دہشت گردی کے خلاف سری لنکا کی فتح میں ہمارے لیے سبق

فوجی قیادت منتخب سیاسی قیادت کی ماتحتی کو دل سے قبول کرتی ہے اور پالیسی اشوز پر حکومت کی ہدایات پر عمل کرتی ہے۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

نومبر 2005 میں مہندرا جاپکسا سری لنکا کے صدر منتخب ہوئے تو قوم کو وہ قیادت میّسر آگئی جو ہماری بقاء کی جنگ جیتنے کے لیے درکار تھی۔ حکومت کی پالیسیوں میں یکسوئی آئی ۔ فوج کا مورال بلند ہوا اور کامیابیاں ملنی شروع ہوگئیں۔ آرمی چیف سارتھ فونسیکا کی کمانڈ نے بھی دہشت گردوں کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر آگ اور خون کے کئی دریا عبور کرنے پڑے۔

سری لنکا کی حکومت نے چین سے ایئر ڈیفنس ریڈار سسٹم خریدنے کی کوشش کی مگر بھارت نے اعتراض کیا کہ یہ اس کی نیشنل سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے ۔ ہمیں مجبوراً بھارت سے ریڈار سسٹم خریدنا پڑا ۔ تامل دہشت گردوں کے پاس فائٹر جیٹ تو نہیں تھے مگر ان کے پاس چیکو سلاویکیا کے بنے ہوئے چند چھوٹے جہا ز تھے جن سے وہ بم گراسکتے تھے۔

25مارچ 2007 کو ایل ٹی ٹی ای نے ایئرفورس بیس کاٹونایاکے پرحملہ کیا اور چار بم گرائے جس سے ہمارے تین ایئرمین ہلاک اور چودہ زخمی ہوئے۔ اس حملے نے پورے سری لنکا کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس کے ایک مہینے بعد دہشت گردوں نے پھر دو ہوائی حملے کیے مگر ہم ان کے جہازوں کو نشانہ بنانے میں ناکام رہے۔

''...پہلی حکومتیں سمجھتی تھیں کہ یہ جنگ کبھی نہیں جیتی جاسکتی لہٰذا انھوں نے تامل ٹائیگرز کے ساتھ امن مذکرات کی بھرپور کوششیں کیں مگر یہ سب ناکام رہیں ۔ صدر راجہ پُکسا نے جب محسوس کیا کہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہونگے تو انھوںنے ایک واضح پالیسی دیدی کہ '' اب یہ جنگ فیصلہ کن ہوگی '' اس کے بعد فوج کی تمام ضروریات پوری کی گئیں۔ ایفی شینسی کو سینیارٹی پر فوقیتّ دی گئی اور اہل افسروں کو کمانڈ کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔ نفری بڑھائی گئی، نیا اسلحہ خریدا گیا۔ ڈیفنس سیکریٹری نے خریداری میں ہر قسم کا کمیشن کھانے کے امکانات ختم کردیے۔ حملوں کی حکمتِ عملی تبدیلی کی گئی۔

اسپیشل سڑائیکنگ فورس بنائی گئی، جس کے چھوٹے چھوٹے دستوں نے دہشت گردں کے اندر گھُس کر انھیں زبردست نقصان پہنچایا۔ سیکریٹری ڈیفنس ( جو صدر راجا پکسا کے بھائی تھے) اور آرمی چیف کے درمیان بہترین تعلقات کی وجہ سے فوج کو مسلسل کامیابیاں حاصل ہونے لگیں۔ فوجی جوانوں ،خصوصاً ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی ویلفیئر کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے۔

آرمی چیف نے زخمی فوجیوں کو سفید کپڑوں میں مختلف جگہوں (Public Places) پر تعینات کردیا، جہاں وہ بیٹھ کر مشکوک افراد پر نظر رکھتے اور سیکیورٹی فورسز کو اطلاع دیتے۔ اس کے بہت اچھے نتائج نکلے ۔ پوری جنگ کے دوران سری لنکا حکومت پر عالمی دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ خاص طور پر بھارت ہماری بقاء اس کی جنگ کے خلاف اکثر بیان جاری کرتا رہا۔ ان کے سینئر افسروں کے وفد نے سری لنکا کا دورہ کیا اور ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی مگر ہماری قیادت حکمت اور تدبّر سے انھیں ٹالتی رہی۔

