صدر کو سزا دینا ریاست کو سزا دینے کے مترادف ہے لاہور ہائیکورٹ
کوئی شق بتائیں کہ صدر عدالتی فیصلہ ہوا میں اڑا سکتے ہوں، عدالت،صدر نے حلف آئین کے تحت لیا, عرفان قادر
لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے قراردیا ہے کہ صدر مملکت کو سزا دینا ریاست کو سزا دینے کے مترادف ہے۔
آئین نہیں چاہتا کہ فوجداری مقدمات میں صدر کو سزا ہو جبکہ آئین میں صدر کو فوجداری مقدمات میں استثنیٰ حاصل ہے، صدر مملکت کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں، تمام فیصلے وزیراعظم کرتے ہیں اور صدر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی فل بینچ نے یہ ریمارکس صدر مملکت کے دوعہدوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ گزشتہ روز عدالت کے روبرو وفاق کی طرف سے اٹارنی جنرل عرفان قادر پیش ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس ناصر سعید شیخ ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس نجم الاحسن اور جسٹس سید منصور علی شاہ شامل ہیں۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صدر کے خلاف یہ کیس نہیں بنتا۔ عرفان قادرنے کہاکہ کالاباغ ڈیم کیس کے دوران انہی لوگوں نے آپ جیسے شاندار چیف جسٹس کو بھی گمراہ کیا جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے قرار دیا کہ آپ عدالتی فیصلے پر تنقید نہ کریں۔
آئین پڑھا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو اس کے سامنے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، آپ فیصلے کیخلاف اپیل کریں۔ عرفان قادر نے کہا کہ ان کا فرض تھا کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں بتائیں، درخواست گزار عدالتوں کو سیاسی معاملات میں ملوث کر رہے ہیں اورا یسی درخواستیں دائر کرتے ہیں جس سے ملکی استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو تنبیہ کی کہ عدالتوں کے روبرو محتاط رویہ اختیار کریں، عدلیہ کی آزادی پرکوئی حملہ برداشت نہیں۔ چیف جسٹس نے اس موقعہ پراٹارنی جنرل کو نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کی مگر انھوں نے دلائل جاری رکھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے رویے سے یوں لگتا ہے کہ وہ خود کو صدر سے بالا سمجھتی ہے جس پرعدالت نے ریمارکس دیے کہ صدر کے متعلق ہمیشہ احترام کے الفاظ استعما ل کیے آپ جو چاہیں سمجھیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعاکی کہ درخواست ناقابل سماعت ہے اس لیے مسترد کردی جائے۔ درخواست گزار اظہر صدیق نے کہا کہ صدرکاعہدہ رسمی عہدہ ہے اختیارات کا منبع پارلیمنٹ ہے۔ اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس کیس انتظامیہ کے اختیارات کا نہیں، عدالت کوبتایا جائے کہ صدرکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے یانہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ملکی تاریخ میں کسی جمہوری مملکت کے سربراہ نے بھی آئین توڑا۔ فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ ہمیشہ آمروں اورتیسری قوت نے ہی آئین کو نقصان پہنچایا۔اس پر درخواست گزار نے بتایا کہ عدالتی حکم پر عمل نہ کرنا بھی آئین توڑنے کے مترادف ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں ہوجاتا تو وہ استثنیٰ پر کیسے دلائل دے سکتے ہیں لہٰذا عدالت درخواست پر فیصلہ کرے۔ عدالت نے قراردیا کہ آرٹیکل 248کی تشریح کے بغیر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے حلف آئین کے تحت اٹھایا ہے کسی عدالتی حکم کے تحت نہیں۔ جسٹس ناصر سعید شیخ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کوئی ایسی شق بتا دیں جس میں صدر کو عدالتی حکم کو ہوا میں اڑانے کا اختیار دیا گیا ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ آئین میں صاف لکھا ہے کہ صدر سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔ عدالت نے مزید سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے آرٹیکل 248 پر دلائل دینے کا حکم جاری کر دیا۔ ثنا نیوز کے مطابق سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے درمیان سخت حملوں کا تبادلہ ہوا جس کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو جھاڑ پلاتے ہوئے اپنی نشست پر بیٹھ جانے کا کہا۔
