بلدیاتی اختیارات متحدہ اور پی پی پی میں رابطوں کا امکان

ایم کیو ایم نے قیادت کے لیے پرویز مشرف سے رابطوں کی تردید کردی 

اگر ہمارے پاس اختیارات ہوتے تو 100 دن کا پلان دے رہا ہوتا، وسیم اختر۔ فوٹو : فائل

GILGIT:
آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف کے ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے اور پارٹی میں دھڑے بندی کے خاتمے کے لیے کوئی اہم کردار ادا کرنے سے متعلق افواہوں کے بعد میڈیا پر مباحث نے زور پکڑا تو فاروق ستار نے اس کی سختی سے تردید کردی۔

دوسری جانب شہرِ قائد کے میئر اور بلدیاتی نمائندوں کے سربراہ کی جیل سے رہائی اور اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد اب ہر طرف یہی بحث ہورہی ہے کہ اختیارات اور فنڈز سے محروم نمائندے کس طرح شہریوں کے مسائل اور مشکلات حل کریں گے؟ کراچی کے باسیوں کا مطالبہ ہے کہ سیاسی مفادات اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومتِ سندھ ضروریات اور سہولیات کی فراہمی میں بلدیاتی قیادت سے بھرپور تعاون کرے۔

وسیم اختر نے بھی اپنی ایک تقریر میں پیپلز پارٹی کے قائد سے درخواست کی کہ وہ ترقی اور خوش حالی کے لیے منتخب بلدیاتی قیادت کا ساتھ دیں اور اس سلسلے میں حکومت کا تعاون یقینی بنائیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت شہرِ قائد میں کارکنوں اور اپنے ووٹرز سے رابطے کرنے میں مصروف ہے اور مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے۔ چند روز قبل فاروق ستار نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت پچیس دسمبر کو بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم امتیازی سلوک کا خاتمہ چاہتے ہیں، ایک تقریب کے دوران فاروق ستار نے کہا کہ کوٹا سسٹم کی باقیات بھی ختم کرائیں گے، کراچی کے ڈومیسائل کی کوئی اہمیت نہیں اور سول سروسز میں کراچی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ درست مردم شماری ہوگئی تو اگلے الیکشن کے بعد وزیرِاعلیٰ ہمارا ہو گا۔

میئر کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وسیم اختر تو رہا ہو گئے، مگر اختیارات سلاخوں کے پیچھے ہیں، انہیں بھی آزاد کرانا ہو گا۔ پرویز مشرف کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور افواہوں کے بعد جب میڈیا پر مباحث کا سلسلہ دراز ہونے لگا تو متحدہ قیادت نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا۔ ایک موقع پر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم میں قیادت کی کوئی نوکری موجود نہیں۔

دوسری طرف پرویز مشرف اپنے بعض انٹرویوز میں ایم کیو ایم کی کمان سنبھالنے کے لیے تیار نظر آئے اور کہا کہ پارٹی کو متحد و منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب وسیم اختر کی رہائی پر ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے جیل کے باہر ان کا استقبال کیا۔ رہائی کے بعد بلدیہ کی عمارت میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے موقع پر وسیم اختر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ سندھ اور کراچی ترقی کرے، میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کی والدہ بے نظیر بھٹو شہید کی بھی یہ تمنا تھی کہ کراچی ایک مثالی شہر بنے، آئیے مل کر اس شہر کو چار چاند لگائیں اور ترقی کے راستے پر گام زن کریں۔

وسیم اختر کا کہنا تھا اگر ہمارے پاس اختیارات ہوتے تو 100 دن کا پلان دے رہا ہوتا، وزیر اعلیٰ سندھ بلدیاتی اداروں کے کسٹوڈین ہیں اور ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوکل گورنمنٹ کو آئین کے تحت اختیارات اور اس کے حصے کا فنڈ دیں تاکہ نچلی سطح پر منصوبوںکو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ بلدیہ پہنچنے پر ڈپٹی میئر ڈاکٹر ارشد وہرہ، میونسپل کمشنر ڈاکٹر بدر جمیل اور دیگر افسران و عملے نے ان کا استقبال کیا۔

وسیم اختر نے کہاکہ شہر کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے ہم سب کا مفاد مشترک ہے، البتہ ہمارے پاس سیٹیں زیادہ ہیں اور ہمیں کراچی کی ترقی اور خوش حالی کے سفر کو جاری رکھنا ہے اور اسے مزید بہتر بنانا ہے، حکومتوں اور اداروں سے درخواست ہے کہ بلدیاتی اداروں کو جو آئینی تحفظ حاصل ہے وہ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کو بھلا کر ایک نیا آغاز کرنا ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہے، جن لوگوں کے پاس ذمہ داری ہے وہ ہم سے تعاون کریں ہمارا بھرپور تعاون بھی نظر آئے گا۔


