جمہوری وزیراعظم اور جنرل راحیل شریف

تین سال قبل دہشتگردی ناسور بن جانے کے باعث ملک میں فوج کا آپریشن ضرب عضب شروع ہوا

تیسری بار وزیراعظم بننے والے اور گزشتہ 31 سال سے سیاست کرنے والے میاں نواز شریف اپنے اقتدار کا ایک سال بھی سکون سے نہ گزار سکے تھے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ان کے ایسے پیچھے پڑے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو سیاسی سکون میسر آیا، نہ اس کی عمران خان کی طرف سے آئے دن لگائے جانے والے الزامات سے جان چھوٹ سکی۔

جو الزام جنرل پرویز مشرف نے بھی نواز شریف پر نہیں لگایا تھا وہ بھی سیاسی دشمنی میں موجودہ حکمرانوں کو سکیورٹی رسک تک قرار دے بیٹھے ہیں۔ عمران خان وزیراعظم پر سنگین الزامات لگانے کے علاوہ اب انھیں وزیراعظم تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں، مگر وزیراعظم نواز شریف نے عمران خون کو عزت ہتک کا ایک نوٹس تک نہیں بھجوایا اور ان کی طرف سے صفائیاں ان کے وزرا اور (ن) لیگی رہنما روز ہی پیش کر رہے ہیں اور وزیراعظم کی خاموشی پر ان کے خیرخواہ بھی حیران ہیں۔

اگست 2014 میں جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کے خلاف لاہور سے لانگ مارچ اس امید پر شروع کیا تھا کہ وہ اسلام آباد پہنچ کر لاکھوں افراد کا دھرنا دیں گے کہ نواز حکومت ختم ہوجائے گی یا طویل دھرنے کے باعث پاک فوج ججز بحالی تحریک کی طرح مداخلت کرے گی اور نواز حکومت ختم کرا دے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرتے تھے اور پورا ملک غیر یقینی صورتحال کا شکار تھا، مگر آرمی چیف جنرل راحیل شریف غیر جانبدار رہے مگر عمران خان اور طاہر القادری فوجی مداخلت کے منتظر رہے مگر جنرل راحیل شریف نے سیاسی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی اور خود کو اور فوج کو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں تک محدود رکھا۔

تین سال قبل دہشتگردی ناسور بن جانے کے باعث ملک میں فوج کا آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور جنرل راحیل اور پاک فوج نے دن رات جو کام کیا اس کے نتائج بھی بہتر برآمد ہوئے۔ فوجی عدم مداخلت سے مایوس ہوکر پہلے طاہر القادری اپنا دھرنا لپیٹ گئے اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں دہشتگردی کے باعث عمران خان کو بھی اپنے طویل اور بے مقصد دھرنے کو ختم کرنے کا موقع مل گیا۔ اے پی ایس میں ہونے والی دہشتگردی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا گئی تھی۔

پاک فوج نے اپنی قربانیوں اور دن و رات کی محنت سے جس طرح اپنا مورال بحال کیا اس کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو ملا اور قوم جنرل راحیل شریف کی ملک کے سیاسی معاملات سے دور رہ کر ساری توجہ دہشتگردی کے خاتمے میں مصروف پاک فوج کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے اقدامات دیکھتی رہی اور جنرل راحیل اپنی کارکردگی کے باعث عوام میں مقبولیت حاصل کرتے رہے اور ان کی حمایت میں ملک میں بینرز بھی لگائے گئے اور جب سابق صدر جنرل (ر) پرویز نے جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کی بات کی تو اسے ملک بھر میں عوامی حمایت حاصل ہوئی جس پر پیپلز پارٹی کو خاص طور پر تشویش ہوئی، جس کے اصل چیئرمین آصف علی زرداری نہ جانے خود ساختہ جلاوطنی دبئی اور لندن میں کیوں گزار رہے ہیں اور وطن واپس نہیں آرہے ۔


رینجرز نے بعض الزامات کی وجہ سے سابق صدر زرداری کے قریبی ساتھیوں ڈاکٹر عاصم و دیگر پر کرپشن کے باعث ہاتھ ڈالا اور نیب اور ایف آئی اے نے سندھ کے کرپشن کے معاملات پر چھاپے مارے اور گرفتاریاں کیں جس پر سندھ حکومت بہت برہم ہوئی اور اس نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کو مسئلہ بنایا اور اندرون سندھ رینجرز چھاپوں پر ناپسندیدگی ظاہر کی حالانکہ کراچی آپریشن کے سربراہ خود وزیر اعلیٰ تھے جن کی حکومت کی ناکامی پر کراچی میں آپریشن سے امن بحال ہوا جو ملک بھر میں سراہا گیا اور کراچی کی روشنیوں کی بحالی کا کریڈٹ بھی جنرل راحیل اور ان کے ماتحت اداروں کو ملا جس پر سندھ میں بھی جنرل راحیل کی مقبولیت بڑھی اور ان کی توسیع کے بینرز لگے تو خود جنرل راحیل نے خود کو متنازعہ نہیں ہونے دیا اور واضح کردیا کہ وہ توسیع کے خواہش مند نہیں اور اپنے وقت پر موجودہ منصب چھوڑ دیں گے۔

