ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نعرے بازی کا دور ختم
نومنتخب امریکی صدر کو کیا چیلینج درپیش ہوں گے
کئی ماہ کی سخت انتخابی جدوجہد، مخالفین میں زبردست لفظی جنگ، الزام تراشیوں کی بھرمار کے بعد بالآخر ریپبلیکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا صدر بننے کی دوڑ جیت لی، وہ بھی اس طرح کہ تاحال دنیا بھر میں موجود بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں، مبصروں اور عام شہریوں کو بھی یقین نہیں آرہا کہ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن کو ہرادیا ہے۔ لیکن ایسا ہوچکا ہے اور سپر پاور امریکا میں تاج حکم رانی ٹرمپ کے سر پر سج گیا ہے۔ آئندہ سال جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے باقاعدہ مکین کی حیثیت حاصل کرلیں گے۔
مہذب معاشروں اور ترقی یافتہ جمہوریت کی مثال قائم کرتے ہوئے ڈیموکریٹس کی امیدوار ہلیری کلنٹن نے فوری طور پر اپنی شکست بھی تسلیم کی اور ٹرمپ کو مبارک باد پیش کی، جس کے جواب میں نومنتخب امریکی صدر نے بھی ہلیری کلنٹن کی سیاسی خدمت کو خراج تحسین پیش کیا۔
گوکہ اس مضمون کے لکھے جانے تک مختلف امریکی شہروں میں ٹرمپ کی کام یابی کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ بات حقیقت بن چکی ہے کہ ٹرمپ نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کرکے امریکی صدر کا منصب سنبھال لیا ہے۔ اب سب منتظر ہیں کہ وائٹ ہاؤس کے نئے مکین ڈونلڈ ٹرمپ باقاعدہ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد دنیا بھر میں پھیلے مسائل اور امریکیوں کے معاملات کو کس طرح حل کرتے ہیں۔
پہلا مرحلہ تو ٹرمپ کی ٹیم بنانے کا ہے، سیاسی آراء کے مطابق ٹرمپ کی ٹیم میں اُن کے بااعتماد اور ہم خیال ساتھی ہی شامل ہوں گے تاہم کوئی غیرمتوقع تقرری بھی ہوسکتی ہے۔ قارئین جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو یقینی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سی تقرریاں کردی ہوں گی۔ ہم اس مضمون میں ایک نظر نئے امریکی صدر کی ٹیم کے متوقع ارکان پر ڈالتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نو منتخب امریکی صدر کو امریکا میں اور عالمی سطح پر کس قسم کے چیلینجوں کا سامنا ہوگا۔
کامیابی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ٹرمپ نے اپنے بعض خاص وفادار ریپبلکن راہ نماؤں کی تعریف کی تھی اور امکان ہے کہ وہی افراد ان کی کابینہ کے اہم عہدوں پر فائز ہوں گے۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سخت گیر نظریات کے حامل قدامت پسند راہ نما نیوٹ گنگرچ ابتدا ہی سے ٹرمپ کے حامی رہے ہیں اور وہ ان کی کابینہ میں وزیرِخارجہ کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ کانگریس کے اسپیکر کی حیثیت سے1994 میں نیوٹ گنگرچ نے ایوان نمائندگان میں ریپبلیکنز کی اکثریت کے لیے کافی محنت کی تھی اور کام یاب ہوئے تھے۔73 سالہ گنگرچ کا تعلق جارجیا سے ہے۔ وہ بعض اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اس وقت اسپیکر کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ گنگرچ 2011 میں ریپبلیکنز کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں بھی شامل ہوئے تھے لیکن ناکام رہے تھے۔
ٹرمپ کے ایک اور بڑے حامی 44 سالہ روڈی جولیانی ہیں جن کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کابینہ میں اٹارنی جنرل کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ نائن الیون کے حملے کے وقت جولیانی ہی نیویارک کے میئر تھے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کے بعد کی مشکل صورت حال میں انھوں نے بڑی ثابت قدمی کا ثبوت دیا تھا۔
جولیانی نے ہی نیو یارک پولیس میں کسی بھی شخص کو روک کر تلاشی لینے کے عمل کو متعارف کروایا تھا جس پر بہت سے لوگوں نے یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ یہ نسلی بنیادوں پر ایک طرح کی پروفائلنگ ہے۔ روڈی جولیانی 2008 میں ریپبلیکنز کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل بھی ہوئے تھے لیکن جان مکین اور مٹ رومنی سے پیچھے رہ جانے کے باعث وہ اس دوڑ سے دست بردار ہوگئے تھے۔
