ایک دن جدید ٹیکنالوجی کے بغیر

’ڈاٹ کام جنریشن‘ سے معذرت، لیکن اکیسویں صدی میں ترقی کی اس لہر نے انسانوں کو قریب کرنے کے بجائے مزید دور کردیا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ فاصلے گھٹانے والی ٹیکنالوجی نے انسانوں کے درمیان قربتیں کس قدر کم کردی ہیں۔ کل کے’’ٹیلی کمیونی کیشن بلیک آؤٹ‘‘ نے گزرے وقت کی یہ سب باتیں ایک ساتھ یاد دلادیں۔ فوٹو: فائل

کل کا دن اس لحاظ سے منفرد رہا کہ سیاسی، عسکری اور مذہبی وجوہ کی بناء پر موبائل فون سروس، انٹرنیٹ اور کیبل پر ٹی وی نشریات تک بند رہیں۔ یوں لگا جیسے 1970ء اور 1980ء کے عشرے کا زمانہ ایک بار پھر واپس آگیا ہے، دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو!

خیر سے ابنِ انشاء مرحوم اگر آج بھی زندہ ہوتے تو اس موقعے شاید یہ ضرور لکھتے،
موبائل سگنلوں سے خالی،
کمپیوٹر انٹرنیٹ سے خالی،
ٹی وی چینلوں سے خالی،
یہ ہمارا اکیسویں صدی کا ''خلائی دور'' ہے۔

ٹیکنالوجی نے ہمارے لئے تیز ترین اور فوری رابطے کی جو سہولیات مہیا کی ہیں، ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ''رابطے'' کی اسی ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک دوسرے سے بہت دور کردیا ہے۔

''ڈاٹ کام جنریشن'' سے معذرت، لیکن اکیسویں صدی میں ترقی کی اس لہر نے خبروں کا تبادلہ تیز رفتار بلکہ برق رفتار ضرور بنادیا ہے لیکن انسانوں کی ایک دوسرے سے بے خبری میں افاقہ ہونے کے بجائے اضافہ ہوگیا ہے۔
خبرِ تحیرِ عشق سُن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ وہ میں رہا نہ وہ تُو رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

راقم کا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے ذرائع مواصلات میں ترقی کا چالیس سالہ سفر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اسی لئے مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب پورے محلے کے کسی ایک گھر میں ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا، فون کی سہولت بھی چار محلوں میں کسی ایک گھر یا پرچون کی بڑی دکان ہی پر میسر ہوتی تھی۔ اس زمانے میں کسی نے بھی کیبل، انٹرنیٹ، بلیو ٹوتھ، اسمارٹ فون اور وائی فائی جیسے الفاظ تک نہیں سنے تھے، کیونکہ ابھی ان کے ایجاد ہونے میں بہت وقت باقی تھا۔

اپنے دُور دیس رشتہ داروں اور احباب سے رابطے کا سب سے مشہور ذریعہ ''خط نویسی'' ہوا کرتا تھا اور پوسٹ کارڈ عام تھے۔ اور اگر کسی نے ڈاکیے کو محلے کے کسی گھر میں پھٹے ہوئے کونے والا لفافہ یا پوسٹ کارڈ دیتے دیکھ لیا تو محلے بھر کی خواتین ''شٹل کاک'' برقعے اوڑھ کر پُرسہ دینے اس گھر پہنچ جایا کرتی تھیں (کیونکہ اس زمانے کے پڑوسی صرف ایک دوسرے ہی سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں تک سے نام بنام واقف ہوتے تھے)۔


