بے اختیار میئر
تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ثمر علی خان نے کہا کہ میئر کو مکمل اختیارات ملنے چاہئیں۔
کراچی کو طویل عرصہ بعد میئر مل گیا۔ وسیم اختر کئی ماہ جیل میں گزارنے کے بعد عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو گئے۔ گزشتہ دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل مکمل ہوگئے۔ وسیم اختر سندھ اسمبلی گئے، اسپیکر آغا سراج درانی نے انھیں شیلڈ پیش کی، قائم علی شاہ نے میئر کو خوش آمدید کہا اور سندھ کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہارالحسن نے حکومت سندھ سے اپیل کی کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے میئر وسیم اختر کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
وسیم اختر کہتے ہیں کہ مسائل مل کر ہی حل ہوں گے۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ثمر علی خان نے کہا کہ میئر کو مکمل اختیارات ملنے چاہئیں۔ سندھ کے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے کراچی کے میئر کی سندھ اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری میں آمد پر کہا کہ سندھ اسمبلی سے منظور کردہ بلدیاتی قانون کے تحت بلدیاتی نظام قائم ہوا ہے، بغیر اختیارات کے بلدیاتی اداروں کا کوئی تصور نہیں ہے۔
نثار کھوڑو نے اراکین اسمبلی کو بتایا کہ لوکل باڈیز ایکٹ کے تحت جو اختیارات منتخب نمایندوں کو دیے گئے ہیں ان میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور اس قانون کے تحت منتخب کارپوریشن سے یونین کونسل تک کے اختیارات طے کردیے گئے ہیں۔
سندھ کا لوکل باڈیز ایکٹ جمہوری حکومتوں کی تاریخ کا ایک دلچسپ قانون ہے۔ اس قانون کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ قانون کا مسودہ تحریر کرنے والے بیوروکریٹس کو بار بار ہدایت کی گئی ہوگی کہ منتخب بلدیاتی اداروں کو کہیں موثر اختیار نہ مل پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر، جس کی آبادی 2 کروڑ کے قریب ہے، کے میئر بنیادی انتظامی اور مالیاتی اختیارات سے محروم ہیں۔
جدید شہروں کا انتظام چلانے والے افراد کو شہر میں رہنے والوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو ترجیح دینی ہوتی ہے۔ شہروں کی بنیادی سہولتوں میں مکانات اور پانی اور بجلی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر، گندے پانی کی نکاسی، کوڑے کرکٹ اور فضلے کی صفائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے تحت ان کو ٹھکانے لگانے، صحت کی سہولتوں کی فراہمی، تعلیمی اداروں کے قیام اور ہنگامی سروس کو مہیا کرنے کے فرائض شامل ہوتے ہیں۔ پھر آمدنی کے لیے ٹیکس لگانے اور حکومتوں اور دیگر اداروں سے گرانٹ اور قرضے لینے کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت جمہوری کلچر کی ترویج کرتی ہے، مگر اس جمہوری کلچر میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ کوئی اور ادارہ شامل نہیں ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے بانی اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے 1973 کا آئین تیار کیا تھا تو اس آئین میں بلدیاتی اداروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی اب تک چار حکومتیں اقتدار میں آچکی ہیں مگر کسی حکومت نے منتخب بلدیاتی اداروں کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کراتی ہیں اور منتخب بلدیاتی اداروں کے ذریعے دنیا بھر میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ فوجی آمریت میں بھی جمہوری ادارے ہی کام کررہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو ترقی کے ماہرین کا نظریہ دنیا بھر میں مقبول ہوچکا تھا کہ نچلی سطح کے اداروں کو اختیارات منتقل کرنے سے غربت کا خاتمہ اور ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے فلسفی مشیر لیفٹیننٹ جنرل نقوی نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام کا خاکہ تیار کیا۔ اس خاکے میں صوبائی خود مختاری کا تصور نہیں تھا اور منتخب نمایندوں کے اختیارات کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ڈپٹی کمشنر کے ادارہ کو بھی ختم کردیا تھا۔
