الوداع راحیل شریف مگر خوش آمدید…
اب یہ فیصلہ حتمی طور پر ہو چکا کہ 29نومبر کو جنرل راحیل شریف اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے اور وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔
فوج میرا سبجیکٹ نہیں رہا البتہ فوجی حکمرانوں کو آتے جاتے دیکھنا میرا ''محبوب''مشغلہ ہے۔ اس بار بھی راقم نے ایک حد تک خاموشی اختیار کیے رکھی مگر جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے روایت کے مطابق اپنی الوداعی ملاقاتوں کے سلسلے کا آغاز کیا تو مجھ سمیت کئی پاکستانیوں کے لیے سسپنس کا خاتمہ ہوا کہ کیا موجودہ آرمی چیف مدت میں توسیع چاہیں گے یا نہیں؟ مگر جنرل راحیل نے وہی کیا جو ایک پروفیشنل فوجی کو کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے دوسرے سینئر فوجی افسران کی حق تلفی کرنے کے بجائے حقیقتاََ حب الوطنی کا ثبوت فراہم کیا اور سسٹم پر یقین رکھتے ہوئے انھوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا۔
اب یہ فیصلہ حتمی طور پر ہو چکا کہ 29نومبر کو جنرل راحیل شریف اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے اور وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ جنرل راحیل شریف کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ سے 2روز قبل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا۔ ان کا دور ہر حوالے سے پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوا اور آخر میں انھوں نے ثابت بھی کیا کہ وہ واقعی پروفیشنل فوجی ہیں۔
جنرل محمد ضیاء الحق یکم مارچ 1976کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں سات سینئر لوگوں کو سپرسیٹ کر کے جونیئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر ہوئے جو 17اگست 1988کو اپنی موت تک اس عہدے پر فائز رہے، ان کا عرصہ کمان 11سال سے زائد اور انھیں طویل ترین آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ جنرل ضیاء الحق کے فضائی حادثے میں اچانک وفات سے 17اگست 1988 کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 16 اگست 1991تک فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا عرصہ تعیناتی 3سال تھا۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ 16اگست 1991کو سینئر موسٹ جنرل ہونے کی بنا پر آرمی چیف مقرر کیے گئے اور 8 جنوری 1993تک اپنی اچانک وفات تک فائز رہے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے باعث 11جنوری 1993 کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 12جنوری 1996کو 3سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوئے، انھیں صدر غلام اسحق خان نے 4 دیگر جرنیلوں پر ترجیح دیکر آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
جنرل جہانگیر کرامت 12جنوری 1996 کو سینئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کی بنا پر وزیراعظم بے نظیربھٹو کے ہاتھوں چیف آف آرمی اسٹاف بنائے گئے جنھیں اس عہدے کے لیے پہلے ہی وزیراعظم کی جانب سے عندیہ دیا جا چکا تھا۔ ان کی مدت بطور آرمی چیف 12 جنوری 1999 کو اختتام پذیر ہونا تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اختلاف کی بنا پر 6اکتوبر 1998کو قبل از وقت ریٹائر ہوگئے۔
اب قومی منظرنامے پر راحیل شریف کی رخصتی کا لمحہ بھی آن پہنچا ہے۔ راحیل شریف کا نمبر سنیارٹی پر تیسرے نمبر پر تھا۔ پاک فوج اور پاکستان کے لیے ان کے خاندان کی قربانیاںکو دیکھتے ہوئے راحیل شریف کا نام آرمی چیف کے لیے چنا گیا تھا۔ان کے کریڈٹ پر بہت سی کامیابیاں ہیں۔ فوج کے مورال کو بلند کیا ہے اور دہشت گردی کا خاصی حد تک قلع قمع کر دیا ہے۔ ضرب عضب ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آپ کے دور میں سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا نظر آیا ورنہ ان کرپٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں اور آج بھی اپنے حصے کا مال کھانے کے لیے ان کی آنکھیں ترس رہی ہیں کیونکہ آج تک یہاں ملک کے وسائل لوٹے جاتے رہے۔
سول بیوروکریٹ رنگ رلیاں مناتے رہے۔ چوٹی کے صنعتکاروں اور تجار کی چاندی رہی۔کرپشن کا لمبے لمبے مارشل لاؤں نے کچھ بگاڑا نہ طویل یا مختصر وقفے کی سول حکومتیں اس کا بال بیکا کر سکیں۔ یہ اوپر سے لے کر نیچے تک پھیلتی چلی گئی اور سب سے بڑا روگ بن گئی، اس پر سیاست کی گئی اور حکومتوں کے تختے الٹانے کے لیے مؤثر ہتھیار کے طور پر بہت کام آئی، بقول شاعر
