بھٹ کا شاہ۔ روشنیرہنمائی دستگیری
سرزمین پاکستان بہت بابرکت ہے اور اس سرزمین کے باسی بہت خوش نصیب
سرزمین پاکستان بہت بابرکت ہے اور اس سرزمین کے باسی بہت خوش نصیب۔ یہ دھرتی ایسی لاتعداد ہستیوں کا مسکن بنی جو انسانوں کے لیے خدا کی رحمتوں کا نشان ہیں۔ان ہستیوں کا پیغام ان کے قبیلے، قوم یا خطے تک محدود نہیں بلکہ ان روشن نظر،اعلیٰ ظرف وسیع القلب ہستیوں کا پیغام سب انسانوں کے لیے خیر وفلاح کا ذریعہ ہے۔ رومی مہران شاہ عبدالطیف بھٹائی ان لاکھوں ستاروں میں شامل ہیں، مخلوق خدا جن سے روشنی، سکون اور شانتی پاتی ہے۔
بھٹ کے شاہ کو بھی خدا نے کیا نور عطا فرمایا۔ علم کا نور، آگہی کی دمک، حقیقت کا سراغ، معرفت کا اعزاز۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی اجداد کی نسبت سے عرب اور پیدائش کی نسبت سے سندھی ہیں۔ صدیوں کی تاریخ میں سندھ کی سرزمین کیسے کیسے ہیروں سے جگمگائی ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی ان میں نایاب ترین ہیرا ہیں۔شاہ صاحب فارسی اور عربی کے بڑے عالم بھی تھے۔ ان کا کلام سندھی زبان میں ہے لیکن شاہ عبدالطیف بھٹائی کو عربی یا سندھی کہنا ان کی ہمہ گیر شخصیت کو محدود کرنا ہوگا۔
شاہ صاحب جیسی ہستیاں کسی ایک قوم یا کسی ایک خطے کی نہیں بلکہ سب انسانوں کا اثاثہ ہوتی ہیں۔ البتہ اہل سندھ کو، وادی مہران کے باسیوں کو اس بات پر ہمیشہ فخرہوگا کہ سندھ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی جنم بھومی ہے۔ نوع انسانی کو توحید کی دعوت دینے، نور اول نبی آخر حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات سے واقف کروانے اور انسانوں کو انسانوں کے احترام کی دعوت دینے کے لیے شاہ صاحب نے سندھی زبان کا انتخاب کیا۔ شاہ صاحب کے کلام سے سندھی زبان کی ثروت میں بہت اضافہ ہوا۔
شاہ عبد الطیف بھٹائی شاعری کے رموز اور موسیقی کے اسرار سے بھی خوب واقف تھے۔ عشق مجازی کی طلب اور عشق حقیقی کی تڑپ کے مختلف مراحل سے گزرے ہوئے تھے۔ عشق مجازی میں جدائی اور وصل کے تجربات ہوئے، عشق حقیقی میں خالق کائنات کی ہر لحظہ مزید قربت کے متمنی رہے۔ شاہ صاحب خدا سے قرب چاہتے تھے لیکن انسانوں سے لاتعلق رہ کر نہیں۔ انسانوں کا وہ بھلا چاہتے تھے۔ شاہ صاحب انسان کی آزادی اور ہر طبقے کے انسان کے احترام کے خواہش مند تھے۔ جاگیرداروں کے سامنے بے بس اور مجبور مزارعوں اور مفاد پرست گدی نشینوں، پیروں کی نسل در نسل غلامی میں پھنسے ہوئے، عقیدت کے مارے مریدوں کے ہمدرد اور خیر خواہ اور ان کی آزادیوں کے متمنی تھے۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام کائنات میں پھیلی حقیقتوں تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ ساتھ ہی معاشی اور سماجی جبر اور ظلم میں پھنسے ہوئے کسانوں، مزدوروں، مجبوروں کے لیے اپنی حالت کا جائزہ لینے اور آزادی کی تڑپ بیدار کرنے کا پیغام بھی ہے۔ شاہ صاحب ایک طرف مخلوق کو خالق حقیقی، رحمن و رحیم پر ایمان و توکل کی طرف بلاتے ہیں ساتھ ہی معاشرے میں پھیلی ہوئی نا انصافیوں، ظلم و جبر سے نجات کے لیے عوام کو ابھارتے بھی ہیں اور آزادی کے لیے رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی ہوں یا اس مقدس گروہ کے دیگر ارکان یہ ہادی اور رہنما تو ہوتے ہیں لیکن یہ کسی قوم کے سردار یا کسی علاقے کے بادشاہ، صدر یا وزیر اعظم نہیں ہوتے۔ ہاں ان ہستیوں کی حکمرانی دلوں پر ہوتی ہے اور ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے لیے امید، یقین، شفا، زندگی بن جاتے ہیں۔