کنور ادریس جیسے سینئر بیوروکریٹس نے مہینوں اس فیصلے کا ماتم کیا تھا۔ اس بلدیاتی نظام کے تحت کراچی اور حیدرآباد کے ناظمین کو اختیارات مل گئے جس کا ماضی میں تصور نہیں تھا۔ اب ناظم سیکریٹری بلدیاتی اور صوبہ کے چیف سیکریٹری سے بالاتر تھا اور بلدیاتی اداروں کے حسابات کے آڈٹ کا معاملہ بھی محدود کردیا گیا تھا۔ کراچی کے دونوں ناظمین جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان اور ایم کیو ایم کے مصطفی کمال براہِ راست اسلام آباد سے رابطے میں رہتے تھے۔ اس نظام کے کراچی اور حیدرآباد میں کامیاب نتائج سامنے آئے۔
کراچی شہر ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ شہر کے متوسط طبقے اور امراء کی بستیوں میں اعلیٰ معیار کی سڑکوں ، اوورہیڈ برج اور انڈر پاس کا جال بچھ گیا۔ شہر کے محلوں تک میں چھوٹے پارک بن گئے۔ پانی کی فراہمی اور صفائی کا نظام بھی بہتر ہوا۔ واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کے ڈی اے وغیرہ ناظم کی نگرانی میں آئے۔ پھر استپال اور اسکول بھی ناظم کی ذمے داریوں میں شامل ہوگئے۔ اس صورتحال میں بلدیاتی نمایندوں کو کام کرنے کے وسیع مواقع حاصل ہوئے۔ ناظم کراچی یہ مطالبہ بھی کرنے لگے کہ شہر کی پولیس کا نظام بھی ان کے حوالے کیا جائے۔
مشرف حکومت نے پولیس کے نظام کی نگرانی کے لیے ایک جدید قانون بنایا تھا۔ اس قانون کے تحت منتخب نمایندوں کو شہر، صوبے اور وفاق کی سطح تک قائم ہونے والے سیفٹی بورڈ میں شامل ہونا تھا۔ یوں یہ معاملہ رک گیا۔ اس نظام کے تحت بہت سے فائدے ہوئے اور کچھ منفی نتائج بھی سامنے آئے۔ سندھ میں کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ باقی شہروں میں ترقی کا عمل بہتر نہیں ہوا بلکہ بدعنوانی کی شرح بڑھ گئی۔ کراچی میں مصطفیٰ کمال نے غریبوں کی بستیوں کو نظرانداز کیا۔
لیاری، پٹھان کالونی، فرنٹیئر کالونی، ملیر، لانڈھی اور ساحلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع نہیں ہوئے۔ لیاری میں ایک اوورہیڈ برج اور انڈرپاس تک تعمیر نہیں ہوا۔ پھر ہزاروں ایسے افراد کو ملازمتیں ملیں جو بہت کم اپنی ملازمتوں پر گئے۔ مصطفیٰ کمال نے بلدیاتی اداروں کے پنشن فنڈ کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی 6 سال گزر جانے کے بعد بلدیاتی اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین پنشن کے حصول کے لیے رسوا ہوتے ہیں۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ بلدیاتی قانون پر جھگڑا چلا۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی ٹیموں کے درمیان درجنوں مباحثے ہوئے اور پھر جب ایک قانون نافذ ہوا تو سندھی قوم پرستوں نے واویلا مچادیا۔ اس ساری صورتحال میں سندھ کے شہروں اور گاؤں میں بلدیاتی کام چوپٹ ہوگئے۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں، کراچی شہر کے ہر محلہ میں گٹر لائن چوک ہوگئی۔ ایم اے جناح روڈ اور شاہراہِ لیاقت جیسی سڑکوں پر گندا پانی جمع ہونے لگا۔ شہر کے ہر علاقے میں کوڑے کے ڈھیر لگ گئے۔ کراچی میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی اور شہر میں ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی۔ عام آدمی مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہوا۔
سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اپنی حکومت کی کارکردگی کی تعریفیں کرتے رہے مگر کراچی شہر کے کوڑا کرکٹ کا معاملہ قومی مسئلہ بن گیا۔ شام کو ہونے والے ٹاک شوز میں اس مسئلے پر اسی طرح بحث ہونے لگیں جس طرح پانامہ لیکس پر ہورہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈھٹائی سے اپنی حکومت کی مدح سرائی کا فریضہ بخوبی انجام دینے لگے۔
یہ بات عام ہوگئی کہ بلدیاتی اداروں کے فنڈز کا بیشتر حصہ اعلیٰ ترین قیادت کو منتقل ہوجاتا ہے، یوں عملے کے پاس صفائی کے بنیادی اوزار تک خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ جب سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا فریضہ اپنے سپرد لیا تو حکومت سندھ نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کراچی واٹر بورڈ کو کراچی سٹی گورنمنٹ سے علیحدہ کیا اور کے ڈی اے کو بحال کردیا اور کوڑے کرکٹ بھی اٹھانے کے لیے ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی قائم کردی۔ کے ڈی اے نے سوک سینٹر میں اپنے دفاتر قائم کرلیے۔
ان افسروں کا کہنا تھا کہ سوک سینٹر کے ڈی اے نے تعمیر کیا تھا، اس پر بلدیہ کراچی کا کوئی حق نہیں ہے۔ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ نے اختیارات سنبھالے تو سیکریٹری بلدیات نے بلدیاتی اداروں کے افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے بارے میں فیصلے کردیے، یوں میئر اور ڈپٹی میئر مکمل طور پر بے اختیار ہوگئے۔ اس صورتحال میں ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومت سندھ کے قائم کردہ ادارے شہریوں کے مصائب کا مداوا نہیں کرسکے ہیں تو ساری امید بلدیاتی اداروں سے ہی وابستہ ہے۔
اگر حکومت سندھ میئر کو اختیارات نہیں دیتی تو شہر کوڑا دان بنا رہے گا۔ کراچی کے شہریوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے گا اور ایم کیو ایم اور حکومت سندھ کے درمیان کشمکش بڑھے گی۔ مگر اس مجموعی صورتحال میں عوام خسارے میں رہیں گے اور ان کا جمہوری نظام پر سے اعتماد مجروح ہوگا۔
وسیم اختر کہتے ہیں کہ مسائل مل کر ہی حل ہوں گے۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ثمر علی خان نے کہا کہ میئر کو مکمل اختیارات ملنے چاہئیں۔ سندھ کے سینئر وزیر نثار کھوڑو نے کراچی کے میئر کی سندھ اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری میں آمد پر کہا کہ سندھ اسمبلی سے منظور کردہ بلدیاتی قانون کے تحت بلدیاتی نظام قائم ہوا ہے، بغیر اختیارات کے بلدیاتی اداروں کا کوئی تصور نہیں ہے۔
نثار کھوڑو نے اراکین اسمبلی کو بتایا کہ لوکل باڈیز ایکٹ کے تحت جو اختیارات منتخب نمایندوں کو دیے گئے ہیں ان میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور اس قانون کے تحت منتخب کارپوریشن سے یونین کونسل تک کے اختیارات طے کردیے گئے ہیں۔
سندھ کا لوکل باڈیز ایکٹ جمہوری حکومتوں کی تاریخ کا ایک دلچسپ قانون ہے۔ اس قانون کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ قانون کا مسودہ تحریر کرنے والے بیوروکریٹس کو بار بار ہدایت کی گئی ہوگی کہ منتخب بلدیاتی اداروں کو کہیں موثر اختیار نہ مل پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر، جس کی آبادی 2 کروڑ کے قریب ہے، کے میئر بنیادی انتظامی اور مالیاتی اختیارات سے محروم ہیں۔
