کی جانب سے مختلف حربے استعمال کیے جانے کے بعد ان کی پکڑ مشکل رہتی ہے۔ سال رواں میں اسٹریٹ کرائمز اپنے عروج پر رہا، لاتعداد لوگ اس کے شکار ہوئے، بچے، بوڑھے، نوجوان، عورتیں ... کراچی شہر کا کوئی فرد باقی نہیں بچا ہو گا جو اسٹریٹ کرائمز کا شکار نہ بنا ہو۔ گھروں میں ڈکیتیوں کی وارداتیں دن دہاڑے ہو رہی ہیں، کراچی میں مختلف علاقوں میں گھروں میں ڈکیتی کی وارداتیں کرنے والے گروہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، وارداتوں میں ملوث بعض گرفتار گروہوں کے ارکان سے کی گئی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ گروں میں کام کرنے والی عورتوں اور ڈرائیور مافیا نے ان وارداتوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ شہری عام طور پر ان دو کرداروں کو اپنے قریب رکھتے ہیں اور یہ دونوں خاندانوں کے تمام رازوں سے واقفیت رکھتے ہیں جس کی بناء پر وہ گھروں میں ڈکیتی و چوری کی وارداتوں میں ملوث گروہوں سے ملتے ہوتے ہیں۔رواں سال کئی بینک ڈکیتیاں ہوئیں، بینک ڈکیتیوں کے حوالے سے یہ سال بڑا خطرناک ثابت ہوا، مختلف علاقوں میں بینک ڈکیتیاں ہوئیں، پولیس حکام وارداتوں میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔
یہ سال جرائم پیشہ افراد کی کامیابی کا سال رہا۔ ایک طرف دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب رہے اور دوسری طرف ہمارے حکمران وقت اور سیاستدان اپنے جلسے جلسوں میں تقریر کرتے نظر آئے اب تک عوام کی مشکلات ویسی کی ویسی ہیں۔ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، مگر ہمارے سیاستدانوں کے بیانات میں آئے دن تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں، ملک کے حالات بد سے بدترین کی جانب گامزن ہیں عوام کے اندر اب کئی سوالات اور مایوسی پائی جاتی ہے ہمارے پاکستان کو 2012 کے سال نے اندھیروں اور کالے بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ خدا کرے 2013کا سال روشنی، خوشی، اجالے کا سال ثابت ہو اور یہ کالے بادل ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں، عوام کی مایوسیاں ختم ہو جائیں، ہم عوام معجزے کے منتظر ہیں کہ کاش! ملک میں امن و امان قائم ہو جائے، ملک ترقی کی طرف پھر سے گامزن ہو جائے، خدا کرے 2013 کا سال ہمیں یہ ساری خوشیاں دے اور ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار کی ہوس کے بجائے عوام اور ملک کے لیے اقدامات کرے۔ اﷲ کرے نیا سال ہم سب پاکستانیوں کے لیے خوشیاں لے کر آئے۔