جمہوریت برائے نام
پاکستان کو جمہوریت کے نام پر بادشاہت کے انداز سے چلایا جا رہا ہے
NEW DELHI:
پاکستان کو جمہوریت کے نام پر بادشاہت کے انداز سے چلایا جا رہا ہے۔ درحقیقت پاکستان کے عوام جمہوریت کے ثمرات سے مسلسل محروم ہیں،اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کا مزاج ہی جمہوری ہونے کے بجائے آمرانہ ہے، وہ تو انھیں سیاسی جماعتوںمیں انتخابات کرانا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ذرایع آمدنی اوراپنی پارٹی کو ملنے والے فنڈزکی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ فیصلہ سازی میں اپنے عوام کو شریک کرنا بھی نہیں چاہتے،احتساب جوکہ جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہے ۔
اس سے انھیں خدا واسطے کا بیر اور چڑ ہے۔ اس نام نہاد جمہوریت کے ذکر سے ہمیں روس کے مطلق العنان حکمران جوزف اسٹالن کے الفاظ یاد آرہے ہیں۔ جنھوں نے کہا تھا کہ ''عوام کے لیے بس یہی جاننا کافی ہے کہ انتخابات ہوئے تھے۔ فیصلہ کرنا ووٹ ڈالنے والے عوام کا کام نہیں۔ ہر چیزکا فیصلہ ووٹوں کی گنتی کرنے والوں ہی کا کام ہے۔''
ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں طرح طرح کے اختلافات کا شکار ہیں لیکن ان کی غالب اکثریت اس نکتے پر اتفاق رائے رکھتی ہے کہ اپنی پارٹی میں جمہوری کلچرکو ہرگز فروغ نہیں دینا۔ اس کا سیدھا اورصاف مطلب یہ ہے کہ یہ پارٹیاں خود بھی جمہوری نظام سے عملاً عاری ہیں اور جمہوریت کا راگ الاپنا بھولے بھالے عوام کو محض فریب دیتا ہے۔ البتہ جماعت اسلامی نے ہر پانچ سال بعد اپنے امیر کا انتخاب کرکے انھیں جمہوری روایت کو نہایت پابندی کے ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے، اس سلسلے کی دوسری مثال عوامی ورکرز پارٹی کی ہے جس نے حال ہی میں اپنے صاف ستھرے انتخابات کرائے ہیں اور ایک صحت مند جمہوری روایات قائم کی ہے جس کے نتیجے میں صدر اور سیکریٹری جنرل سمیت ایک نئی ٹیم تشکیل پائی ہے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے اپنی پارٹیوں کے کنونشن کے ذریعے اپنے عہدے داروں کا چناؤکیا ہے مگر یہ چناؤ برائے نام ہی کہا جاسکتا ہے۔ کیوںکہ اس میں اختلاف رائے کے اظہارکی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ صرف چند گنے چنے لوگوں کو ہی بولنے کا موقع میسر آیا ،گویا دونوں مسلم لیگیوں میں اندھا بانٹے ریوڑی، پھر پھر اپنوںہی کو دے والی روایت کا چلن عام ہے اور تمام تر دارومدار خاندانی سیاست پر ہے۔
دوسری جانب پی پی پی ہے جس کی جڑیں شروع ہی سے خاندانی سیاست میں پیوست ہیں جس کا تازہ ترین شاہکار بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ رہی بات پاکستان تحریک انصاف کی تو اس کا حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور سب کو معلوم ہے کہ اس پارٹی میں کس کی بات کتنی مانی جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کا ماضی اور حال بھی سب کے سامنے ہے۔
