امریکی کلیدی ٹیم کیا ہے

امریکا میں صدرکی تبدیلی سے تمام اہم شعبوں کے سرکاری سربراہ تبدیل ہوجاتے ہیں

raomanzarhayat@gmail.com

گزشتہ دنوں میں ٹرمپ نے تین انتہائی اہم اعلان کیے ہیں۔اعلانات میں کلیدی تعیناتیاں بتائی گئی ہیں۔ یاد رہنا چاہیے کہ امریکا میں صدرکی تبدیلی سے تمام اہم شعبوں کے سرکاری سربراہ تبدیل ہوجاتے ہیں۔سیاسی ماہرین اسےSpoil Systemگردانتے ہیں۔یعنی جیسے ہی صدرتبدیل ہو،اس کی پسندکی ٹیم ہرمحکمہ میں سامنے آجاتی ہے۔یہ تعیناتیاں دس بارہ نہیں بلکہ چارہزارکے قریب ہیں۔آج تک صرف تین شخصیات کے عہدوں کااعلان کیا گیاہے۔

سینیٹرجیف سیشنز(Jeff Sesions)کو امریکا کااٹارنی جنرل مقررکیاگیاہے۔جب صدراپنے عہدے کاحلف لیگا،اسی وقت یہ تعیناتی بھی موثر ہوجائیگی۔ مائک پوم پیو(Mike Pompeo)کوسی آئی اے کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے۔یہ سی آئی اے جیسے طاقتور اور مہیب ادارے کاسربراہ ہوتا ہے۔تیسرااعلان مائیکل فلن کے متعلق ہے۔اسے قومی سلامتی کامشیرمتعین کیا گیا ہے۔ ان اہم ترین اعلانات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ٹرمپ اپنے ذہن میں کیاسوچ رکھتا ہے اوراس کے ارادے کیاہیں۔

سینیٹرجیف سیشنزکاتعلق الاباماسے ہے۔گزشتہ بیس سال سے لگاتاراپنے علاقے سے سنیٹرمنتخب ہوتا آیا ہے۔ جیف کاٹرمپ پرغیرمعمولی حدتک اثرہے۔مائک پینس (Mike Pence)کونائب صدربنوانے میں جیف کاہی ہاتھ ہے۔وہی ٹرمپ اورمنتخب نائب صدرکوایک دوسرے کے قریب لے کرآیاتھا۔شعبے کے لحاظ سے وکیل ہے۔جیف امریکا میں غیرملکیوں کوشہریت دینے کے سخت خلاف ہے۔

گزشتہ بیس سال میںہراس قانون سازی کی مخالفت کی ہے جوکسی بھی صورت میں امریکا میں قیام پذیرافرادکوامریکی شہریت دے سکتاتھا۔امریکا میں یہ عام سی روایت ہے کہ ہردس بارہ سال کے بعدحکومت ایک سہولتی اسکیم نکالتی ہے۔ اس میں غیرقانونی طورپرامریکا میں مقیم لوگوں سے چند ضابطے اوراصول منواکرقانونی شہریت دے دی جاتی ہے۔ جیف اس سہولتی اسکیم کاشدیدنقادہے بلکہ اس سے نفرت کرتا ہے۔گزشتہ بیس برسوں میں ہرسطح پرامریکا میں غیرملکیوں کو شہریت لینے کے ہرقانون پرشدیدتنقیدکی ہے۔اسے جرم قراردیاہے اورکھل کرمذاق اُڑایاہے۔

اس کی فکربالکل صاف ہے۔امریکا صرف اورصرف سفیدامریکیوں کاہے۔باقی کسی کوبھی ان کی برابری کاحق حاصل نہیں۔اگردیکھاجائے تو یہ سوچ امریکی نظام کی فکری بنیادسے متصادم ہے۔ 2007ء میں جیف نے ایک قانون پاس کروایاجسکی بدولت اگر کوئی بھی امریکی اپنے کام کے لیے غیرقانونی امریکی شہریوں کو استعمال کریگاتواسے دس برس کی سزادی جاسکے گی۔تیس برس پہلے جیف کوجج بنانے کااعلان کیاگیا۔جب کیس سلیکشن کمیٹی کے سامنے پیش ہواتواس پرالزام تھاکہ سیاہ فام لوگوں سے انتہائی تضحیک آمیزسلوک کرتاہے۔کئی مرتبہ ایک سیاہ فام آدمی کوسختی سے دھمکی دی کہ سفیدفام لوگوں سے احتیاط سے بات کیاکرے۔ایک اورجگہ جیف نے دائیں بازوکی دہشتگردتنظیم کوکوکلین کی بھی بہت تعریف کی۔