44 سالہ نوجوان دکھنے والے رینس پرائبس وہائٹ ہاؤس میں چیف آف اسٹاف یعنی ٹرمپ کے مشیرخاص کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ مسٹر پرائبس کانگریس کے اسپیکر پال رائن سے قریب تصور کیے جاتے ہیں جو کانگریس میں مختلف قوانین کی منظوری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ریاست نیوجرسی کے 54 سالہ گورنر کرس کرسٹی کو وزارت تجارت کا عہدہ ملنے کا امکان ہے۔ کرس کرسٹی پہلے خود صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل تھے، لیکن پھر انھوں نے دست بردار ہوکر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ جیف ریاست الاباما سے سینیٹ کے رکن ہیں اور ان کا نام وزیرِدفاع کے لیے لیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اُن کے لیے کہا تھا کہ چوںکہ جیف بہت اسمارٹ ہیں، اس لیے واشنگٹن میں وہ بہت ہی محترم شخص ہیں۔
59 برس کے جیف سیشنز نے 2003 میں عراق پر حملے کی حمایت کی تھی لیکن ٹرمپ نے عراق پر حملے کو خطرناک بے وقوفی سے تعبیر کیا تھا۔ جیف سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی، عدالتی کمیٹی اور بجٹ کمیٹی میں حصہ لیتے ہیں۔ انھیں وزیردفاع سمیت کوئی بھی اہم عہدہ ملنے کا قوی امکان ہے۔
مائیکل فلن امریکی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور انھیں قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا فوج کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن فلن ہی تھے جنھوں نے انتخابی مہم کے دوران ان سے امریکی فوجیوں سے رابطہ کروانے میں کام یابی دلوائی۔
ٹرمپ کی کابینہ میں اسٹیون منچن وزیرخزانہ بن سکتے ہیں۔ ان کی کمپنی نے بہت سی سپر ہٹ فلمیں پیش کی ہیں۔
وزیر خارجہ کے منصب کے لیے سینیٹر باب کورکر، ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے لیے ڈیوڈ کلارک اور وزیرداخلہ کے لیے فاریسٹ لوکاس کا نام سامنے آیا ہے۔ ٹینیسی سے تعلق رکھنے والے باب کورکر اس وقت امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہ مالیاتی اصلاحات کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے 2013 میں اسلحے کے خریدار کا ماضی جاننے سے متعلق بل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
متوقع وزیروں کے یہ نام اور ان کو ملنے والے عہدے حتمی نہیں، ممکن ہے کہ ٹرمپ کسی بھی شخصیت کے حوالے سے کوئی مختلف فیصلہ کریں لیکن لگتا یہی ہے کہ وہ انھی لوگوں کو آگے لائیں گے جو ان کے زیادہ قریب ہیں۔ ٹرمپ کے لیے ایک اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اُن کی ریپبلیکن پارٹی نے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں بھی اکثریت حاصل کرلی ہے جس کے بعد انھیں کسی بھی قسم کے فیصلے یا قانون سازی کے حوالے سے کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
ٹیم کوئی بھی ہو اور ٹرمپ کسی کو بھی کوئی ذمے داری دے دیں، تمام فیصلے اور پالیسیاں امریکی مفادات کے تابع ہی ہوں گی ، ٹرمپ نے بھی جیت کے بعد اپنے پہلے خطاب میں امریکی مفادات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے اور یہ کوئی غلط بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا وہ اپنے پیشروؤں کے برعکس عالمی سیاسی منظرنامے میں کوئی ایسی تبدیلی لاسکیں گے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں جاری جنگ و جدل، کشیدگی، محاذ آرائی اور اختلافات کی تصویر میں تبدیلی آسکے؟ یہ سوال بہت اہم ہے اور اس کا جواب آئندہ دنوں میں ٹرمپ کی پالیسیاں، اُن کے فیصلے اور اقدامات ہی دیں گی۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے 100 دنوں میں کچھ اقدامات کرنے کے وعدے کیے تھے، جن میں غیرقانونی اور جرائم پیشہ20 لاکھ غیرملکیوں کی بے دخلی، اوباما کے ہر صوابدیدی اقدام کی تنسیخ، کانگریس کے ارکان پر متعدد بار منتخب ہونے پر پابندی، اقوام متحدہ کے ماحول میں تبدیلی سے متعلق تمام پروگراموں کے لیے فنڈ کی منسوخی، ایوان صدر، وائٹ ہاؤس حکام پر کسی لابی کا حصہ بننے پر پابندی، چین کو کرنسی کی ہیرا پھیری کرنے والا ملک قرار دینا، میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار، مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی، ایسے ممالک جہاں دہشت گردی جڑیں پکڑ چکی ہے وہاں سے امریکا آنے والوں پر فوری پابندی، امیگریشن اور کسٹم کے عملے میں تین گنا اضافہ اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ معاملات پر تو عمل درآمد میں کئی ماہ بل کہ کئی سال درکار ہوں گے، لیکن پہلے دو تین ماہ میں ٹرمپ کی حکومت کے عزائم کا اندازہ ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ انھوں نے ای میل اسکینڈل پر ہلیری کو بھی تفتیش کے دائرے میں لانے کی بات کی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ ایسا کرپائیں گے یا نہیں؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (NAFTA) اور ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ (TPP) بھی ایسے معاملات ہیں جن پر سب کی نظریں ہیں۔
ہلیری نے ٹی پی پی کی مخالفت کی تھی، سیاسی پنڈتوں کے مطابق ڈونلڈٹرمپ ان معاہدوں کی حمایت کرکے متعلقہ ریاستوں کے ووٹروں کو ہمیشہ کے لیے اپنی جانب کھینچ سکتے ہیں۔ ٹرمپ صحت عامہ کے حوالے سے اوباما حکومت کے قوانین کے بھی سخت مخالف جب کہ آزاد تجارت کے حامی رہے ہیں۔ وہ ان معاملات کو جس طرح ڈیل کریں گے اس سے ٹرمپ کی سیاسی چالوں، تجربے اور دوراندیشی کا پتا چل جائے گا۔
مذکورہ امریکا کے اندرونی معاملت کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کو بہت سے چیلینج درپیش ہوں گے، ایک نظر اُن پر بھی ڈالتے ہیں:
شام کی صورت حال بتدریج خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہاں روس سمیت مختلف عالمی طاقتیں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ شام میں برسرپیکار فریقین کو جنگ و جدال سے نکال کر مذاکرات کی میز پر لانے میں کام یاب ہوں گے؟
روس اور چین سے امریکا کے تعلقات بھی ایک بڑا اہم معاملہ ہے۔ ٹرمپ کے دور میں ان ملکوں کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن ٹرمپ کی ساری ٹیم کو اس ایشو پر بہت سمجھ داری کے ساتھ قدم اٹھانا ہوں گے۔
جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن اور تصفیہ کشمیر کے لیے اقدامات کرنا ٹرمپ کی سیاسی زندگی کا اہم امتحان ثابت ہوگا۔ایران اور عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے پر ڈونلڈ ٹرمپ کافی ناراض رہے ہیں۔ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ موقع ملا تو وہ اس معاہدے کو ختم کردیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی حکومت اور ایران کے درمیان محاذ آرائی بڑھتی ہے یا دونوں فریق مذاکرات کے ذریعے الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے سے دنیا بھر میں بالعموم اور امریکا میں بالخصوص مسلمانوں کو سخت تشویش ہے، مسلمانوں کے درمیان اپنا منفی امیج بہتر کرنے کے لیے ٹرمپ کی پالیسیاں اور فیصلے عالمی حالات و واقعات میں بڑی تبدیلی لاسکیں گے۔
٭ داعش اور دیگر انتہاپسند تنظیموں کی دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کارروائیاں سب کے لیے پریشان کن ہیں، نومنتخب امریکی صدر کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن کے ذریعے انتہاپسندوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا تو قلع قمع کیا جائے لیکن اس کی آڑ میں مسلمان نشانہ نہ بنیں۔ گذشتہ ادوار میں دیکھا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے دہشت گردوں سے زیادہ معصوم اور بے قصور مسلمان مغرب کی پابندیوں، سخت اقدامات اور زیادتوں کا نشانہ بنے، ایسا صرف امریکا ہی میں نہیں ہوا، دیگر مغربی ملکوں نے بھی اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات سے گریز کیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