پاکستان کی بیشتر سیاسی پارٹیوں کی حالت کم و بیش ایک جیسی ہے جو زیادہ تر شخصیات ہی کے ارد گرد گھومتی ہیں تمام جلسے جلوس اور مختلف قسم کے اجلاس اور اجتماعات ان ہی کی خاطر منعقد کیے جاتے ہیں خواہ ان پر لیبل کوئی بھی لگا ہوا ہو اس اعتبار سے انھیں اگر One Man Show کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مرکزیت پر مبنی اس نظام کو جمہوری کہنا در حقیقت جمہوریت کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔ وطن عزیز میں جمہوریت کے نام پر اب تک بس یہی ناٹک رچایا جارہا ہے اور ہر بار ایک ہی بندوق جمہوریت کے نام پر عوام کے کندھوں پر رکھ کر بے دردی کے ساتھ چلائی جارہی ہے، الیکشن کے موقعے پر ہر مرتبہ بھولے بھالے عوام سے جمہوریت کے ثمرات کے للچانے والے وعدے کیے جاتے ہیں اور آخر میں پبلک کو مایوسی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ملتا۔ یہی کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
سچی بات یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کی ساخت ہی جمہوری نہیں ہے وہ عوام کو جمہوریت کے ثمرات بھلا کیسے دے سکتی ہیں بقول بھگت کبیرؔ:
بویا پیڑ ببول کا آم کہاں سے کھائے
کڑوا سچ یہ ہے کہ جمہوریت ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کے خمیر میں روز اول سے ہی شامل نہیں ہے۔ اس کی شاید بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض آمریت کے گملوں میں اُگی ہیں یا آمروں کے اثرات کے سائے میں پروان چڑھی ہیں۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں، کیوںکہ بعض سیاسی قائدین تو آمروں کی گود میں پل کر پروان چڑھے ہیں۔اس لیے ان کے مزاج کا آمرانہ ہونا فطری امر ہے، اب اگر کوئی شخص ان کے بارے میں اس طرح کی بات کہتاہے تو انھیں ماننا چاہیے کیوںکہ حقیقت کو کسی طرح سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہوتا ہے۔
رہا سوال آزادی سے قبل کی سیاسی جماعتوں کا تو انھوں نے اس کا کبھی دعویٰ نہیں کیا البتہ ان میں سب سے مقبول سیاسی جماعت مسلم لیگ نے جو پاکستان کی بانی جماعت تھی ۔ جمہوری اصولوں کی پاسداری کا خیال رکھا پھر اس کے بعد ملک آزاد ہوگیا اور لیاقت علی خان پاکستان کے وزیراعظم بن گئے لیکن مسلم لیگ کی سربراہی چوہدری خلیق الزماں کیے سپرد رہی، بد قسمتی سے بوجوہ یہ تجربہ ناکام ہوگیا اور چوہدری صاحب کو مجبوراً اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد مسلم لیگ کی سربراہی بھی وزیراعظم لیاقت علی خاں کے ہاتھوں میں آگئی اور اس طرح ایک نئی سیاسی روایت قائم ہوگئی، لیاقت علی خان کی تو بات ہی کچھ اور تھی کہ انھوں نے پاکستان کی خاطر اپنی جان بھی قربان کردی، مگر اس روایت سے ان کے بعد آنے والے ملک کے حکمرانوں نے خوب خوب فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کی حکومتوں کے سربراہوں نے مسلم لیگ کی قیادت کا پرچم بھی اپنے ہی ہاتھوں میں اٹھائے رکھا۔
ان میں سب سے زیادہ ناجائز فائدہ ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ نے حاصل کیا جو کوئی بھی 100,000 روپے چندہ دیتا تھا وہ کنونشن مسلم لیگ کی ممبر شپ حاصل کرکے کونسلر بن جاتا تھا۔ یوں ذاتی مفاد پرستوں نے سیاست کو کاروبار بناکر بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اس کے بعد سے اس مکروہ سیاسی روایت نے سیاسی بدعت کی شکل اختیارکرلی۔
ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں ایک لاکھ روپے کی فیس ادا کرکے رکنیت حاصل کرنے کے نتیجے میں لوگوں نے اس تیزی کے ساتھ دھڑا دھڑ ممبر شپ حاصل کرنا شروع کردی کہ عوام میں یہ مذاق عام ہوگیا کہ لیگ کی ممبر شپ کی تعداد ملک کی آبادی سے بھی تجاوزکرگئی ہے۔ تاہم 1970 کی دہائی تک جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی، پی پی پی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی گروپوں نے اپنے عہدے داروں کا چناؤ کرنا ضروری سمجھا اور ایگزیکٹو کمیٹیوں اور کونسلوں کی ضرورت کو محسوس کیا لیکن پارٹی کی سطح پر جمہوری ڈھانچے کی تشکیل کی نوبت پھر بھی نہیں آسکی اور برسر اقتدار پارٹیوں میں جمہوری اسٹرکچر کے قیام کا معاملہ مسلسل کھٹائی میں ہی پڑا رہا۔ ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان نے جو تھوڑی بہت کوشش اس معاملے میں کی وہ بھی بار آور نہ ہوسکی۔