سال گزشتہ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کی درگاہ پر حاضری کے لیے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ بھٹ شاہ گیا۔ عقیدت مندوں کے اس قافلے میں سفر کرتے ہوئے زیادہ وقت شاہ جو رسالوکا اردو ترجمہ پڑھتے ہوئے گزرا۔ یہ ترجمہ شاہ صاحب کے بہت بڑے عقیدت مند شیخ ایاز نے کیا ہے۔ شیخ ایاز نے شاہ بھٹائی کے کلام کونہایت عمدگی سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ادب و شعر کے شعبوں میں شاہ صاحب کے عقیدت مندوں کی فہرست میں کئی نام نمایاں ہیں۔ ایک نام آفاق صدیقی کا ہے۔آفاق صدیقی کی مادری زبان اردو ہے۔
شاہ صاحب کے کلام کے چند نمونے آفاق صدیقی کی سماعتوں سے ٹکرا کر کچھ ایسی ہلجل پیدا کر گئے کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے علوم اور فکر کو سمجھنے کے لیے سندھی زبان اس حد تک سیکھی کہ اس زبان کے ادبی و شعری رموز سے واقف ہوگئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاہ کے عشق میں شیخ ایاز نے اردو اور آفاق صدیقی نے سندھی سیکھی۔ درحقیقت شاہ صاحب کے کلام کی اثر آفرینی نے کئی اہل دانش کو اپنا دیوانہ بنایا اور ان ہستیوں نے بصیرت و حکمت کے یہ موتی اردو اور دیگر زبانوں کے ذریعے دنیا بھر تک پہنچائے۔ ان میں صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ ہندو، عیسائی اور دیگر غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ایک بہت نمایاں اسم گرامی جرمن اسکالر محترمہ این میری شمیل ہے۔
ان سے قبل ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ جو رسالو کا جرمن زبان میں اور ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے نے شاہ جو رسالو کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شایع ہوا۔ علامہ امداد علی امام علی قاضی کی جرمن اہلیہ ایلیسا قاضی نے انگریزی ترجمہ کیا۔ ان کے علاوہ جی الانا، محترمہ امینہ خمیسانی، گل محمد عمرانی، جرمن محقق جیریڈ لوپکے۔ ہندو برادری میں جناب تارا چند، ڈاکٹر ہوتی چند گربخشانی، جناب کلیان بول چند ایڈوانی ، پروفیسر لکشمن پرشرام نے شاہ کا علام ہندوستان بھر میں پھیلانے کی سعادت پائی۔
اردو زبان میں نمایاں مترجمین اور محققین میں شیخ ایاز اور آفاق صدیقی کے علاوہ رشید احمد لاشاری ، آغا سلیم، ممتاز مرزا، ڈاکٹر طاہر تونسوی ، ڈاکٹر نواز علی شوق، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، تنویر عباسی، محمد عثمان ڈیپلائی ، ڈاکٹر فہمیدہ حسین کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں شاہ صاحب پر اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام ہوا۔اس تحقیق میں شامل نمایاں اساتذہ میں پیر سیدحسام الدین راشدی، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی، جناب حفیظ ہوشیار پوری شامل ہیں۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام دل کش و دل آویز ہے۔ دل فریب میں نے اس لیے نہیں لکھا کہ شاہ کا کلام روشنی ہے اور حقیقت کی طرف رہنمائی اور دست گیری کرتا ہے۔ اس کلام میں دل کے لیے کوئی فریب ہے نہ نظر کے لیے کوئی سراب۔ شاہ کا کلام کسی مسافر کو صحرا میں تپتی ہوئی دھوپ میں چمکتے ذروں کو پانی نہیں دکھاتا بلکہ تپتے ہوئے وسیع و عریض صحرا میں مسافر کو واقعتاً پانی، جھاڑی اور نخلستان کی طرف لے کر جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عشق ہونے میں نظر کا بہت حصہ ہے، لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ فکر بھی عاشق بناتی اور معشوق کو اپنا دیوانہ بنا دیتی ہے یا یوں کہیے کہ فکر ایسا حسین پیکر بن جاتی ہے جس کی نگاہ ناز ایک عالم کو وارفتہ اور سرمست رکھتی ہے۔