دوسری طرف عارضی تنظیمی مرکز پر پریس کانفرنس ہوئی تو ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے ایک موقع پر تنظیمی گروہوں میں بدمزگی کے بارے میں کہا کہ وہ مہاجروں کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کی سازش ہے، چند لوگوں نے یادگار شہداء پر صورت حال خراب کرنے کی کوشش کی جو مہاجروں کی تہذیب کے خلاف تھی۔ ان کا کہنا تھاکہ ہم تشدد کی سیاست کو دوبارہ سَر نہیں اٹھانے دیں گے، وسیم اختر کی رہائی خوشی اور اطمینان کا موقع ہے، باقی لاپتا و اسیر کارکنان بھی بازیاب اور رہا ہوں گے۔

اس موقع پر وسیم اختر، عامر خان، نسرین جلیل، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ارشد وہرا اور دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔ فاروق ستار نے کہا کہ لوگوں کو اشتعال دلا کر، ہلڑ بازی اور گالم گلوچ کروائی جارہی ہے جو مہاجروں کے حقوق کی جدوجہد کا عکاس نہیں، ہم کسی حال میں مہاجروں کی تقسیم گوارا نہیں کریں گے۔

وسیم اختر نے لاپتا اور اسیر کارکنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ کم وسائل کے باوجود ہمارے وکلا اس حوالے سے مدد کررہے ہیں، لیکن ہماری کوششوں کو سبوتاژ کیا جارہا ہے، کسی حال میں ہمیں منتشر، منقسم نہیں ہونا ہے۔ یادگارِ شہدا پر درجن بھر لوگوں نے بدامنی کی کوشش کی، لیکن ہم نے امن کا علم بلند رکھا، اداروں نے کہاکہ یادگار شہدا پر نہ جائیں، ہم نے تعاون کیا، تاہم ہماری شرافت کا دوسرا مطلب نہ لیا جائے۔


دوسری طرف پیپلز پارٹی کے راہ نما قادر پٹیل نے جیل سے رہائی کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہاکہ میرے سینے میں بہت سے راز دفن ہیں، وقت آنے پر سب کچھ بتاؤں گا۔ رہائی کے موقع پر استقبال کے لیے موجود حامیوں نے قادر پٹیل کے حق میں نعرے لگائے اور خوشی میں روایتی رقص پیش کیا گیا۔

قادر پٹیل کا کہنا تھاکہ کسی کو یہاں زبردستی نہیں لایا گیا، یہ ہم درد اور جیالے کارکنان خود میرے استقبال کے لیے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر میری غیرموجودگی میں الزام لگا تھا، میں اپنے ضمیر کی آواز پر ملک واپس آیا، الزامات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا، سیاسی ورکر کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے، بہت سے راز عوام اور کارکنان کے سامنے رکھنا ہیں، قیادت سے ایک بار مل لوں، پھر بات کروں گا۔

دوسری طرف پاک سَرزمین پارٹی کی بھی سرگرمیاں جاری رہیں۔ پارٹی کے قائد مصطفیٰ کمال اور دیگر راہ نما ورکرز اجلاس کے ساتھ مختلف علاقوں میں عوامی اجتماعات کے دوران اپنا پیغام عام کررہے ہیں۔ پی ایس پی کی قیادت کی جانب سے نئے شعبہ جات اور ذیلی تنظیموں کا اعلان بھی کیا جارہا ہے اور تنظیمی نیٹ ورک کو تیزی سے وسعت دینے کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں۔

گذشتہ ہفتے مصطفیٰ کمال نے ورکرز فیڈریشن کے قیام کا اعلان کیا اور اس موقع پر اپنے خطاب میں کہاکہ اس پلیٹ فارم سے مزدوروں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے جدوجہد کی جائے گی، مزدور طبقے سے ظلم اور ناانصافیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور ان کا حق دیا جانا چاہیے۔ اس موقع پر پارٹی کے دیگر راہ نما انیس قائم خانی، رضا ہارون، وسیم آفتاب، ڈاکٹر صغیر، اشفاق منگی بھی موجود تھے۔

مقامی سیاست میں بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات اور قانون سازی کے حوالے سے ایم کیو ایم کے وفد کی حکم راں جماعت کے قائدین ملاقات کی گونج بھی سنائی دی ہے جب کہ شہر سے کچرا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کے لیے چین کی ایک کمپنی سے حکومت سندھ کے معاہدے کی خبر بھی گردش کررہی ہے۔ کمپنی اگلے سال کے آغاز پر کراچی میں کام شروع کرے گی۔

کہا جارہا ہے کہ مختلف مقامات سے کچرا اٹھانے کے علاوہ کمپنی شہر بھر میں مختلف تجارتی مراکز اور پارکس وغیرہ میں کوڑے دان نصب کرے گی اور اب گلی محلوں میں کچرا کنڈیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی جہاں جمع ہونے والا کچرا باقاعدگی سے اٹھایا جائے گا۔ بلدیاتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ کراچی اب نہ صرف کچرے اور گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے بلکہ بے شمار مسائل میں جکڑ گیا ہے، حکومت اختیارات اور فنڈز کی فراہمی کا وعدہ پورا کرے تو شہر کی حالت بدل سکتی ہے۔
Load Next Story