بیان دیا کہ ان میں کوئی خرابی نہیں۔مسلمانوں کی امریکا آنے پر پابندی بھی جیف کی پالیسیوں کاتسلسل ہیں۔خوداندازہ لگا لیجیے کہ سیشنزعملی طورپرکتنی سخت گیری کریگا۔کس کس طرح سے غیرسفیدلوگوں کوتعصب کانشانہ بنائیگا۔ڈونلڈٹرمپ نے اپنی مہم میں جوکچھ کہا،من وعن اس پرعمل کرنے کے لیے یہ تعیناتی آنے والے وقت کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔

سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹرمائک پومپیوبھی انتہائی مشکل خیالات کامالک ہے۔2015ء میں پومپیونے ایک قانون پاس کروایاجسکانام"Liberty through strength Act"تھا۔اس قانون کے مطابق امریکا کے ریاستی اداروں بالخصوص ایف بی آئی کولامحدوداختیارات دینے کااعلان کیاگیاتھا۔پومپیوکے مطابق ایف بی آئے کے پاس ہرامریکی کی نجی اورغیرنجی زندگی میں دخل دینے کا مکمل اختیارہوناچاہیے۔ریاستی اداروں کومزید طاقتور بنانا چاہتاہے۔ذہن میں رہے کہ آج بھی ایف بی آئے کے پاس قانونی طورپرکسی بھی شخص کی تفتیش کرنے کامکمل اختیار ہے۔وہ جوچاہیں،کرسکتے ہیں۔

مگرپومپیوان اختیارات کو وہاں تک لے جاناچاہتاہے جہاں قانون اس کے سامنے بے بس ہوجائے۔آپکویادہوگاکہ ایڈورڈسنوڈاؤن نام کے ایک شخص نے ایف بی آئے کے متعددرازدنیاکے سامنے کھول دیے تھے۔جس میں ان کے خوفناک جرائم بھی پہلی بارلوگوں کے سامنے لائے گئے تھے۔پومپیوکے بقول ایڈورڈسنو ڈاؤن ایک غدارہے اوراسے قتل کردینا چاہیے۔ وہ صرف اور صرف سزائے موت کاحقدارہے۔اسی طرح گواٹانامہ بے جیل کے متعلق اس کے خیالات بہت واضح ہیں۔القائدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں گواٹانامہ بے جیل کاقیام کا مقصدصرف یہ تھاکہ اس پرامریکی عدالتی قوانین لاگونہیں ہوتے۔جیل کے اندرہرطرح کاظلم روا رکھا گیا۔انسانی حقوق کی پرواہ کیے بغیریہ وہ عقوبت خانہ ہے جہاں قیدی کے ساتھ ہرظلم روارکھاجا سکتا ہے۔


شائدلوگ بھول رہے ہوں کہ یہاں لوگ سال ہاسال قیدرہے اور متعدد لوگ بے قصورثابت ہوئے۔دہشتگردوں کے لیے یہ سلوک ٹھیک ہے مگر بے قصورلوگوں کے لیے یہ جیل ہمیشہ ظلم کانشان رہی۔پومپیوکے بقول یہ جیل بالکل ٹھیک بنائی گئی بلکہ اسکومزیدفعال ہونا چاہیے۔پومپیواس عقوبت خانے میں بے قصورلوگوں کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کرتا۔جب بھی کوئی قیدی اس جیل سے رِہاہوتاتھاتوپومپیواس کے آزاد ہونے کامذاق اُڑاتا تھا۔ ہمیشہ لوگوں کواس رہائی کے متعلق کہتاتھاکہ اب یہ دہشتگرد آپکاہمسایہ بن سکتاہے۔

اس کے نزدیک مسلمان دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ جیل ایک اثاثہ ہے اوراس میں ہرطریقہ سے قیدیوں پرہرجبر روارکھناچاہیے۔امریکا میں تمام انسانی حقوق کی تنظیموں نے پومپیوکے اس غیرسنجیدہ رویہ کی مذمت کی ہے۔ایران کے ساتھ نیوکلیئرڈیل کابھی سخت ناقد ہے۔ مسلمانوں کے نام کاذکرکیے بغیر،یہ شخص مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کاکوئی تعلق رکھنے کاروادارنہیں۔

مائیکل فلن قومی سیکیورٹی کامشیربنایاگیاہے۔ایک ریٹائرڈجنرل ہے۔انٹیلی جنس اوردہشتگردی کے خلاف اس کا وسیع وعریض تجربہ ہے۔مسلمانوں کے اندورنی مسائل،فرقہ وارانہ رویوں اورتمدن کے متعلق اس کی آگاہی غیرمعمولی ہے۔ طالبان سے لڑتے ہوئے اس نےGranular theory پیش کی تھی۔جس میں کہاگیاہے کہ دہشتگردوں کومارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

