پاکستان میں فنون لطیفہ کا مستقبل
فلم، ٹی وی ، تھیٹر، میوزک، رقص اورفیشن کے شعبوںکوبچانے کیلئے حکومتی اقدامات کی ضرورت
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اگرآج دنیا بھرکی اکانومی پرراج کررہے ہیں تو اس میں سب سے اہم کرداربلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کا ہی ہے۔ خاص طورپرفنون لطیفہ کے تمام شعبوں کی بات کی جائے توپھرجہاں لوگوں کو انٹرٹین کرنے میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے والوں کوآج عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، وہیں ان کی قابلیت کے ڈنکے بھی بجتے ہیں۔
ہالی وڈ اس حوالے سے سرفہرست مانا جاتا ہے۔ جس اندازسے فلم انڈسٹری سے وابستہ تکنیک کاروں نے اپنی صلاحیتوں کواستعمال کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات اکثرحیران کردیتی ہیں۔ بلاشبہ ہالی وڈ کے علاوہ دیگرمغربی ممالک سمیت ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بالی وڈ بھی اس معاملے میں خاصی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن ابھی تک اس کو وہ مقام نہیں مل سکا، جس کا وہاں چرچا کیا جاتا ہے۔
مگرایک بات ضرور ہے کہ وہاں پرفلم ہی نہیں، ٹی وی ڈرامے، تھیٹر، رقص، میوزک اورفیشن کے شعبوں کومنفرداورحیرت انگیز بنانے کیلئے خاصا کام ہورہا ہے اوراس کی بدولت انہیں بہتربزنس بھی مل رہا ہے۔ ایک طرف سیٹلائٹ چینلز کی دوڑ میں وہ بہت آگے بڑھ چکے ہیں اوراسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں بھی وہ اپنی پہچان تیزی سے بناتے ہوئے ہالی وڈ کے قریب پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں فنون لطیفہ کے تمام شعبے ( جن میں فلم، ٹی وی ، تھیٹر، میوزک، رقص اورفیشن قابل ذکرہیں ) اوراس سے وابستہ افراد تاحال بے پناہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود وسائل کی کمی کیخلاف جاری جنگ لڑرہے ہیں۔
آج اگرپوری دنیا میں ہالی وڈ یا بالی وڈ سٹارزکی فلمیں دیکھی اورپسند کی جاتی ہیں تواس کا کریڈٹ بڑی حد تک جدید ٹیکنالوجی کوہی جاتا ہے ، جس سے استفادہ کرتے ہوئے آج ہالی وڈ والے اربوں اور بالی وڈ والے کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ دوسری جانب اگرہم بات کریں پاکستان میں فلم انڈسٹری اوراس کے دیگرشعبوں کی توپھرہمیں فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔
ماضی میں تو وسائل کی شدید کمی کے باوجود ہمارے ملک میں بننے والی فلموں کے کامیاب بزنس کی سلوراورگولڈن جوبلی منائی جاتی رہی ہیں لیکن پھرایک دورایسا بھی آیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہالی وڈ اوربالی وڈ فلموں کودیکھنے کے بعد شائقین کی بڑی تعداد پاکستانی فلموں سے دورہونے لگی۔ ہمارے ہاں پیسے اورجدید ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث اس معیار کی فلمیں نہ بن سکیں جس کو لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے فلم انڈسٹری کا شدید بحران شروع ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے نگارخانوںکی ویرانیاں بڑھنے لگیں اور سینما گھرٹوٹنے لگے۔
کسی سینما گھرکوپٹرول پمپ، شاپنگ مال میں تبدیل کردیا گیا توکہیں پرسٹیج ڈراموں کے تھیٹربنا دیئے گئے۔ یہ وہ دورتھا جب ہمارے ملک کے باسیوں کی سب سے سستی تفریح کوسوچی سمجھی سازش یا کچھ لوگوںکی بے وقوفی کی وجہ سے ختم کیا جا رہا تھا۔ اس موقع پربہت سے لوگ فلم انڈسٹری سے عزت، شہرت اوردولت سمیٹ کر دور چلے گئے اوربہت سے لوگوں نے ٹی وی کا رخ کیا۔ یہ سب وہ مفاد پرست لوگ تھے۔
جنہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری سے بہت دولت کمائی ، مگر ضرورت پڑنے پراس پرایک روپیہ تک نہ لگایا۔ اب تویہ تلخ یادیں پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ کا ایک ایسا ''باب '' بن چکی ہیں، جس کے بارے میں جان کرہمیشہ افسوس ہوگا اوربے حسی کی مثالیں سن کرآنکھیں نم ہوجائینگی۔ یہی نہیں اگرٹی وی کے شعبے کی بات کریں توہمیشہ سے ہی پاکستانی ڈرامہ ہمارا خاصا رہا۔ پڑوسی ملک بھارت میں اداکاری کی تربیت دینے کیلئے نوجوانوںکو پاکستانی ڈرامہ دکھایا جاتا تھا اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
مگرسیٹلائٹ چینلز کی مدد سے بھارتی ڈرامے ہمارے گھروں میں دکھائی دیئے توپھر پاکستانی ڈرامہ بھی اس سے خوب متاثر ہوا۔ اس کوبہترکرنے اور اپنی خامیوںکو دور کرنے کی بجائے ہمارے ڈرامہ پروڈیوسر اور ڈائریکٹروں نے بھارتی ڈراموں کی نقل شروع کی اورپھرپاکستانی ڈرامہ پستی کی جانب بڑھنے لگا۔ ایک طرف توڈراموں کی کہانیاں بے معنی تھیں اوردوسری جانب ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے باعث ڈرامے کا معیاربے حدمتاثر ہوا۔ اسی طرح اگربات تھیٹرکی کریں توسنجیدہ ڈرامے کی جگہ سٹیج پرکمرشل ڈرامے کے نام پربے حیائی اورفحاشی کوفروغ دیا گیا۔ سٹیج ڈرامے دیکھنے اورپسند کرنے والی فیملیوں نے تھیٹرسے ایسی کنارہ کشی اختیارکی کہ آج اتنے برس گزرنے کے باوجود تھیٹروں میں فیملیز دکھائی نہیں دیتیں۔
اس کے ذمہ دارایک طرف فنکار، پروڈیوسراورڈائریکٹرہیں ، جنہوں نے اپنی نالائقی چھپانے کیلئے ولگریٹی کواپنا ایسا ''ہتھیار'' بنایا کہ آج دنیا بھرمیں قدرکی نگاہ سے دیکھے جانے والے فنون لطیفہ کے شعبے تھیٹرکوہمارے ہاں پسند کرنے والے طبقے کوبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ البتہ سنجیدہ تھیٹرکرنے والے گروپس کے کام اورفنکاروںکی پرفارمنس کواچھارسپانس ملتا ہے اوریہی لوگ صحیح معنوں میں دنیا بھرمیں پاکستانی تھیٹرکی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگریہ شعبہ بھی جدیدٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے باعث اس طرح سے کام نہیں کرپاتا ، جس طرح سے دنیا بھرمیں ہو رہاہے۔
پاکستان میں رقص کے شعبے کی بات کی جائے توپھر کلاسیکل رقص اورفلمی رقص کے انداز نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ فلم کے شعبے کی بات کریں توایک دورتھا جب معروف رقاص فلم کی کہانی اورسین کی ڈیمانڈ کے مطابق گیت کوکوریوگراف کرتے تھے ، مگراب تویہ شعبہ شدید بحران سے دوچارہوچکا ہے۔ ایک طرف یہاں فلمیں بننے کا رجحان بے حد متاثرہوااوردوسری جانب نوجوانوں کی بڑی تعداد نے بطورکوریوگرافر کام کرنے کی بجائے کورس ڈانسر کے طورپرسٹیج اداکاراؤں کے پیچھے رقص کرنے کو ترجیح دے دی ہے۔
ڈانس کا معیاراس قدرخراب ہوچکا ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ دوسری جانب اگرکلاسیکل رقص کی بات کریں تو شیماکرمانی، نگہت چوہدری اورناہید صدیقی کے نام اس میں قابل ذکرہیں۔ ان مہان رقاصاؤں نے ہمارے ملک میں کلاسیکل رقص کوزندہ رکھا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ نوجوان اس شعبے میں کام کررہے ہیں ، لیکن ان کووہ پذیرائی نہیں مل پائی۔ اس کی بڑی وجہ ایک طرف توثقافت کے فروغ کیلئے بنائے گئے اداروں کی عدم توجہی ہے اوردوسری جانب اس شعبے میں بھی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت خاصی کمیاں دکھائی دیتی ہیں۔
باصلاحیت رقاص توملک بھرمیں موجود ہیں لیکن ان کے پاس اپنے فن کومتعارف کروانے کیلئے بہترین پلیٹ فارم نہیں مل پاتے۔ اسی لئے توبہت سا ٹیلنٹ گلی، کوچوں میں اچھے وقت کا انتظارکرتے ہوئے کھوجاتا ہے اورجن کو ایک ، آدھ موقع مل جائے تووہ مزید کام کے انتظارمیں اپنے ملک کوبرا بھلا کہنے پرمجبورہوجاتا ہے۔ اسی طرح فیشن کے شعبے میں بھی بہت سے باصلاحیت لوگ کام کررہے ہیں۔ اس وقت پاکستان فیشن انڈسٹری پوری دنیا میں اپنا مقام رکھتی ہے ۔ جس کی بڑی وجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوںکا اس شعبے سے وابستہ ہونا ہے۔