سیاسی جماعتیں ایوب خان کے 1962 کے بغیر پارٹی کے پارلیمانی تجربے اور اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے سیاسی تجربے کے صدمے کو کسی نہ کسی طور جھیل تو گئیں مگر اس کے مضمرات کو روکا نہ جاسکا جس کے نتیجے میں قانون سازی کا اختیار حاصل کرنے والے افراد عوام کے سامنے جواب دہی سے بری الذمہ ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں Grass Roots سے ابھرنے والی جمہوریت کی راہیں آیندہ کے لیے مسدود ہوگئیں اور سیاسی جماعتوں میں من مانی کرنے کا رجحان فروغ پاتا چلا گیا۔ اب آپ کو بیشتر سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی مرضی کے مالک نظر آئیں گے جو اس اصول پر عمل پیرا ہیں کہ:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
ان کے گرد چند من پسند لوگوں کا ایک حلقہ ہے جو ہر وقت ان کی جی حضوری کرنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں مصروف رہتا ہے چنانچہ ہمارے یہاں جو جمہوریت رائج ہے وہ در حقیقت جمہوریت برائے نام ہے۔ جب تک حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوگی اس وقت تک ملک کے عوام کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور وہ کرپشن، اقربا پروری، مہنگائی اور لاقانونیت و بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کی چکی میں اسی طرح پستے رہیں گے۔
پاکستان کو جمہوریت کے نام پر بادشاہت کے انداز سے چلایا جا رہا ہے۔ درحقیقت پاکستان کے عوام جمہوریت کے ثمرات سے مسلسل محروم ہیں،اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کا مزاج ہی جمہوری ہونے کے بجائے آمرانہ ہے، وہ تو انھیں سیاسی جماعتوںمیں انتخابات کرانا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ذرایع آمدنی اوراپنی پارٹی کو ملنے والے فنڈزکی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ فیصلہ سازی میں اپنے عوام کو شریک کرنا بھی نہیں چاہتے،احتساب جوکہ جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہے ۔
اس سے انھیں خدا واسطے کا بیر اور چڑ ہے۔ اس نام نہاد جمہوریت کے ذکر سے ہمیں روس کے مطلق العنان حکمران جوزف اسٹالن کے الفاظ یاد آرہے ہیں۔ جنھوں نے کہا تھا کہ ''عوام کے لیے بس یہی جاننا کافی ہے کہ انتخابات ہوئے تھے۔ فیصلہ کرنا ووٹ ڈالنے والے عوام کا کام نہیں۔ ہر چیزکا فیصلہ ووٹوں کی گنتی کرنے والوں ہی کا کام ہے۔''
ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں طرح طرح کے اختلافات کا شکار ہیں لیکن ان کی غالب اکثریت اس نکتے پر اتفاق رائے رکھتی ہے کہ اپنی پارٹی میں جمہوری کلچرکو ہرگز فروغ نہیں دینا۔ اس کا سیدھا اورصاف مطلب یہ ہے کہ یہ پارٹیاں خود بھی جمہوری نظام سے عملاً عاری ہیں اور جمہوریت کا راگ الاپنا بھولے بھالے عوام کو محض فریب دیتا ہے۔ البتہ جماعت اسلامی نے ہر پانچ سال بعد اپنے امیر کا انتخاب کرکے انھیں جمہوری روایت کو نہایت پابندی کے ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے، اس سلسلے کی دوسری مثال عوامی ورکرز پارٹی کی ہے جس نے حال ہی میں اپنے صاف ستھرے انتخابات کرائے ہیں اور ایک صحت مند جمہوری روایات قائم کی ہے جس کے نتیجے میں صدر اور سیکریٹری جنرل سمیت ایک نئی ٹیم تشکیل پائی ہے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے اپنی پارٹیوں کے کنونشن کے ذریعے اپنے عہدے داروں کا چناؤکیا ہے مگر یہ چناؤ برائے نام ہی کہا جاسکتا ہے۔ کیوںکہ اس میں اختلاف رائے کے اظہارکی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ صرف چند گنے چنے لوگوں کو ہی بولنے کا موقع میسر آیا ،گویا دونوں مسلم لیگیوں میں اندھا بانٹے ریوڑی، پھر پھر اپنوںہی کو دے والی روایت کا چلن عام ہے اور تمام تر دارومدار خاندانی سیاست پر ہے۔
دوسری جانب پی پی پی ہے جس کی جڑیں شروع ہی سے خاندانی سیاست میں پیوست ہیں جس کا تازہ ترین شاہکار بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ رہی بات پاکستان تحریک انصاف کی تو اس کا حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور سب کو معلوم ہے کہ اس پارٹی میں کس کی بات کتنی مانی جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کا ماضی اور حال بھی سب کے سامنے ہے۔
پاکستان کی بیشتر سیاسی پارٹیوں کی حالت کم و بیش ایک جیسی ہے جو زیادہ تر شخصیات ہی کے ارد گرد گھومتی ہیں تمام جلسے جلوس اور مختلف قسم کے اجلاس اور اجتماعات ان ہی کی خاطر منعقد کیے جاتے ہیں خواہ ان پر لیبل کوئی بھی لگا ہوا ہو اس اعتبار سے انھیں اگر One Man Show کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مرکزیت پر مبنی اس نظام کو جمہوری کہنا در حقیقت جمہوریت کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔ وطن عزیز میں جمہوریت کے نام پر اب تک بس یہی ناٹک رچایا جارہا ہے اور ہر بار ایک ہی بندوق جمہوریت کے نام پر عوام کے کندھوں پر رکھ کر بے دردی کے ساتھ چلائی جارہی ہے، الیکشن کے موقعے پر ہر مرتبہ بھولے بھالے عوام سے جمہوریت کے ثمرات کے للچانے والے وعدے کیے جاتے ہیں اور آخر میں پبلک کو مایوسی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ملتا۔ یہی کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
سچی بات یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کی ساخت ہی جمہوری نہیں ہے وہ عوام کو جمہوریت کے ثمرات بھلا کیسے دے سکتی ہیں بقول بھگت کبیرؔ:
بویا پیڑ ببول کا آم کہاں سے کھائے
کڑوا سچ یہ ہے کہ جمہوریت ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کے خمیر میں روز اول سے ہی شامل نہیں ہے۔ اس کی شاید بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض آمریت کے گملوں میں اُگی ہیں یا آمروں کے اثرات کے سائے میں پروان چڑھی ہیں۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں، کیوںکہ بعض سیاسی قائدین تو آمروں کی گود میں پل کر پروان چڑھے ہیں۔اس لیے ان کے مزاج کا آمرانہ ہونا فطری امر ہے، اب اگر کوئی شخص ان کے بارے میں اس طرح کی بات کہتاہے تو انھیں ماننا چاہیے کیوںکہ حقیقت کو کسی طرح سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہوتا ہے۔