ذوقِ مطالعہ کی تسکین کے لئے صرف اخبارات، رسائل اور کتابیں ہی دستیاب تھیں کیونکہ اُس زمانے میں ای بُکس اور پی ڈی ایف ورژن جیسے لوازمات ''نازائیدہ'' ہی تھے۔ حصولِ معلومات و علم کے اِن ذرائع میں سب سے بڑی قباحت یہ ہوتی تھی کہ بڑی تگ و دو کے بعد حاصل ہوتے تھے۔ اخبارات اور رسائل کا حصول تو پھر بھی نسبتاً آسان تھا کیونکہ ''ہاکر'' سے فرمائش کرکے یہ دونوں چیزیں دروازے پر منگوائی جاسکتی تھیں لیکن کتابوں کا معاملہ اکثر بہت ٹیڑھا اور مشکل رہا کرتا تھا۔

اردو بازار سے لے کر پرانی کتابوں کے بازاروں تک لمبی دوڑ لگا کرتی تھی کیونکہ آج کی طرح پرانے وقتوں میں بھی بیشتر سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں لائبریریاں خال خال ہوا کرتی تھیں۔ البتہ پاکستان کے بڑے شہروں میں ''برٹش کونسل لائبریری'' اور ''امریکن سینٹر لائبریری'' کی عیاشیاں بہرحال موجود تھیں اور شائقینِ مطالعہ کو تین سے چار بسیں تبدیل کرکے، مہینے میں ایک سے دو بار وہاں جانے میں کبھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔ علم کی پیاس کے سامنے سفر کی تکلیف بھی راحت لگتی تھی۔

یقین کیجئے کہ اتنی مشقت کے بعد جو علم حاصل ہوتا تھا وہ دماغ کے ساتھ ساتھ گویا روح میں بھی اترتا چلا جاتا تھا۔ اشعار ہوں، معلومات ہوں یا نثر پارے، وہ سب کے سب ذہن میں کچھ ایسے بیٹھ جاتے تھے کہ ان کا بیشتر حصہ آج بھی حافظے میں موجود ہے۔ یہ شاید اس لئے بھی تھا کیونکہ علم کی رسد کم تھی اور علم کی طلب بہت زیادہ۔ آج معاملہ اُلٹا ہے کیونکہ علم تو جگہ جگہ سے بہ آسانی، وافر اور مفت میں بھی دستیاب ہے لیکن آج حصولِ علم کا وہ شوق ناپید ہوگیا ہے۔

چونکہ اُس وقت مواصلاتی ٹیکنالوجی نے بہت زیادہ ترقی نہیں کی تھی اس لئے امی جی، اباجی، بہنوں، بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا، ان کے خیالات سننا اور انہیں اپنے خیالات سے آگاہ کرنا معمول کا حصہ تھا۔ تب ہم اس قابل نہیں تھے کہ اپنی تکلیف، اپنی خوشی، اپنی کامیابی اور ناکامی اور اپنے پچھتاووں کے بارے میں ساری دنیا کو ''اسٹیٹس اپ ڈیٹ'' کے ذریعے آگاہ کرسکتے لیکن پھر بھی ہمارے آس پاس رہنے والے لوگ ہمارے جذباتی نشیب و فراز سے واقف ہوجایا کرتے تھے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ فاصلے گھٹانے والی ٹیکنالوجی نے انسانوں کے درمیان قربتیں کس قدر کم کردی ہیں۔ کل کے''ٹیلی کمیونی کیشن بلیک آؤٹ'' نے گزرے وقت کی یہ سب باتیں ایک ساتھ یاد دلادیں، اور یہ احساس بھی ہوا کہ ترقی کی مسلسل بڑھتی ہوئی رفتار سے خود کو ہم آہنگ رہنے اور زمانے کے ساتھ ''قدم سے قدم'' ملا کر چلنے کے چکر میں شاید ہم ماضی کی بہت سی اچھی روایات کو انقلابی لہروں پر خس و خاشاک کی طرح بہاتے چلے جارہے ہیں۔

نہ جانے ہمارے سماجی ماہرین کب ہوش میں آئیں گے اور اپنی نسلوں کو اس بے سمت و بے مقصد سیلابِ اطلاع سے بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کریں گے۔

[poll id="1267"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story