یہ لوگ جہاں ڈیزائن کے شعبے میں خوب مہارت رکھتے ہیں، وہیں فیشن کی انٹرنیشنل ڈیمانڈ کے بارے میںبھی ان کی معلومات اورتحقیق کسی سے کم نہیں ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ہونے والے فیشن ویکس میں جب ہمارے ڈیزائنرز کے ملبوسات سپرماڈلز زیب تن کئے ہوئے ریمپ پرکیٹ واک کرتی ہیں تویہ ہنرپوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنتا ہے لیکن اس کے باوجود جدید ٹیکنالوجی سے ان کا کام اوربھی نکھارا جاسکتا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ لوگ اپنے ایونٹس کوکامیاب بنانے کے لیے کثیرسرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سی چیزیں تاحال پاکستان نہیں آسکیں، جس کی وجہ سے ایونٹس کوحیرت انگیز بنانے میں ہربار کمی رہ جاتی ہے۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظرپاکستان میں فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کا مستقبل اس طرح سے روشن دکھائی نہیں دیتا، جس طرح سے دنیا کے بیشترممالک ہے۔ اس وقت دنیا بھرمیں نوجوان لڑکے اور لڑکیوںکی بڑی تعداد فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کو بطورکیرئیراپنا رہے ہیں اوراپنی صلاحیتوں سے تاریخ رقم کررہے ہیں۔ وہ اپنے کام کودوسروں سے مختلف بنانے کے لیے ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کررہے ہیں لیکن ہمارے ہاں ابھی تک اس پرتوجہ نہیں دی جارہی۔ ہرسال ہزاروں لوگ کام نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہورہے ہیں اورجن کوکامیابی مل رہی ہے وہ فوری بالی وڈ یاترا پرفوکس کرتے ہیں۔
ایسے میں فنون لطیفہ کے تمام شعبے اوراس سے وابستہ لوگوں کا مستقبل سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ اس نشان کوختم کرنے کے لیے سب کومل کرمثبت انداز سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے حکومت کوبھرپورسپورٹ کرنا ہوگی، اگرایسا نہ کیا گیا توپھرحالات جوں کے توں رہیں گے اورفنون لطیفہ کے شعبے وقتی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے پستی کی جانب چلے جائیں گے۔
ہالی وڈ اس حوالے سے سرفہرست مانا جاتا ہے۔ جس اندازسے فلم انڈسٹری سے وابستہ تکنیک کاروں نے اپنی صلاحیتوں کواستعمال کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات اکثرحیران کردیتی ہیں۔ بلاشبہ ہالی وڈ کے علاوہ دیگرمغربی ممالک سمیت ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بالی وڈ بھی اس معاملے میں خاصی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن ابھی تک اس کو وہ مقام نہیں مل سکا، جس کا وہاں چرچا کیا جاتا ہے۔
مگرایک بات ضرور ہے کہ وہاں پرفلم ہی نہیں، ٹی وی ڈرامے، تھیٹر، رقص، میوزک اورفیشن کے شعبوں کومنفرداورحیرت انگیز بنانے کیلئے خاصا کام ہورہا ہے اوراس کی بدولت انہیں بہتربزنس بھی مل رہا ہے۔ ایک طرف سیٹلائٹ چینلز کی دوڑ میں وہ بہت آگے بڑھ چکے ہیں اوراسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں بھی وہ اپنی پہچان تیزی سے بناتے ہوئے ہالی وڈ کے قریب پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں فنون لطیفہ کے تمام شعبے ( جن میں فلم، ٹی وی ، تھیٹر، میوزک، رقص اورفیشن قابل ذکرہیں ) اوراس سے وابستہ افراد تاحال بے پناہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود وسائل کی کمی کیخلاف جاری جنگ لڑرہے ہیں۔
آج اگرپوری دنیا میں ہالی وڈ یا بالی وڈ سٹارزکی فلمیں دیکھی اورپسند کی جاتی ہیں تواس کا کریڈٹ بڑی حد تک جدید ٹیکنالوجی کوہی جاتا ہے ، جس سے استفادہ کرتے ہوئے آج ہالی وڈ والے اربوں اور بالی وڈ والے کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ دوسری جانب اگرہم بات کریں پاکستان میں فلم انڈسٹری اوراس کے دیگرشعبوں کی توپھرہمیں فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔
ماضی میں تو وسائل کی شدید کمی کے باوجود ہمارے ملک میں بننے والی فلموں کے کامیاب بزنس کی سلوراورگولڈن جوبلی منائی جاتی رہی ہیں لیکن پھرایک دورایسا بھی آیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہالی وڈ اوربالی وڈ فلموں کودیکھنے کے بعد شائقین کی بڑی تعداد پاکستانی فلموں سے دورہونے لگی۔ ہمارے ہاں پیسے اورجدید ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث اس معیار کی فلمیں نہ بن سکیں جس کو لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے فلم انڈسٹری کا شدید بحران شروع ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے نگارخانوںکی ویرانیاں بڑھنے لگیں اور سینما گھرٹوٹنے لگے۔
کسی سینما گھرکوپٹرول پمپ، شاپنگ مال میں تبدیل کردیا گیا توکہیں پرسٹیج ڈراموں کے تھیٹربنا دیئے گئے۔ یہ وہ دورتھا جب ہمارے ملک کے باسیوں کی سب سے سستی تفریح کوسوچی سمجھی سازش یا کچھ لوگوںکی بے وقوفی کی وجہ سے ختم کیا جا رہا تھا۔ اس موقع پربہت سے لوگ فلم انڈسٹری سے عزت، شہرت اوردولت سمیٹ کر دور چلے گئے اوربہت سے لوگوں نے ٹی وی کا رخ کیا۔ یہ سب وہ مفاد پرست لوگ تھے۔
جنہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری سے بہت دولت کمائی ، مگر ضرورت پڑنے پراس پرایک روپیہ تک نہ لگایا۔ اب تویہ تلخ یادیں پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ کا ایک ایسا ''باب '' بن چکی ہیں، جس کے بارے میں جان کرہمیشہ افسوس ہوگا اوربے حسی کی مثالیں سن کرآنکھیں نم ہوجائینگی۔ یہی نہیں اگرٹی وی کے شعبے کی بات کریں توہمیشہ سے ہی پاکستانی ڈرامہ ہمارا خاصا رہا۔ پڑوسی ملک بھارت میں اداکاری کی تربیت دینے کیلئے نوجوانوںکو پاکستانی ڈرامہ دکھایا جاتا تھا اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
مگرسیٹلائٹ چینلز کی مدد سے بھارتی ڈرامے ہمارے گھروں میں دکھائی دیئے توپھر پاکستانی ڈرامہ بھی اس سے خوب متاثر ہوا۔ اس کوبہترکرنے اور اپنی خامیوںکو دور کرنے کی بجائے ہمارے ڈرامہ پروڈیوسر اور ڈائریکٹروں نے بھارتی ڈراموں کی نقل شروع کی اورپھرپاکستانی ڈرامہ پستی کی جانب بڑھنے لگا۔ ایک طرف توڈراموں کی کہانیاں بے معنی تھیں اوردوسری جانب ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے باعث ڈرامے کا معیاربے حدمتاثر ہوا۔ اسی طرح اگربات تھیٹرکی کریں توسنجیدہ ڈرامے کی جگہ سٹیج پرکمرشل ڈرامے کے نام پربے حیائی اورفحاشی کوفروغ دیا گیا۔ سٹیج ڈرامے دیکھنے اورپسند کرنے والی فیملیوں نے تھیٹرسے ایسی کنارہ کشی اختیارکی کہ آج اتنے برس گزرنے کے باوجود تھیٹروں میں فیملیز دکھائی نہیں دیتیں۔
اس کے ذمہ دارایک طرف فنکار، پروڈیوسراورڈائریکٹرہیں ، جنہوں نے اپنی نالائقی چھپانے کیلئے ولگریٹی کواپنا ایسا ''ہتھیار'' بنایا کہ آج دنیا بھرمیں قدرکی نگاہ سے دیکھے جانے والے فنون لطیفہ کے شعبے تھیٹرکوہمارے ہاں پسند کرنے والے طبقے کوبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ البتہ سنجیدہ تھیٹرکرنے والے گروپس کے کام اورفنکاروںکی پرفارمنس کواچھارسپانس ملتا ہے اوریہی لوگ صحیح معنوں میں دنیا بھرمیں پاکستانی تھیٹرکی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگریہ شعبہ بھی جدیدٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے باعث اس طرح سے کام نہیں کرپاتا ، جس طرح سے دنیا بھرمیں ہو رہاہے۔