فکر غزالی، فکر جامی، فکر رومی، فکر اقبال دراصل معرفت کی وہ مشعل ہے صدی بہ صدی جس سے روشنی پھیلتے رہنے کا بندوبست خود قدرت نے کیا۔ یہ بات میں نے کیوں کہی؟ دیکھیے! غزالی، جامی، رومی ابن عربی، شاہ لطیف بھٹائی جیسی ہستیاں محض اکتسابی علم کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ علم حصولی کے مدارج طے ہونے کے بعد ان ہستیوں کی رہنمائی اور علمی سیرابی قدرت علم حضوری کے ذریعے کرتی ہے۔ کاغذ، قلم، استاد کے ذریعے صرف شناسی ہوسکتی ہے، لفظ اور جملے بنانا سیکھے جاسکتے ہیں۔
علم العروض سے شعر کہنے میں مدد لی جاسکتی ہے لیکن قواعد لسانی، علم العروض، سر اور لے کی پہچان کسی باطنی کیفیات کا ادیب یا شاعر نہیں بنا سکتیں۔ اس کے لیے لاشعوری کیفیات سے آگہی اور وجدان کا متحرک (Activate) ہونا ضروری ہے پھر اس وجدان کا رخ فطرت کے موافق ہونا بھی لازمی ہے۔ وجدان اگر منفی راہوں پر متحرک ہوگیا تو انسان نفس کا، شیطان کا غلام بن سکتا ہے۔ قدرت نے شاہ صاحب کو جو عطا کیا، شاہ صاحب نے انسانوں کو جو عطا کیا۔ ایسا ممکن نہیں کہ تاوقتیکہ بندے کا باطن علم حضوری سے روشن اور منور نہ کردیا ہو۔
...............
جہانگیر بدر اور حاجی عدیل
پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ رکن جہانگیر بدر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی محمد عدیل کے انتقال سے پاکستانی معاشرہ دو نہایت وفادار، مخلص، دیانت دار اور اصول پسند سیاست دانوں سے محروم ہوگیا۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)
بھٹ کے شاہ کو بھی خدا نے کیا نور عطا فرمایا۔ علم کا نور، آگہی کی دمک، حقیقت کا سراغ، معرفت کا اعزاز۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی اجداد کی نسبت سے عرب اور پیدائش کی نسبت سے سندھی ہیں۔ صدیوں کی تاریخ میں سندھ کی سرزمین کیسے کیسے ہیروں سے جگمگائی ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی ان میں نایاب ترین ہیرا ہیں۔شاہ صاحب فارسی اور عربی کے بڑے عالم بھی تھے۔ ان کا کلام سندھی زبان میں ہے لیکن شاہ عبدالطیف بھٹائی کو عربی یا سندھی کہنا ان کی ہمہ گیر شخصیت کو محدود کرنا ہوگا۔
شاہ صاحب جیسی ہستیاں کسی ایک قوم یا کسی ایک خطے کی نہیں بلکہ سب انسانوں کا اثاثہ ہوتی ہیں۔ البتہ اہل سندھ کو، وادی مہران کے باسیوں کو اس بات پر ہمیشہ فخرہوگا کہ سندھ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی جنم بھومی ہے۔ نوع انسانی کو توحید کی دعوت دینے، نور اول نبی آخر حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات سے واقف کروانے اور انسانوں کو انسانوں کے احترام کی دعوت دینے کے لیے شاہ صاحب نے سندھی زبان کا انتخاب کیا۔ شاہ صاحب کے کلام سے سندھی زبان کی ثروت میں بہت اضافہ ہوا۔