آئین نہیں چاہتا کہ فوجداری مقدمات میں صدر کو سزا ہو جبکہ آئین میں صدر کو فوجداری مقدمات میں استثنیٰ حاصل ہے، صدر مملکت کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں، تمام فیصلے وزیراعظم کرتے ہیں اور صدر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی فل بینچ نے یہ ریمارکس صدر مملکت کے دوعہدوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ گزشتہ روز عدالت کے روبرو وفاق کی طرف سے اٹارنی جنرل عرفان قادر پیش ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس ناصر سعید شیخ ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس نجم الاحسن اور جسٹس سید منصور علی شاہ شامل ہیں۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صدر کے خلاف یہ کیس نہیں بنتا۔ عرفان قادرنے کہاکہ کالاباغ ڈیم کیس کے دوران انہی لوگوں نے آپ جیسے شاندار چیف جسٹس کو بھی گمراہ کیا جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے قرار دیا کہ آپ عدالتی فیصلے پر تنقید نہ کریں۔
آئین پڑھا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو اس کے سامنے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، آپ فیصلے کیخلاف اپیل کریں۔ عرفان قادر نے کہا کہ ان کا فرض تھا کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں بتائیں، درخواست گزار عدالتوں کو سیاسی معاملات میں ملوث کر رہے ہیں اورا یسی درخواستیں دائر کرتے ہیں جس سے ملکی استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو تنبیہ کی کہ عدالتوں کے روبرو محتاط رویہ اختیار کریں، عدلیہ کی آزادی پرکوئی حملہ برداشت نہیں۔ چیف جسٹس نے اس موقعہ پراٹارنی جنرل کو نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کی مگر انھوں نے دلائل جاری رکھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے رویے سے یوں لگتا ہے کہ وہ خود کو صدر سے بالا سمجھتی ہے جس پرعدالت نے ریمارکس دیے کہ صدر کے متعلق ہمیشہ احترام کے الفاظ استعما ل کیے آپ جو چاہیں سمجھیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعاکی کہ درخواست ناقابل سماعت ہے اس لیے مسترد کردی جائے۔ درخواست گزار اظہر صدیق نے کہا کہ صدرکاعہدہ رسمی عہدہ ہے اختیارات کا منبع پارلیمنٹ ہے۔ اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس کیس انتظامیہ کے اختیارات کا نہیں، عدالت کوبتایا جائے کہ صدرکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے یانہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ملکی تاریخ میں کسی جمہوری مملکت کے سربراہ نے بھی آئین توڑا۔ فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ ہمیشہ آمروں اورتیسری قوت نے ہی آئین کو نقصان پہنچایا۔اس پر درخواست گزار نے بتایا کہ عدالتی حکم پر عمل نہ کرنا بھی آئین توڑنے کے مترادف ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں ہوجاتا تو وہ استثنیٰ پر کیسے دلائل دے سکتے ہیں لہٰذا عدالت درخواست پر فیصلہ کرے۔ عدالت نے قراردیا کہ آرٹیکل 248کی تشریح کے بغیر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے حلف آئین کے تحت اٹھایا ہے کسی عدالتی حکم کے تحت نہیں۔ جسٹس ناصر سعید شیخ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کوئی ایسی شق بتا دیں جس میں صدر کو عدالتی حکم کو ہوا میں اڑانے کا اختیار دیا گیا ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ آئین میں صاف لکھا ہے کہ صدر سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔ عدالت نے مزید سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے آرٹیکل 248 پر دلائل دینے کا حکم جاری کر دیا۔ ثنا نیوز کے مطابق سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے درمیان سخت حملوں کا تبادلہ ہوا جس کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو جھاڑ پلاتے ہوئے اپنی نشست پر بیٹھ جانے کا کہا۔