رہا سوال آزادی سے قبل کی سیاسی جماعتوں کا تو انھوں نے اس کا کبھی دعویٰ نہیں کیا البتہ ان میں سب سے مقبول سیاسی جماعت مسلم لیگ نے جو پاکستان کی بانی جماعت تھی ۔ جمہوری اصولوں کی پاسداری کا خیال رکھا پھر اس کے بعد ملک آزاد ہوگیا اور لیاقت علی خان پاکستان کے وزیراعظم بن گئے لیکن مسلم لیگ کی سربراہی چوہدری خلیق الزماں کیے سپرد رہی، بد قسمتی سے بوجوہ یہ تجربہ ناکام ہوگیا اور چوہدری صاحب کو مجبوراً اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد مسلم لیگ کی سربراہی بھی وزیراعظم لیاقت علی خاں کے ہاتھوں میں آگئی اور اس طرح ایک نئی سیاسی روایت قائم ہوگئی، لیاقت علی خان کی تو بات ہی کچھ اور تھی کہ انھوں نے پاکستان کی خاطر اپنی جان بھی قربان کردی، مگر اس روایت سے ان کے بعد آنے والے ملک کے حکمرانوں نے خوب خوب فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کی حکومتوں کے سربراہوں نے مسلم لیگ کی قیادت کا پرچم بھی اپنے ہی ہاتھوں میں اٹھائے رکھا۔
ان میں سب سے زیادہ ناجائز فائدہ ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ نے حاصل کیا جو کوئی بھی 100,000 روپے چندہ دیتا تھا وہ کنونشن مسلم لیگ کی ممبر شپ حاصل کرکے کونسلر بن جاتا تھا۔ یوں ذاتی مفاد پرستوں نے سیاست کو کاروبار بناکر بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اس کے بعد سے اس مکروہ سیاسی روایت نے سیاسی بدعت کی شکل اختیارکرلی۔
ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں ایک لاکھ روپے کی فیس ادا کرکے رکنیت حاصل کرنے کے نتیجے میں لوگوں نے اس تیزی کے ساتھ دھڑا دھڑ ممبر شپ حاصل کرنا شروع کردی کہ عوام میں یہ مذاق عام ہوگیا کہ لیگ کی ممبر شپ کی تعداد ملک کی آبادی سے بھی تجاوزکرگئی ہے۔ تاہم 1970 کی دہائی تک جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی، پی پی پی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی گروپوں نے اپنے عہدے داروں کا چناؤ کرنا ضروری سمجھا اور ایگزیکٹو کمیٹیوں اور کونسلوں کی ضرورت کو محسوس کیا لیکن پارٹی کی سطح پر جمہوری ڈھانچے کی تشکیل کی نوبت پھر بھی نہیں آسکی اور برسر اقتدار پارٹیوں میں جمہوری اسٹرکچر کے قیام کا معاملہ مسلسل کھٹائی میں ہی پڑا رہا۔ ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان نے جو تھوڑی بہت کوشش اس معاملے میں کی وہ بھی بار آور نہ ہوسکی۔
سیاسی جماعتیں ایوب خان کے 1962 کے بغیر پارٹی کے پارلیمانی تجربے اور اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے سیاسی تجربے کے صدمے کو کسی نہ کسی طور جھیل تو گئیں مگر اس کے مضمرات کو روکا نہ جاسکا جس کے نتیجے میں قانون سازی کا اختیار حاصل کرنے والے افراد عوام کے سامنے جواب دہی سے بری الذمہ ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں Grass Roots سے ابھرنے والی جمہوریت کی راہیں آیندہ کے لیے مسدود ہوگئیں اور سیاسی جماعتوں میں من مانی کرنے کا رجحان فروغ پاتا چلا گیا۔ اب آپ کو بیشتر سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی مرضی کے مالک نظر آئیں گے جو اس اصول پر عمل پیرا ہیں کہ:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
ان کے گرد چند من پسند لوگوں کا ایک حلقہ ہے جو ہر وقت ان کی جی حضوری کرنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں مصروف رہتا ہے چنانچہ ہمارے یہاں جو جمہوریت رائج ہے وہ در حقیقت جمہوریت برائے نام ہے۔ جب تک حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوگی اس وقت تک ملک کے عوام کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور وہ کرپشن، اقربا پروری، مہنگائی اور لاقانونیت و بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کی چکی میں اسی طرح پستے رہیں گے۔