شاہ عبد الطیف بھٹائی شاعری کے رموز اور موسیقی کے اسرار سے بھی خوب واقف تھے۔ عشق مجازی کی طلب اور عشق حقیقی کی تڑپ کے مختلف مراحل سے گزرے ہوئے تھے۔ عشق مجازی میں جدائی اور وصل کے تجربات ہوئے، عشق حقیقی میں خالق کائنات کی ہر لحظہ مزید قربت کے متمنی رہے۔ شاہ صاحب خدا سے قرب چاہتے تھے لیکن انسانوں سے لاتعلق رہ کر نہیں۔ انسانوں کا وہ بھلا چاہتے تھے۔ شاہ صاحب انسان کی آزادی اور ہر طبقے کے انسان کے احترام کے خواہش مند تھے۔ جاگیرداروں کے سامنے بے بس اور مجبور مزارعوں اور مفاد پرست گدی نشینوں، پیروں کی نسل در نسل غلامی میں پھنسے ہوئے، عقیدت کے مارے مریدوں کے ہمدرد اور خیر خواہ اور ان کی آزادیوں کے متمنی تھے۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام کائنات میں پھیلی حقیقتوں تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ ساتھ ہی معاشی اور سماجی جبر اور ظلم میں پھنسے ہوئے کسانوں، مزدوروں، مجبوروں کے لیے اپنی حالت کا جائزہ لینے اور آزادی کی تڑپ بیدار کرنے کا پیغام بھی ہے۔ شاہ صاحب ایک طرف مخلوق کو خالق حقیقی، رحمن و رحیم پر ایمان و توکل کی طرف بلاتے ہیں ساتھ ہی معاشرے میں پھیلی ہوئی نا انصافیوں، ظلم و جبر سے نجات کے لیے عوام کو ابھارتے بھی ہیں اور آزادی کے لیے رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی ہوں یا اس مقدس گروہ کے دیگر ارکان یہ ہادی اور رہنما تو ہوتے ہیں لیکن یہ کسی قوم کے سردار یا کسی علاقے کے بادشاہ، صدر یا وزیر اعظم نہیں ہوتے۔ ہاں ان ہستیوں کی حکمرانی دلوں پر ہوتی ہے اور ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے لیے امید، یقین، شفا، زندگی بن جاتے ہیں۔
سال گزشتہ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کی درگاہ پر حاضری کے لیے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ بھٹ شاہ گیا۔ عقیدت مندوں کے اس قافلے میں سفر کرتے ہوئے زیادہ وقت شاہ جو رسالوکا اردو ترجمہ پڑھتے ہوئے گزرا۔ یہ ترجمہ شاہ صاحب کے بہت بڑے عقیدت مند شیخ ایاز نے کیا ہے۔ شیخ ایاز نے شاہ بھٹائی کے کلام کونہایت عمدگی سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ادب و شعر کے شعبوں میں شاہ صاحب کے عقیدت مندوں کی فہرست میں کئی نام نمایاں ہیں۔ ایک نام آفاق صدیقی کا ہے۔آفاق صدیقی کی مادری زبان اردو ہے۔
شاہ صاحب کے کلام کے چند نمونے آفاق صدیقی کی سماعتوں سے ٹکرا کر کچھ ایسی ہلجل پیدا کر گئے کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے علوم اور فکر کو سمجھنے کے لیے سندھی زبان اس حد تک سیکھی کہ اس زبان کے ادبی و شعری رموز سے واقف ہوگئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاہ کے عشق میں شیخ ایاز نے اردو اور آفاق صدیقی نے سندھی سیکھی۔ درحقیقت شاہ صاحب کے کلام کی اثر آفرینی نے کئی اہل دانش کو اپنا دیوانہ بنایا اور ان ہستیوں نے بصیرت و حکمت کے یہ موتی اردو اور دیگر زبانوں کے ذریعے دنیا بھر تک پہنچائے۔ ان میں صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ ہندو، عیسائی اور دیگر غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ایک بہت نمایاں اسم گرامی جرمن اسکالر محترمہ این میری شمیل ہے۔
ان سے قبل ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ جو رسالو کا جرمن زبان میں اور ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے نے شاہ جو رسالو کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شایع ہوا۔ علامہ امداد علی امام علی قاضی کی جرمن اہلیہ ایلیسا قاضی نے انگریزی ترجمہ کیا۔ ان کے علاوہ جی الانا، محترمہ امینہ خمیسانی، گل محمد عمرانی، جرمن محقق جیریڈ لوپکے۔ ہندو برادری میں جناب تارا چند، ڈاکٹر ہوتی چند گربخشانی، جناب کلیان بول چند ایڈوانی ، پروفیسر لکشمن پرشرام نے شاہ کا علام ہندوستان بھر میں پھیلانے کی سعادت پائی۔