2 جون 2007کو دہشت گردوں نے 57ڈویژن پر ایک زبردست حملہ کیا جو تین دن جاری رہا اس میں ڈویژن کی بڑی تباہی ہوئی لا تعداد افسراور جوان ہلاک ہوئے۔ پوری ڈویژن کا مورال گرگیا اور ڈویژنل کمانڈر (میجر جنرل) نے مزید کمانڈ کرنے سے معذرت کرلی اور اسے ہٹادیا گیا۔

...22اکتوبر 2007کو ایئر فورس بیس رانا سیواپورہ میں 22خودکش حملہ آوروں نے اچانک حملہ کرکے ہمارے بیس سے زیادہ جہازوں کوتباہ کردیا۔ اس سے دہشت گردوں کی طاقت اور صلاحیّت کی دھاک بیٹھ گئی اور سری لنکن ایئرفورس کی بہت بدنامی ہوئی اور پورے ملک میں اُ س پر تنقید ہونے لگی ۔ اس کے چند دن بعد ایئرفورس نے تامل ٹائیگرز کے سیاسی ونگ کے سربراہ تھامل چیولام کا ٹھکانہ تلاش کرکے اسے نشانہ بنایا۔ اس کی ہلاکت سے ایئر فورس کی عزت کسی حد تک بحال ہوئی۔

2007کے آخر تک ہمارے افسروں اور جوانوں نے بے مثال قربانیوں اور غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کرکے دہشت گردوں سے مشرقی صوبہ آزاد کرالیا۔ کئی سالوں بعد جیفنا پر قومی پرچم لہراتا دیکھ کر خو شی اور فخر سے ہمارے سینے تن گئے۔ اس اہم صوبے کی آزادی کی شاندار تقریب منعقد کی گئی جسمیںمہمانِ خصوصی صدر راجہ پُکسا تھے۔ مگر ابھی بڑے امتحان باقی تھے۔

2008 کے پہلے چھ مہینے قوم کے لیے بہت بھاری تھے، اس دورا ن درجنوں خودکش حملے ہوئے جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔


...26مارچ 2008 کو مجھے 53ویں ڈویژن کی کمانڈ سونپ دی گئی اور میں اسی روز اس کے ہیڈ کوارٹر موہامالائی شفٹ ہوگیا۔ یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کیونکہ 53ڈویژن فوج کی سب سے طاقتور اور سب سے بڑی ڈویژن تھی۔ اسے سری لنکن آرمی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا۔

2008 کے پہلے چھ مہینے قوم کے لیے بہت بھاری تھے۔ اس دوران درجنوں خودکش حملے ہوئے جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ مگر صدر مملکت کے عزم ِ صمیم نے پانسا پلٹ دیا۔ سیکیورٹی فورسزDo or dieکے جذبے سے سرشار ہوکر دہشت گردوں پر پل پڑے ۔ہمارے جوانوں نے بے مثال بہادری اور قربانیوں سے مشرقی صوبہ آزاد کرالیا کئی سالوں بعد جیفنا پر قومی پرچم لہراتا دیکھکر خوشی اور فخر سے ہمارے سینے تن گئے۔

مئی 2009 میں فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہواتو امریکا میں ہمارے سفیر کے فون آنے لگے کہ امریکا کا دباؤ ہے کہ جنگ بند کریں اور بھارت کے ذریعے ٹائیگرز کے ساتھ مذاکرات کریں۔۔ مگر اب تو ہم فتح کی دھلیز پر پہنچ چکے تھے۔۔ اب تو ہمارا مورال اتنا بلند تھا کہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے ہم کسی سے بھی لڑنے کے لیے تیار تھے چاہے امریکا ہو یا بھارت ۔۔اور پھر ہم ارضِ وطن کو دہشتگردوں سے آزاد کراتے چلے گئے۔۔ ۔

16مئی کو سری لنکا کے صدر راجاپکسا بیرونی دورے سے واپس کولمبو ائرپورٹ پر اترے تو انھوں نے ارضِ وطن پر پاؤں رکھتے ہی زمین پر ماتھا ٹیکا اور وطن کی مٹی کو چوما یہ منظر دیکھ کر پوری قوم کی آنکھیں پانی سے اور دل وطن سے محبّت کے جذبات سے لبریز ہوگئے۔ فوج کے جذبوں کو بھی مہمیز ملی اور وہ ارضِ وطن کو آزاد کراتے چلے گئے۔ مئی کے تیسرے ہفتے میں پربھاکرن کے کنٹرول میں صرف چند کلومیٹر کا علاقہ رہ گیا تھا۔۔۔

