گڈانی کے بعد نورانی
گڈانی کا سانحہ اتفاقی طور پر لگنے والی آگ سے پیش آیا اور شاہ نورانی کا سانحہ سوچی سمجھی دہشتگردی تھا
گڈانی کے المیے کے صرف چند دن بعد نورانی کا وہ سانحہ پیش آیا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 34افراد ہلاک اور 42افراد زخمی ہوئے۔ ان دونوں سانحات میں فرق یہ ہے کہ گڈانی کا سانحہ اتفاقی طور پر لگنے والی آگ سے پیش آیا اور شاہ نورانی کا سانحہ سوچی سمجھی دہشتگردی تھا۔ شاہ نورانی کا مزار کراچی سے دو سو کلومیٹر دور بلوچستان کے علاقے میں واقع ہے۔
نورانی ایک مصروف جگہ ہے جہاں ہر روز سیکڑوں افراد شاہ نورانی کے مزار پر جاتے ہیں۔ نورانی کا علاقہ ایک پہاڑی علاقہ ہے، جس کے قرب و جوار میں نہ کوئی آبادی ہے، نہ اسپتال۔ مزار کے اردگرد کا علاقہ اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔
ایدھی ذرایع کا کہنا ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دھماکے سے متاثر ہونے والوں کے اعضاء دور دور تک بھکرے ہوئے تھے اور زخمی بھی اندھیروں میں پڑے امداد کے منتظر تھے، لیکن گھور اندھیرا ریسکیو آپریشن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ حکومت بلوچستان کو یہ علم یقیناً ہو گا کہ اس دور دراز پہاڑی علاقے میں کوئی حادثہ پیش آئے تو متاثرین کی بروقت مدد کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر نورانی کے مزار کے قریب طبی سہولتوں سمیت ایسی تمام سہولتوں کا انتظام ضروری تھا جو کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں ناگزیر ہوتی ہیں۔
اگرچہ ایدھی کی ایمبولینسوں کا قافلہ دھماکے کی اطلاع ملنے کے بعد فوری نورانی کی سمت روانہ کر دیا گیا تھا لیکن دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جائے حادثہ تک پہنچنے کے دوران جانے کتنے زخمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سو کے قریب زخمیوں کو نورانی سے کراچی کے اسپتالوں تک پہنچانے میں جو وقت لگا وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑنے والوں کے لیے کسی قدر تکلیف دہ رہا ہو گا، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
اس دھماکے کے دوسرے دن تک یہی پتہ نہ چل سکا کہ دھماکا خودکش تھا یا پلانٹڈ۔ دوسرے دن بتایا گیا کہ خودکش بمبار کا سر مل گیا ہے۔تادم تحریر کسی دہشتگرد تنظیم نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ ورنہ کوئی نہ کوئی خدا ترس تنظیم بڑے فخر سے یہ اعلان کرتی ہے کہ یہ ''کارنامہ'' اس نے انجام دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے بار بار یہ اعلان کیے جاتے ہیں کہ دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، لیکن ان اعلانات کی ناک کے نیچے کسی نہ کسی علاقے میں دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی سے کشمیر تک پھیلے ہوئے طویل علاقے میں جہاں ہزاروں بستیاں اور شہر آباد ہیں اور جس ملک میں 20 کروڑ انسان رہتے ہوں، منظم اور منصوبہ بند دہشتگردی کو روکنا مشکل ہے۔
لیکن بدقسمتی اس حوالے سے حادثات کے بعد کیے جانے والے انتظامات اگر اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے سے پہلے کر لیے جائیں تو بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔شاہ نورانی کا مزار کراچی سے دو سوکلو میٹر دور ہے۔ قریبی علاقوں میں حب اور خضدار شامل ہیں لیکن ان بستیوں میں ایسی طبی سہولتیں میسر نہیں جو کسی ناگہانی میں ضروری ہوتی ہیں۔ حب ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کئی کارخانے موجود ہیں اور کراچی سے مزدور طبقہ صبح حب جاتا ہے اور شام کو کراچی واپس آتا ہے۔