وہ شاخ گل پر زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں پر بجلیوں کا کارواں گزر گیا
چونکہ اب آپ ریٹائر ہو رہے ہیں اور یہ کس قدر قومی اداروں کے لیے اچھی بات ہے کہ آپ ملکی مفاد کی خاطر اس عہدے کو باعزت طریقے سے منتقل کرکے ایک اچھی روایت قائم کر رہے ہیں اور آنے والے نئے آرمی چیف کے لیے مثال قائم کر رہے ہیں تو مجھ سمیت عوام کو کس قدر خوشی نصیب ہوگی کہ ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد جب آپ دوبارہ عوام کی خدمت اور اس ملک کی خدمت کے لیے اپنی خدمات کو پیش کریں گے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام آپ کا پرتپاک استقبال کریں گے اور قوم کو آپ جیسے لیڈر ہی کی ضرورت ہے جو ملکی کاز کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے۔
قومی ''شرینی'' کے اندھے تقسیم کاروں کے مابین اقرباء پروری کی مقابلے چل رہے ہوں۔ قومی جائیدادیں اقوامِ عالم کے ہاں گروی رکھی جارہی ہوں۔ ایسے میں ہم عوام '' کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں'' دعوؤں اور وعدوں کے ا س گورکھ دھندے نے عوام کی سوچ کو مفلوج بنا دیا ہے۔ سپہ سالاروں کی سیاسی دانشمندی تو مسلمہ حقیقت ہے۔
تاریخ ایسے حقائق سے بھری پڑی ہے کہ فوجی سپہ سالاروں نے دانشمندی کا مظاہرہ کر کے ملک وملت کو ترقی کی طرف گامزن کیا ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال جنرل مصطفی کمال ہے جسے آگے چل کر ترکوں نے ''اتاترک'' کے خطاب سے نوازا۔ اسی طرح ہٹلر کے مقابل آنے والے فرانسیسی جنرل ڈیگال کو بھی دنیا ایک مدبر اور دانشمند فوجی سپہ سالار کے طور پر جانتی ہے۔
انقلابِ فرانس سے لے کر موجودہ سیاسی استحکام، اور ترویج و ترقی کی بنیادیں جنرل ڈیگال کے تدبر تک پہنچتی ہیں۔ اور تو اور امریکا جیسے ملک میں آج تک 34صدور ایسے آئے ہیں جنہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا اور عوام نے ان پر اعتماد کرکے انھیں اپنا صدر منتخب کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ انھیں فوجی صدور نے امریکا کی ترقی میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا، اس لیے شکریہ راحیل شریف کے آپ نے اداروں کو مضبوط بنانے کی ایک اچھی روایت قائم کی اور باعزت طریقے سے الوداع ہو رہے ہیں مگر قانونی طور پر ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد اگر آپ جیسا لیڈر پاکستانی عوام کے سامنے آئے گا تو لوگ اسے یقیناً پسند کریں گے اور منتخب بھی کریں گے!!!
اب یہ فیصلہ حتمی طور پر ہو چکا کہ 29نومبر کو جنرل راحیل شریف اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے اور وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ جنرل راحیل شریف کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ سے 2روز قبل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا۔ ان کا دور ہر حوالے سے پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوا اور آخر میں انھوں نے ثابت بھی کیا کہ وہ واقعی پروفیشنل فوجی ہیں۔
جنرل محمد ضیاء الحق یکم مارچ 1976کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں سات سینئر لوگوں کو سپرسیٹ کر کے جونیئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کے باوجود آرمی چیف مقرر ہوئے جو 17اگست 1988کو اپنی موت تک اس عہدے پر فائز رہے، ان کا عرصہ کمان 11سال سے زائد اور انھیں طویل ترین آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ جنرل ضیاء الحق کے فضائی حادثے میں اچانک وفات سے 17اگست 1988 کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 16 اگست 1991تک فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا عرصہ تعیناتی 3سال تھا۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ 16اگست 1991کو سینئر موسٹ جنرل ہونے کی بنا پر آرمی چیف مقرر کیے گئے اور 8 جنوری 1993تک اپنی اچانک وفات تک فائز رہے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے باعث 11جنوری 1993 کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے اور 12جنوری 1996کو 3سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوئے، انھیں صدر غلام اسحق خان نے 4 دیگر جرنیلوں پر ترجیح دیکر آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