جدید شہروں کا انتظام چلانے والے افراد کو شہر میں رہنے والوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو ترجیح دینی ہوتی ہے۔ شہروں کی بنیادی سہولتوں میں مکانات اور پانی اور بجلی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر، گندے پانی کی نکاسی، کوڑے کرکٹ اور فضلے کی صفائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے تحت ان کو ٹھکانے لگانے، صحت کی سہولتوں کی فراہمی، تعلیمی اداروں کے قیام اور ہنگامی سروس کو مہیا کرنے کے فرائض شامل ہوتے ہیں۔ پھر آمدنی کے لیے ٹیکس لگانے اور حکومتوں اور دیگر اداروں سے گرانٹ اور قرضے لینے کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت جمہوری کلچر کی ترویج کرتی ہے، مگر اس جمہوری کلچر میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ کوئی اور ادارہ شامل نہیں ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے بانی اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے 1973 کا آئین تیار کیا تھا تو اس آئین میں بلدیاتی اداروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی اب تک چار حکومتیں اقتدار میں آچکی ہیں مگر کسی حکومت نے منتخب بلدیاتی اداروں کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کراتی ہیں اور منتخب بلدیاتی اداروں کے ذریعے دنیا بھر میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ فوجی آمریت میں بھی جمہوری ادارے ہی کام کررہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو ترقی کے ماہرین کا نظریہ دنیا بھر میں مقبول ہوچکا تھا کہ نچلی سطح کے اداروں کو اختیارات منتقل کرنے سے غربت کا خاتمہ اور ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے فلسفی مشیر لیفٹیننٹ جنرل نقوی نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام کا خاکہ تیار کیا۔ اس خاکے میں صوبائی خود مختاری کا تصور نہیں تھا اور منتخب نمایندوں کے اختیارات کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ڈپٹی کمشنر کے ادارہ کو بھی ختم کردیا تھا۔
کنور ادریس جیسے سینئر بیوروکریٹس نے مہینوں اس فیصلے کا ماتم کیا تھا۔ اس بلدیاتی نظام کے تحت کراچی اور حیدرآباد کے ناظمین کو اختیارات مل گئے جس کا ماضی میں تصور نہیں تھا۔ اب ناظم سیکریٹری بلدیاتی اور صوبہ کے چیف سیکریٹری سے بالاتر تھا اور بلدیاتی اداروں کے حسابات کے آڈٹ کا معاملہ بھی محدود کردیا گیا تھا۔ کراچی کے دونوں ناظمین جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان اور ایم کیو ایم کے مصطفی کمال براہِ راست اسلام آباد سے رابطے میں رہتے تھے۔ اس نظام کے کراچی اور حیدرآباد میں کامیاب نتائج سامنے آئے۔
کراچی شہر ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ شہر کے متوسط طبقے اور امراء کی بستیوں میں اعلیٰ معیار کی سڑکوں ، اوورہیڈ برج اور انڈر پاس کا جال بچھ گیا۔ شہر کے محلوں تک میں چھوٹے پارک بن گئے۔ پانی کی فراہمی اور صفائی کا نظام بھی بہتر ہوا۔ واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کے ڈی اے وغیرہ ناظم کی نگرانی میں آئے۔ پھر استپال اور اسکول بھی ناظم کی ذمے داریوں میں شامل ہوگئے۔ اس صورتحال میں بلدیاتی نمایندوں کو کام کرنے کے وسیع مواقع حاصل ہوئے۔ ناظم کراچی یہ مطالبہ بھی کرنے لگے کہ شہر کی پولیس کا نظام بھی ان کے حوالے کیا جائے۔
مشرف حکومت نے پولیس کے نظام کی نگرانی کے لیے ایک جدید قانون بنایا تھا۔ اس قانون کے تحت منتخب نمایندوں کو شہر، صوبے اور وفاق کی سطح تک قائم ہونے والے سیفٹی بورڈ میں شامل ہونا تھا۔ یوں یہ معاملہ رک گیا۔ اس نظام کے تحت بہت سے فائدے ہوئے اور کچھ منفی نتائج بھی سامنے آئے۔ سندھ میں کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ باقی شہروں میں ترقی کا عمل بہتر نہیں ہوا بلکہ بدعنوانی کی شرح بڑھ گئی۔ کراچی میں مصطفیٰ کمال نے غریبوں کی بستیوں کو نظرانداز کیا۔