جس آبادی میں بڑی تعداد میں کارخانے موجود ہوں اور جہاں ہزاروں کارکن کام کرتے ہوں وہاں کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے اور حادثات سے متاثر ہونے والوں کو بروقت طبی امداد مہیا کرنے کے لیے حب میں کوئی ایسا اسپتال موجود نہیں جو ناگہانی حادثات سے متاثر ہونے والوں کو فوری طبی امدادی سہولتیں فراہم کر سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس علاقے سے متاثرین کو کراچی کے اسپتالوں میں لایا جاتا ہے۔ شاہ نورانی حب سے بھی کافی دوری پر واقع ہے، دو سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے متاثرین کو کراچی تک پہنچانے تک کافی نقصان ہو جاتا ہے۔ شاہ نورانی کے سانحہ میں بھی یہی ہوا، زخمی رات بھر طبی سہولتوں کا انتظار کرتے رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں دہشتگردی کے سانحات کی جو بھرمار تھی وہ اب نہیں رہی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے مختلف حصوں خصوصاً پختونخوا میں آئے دن کوئی نہ کوئی دہشتگردی کی واردات ہوتی ہی رہتی ہے۔ شمالی وزیرستان میں بھی اگرچہ دہشتگردوں کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیاگیا ہے لیکن وہاں بھی دور دراز علاقوں میں قائم سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور سیکیورٹی فورسز کو سڑکوں کے کنارے بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ فرقہ واریت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کسی قیمت پر سیکیورٹی فورسز کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اس خطرناک ٹارگٹ کلنگ کو ختم کرنے کے لیے مختلف فقہی نمایندوں کو خلوص نیت سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنا ہو گا۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق شاہ نورانی کے خودکش بمبار کی عمر 18، 17 سال ہے اور اس کا تعلق افغانستان سے بتایا جا رہا ہے۔ دو عشرے ہونے کو آ رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں نے اب تک قبائلی علاقوں کے عوام میں فکری تبدیلی کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ جب تک ایک منظم طریقے سے قبائلی عوام میں فکری تبدیلی نہیں لائی جاتی، یہ علاقے دھڑلے سے خودکش بمبار پیدا کرتے رہیں گے۔
بلوچستان کا شمار بھی قبائلی اور سرداری نظام میں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں موجود جہل خودکش بمبار اور دہشتگرد پیدا کر رہی ہے۔ یہاں لازمی اور مفت تعلیم کا اہتمام ضروری ہے اور حساس اور دور دراز علاقوں میں طبی سہولتوں اور تیز ٹرانسپورٹ سہولتوں کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ ہمارے حکمران جب کوئی دہشتگردی ہو جاتی ہے تو ہائی الرٹ کا اعلان کرتے ہیں جب کہ حالات کا تقاضا ہے کہ حساس علاقوں میں ہر وقت ہائی الرٹ رہے۔
نورانی ایک مصروف جگہ ہے جہاں ہر روز سیکڑوں افراد شاہ نورانی کے مزار پر جاتے ہیں۔ نورانی کا علاقہ ایک پہاڑی علاقہ ہے، جس کے قرب و جوار میں نہ کوئی آبادی ہے، نہ اسپتال۔ مزار کے اردگرد کا علاقہ اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔
ایدھی ذرایع کا کہنا ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دھماکے سے متاثر ہونے والوں کے اعضاء دور دور تک بھکرے ہوئے تھے اور زخمی بھی اندھیروں میں پڑے امداد کے منتظر تھے، لیکن گھور اندھیرا ریسکیو آپریشن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ حکومت بلوچستان کو یہ علم یقیناً ہو گا کہ اس دور دراز پہاڑی علاقے میں کوئی حادثہ پیش آئے تو متاثرین کی بروقت مدد کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر نورانی کے مزار کے قریب طبی سہولتوں سمیت ایسی تمام سہولتوں کا انتظام ضروری تھا جو کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں ناگزیر ہوتی ہیں۔
اگرچہ ایدھی کی ایمبولینسوں کا قافلہ دھماکے کی اطلاع ملنے کے بعد فوری نورانی کی سمت روانہ کر دیا گیا تھا لیکن دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جائے حادثہ تک پہنچنے کے دوران جانے کتنے زخمی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سو کے قریب زخمیوں کو نورانی سے کراچی کے اسپتالوں تک پہنچانے میں جو وقت لگا وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑنے والوں کے لیے کسی قدر تکلیف دہ رہا ہو گا، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