جنرل جہانگیر کرامت 12جنوری 1996 کو سینئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل ہونے کی بنا پر وزیراعظم بے نظیربھٹو کے ہاتھوں چیف آف آرمی اسٹاف بنائے گئے جنھیں اس عہدے کے لیے پہلے ہی وزیراعظم کی جانب سے عندیہ دیا جا چکا تھا۔ ان کی مدت بطور آرمی چیف 12 جنوری 1999 کو اختتام پذیر ہونا تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اختلاف کی بنا پر 6اکتوبر 1998کو قبل از وقت ریٹائر ہوگئے۔
اب قومی منظرنامے پر راحیل شریف کی رخصتی کا لمحہ بھی آن پہنچا ہے۔ راحیل شریف کا نمبر سنیارٹی پر تیسرے نمبر پر تھا۔ پاک فوج اور پاکستان کے لیے ان کے خاندان کی قربانیاںکو دیکھتے ہوئے راحیل شریف کا نام آرمی چیف کے لیے چنا گیا تھا۔ان کے کریڈٹ پر بہت سی کامیابیاں ہیں۔ فوج کے مورال کو بلند کیا ہے اور دہشت گردی کا خاصی حد تک قلع قمع کر دیا ہے۔ ضرب عضب ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آپ کے دور میں سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا نظر آیا ورنہ ان کرپٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں اور آج بھی اپنے حصے کا مال کھانے کے لیے ان کی آنکھیں ترس رہی ہیں کیونکہ آج تک یہاں ملک کے وسائل لوٹے جاتے رہے۔
سول بیوروکریٹ رنگ رلیاں مناتے رہے۔ چوٹی کے صنعتکاروں اور تجار کی چاندی رہی۔کرپشن کا لمبے لمبے مارشل لاؤں نے کچھ بگاڑا نہ طویل یا مختصر وقفے کی سول حکومتیں اس کا بال بیکا کر سکیں۔ یہ اوپر سے لے کر نیچے تک پھیلتی چلی گئی اور سب سے بڑا روگ بن گئی، اس پر سیاست کی گئی اور حکومتوں کے تختے الٹانے کے لیے مؤثر ہتھیار کے طور پر بہت کام آئی، بقول شاعر
وہ شاخ گل پر زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں پر بجلیوں کا کارواں گزر گیا
چونکہ اب آپ ریٹائر ہو رہے ہیں اور یہ کس قدر قومی اداروں کے لیے اچھی بات ہے کہ آپ ملکی مفاد کی خاطر اس عہدے کو باعزت طریقے سے منتقل کرکے ایک اچھی روایت قائم کر رہے ہیں اور آنے والے نئے آرمی چیف کے لیے مثال قائم کر رہے ہیں تو مجھ سمیت عوام کو کس قدر خوشی نصیب ہوگی کہ ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد جب آپ دوبارہ عوام کی خدمت اور اس ملک کی خدمت کے لیے اپنی خدمات کو پیش کریں گے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام آپ کا پرتپاک استقبال کریں گے اور قوم کو آپ جیسے لیڈر ہی کی ضرورت ہے جو ملکی کاز کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے۔
قومی ''شرینی'' کے اندھے تقسیم کاروں کے مابین اقرباء پروری کی مقابلے چل رہے ہوں۔ قومی جائیدادیں اقوامِ عالم کے ہاں گروی رکھی جارہی ہوں۔ ایسے میں ہم عوام '' کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں'' دعوؤں اور وعدوں کے ا س گورکھ دھندے نے عوام کی سوچ کو مفلوج بنا دیا ہے۔ سپہ سالاروں کی سیاسی دانشمندی تو مسلمہ حقیقت ہے۔
تاریخ ایسے حقائق سے بھری پڑی ہے کہ فوجی سپہ سالاروں نے دانشمندی کا مظاہرہ کر کے ملک وملت کو ترقی کی طرف گامزن کیا ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال جنرل مصطفی کمال ہے جسے آگے چل کر ترکوں نے ''اتاترک'' کے خطاب سے نوازا۔ اسی طرح ہٹلر کے مقابل آنے والے فرانسیسی جنرل ڈیگال کو بھی دنیا ایک مدبر اور دانشمند فوجی سپہ سالار کے طور پر جانتی ہے۔
انقلابِ فرانس سے لے کر موجودہ سیاسی استحکام، اور ترویج و ترقی کی بنیادیں جنرل ڈیگال کے تدبر تک پہنچتی ہیں۔ اور تو اور امریکا جیسے ملک میں آج تک 34صدور ایسے آئے ہیں جنہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا اور عوام نے ان پر اعتماد کرکے انھیں اپنا صدر منتخب کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ انھیں فوجی صدور نے امریکا کی ترقی میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا، اس لیے شکریہ راحیل شریف کے آپ نے اداروں کو مضبوط بنانے کی ایک اچھی روایت قائم کی اور باعزت طریقے سے الوداع ہو رہے ہیں مگر قانونی طور پر ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد اگر آپ جیسا لیڈر پاکستانی عوام کے سامنے آئے گا تو لوگ اسے یقیناً پسند کریں گے اور منتخب بھی کریں گے!!!