بلکہ ان لوگوں کی ذہنی ساخت اور ردِعمل کوجانچنااورپرکھنااَشدضروری ہے۔ مسلمانوں کے خلاف فلن کے بیانات اورخیالات بالکل ڈھکے چھپے نہیں۔ روس کے ساتھ فلن کے انتہائی نزدیکی تعلقات ہیں۔ 2014ء میں ریٹائرمنٹ کے بعدپوٹن کواپناپسندیدہ لیڈر تسلیم کرتاہے۔اس کے مطابق روس اورامریکا کومتحد ہو کر مسلمان دہشتگردوں سے لڑناچاہیے۔ان کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔شام میں بھی بشارت لاسدکی حکومت کوبرقرار دیکھنا چاہتاہے۔میڈیاکے بڑے بڑے چینلزکے متعلق اس کے خیالات انتہائی عجیب ہیں۔اس کے نزدیک سی این این مکمل طور پرحکومتی نشریاتی ادارہ ہے۔

اس طرح کے نشریاتی اداروں کومزیدحکومتی اثرکے نیچے ہوناچاہیے۔تحریراورابلاغ کی آزادی کے سخت خلاف ہے۔اس کے نزدیک MSNBC اور سکائی نیوزجیسے ادارے کومکمل طورپرحکومت کی ترجمانی کرنی چاہیے۔اوباما سے بنیادی اختلاف اس بات پرشروع ہوا کہ شام میں بشارت کی حکومت کوقطعاًغیرمستحکم نہیں کرنا چاہیے تھا۔بشارت اَل اسدکے خلاف جنگ میں ہیلری کلنٹن کے بھی سخت خلاف ہے۔اس کے مطابق ہیلری کوتاہیوں کی وجہ سے صرف اورصرف جیل میں ہونی چاہیے۔اس نے دنیامیں صرف اورصرف انتشار پھیلایا ہے۔

فلن کے نزدیک ڈکٹیٹر شپ کوئی بری بات نہیں۔ پیوٹن کے متعلق کہتاہے کہ بلاشبہ وہ ایک ڈکٹیٹرہے مگر ایک عقلمندلیڈرہے۔کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسکاعام لوگوں سے کیساسلوک ہے۔کتنی قتل وغارت کرتا یاکرواتاہے اوراس نے انسانی حقوق کی کس قدر خلاف ورزی کی ہے۔فلن کے نزدیک یہ سب کچھ بالکل جائز ہے۔ڈونلڈٹرمپ کوجتنی بھی حساس معاملات میں بریفینگز دی جاتی ہے،فلن ہرایک میں موجود ہوتا ہے۔ فلن اپنے لیڈریعنی ٹرمپ پرغیرمعمولی اثر رکھتا ہے۔ الیکشن کی پوری مہم میں فلن سائے کی طرح ٹرمپ کے ساتھ رہا ہے۔اسلامی دنیاسے تعلقات کے متعلق ٹرمپ اس کے خیالات سے شدیدمتاثرہے۔

اٹارنی جنرل،سی آئی اے اورقومی سلامتی کے نئے مشیرکے بعدکسی کوبھی غلط فہمی کاشکارنہیں رہنا چاہیے۔ ٹرمپ اپنے انتخابی اعلانات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس کی ٹیم میںوہ تمام انتہاپسندافرادموجودہیں جواس کی حکمت عملی کو من وعن کامیاب بنائینگے۔کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایوان صدر میں منتقل ہوناہے۔کئی مسلم ممالک کی جغرافیائی سرحدیں بھی تبدیل ہوسکتی ہیں۔دہشتگردی کوختم کرنے کے جواز پر انتہائی مہیب نئی جنگوں کی ابتداہوسکتی ہے۔مسلمان ممالک کے ناپسندیدہ سربراہان کوبھی جائزیاناجائزطریقے سے بساط سے ہٹایا جا سکتاہے۔

یہ سب کچھ امریکا کومحفوظ بنانے کے نام پر کیا جائے گا۔ہمارے پاس کوئی ایسامستندادارہ نہیں ہے جو غیرجذباتی طریقے سے امریکا میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں پرمدلل تحقیق کرے۔بے لاگ اورانتہائی سنجیدہ تجزیے کرے۔مقتدرلوگوں کوآگاہ کرے کہ ہمارے ملک کے لیے کیانئے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔پاکستانی نزاد امریکی شہری کن مشکلات کاشکارہوسکتے ہیں۔ان تمام مسائل کاحل کیاہے۔مجھے تودوردورتک کوئی منطقی طرزعمل نظر نہیں آرہا۔ہم ہرچیزسے بے نیازہوکرایک دوسرے کے گریبان پرہاتھ ڈال کربے مقصدشوروغوغاکررہے ہیں۔ ہر جانب ایک قیامت انگیزخاموشی ہے۔آنے والے وقت کی دشواریاں جانچنے کے لیے کسی کے پاس کوئی وقت نہیں۔پریہ بھی ہوسکتاہے کہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل چکاہو!
Load Next Story