عالمی تجارت اور یورپی یونین سے برطانیہ کا اخراج (بریگزٹ) بھی ٹرمپ حکومت کے لیے قابل توجہ ہوں گے۔ اس کے لیے ٹرمپ کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ پوری دنیا ٹرمپ کے فیصلوں کا انتظار کررہی ہے۔ انتخابی مہم میں اُن کے بیانات اور نعروں نے بہت سے حلقوں میں بے یقینی پیدا کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ٹرمپ اپنے اقدامات کے ذریعے اپنے بارے میں موجود منفی باتوں کا خاتمہ کریں۔
مہذب معاشروں اور ترقی یافتہ جمہوریت کی مثال قائم کرتے ہوئے ڈیموکریٹس کی امیدوار ہلیری کلنٹن نے فوری طور پر اپنی شکست بھی تسلیم کی اور ٹرمپ کو مبارک باد پیش کی، جس کے جواب میں نومنتخب امریکی صدر نے بھی ہلیری کلنٹن کی سیاسی خدمت کو خراج تحسین پیش کیا۔
گوکہ اس مضمون کے لکھے جانے تک مختلف امریکی شہروں میں ٹرمپ کی کام یابی کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ بات حقیقت بن چکی ہے کہ ٹرمپ نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کرکے امریکی صدر کا منصب سنبھال لیا ہے۔ اب سب منتظر ہیں کہ وائٹ ہاؤس کے نئے مکین ڈونلڈ ٹرمپ باقاعدہ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد دنیا بھر میں پھیلے مسائل اور امریکیوں کے معاملات کو کس طرح حل کرتے ہیں۔
پہلا مرحلہ تو ٹرمپ کی ٹیم بنانے کا ہے، سیاسی آراء کے مطابق ٹرمپ کی ٹیم میں اُن کے بااعتماد اور ہم خیال ساتھی ہی شامل ہوں گے تاہم کوئی غیرمتوقع تقرری بھی ہوسکتی ہے۔ قارئین جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو یقینی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سی تقرریاں کردی ہوں گی۔ ہم اس مضمون میں ایک نظر نئے امریکی صدر کی ٹیم کے متوقع ارکان پر ڈالتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نو منتخب امریکی صدر کو امریکا میں اور عالمی سطح پر کس قسم کے چیلینجوں کا سامنا ہوگا۔
کامیابی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ٹرمپ نے اپنے بعض خاص وفادار ریپبلکن راہ نماؤں کی تعریف کی تھی اور امکان ہے کہ وہی افراد ان کی کابینہ کے اہم عہدوں پر فائز ہوں گے۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سخت گیر نظریات کے حامل قدامت پسند راہ نما نیوٹ گنگرچ ابتدا ہی سے ٹرمپ کے حامی رہے ہیں اور وہ ان کی کابینہ میں وزیرِخارجہ کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ کانگریس کے اسپیکر کی حیثیت سے1994 میں نیوٹ گنگرچ نے ایوان نمائندگان میں ریپبلیکنز کی اکثریت کے لیے کافی محنت کی تھی اور کام یاب ہوئے تھے۔73 سالہ گنگرچ کا تعلق جارجیا سے ہے۔ وہ بعض اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اس وقت اسپیکر کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ گنگرچ 2011 میں ریپبلیکنز کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں بھی شامل ہوئے تھے لیکن ناکام رہے تھے۔
ٹرمپ کے ایک اور بڑے حامی 44 سالہ روڈی جولیانی ہیں جن کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کابینہ میں اٹارنی جنرل کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ نائن الیون کے حملے کے وقت جولیانی ہی نیویارک کے میئر تھے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کے بعد کی مشکل صورت حال میں انھوں نے بڑی ثابت قدمی کا ثبوت دیا تھا۔
جولیانی نے ہی نیو یارک پولیس میں کسی بھی شخص کو روک کر تلاشی لینے کے عمل کو متعارف کروایا تھا جس پر بہت سے لوگوں نے یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ یہ نسلی بنیادوں پر ایک طرح کی پروفائلنگ ہے۔ روڈی جولیانی 2008 میں ریپبلیکنز کی جانب سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل بھی ہوئے تھے لیکن جان مکین اور مٹ رومنی سے پیچھے رہ جانے کے باعث وہ اس دوڑ سے دست بردار ہوگئے تھے۔