جنرل راحیل شریف کے قبل از وقت کیے گئے اعلان کے بعد بھی ملک بھر میں بینرز لگے کہ جنرل صاحب جانے کی باتیں رہنے دو۔ ملک کا خیال کریں، دہشتگردی سے مکمل نجات دلاؤ، بھارت کو سبق سکھاؤ اور اب یہ مطالبہ بھی ہوا ہے کہ ان سے دو سالہ پابندی ہٹا کر انھیں 2018 کے انتخابات میں شرکت کا موقع دیا جائے۔ میڈیا میں جنرل راحیل کی حمایت میں بیانات بھی آرہے ہیں حالانکہ جنرل راحیل کے ذریعے ملک میں دہشت گردی میں کمی آئی ہے۔ کراچی خصوصاً پی پی کے گڑھ لیاری میں امن بحال ہوا۔ ٹارگٹ کلنگ اور بھتے پر کنٹرول ہوا۔ اغوا برائے تاوان کی شکایتیں ختم ہوئیں۔

بڑوں بڑوں پر ہاتھ ڈالا گیا مگر سندھ حکومت نے اندرون سندھ رینجرز کو فری ہینڈ نہیں دیا۔ پنجاب میں چھوٹو گینگ سے بھی فوج نے نجات دلائی مگر پنجاب میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا راستہ روکا گیا اور سب سے اہم سی پیک کے منصوبے پر کام کرنے والوں کی حفاظت اور تیزی سے تکمیل بھی پاک فوج کی مرہون منت ہے اور گوادر سے چینی مال کی روانگی شروع ہوگئی ہے۔

جنرل راحیل نے ملک کے سیاسی تنازعات میں الجھے بغیر اپنے کام سے کام رکھا۔ حکومت سے بھی تعلقات خراب نہیں ہونے دیے۔ انھوں نے عوام کو امن و امان دیا ،اس کے علاوہ دیگ فوائد عوام کو دینا فوجی جنرل کا نہیں منتخب جمہوریحکومت کا کام ہے جس نے اپنے ساڑھے تین سال میں عملی طور پر عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔ حکومت سے عوام کو بہت کچھ دینے کے اشتہار تو میڈیا کی زینت بن رہے ہیں یا حکومتی وزیروں کو معاشی ترقی، ارزانی اور عوامی خوشحالی نظر آرہی ہے عملی طور پر تو حکمران لوڈ شیڈنگ نصف کرنے کے اپنے اعلان پر عمل بھی نہ کرا سکے ہیں اور باقی ڈیڑھ سال بھی جلد پورا ہوجائے گا۔

جنرل راحیل نے عوامی اجتماعات سے خطاب کا وزیر اعظم کا طریقہ اپنایا نہ وہ کہیں عوام کے قریب آئے اور یہ ضرور ہے کہ اے پی ایس پشاور سے حالیہ کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج کی دہشتگردی کے مقامات پر وہ وزیر اعظم سے پہلے ہر جگہ پہنچے اور شاہ نورانی دہشتگردی کے زخمیوں کی کراچی سول اسپتال میں عیادت کی ۔ جنرل راحیل کو ممتاز سماجی رہنما عبدالستار ایدھی کی نماز جنازہ میں عوام نے دیکھا۔

ساڑھے تین سال میں کہیں بینر نہیں لگا کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جمہوری وزیراعظم کے مقابلے میں ملک بھر میں جنرل راحیل شریف مقبولیت کی جس انتہا پر ہیں وہاں وزیراعظم نواز شریف کو ہونا چاہیے تھا جن کے پاس عوام کو دینے کے لیے سب کچھ ہے مگر وہ تو کرپشن کے الزامات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں اور جس کے پاس عوام کو دینے کے لیے اپنی فوجی کارکردگی کے سوا کچھ بھی نہیں اسے ملک میں نہ صرف مقبولیت حاصل ہے بلکہ لوگ اپنا مستقبل بھی جنرل راحیل میں تلاش کر رہے ہیں۔
Load Next Story