اردو زبان میں نمایاں مترجمین اور محققین میں شیخ ایاز اور آفاق صدیقی کے علاوہ رشید احمد لاشاری ، آغا سلیم، ممتاز مرزا، ڈاکٹر طاہر تونسوی ، ڈاکٹر نواز علی شوق، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، تنویر عباسی، محمد عثمان ڈیپلائی ، ڈاکٹر فہمیدہ حسین کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں شاہ صاحب پر اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام ہوا۔اس تحقیق میں شامل نمایاں اساتذہ میں پیر سیدحسام الدین راشدی، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی، جناب حفیظ ہوشیار پوری شامل ہیں۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام دل کش و دل آویز ہے۔ دل فریب میں نے اس لیے نہیں لکھا کہ شاہ کا کلام روشنی ہے اور حقیقت کی طرف رہنمائی اور دست گیری کرتا ہے۔ اس کلام میں دل کے لیے کوئی فریب ہے نہ نظر کے لیے کوئی سراب۔ شاہ کا کلام کسی مسافر کو صحرا میں تپتی ہوئی دھوپ میں چمکتے ذروں کو پانی نہیں دکھاتا بلکہ تپتے ہوئے وسیع و عریض صحرا میں مسافر کو واقعتاً پانی، جھاڑی اور نخلستان کی طرف لے کر جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عشق ہونے میں نظر کا بہت حصہ ہے، لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ فکر بھی عاشق بناتی اور معشوق کو اپنا دیوانہ بنا دیتی ہے یا یوں کہیے کہ فکر ایسا حسین پیکر بن جاتی ہے جس کی نگاہ ناز ایک عالم کو وارفتہ اور سرمست رکھتی ہے۔
فکر غزالی، فکر جامی، فکر رومی، فکر اقبال دراصل معرفت کی وہ مشعل ہے صدی بہ صدی جس سے روشنی پھیلتے رہنے کا بندوبست خود قدرت نے کیا۔ یہ بات میں نے کیوں کہی؟ دیکھیے! غزالی، جامی، رومی ابن عربی، شاہ لطیف بھٹائی جیسی ہستیاں محض اکتسابی علم کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ علم حصولی کے مدارج طے ہونے کے بعد ان ہستیوں کی رہنمائی اور علمی سیرابی قدرت علم حضوری کے ذریعے کرتی ہے۔ کاغذ، قلم، استاد کے ذریعے صرف شناسی ہوسکتی ہے، لفظ اور جملے بنانا سیکھے جاسکتے ہیں۔
علم العروض سے شعر کہنے میں مدد لی جاسکتی ہے لیکن قواعد لسانی، علم العروض، سر اور لے کی پہچان کسی باطنی کیفیات کا ادیب یا شاعر نہیں بنا سکتیں۔ اس کے لیے لاشعوری کیفیات سے آگہی اور وجدان کا متحرک (Activate) ہونا ضروری ہے پھر اس وجدان کا رخ فطرت کے موافق ہونا بھی لازمی ہے۔ وجدان اگر منفی راہوں پر متحرک ہوگیا تو انسان نفس کا، شیطان کا غلام بن سکتا ہے۔ قدرت نے شاہ صاحب کو جو عطا کیا، شاہ صاحب نے انسانوں کو جو عطا کیا۔ ایسا ممکن نہیں کہ تاوقتیکہ بندے کا باطن علم حضوری سے روشن اور منور نہ کردیا ہو۔
...............
جہانگیر بدر اور حاجی عدیل
پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ رکن جہانگیر بدر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی محمد عدیل کے انتقال سے پاکستانی معاشرہ دو نہایت وفادار، مخلص، دیانت دار اور اصول پسند سیاست دانوں سے محروم ہوگیا۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)