44 سالہ نوجوان دکھنے والے رینس پرائبس وہائٹ ہاؤس میں چیف آف اسٹاف یعنی ٹرمپ کے مشیرخاص کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ مسٹر پرائبس کانگریس کے اسپیکر پال رائن سے قریب تصور کیے جاتے ہیں جو کانگریس میں مختلف قوانین کی منظوری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ریاست نیوجرسی کے 54 سالہ گورنر کرس کرسٹی کو وزارت تجارت کا عہدہ ملنے کا امکان ہے۔ کرس کرسٹی پہلے خود صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل تھے، لیکن پھر انھوں نے دست بردار ہوکر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ جیف ریاست الاباما سے سینیٹ کے رکن ہیں اور ان کا نام وزیرِدفاع کے لیے لیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اُن کے لیے کہا تھا کہ چوںکہ جیف بہت اسمارٹ ہیں، اس لیے واشنگٹن میں وہ بہت ہی محترم شخص ہیں۔
59 برس کے جیف سیشنز نے 2003 میں عراق پر حملے کی حمایت کی تھی لیکن ٹرمپ نے عراق پر حملے کو خطرناک بے وقوفی سے تعبیر کیا تھا۔ جیف سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی، عدالتی کمیٹی اور بجٹ کمیٹی میں حصہ لیتے ہیں۔ انھیں وزیردفاع سمیت کوئی بھی اہم عہدہ ملنے کا قوی امکان ہے۔
مائیکل فلن امریکی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور انھیں قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا فوج کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن فلن ہی تھے جنھوں نے انتخابی مہم کے دوران ان سے امریکی فوجیوں سے رابطہ کروانے میں کام یابی دلوائی۔
ٹرمپ کی کابینہ میں اسٹیون منچن وزیرخزانہ بن سکتے ہیں۔ ان کی کمپنی نے بہت سی سپر ہٹ فلمیں پیش کی ہیں۔
وزیر خارجہ کے منصب کے لیے سینیٹر باب کورکر، ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے لیے ڈیوڈ کلارک اور وزیرداخلہ کے لیے فاریسٹ لوکاس کا نام سامنے آیا ہے۔ ٹینیسی سے تعلق رکھنے والے باب کورکر اس وقت امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہ مالیاتی اصلاحات کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے 2013 میں اسلحے کے خریدار کا ماضی جاننے سے متعلق بل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
متوقع وزیروں کے یہ نام اور ان کو ملنے والے عہدے حتمی نہیں، ممکن ہے کہ ٹرمپ کسی بھی شخصیت کے حوالے سے کوئی مختلف فیصلہ کریں لیکن لگتا یہی ہے کہ وہ انھی لوگوں کو آگے لائیں گے جو ان کے زیادہ قریب ہیں۔ ٹرمپ کے لیے ایک اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اُن کی ریپبلیکن پارٹی نے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں بھی اکثریت حاصل کرلی ہے جس کے بعد انھیں کسی بھی قسم کے فیصلے یا قانون سازی کے حوالے سے کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
ٹیم کوئی بھی ہو اور ٹرمپ کسی کو بھی کوئی ذمے داری دے دیں، تمام فیصلے اور پالیسیاں امریکی مفادات کے تابع ہی ہوں گی ، ٹرمپ نے بھی جیت کے بعد اپنے پہلے خطاب میں امریکی مفادات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے اور یہ کوئی غلط بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا وہ اپنے پیشروؤں کے برعکس عالمی سیاسی منظرنامے میں کوئی ایسی تبدیلی لاسکیں گے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں جاری جنگ و جدل، کشیدگی، محاذ آرائی اور اختلافات کی تصویر میں تبدیلی آسکے؟ یہ سوال بہت اہم ہے اور اس کا جواب آئندہ دنوں میں ٹرمپ کی پالیسیاں، اُن کے فیصلے اور اقدامات ہی دیں گی۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے 100 دنوں میں کچھ اقدامات کرنے کے وعدے کیے تھے، جن میں غیرقانونی اور جرائم پیشہ20 لاکھ غیرملکیوں کی بے دخلی، اوباما کے ہر صوابدیدی اقدام کی تنسیخ، کانگریس کے ارکان پر متعدد بار منتخب ہونے پر پابندی، اقوام متحدہ کے ماحول میں تبدیلی سے متعلق تمام پروگراموں کے لیے فنڈ کی منسوخی، ایوان صدر، وائٹ ہاؤس حکام پر کسی لابی کا حصہ بننے پر پابندی، چین کو کرنسی کی ہیرا پھیری کرنے والا ملک قرار دینا، میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار، مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی، ایسے ممالک جہاں دہشت گردی جڑیں پکڑ چکی ہے وہاں سے امریکا آنے والوں پر فوری