''دہشت گردوں کا آخری حصار ختم کرنے کے لیے جوانوں نے جان لڑادی ۔ ہماری لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں مگر بالآخر باغیوں سے تمام علاقہ آزاد کرالیا گیا میں نے جب رات سات بجے آرمی چیف کو فون کیا کہ "سر! مادرِ وطن کا ایک ایک انچ آزاد کرالیاگیا ہے " تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ یہ خبر چند منٹوں میں پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر شہر اور ہر گاؤں میں لوگ قومی پرچم اٹھا کر گلیوں اور بازاروں میں نکل آئے اور خوشی سے رقص کرنے لگے۔ پورے ملک میں جشن کا سماں تھا۔

آرمی کمانڈر نے میرا فون خاموشی سے سنا پھر پوچھا ''پربھارکرن کا پتہ چلا''؟ میں نے کہا ''اس کے ساتھی مارے گئے ہیں مگر اس کا پتہ نہیں چلا''۔ آرمی چیف نے کہا "اگر پربھارکرن زندہ ہے تو جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی "، چیف کا خیال ٹھیک تھا۔ دوسرے روز علی الصبح ہم نے دلدل میں اُگی ہوئی گھنی جھاڑیوں کی تلاشی شروع کردی۔۔ وہاں سے ہمارے جوانوں پر اکّا دکّا حملے بھی ہوئے مگر اب وہ فتح کے جذبوں سے سرشار تھے اور انھیں کوئی رکاوٹ نہیں روک سکتی تھی۔ اور پھر میرے کانوں میں وہ آواز پڑی جو سننے کے لیے میں پچھلے پچیّس سالوں سے منتظر تھا۔

کرنل روی پریا کی کال آئی "سر ہم نے پربھارکرن کو ہلاک کردیا ہے"، میں نے پوچھا "آپ کو یقین ہے کہ یہ پربھارکرن ہی ہے" " سر اتنا یقین جتنا سورج اور چاند کو دیکھ کر ہوسکتا ہے"۔ اور اس طرح سری لنکا کی مسلّح افواج، پولیس اور عوام نے ملکر اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کردیا ۔ سری لنکا نے یہ طویل جنگ جسطرح جیتی اسمیں ہمارے بھی سیکھنے کے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔

سری لنکا کی اس مشکل ترین جنگ میں قوم کے پائے استقلال میں لرزش نہیں ہوئی۔ بظاہر بڑے موافق حالات کے ہوتے ہوئے بھی سری لنکن فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا بلکہ آئین کی پاسداری تمام اداروں نے آئینی حدود کے اندر رہ کر اور مکمّل Coordination کے ساتھ کام کیا۔

جب تک فوج اور قوم متحد نہ ہوں کوئی جنگ جیتنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔اس کے لیے فوجی قیادت منتخب سیاسی قیادت کی ماتحتی کو دل سے قبول کرتی ہے اور پالیسی اشوز پر حکومت کی ہدایات پر عمل کرتی ہے۔

سری لنکا میں بدترین اور مشکل ترین حالات میں بھی فوج کی یہی پالیسی رہی ہے، اور وہ منتخب سیاسی قیادت کے فیصلوں پر عملدرآمد کرتی رہی ہے۔ اس نے کبھی سیاسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی ، سری لنکا کے جرنیل بھی اس پر متفق ہیں کہ اگر فوجی جرنیلوں میں اقتدار کی ہوس پیدا ہوجاتی تو ہم جنگ ہار جاتے۔

ہمارے ملک میں بھی جنرل مشرّف کے فوراً بعد ملٹری لیڈر شپ نے فوج کو سیاسی معاملات سے مکّمل طور پر الگ کرلیا تھا اُس وقت کی سیاسی قیادت چاہے غیر مقبول تھی مگر آرمی چیف کی یہی پالیسی رہی کہ ''فیصلہ حکومت نے کرناہے۔ فوج حکومت کے فیصلے پر عملدرآمد کرائے گی''۔
Load Next Story