اس دھماکے کے دوسرے دن تک یہی پتہ نہ چل سکا کہ دھماکا خودکش تھا یا پلانٹڈ۔ دوسرے دن بتایا گیا کہ خودکش بمبار کا سر مل گیا ہے۔تادم تحریر کسی دہشتگرد تنظیم نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ ورنہ کوئی نہ کوئی خدا ترس تنظیم بڑے فخر سے یہ اعلان کرتی ہے کہ یہ ''کارنامہ'' اس نے انجام دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے بار بار یہ اعلان کیے جاتے ہیں کہ دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، لیکن ان اعلانات کی ناک کے نیچے کسی نہ کسی علاقے میں دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی سے کشمیر تک پھیلے ہوئے طویل علاقے میں جہاں ہزاروں بستیاں اور شہر آباد ہیں اور جس ملک میں 20 کروڑ انسان رہتے ہوں، منظم اور منصوبہ بند دہشتگردی کو روکنا مشکل ہے۔
لیکن بدقسمتی اس حوالے سے حادثات کے بعد کیے جانے والے انتظامات اگر اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے سے پہلے کر لیے جائیں تو بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔شاہ نورانی کا مزار کراچی سے دو سوکلو میٹر دور ہے۔ قریبی علاقوں میں حب اور خضدار شامل ہیں لیکن ان بستیوں میں ایسی طبی سہولتیں میسر نہیں جو کسی ناگہانی میں ضروری ہوتی ہیں۔ حب ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کئی کارخانے موجود ہیں اور کراچی سے مزدور طبقہ صبح حب جاتا ہے اور شام کو کراچی واپس آتا ہے۔
جس آبادی میں بڑی تعداد میں کارخانے موجود ہوں اور جہاں ہزاروں کارکن کام کرتے ہوں وہاں کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے اور حادثات سے متاثر ہونے والوں کو بروقت طبی امداد مہیا کرنے کے لیے حب میں کوئی ایسا اسپتال موجود نہیں جو ناگہانی حادثات سے متاثر ہونے والوں کو فوری طبی امدادی سہولتیں فراہم کر سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس علاقے سے متاثرین کو کراچی کے اسپتالوں میں لایا جاتا ہے۔ شاہ نورانی حب سے بھی کافی دوری پر واقع ہے، دو سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے متاثرین کو کراچی تک پہنچانے تک کافی نقصان ہو جاتا ہے۔ شاہ نورانی کے سانحہ میں بھی یہی ہوا، زخمی رات بھر طبی سہولتوں کا انتظار کرتے رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں دہشتگردی کے سانحات کی جو بھرمار تھی وہ اب نہیں رہی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے مختلف حصوں خصوصاً پختونخوا میں آئے دن کوئی نہ کوئی دہشتگردی کی واردات ہوتی ہی رہتی ہے۔ شمالی وزیرستان میں بھی اگرچہ دہشتگردوں کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیاگیا ہے لیکن وہاں بھی دور دراز علاقوں میں قائم سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور سیکیورٹی فورسز کو سڑکوں کے کنارے بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ فرقہ واریت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کسی قیمت پر سیکیورٹی فورسز کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اس خطرناک ٹارگٹ کلنگ کو ختم کرنے کے لیے مختلف فقہی نمایندوں کو خلوص نیت سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنا ہو گا۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق شاہ نورانی کے خودکش بمبار کی عمر 18، 17 سال ہے اور اس کا تعلق افغانستان سے بتایا جا رہا ہے۔ دو عشرے ہونے کو آ رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں نے اب تک قبائلی علاقوں کے عوام میں فکری تبدیلی کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ جب تک ایک منظم طریقے سے قبائلی عوام میں فکری تبدیلی نہیں لائی جاتی، یہ علاقے دھڑلے سے خودکش بمبار پیدا کرتے رہیں گے۔
بلوچستان کا شمار بھی قبائلی اور سرداری نظام میں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں موجود جہل خودکش بمبار اور دہشتگرد پیدا کر رہی ہے۔ یہاں لازمی اور مفت تعلیم کا اہتمام ضروری ہے اور حساس اور دور دراز علاقوں میں طبی سہولتوں اور تیز ٹرانسپورٹ سہولتوں کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ ہمارے حکمران جب کوئی دہشتگردی ہو جاتی ہے تو ہائی الرٹ کا اعلان کرتے ہیں جب کہ حالات کا تقاضا ہے کہ حساس علاقوں میں ہر وقت ہائی الرٹ رہے۔