پابندی، امیگریشن اور کسٹم کے عملے میں تین گنا اضافہ اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ معاملات پر تو عمل درآمد میں کئی ماہ بل کہ کئی سال درکار ہوں گے، لیکن پہلے دو تین ماہ میں ٹرمپ کی حکومت کے عزائم کا اندازہ ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ انھوں نے ای میل اسکینڈل پر ہلیری کو بھی تفتیش کے دائرے میں لانے کی بات کی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ ایسا کرپائیں گے یا نہیں؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (NAFTA) اور ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ (TPP) بھی ایسے معاملات ہیں جن پر سب کی نظریں ہیں۔
ہلیری نے ٹی پی پی کی مخالفت کی تھی، سیاسی پنڈتوں کے مطابق ڈونلڈٹرمپ ان معاہدوں کی حمایت کرکے متعلقہ ریاستوں کے ووٹروں کو ہمیشہ کے لیے اپنی جانب کھینچ سکتے ہیں۔ ٹرمپ صحت عامہ کے حوالے سے اوباما حکومت کے قوانین کے بھی سخت مخالف جب کہ آزاد تجارت کے حامی رہے ہیں۔ وہ ان معاملات کو جس طرح ڈیل کریں گے اس سے ٹرمپ کی سیاسی چالوں، تجربے اور دوراندیشی کا پتا چل جائے گا۔
مذکورہ امریکا کے اندرونی معاملت کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کو بہت سے چیلینج درپیش ہوں گے، ایک نظر اُن پر بھی ڈالتے ہیں:
شام کی صورت حال بتدریج خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہاں روس سمیت مختلف عالمی طاقتیں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ شام میں برسرپیکار فریقین کو جنگ و جدال سے نکال کر مذاکرات کی میز پر لانے میں کام یاب ہوں گے؟
روس اور چین سے امریکا کے تعلقات بھی ایک بڑا اہم معاملہ ہے۔ ٹرمپ کے دور میں ان ملکوں کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن ٹرمپ کی ساری ٹیم کو اس ایشو پر بہت سمجھ داری کے ساتھ قدم اٹھانا ہوں گے۔
جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن اور تصفیہ کشمیر کے لیے اقدامات کرنا ٹرمپ کی سیاسی زندگی کا اہم امتحان ثابت ہوگا۔ایران اور عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے پر ڈونلڈ ٹرمپ کافی ناراض رہے ہیں۔ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ موقع ملا تو وہ اس معاہدے کو ختم کردیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی حکومت اور ایران کے درمیان محاذ آرائی بڑھتی ہے یا دونوں فریق مذاکرات کے ذریعے الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے سے دنیا بھر میں بالعموم اور امریکا میں بالخصوص مسلمانوں کو سخت تشویش ہے، مسلمانوں کے درمیان اپنا منفی امیج بہتر کرنے کے لیے ٹرمپ کی پالیسیاں اور فیصلے عالمی حالات و واقعات میں بڑی تبدیلی لاسکیں گے۔
٭ داعش اور دیگر انتہاپسند تنظیموں کی دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کارروائیاں سب کے لیے پریشان کن ہیں، نومنتخب امریکی صدر کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن کے ذریعے انتہاپسندوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا تو قلع قمع کیا جائے لیکن اس کی آڑ میں مسلمان نشانہ نہ بنیں۔ گذشتہ ادوار میں دیکھا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے دہشت گردوں سے زیادہ معصوم اور بے قصور مسلمان مغرب کی پابندیوں، سخت اقدامات اور زیادتوں کا نشانہ بنے، ایسا صرف امریکا ہی میں نہیں ہوا، دیگر مغربی ملکوں نے بھی اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات سے گریز کیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔
عالمی تجارت اور یورپی یونین سے برطانیہ کا اخراج (بریگزٹ) بھی ٹرمپ حکومت کے لیے قابل توجہ ہوں گے۔ اس کے لیے ٹرمپ کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ پوری دنیا ٹرمپ کے فیصلوں کا انتظار کررہی ہے۔ انتخابی مہم میں اُن کے بیانات اور نعروں نے بہت سے حلقوں میں بے یقینی پیدا کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ٹرمپ اپنے اقدامات کے ذریعے اپنے بارے میں موجود منفی باتوں کا خاتمہ کریں۔