پاکستان میں رقص کے شعبے کی بات کی جائے توپھر کلاسیکل رقص اورفلمی رقص کے انداز نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ فلم کے شعبے کی بات کریں توایک دورتھا جب معروف رقاص فلم کی کہانی اورسین کی ڈیمانڈ کے مطابق گیت کوکوریوگراف کرتے تھے ، مگراب تویہ شعبہ شدید بحران سے دوچارہوچکا ہے۔ ایک طرف یہاں فلمیں بننے کا رجحان بے حد متاثرہوااوردوسری جانب نوجوانوں کی بڑی تعداد نے بطورکوریوگرافر کام کرنے کی بجائے کورس ڈانسر کے طورپرسٹیج اداکاراؤں کے پیچھے رقص کرنے کو ترجیح دے دی ہے۔
ڈانس کا معیاراس قدرخراب ہوچکا ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ دوسری جانب اگرکلاسیکل رقص کی بات کریں تو شیماکرمانی، نگہت چوہدری اورناہید صدیقی کے نام اس میں قابل ذکرہیں۔ ان مہان رقاصاؤں نے ہمارے ملک میں کلاسیکل رقص کوزندہ رکھا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ نوجوان اس شعبے میں کام کررہے ہیں ، لیکن ان کووہ پذیرائی نہیں مل پائی۔ اس کی بڑی وجہ ایک طرف توثقافت کے فروغ کیلئے بنائے گئے اداروں کی عدم توجہی ہے اوردوسری جانب اس شعبے میں بھی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت خاصی کمیاں دکھائی دیتی ہیں۔
باصلاحیت رقاص توملک بھرمیں موجود ہیں لیکن ان کے پاس اپنے فن کومتعارف کروانے کیلئے بہترین پلیٹ فارم نہیں مل پاتے۔ اسی لئے توبہت سا ٹیلنٹ گلی، کوچوں میں اچھے وقت کا انتظارکرتے ہوئے کھوجاتا ہے اورجن کو ایک ، آدھ موقع مل جائے تووہ مزید کام کے انتظارمیں اپنے ملک کوبرا بھلا کہنے پرمجبورہوجاتا ہے۔ اسی طرح فیشن کے شعبے میں بھی بہت سے باصلاحیت لوگ کام کررہے ہیں۔ اس وقت پاکستان فیشن انڈسٹری پوری دنیا میں اپنا مقام رکھتی ہے ۔ جس کی بڑی وجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوںکا اس شعبے سے وابستہ ہونا ہے۔
یہ لوگ جہاں ڈیزائن کے شعبے میں خوب مہارت رکھتے ہیں، وہیں فیشن کی انٹرنیشنل ڈیمانڈ کے بارے میںبھی ان کی معلومات اورتحقیق کسی سے کم نہیں ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ہونے والے فیشن ویکس میں جب ہمارے ڈیزائنرز کے ملبوسات سپرماڈلز زیب تن کئے ہوئے ریمپ پرکیٹ واک کرتی ہیں تویہ ہنرپوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنتا ہے لیکن اس کے باوجود جدید ٹیکنالوجی سے ان کا کام اوربھی نکھارا جاسکتا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ لوگ اپنے ایونٹس کوکامیاب بنانے کے لیے کثیرسرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سی چیزیں تاحال پاکستان نہیں آسکیں، جس کی وجہ سے ایونٹس کوحیرت انگیز بنانے میں ہربار کمی رہ جاتی ہے۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظرپاکستان میں فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کا مستقبل اس طرح سے روشن دکھائی نہیں دیتا، جس طرح سے دنیا کے بیشترممالک ہے۔ اس وقت دنیا بھرمیں نوجوان لڑکے اور لڑکیوںکی بڑی تعداد فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کو بطورکیرئیراپنا رہے ہیں اوراپنی صلاحیتوں سے تاریخ رقم کررہے ہیں۔ وہ اپنے کام کودوسروں سے مختلف بنانے کے لیے ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کررہے ہیں لیکن ہمارے ہاں ابھی تک اس پرتوجہ نہیں دی جارہی۔ ہرسال ہزاروں لوگ کام نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہورہے ہیں اورجن کوکامیابی مل رہی ہے وہ فوری بالی وڈ یاترا پرفوکس کرتے ہیں۔
ایسے میں فنون لطیفہ کے تمام شعبے اوراس سے وابستہ لوگوں کا مستقبل سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ اس نشان کوختم کرنے کے لیے سب کومل کرمثبت انداز سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے حکومت کوبھرپورسپورٹ کرنا ہوگی، اگرایسا نہ کیا گیا توپھرحالات جوں کے توں رہیں گے اورفنون لطیفہ کے شعبے وقتی کامیابیاں سمیٹتے ہوئے پستی کی جانب چلے جائیں گے۔