لیاری، پٹھان کالونی، فرنٹیئر کالونی، ملیر، لانڈھی اور ساحلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع نہیں ہوئے۔ لیاری میں ایک اوورہیڈ برج اور انڈرپاس تک تعمیر نہیں ہوا۔ پھر ہزاروں ایسے افراد کو ملازمتیں ملیں جو بہت کم اپنی ملازمتوں پر گئے۔ مصطفیٰ کمال نے بلدیاتی اداروں کے پنشن فنڈ کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی 6 سال گزر جانے کے بعد بلدیاتی اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین پنشن کے حصول کے لیے رسوا ہوتے ہیں۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ بلدیاتی قانون پر جھگڑا چلا۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی ٹیموں کے درمیان درجنوں مباحثے ہوئے اور پھر جب ایک قانون نافذ ہوا تو سندھی قوم پرستوں نے واویلا مچادیا۔ اس ساری صورتحال میں سندھ کے شہروں اور گاؤں میں بلدیاتی کام چوپٹ ہوگئے۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں، کراچی شہر کے ہر محلہ میں گٹر لائن چوک ہوگئی۔ ایم اے جناح روڈ اور شاہراہِ لیاقت جیسی سڑکوں پر گندا پانی جمع ہونے لگا۔ شہر کے ہر علاقے میں کوڑے کے ڈھیر لگ گئے۔ کراچی میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی اور شہر میں ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی۔ عام آدمی مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہوا۔
سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اپنی حکومت کی کارکردگی کی تعریفیں کرتے رہے مگر کراچی شہر کے کوڑا کرکٹ کا معاملہ قومی مسئلہ بن گیا۔ شام کو ہونے والے ٹاک شوز میں اس مسئلے پر اسی طرح بحث ہونے لگیں جس طرح پانامہ لیکس پر ہورہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈھٹائی سے اپنی حکومت کی مدح سرائی کا فریضہ بخوبی انجام دینے لگے۔
یہ بات عام ہوگئی کہ بلدیاتی اداروں کے فنڈز کا بیشتر حصہ اعلیٰ ترین قیادت کو منتقل ہوجاتا ہے، یوں عملے کے پاس صفائی کے بنیادی اوزار تک خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ جب سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا فریضہ اپنے سپرد لیا تو حکومت سندھ نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کراچی واٹر بورڈ کو کراچی سٹی گورنمنٹ سے علیحدہ کیا اور کے ڈی اے کو بحال کردیا اور کوڑے کرکٹ بھی اٹھانے کے لیے ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی قائم کردی۔ کے ڈی اے نے سوک سینٹر میں اپنے دفاتر قائم کرلیے۔
ان افسروں کا کہنا تھا کہ سوک سینٹر کے ڈی اے نے تعمیر کیا تھا، اس پر بلدیہ کراچی کا کوئی حق نہیں ہے۔ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ نے اختیارات سنبھالے تو سیکریٹری بلدیات نے بلدیاتی اداروں کے افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے بارے میں فیصلے کردیے، یوں میئر اور ڈپٹی میئر مکمل طور پر بے اختیار ہوگئے۔ اس صورتحال میں ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومت سندھ کے قائم کردہ ادارے شہریوں کے مصائب کا مداوا نہیں کرسکے ہیں تو ساری امید بلدیاتی اداروں سے ہی وابستہ ہے۔
اگر حکومت سندھ میئر کو اختیارات نہیں دیتی تو شہر کوڑا دان بنا رہے گا۔ کراچی کے شہریوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے گا اور ایم کیو ایم اور حکومت سندھ کے درمیان کشمکش بڑھے گی۔ مگر اس مجموعی صورتحال میں عوام خسارے میں رہیں گے اور ان کا جمہوری نظام پر سے اعتماد مجروح ہوگا۔