ماحولیاتی آلودگی کا عذاب
ماحول کا انسان کے ذہن پر براہ راست اثر ہوتا ہے
ماحول کا انسان کے ذہن پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ ماحول کی ترتیب، نفاست اور خوبصورتی ذہن کی کارکردگی میں کئی گنا اضافہ کردیتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں صورتحال مختلف ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی، پشاور اور راولپنڈی کا شمار ان شہروں میں ہونے لگا ہے، جو ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ انڈیا بھی کسی طور پیچھے نہیں ہے۔ اس ضمن میں دہلی اور دیگر بارہ شہر انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کی پیداوار کا طریقہ تبدیل نہ کیا گیا تو موت کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال پینسٹھ لاکھ لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ہوا میں موجود تیزابیت، مٹی، نائٹروجن آکسائیڈ اور سلفر آکسائیڈ مستقل انسانی صحت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ایشیائی سب سے زیادہ ماحول کے غیر فطری انداز سے متاثر ہو رہے ہیں۔
بڑھتی آلودگی کی وجہ عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کی کمی ہے۔ ویسے تو یہ کمی ہر سطح پر پائی جاتی ہے، مگر ہمارے گھر، گلیاں، راستے، خالی جگہیں، گند و کچرے سے بھرپور دکھائی دیتے ہیں۔ اگر عوامی زندگی صفائی ستھرائی کے حوالے سے چند اچھے اصول اپنا لے تو اسپتالوں کی رونق زوال پذیر ہو سکتی ہے، جہاں مریضوں کے کمرے اور بستر تک میسر نہیں ہیں اور لوگ گھنٹوں انتظار کرتے رہتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ گند اور کچرے کو منتقل کرنے کا ہے۔ شہروں کی انتظامیہ اس سلسلے میں ہمیشہ سے غیر موثر رہی ہے۔ سری لنکا میں دیکھا تھا کہ باغات، ریستوران یا کمرشل ایریاز میں، وہاں موجود عملہ تمام تر فضول اشیا کو پلاسٹک کے بیگ میں رکھ کر باہر ڈال دیتا اور گاڑیاں آ کر وہ پیک ہوئی تھیلیاں اٹھا کر لے جاتیں۔ لہٰذا کسی جگہ بھی آلودگی دکھائی نہیں دیتی لیکن زیادہ آبادی والے ملکوں میں جب تک واضح لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا جاتا، یہ ترتیب یا نظم و ضبط ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ہمارے ملک میں صنعتی ویسٹیج ہو یا اسپتالوں کی مہلک استعمال شدہ اشیا، انھیں آبادی سے دور نہیں منتقل کیا جاتا۔ موقع ملتے ہی اس نقصان دہ مواد کو آبادی کے درمیان پھینک دیا جاتا ہے۔ استعمال شدہ انجکشن و دیگر سامان کئی انسانوں کو مختلف بیماریاں منتقل کر دیتا ہے، جن میں ہیپاٹائٹس سی بھی شامل ہے جو کچرے میں شامل سینیٹی پیڈز اور اوپن باتھ رومز سے تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مگر لوگوں کو بیماری سے بچنے کی احتیاطی تدابیر کا سرے سے علم نہیں ہوتا۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سیاست کے داؤ پیچ میں الجھا رہتا ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دریاؤں اور سمندر کو اس مہلک مواد سے بچایا جائے۔ کیونکہ انسانی آبادیوں کو متاثر کرنے کے ساتھ یہ ویسٹیج دریا اور سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور کا یہ سنگین ترین مسئلہ ہے، جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مہلک اور وبائی بیماریاں تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہیں۔ ماحولیات کا شعبہ، صحت و شہروں کی انتظامیہ کو مل بیٹھ کر کوئی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ عوامی زندگی پہلے ہی سے لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور امن و امان کے مسئلوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نہ تو زیبرا کراسنگ ہیں نہ ہی پبلک باتھ رومز۔ ٹرانسپورٹ و پارکنگ کی سہولیات کا فقدان الگ۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز عوامی زندگی کے اطمینان میں پایا جاتا ہے۔ مثال اگر مزدور کی اجرت پندرہ ہزار روپے فی مہینہ مقرر کی جاتی ہے تو اس کے گھر میں آٹھ افراد اوسط درجے کا کھانا ایک دن میں بارہ سو روپے کا کھاتے ہیں تو ان پیسوں سے انھیں کھانا تک نہیں میسر ہو گا۔
اگر دو یا تین لوگ مل کر بھی کام کر لیں تو بھی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ جہاں صحت، دوائیں اور اسپتال مہنگے ہوں وہاں خوراک کی قلت کے ماروں کا کیا علاج ہو گا۔ لہٰذا ملک میں مہلک بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ جسم میں غذا کی قلت کی وجہ سے مدافعتی نظام کے کمزور ہونے سے بیماریوں کے حملے کا خدشہ رہتا ہے۔ مہلک بیماریوں اور خاص طور پر کینسر میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2030ء تک کینسر کی وجہ سے 55 لاکھ عورتیں لقمہ اجل بن جائیں گی۔ 2012ء میں دنیا بھر میں کینسر کے 67 لاکھ مریضوں میں 35 لاکھ خواتین زندگی سے محروم ہوگئیں۔ طبی ماہرین اس کی وجہ غیر صحت مند غذا، ذہنی دباؤ اور ماحولیاتی آلودگی بتاتے ہیں۔ پاکستان میں پانی، ہوا اور زمین کی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ ہمارا ملک ہر روز 50,000 ٹن آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
آج تک ہم سائلنسر کے بغیر گاڑیوں، دھوئیں اور سی این جی سلینڈر کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی حتمی حل نہیں نکال سکے۔ جدید تحقیق کے مطابق پلاسٹک کا سامان، پلاسٹک کے شاپرز میں گرم چائے، دودھ یا کھانا یا سوپ وغیرہ مضر صحت ہے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک کے سامان کی جگہ شیشہ، چینی یا اسٹیل کے برتن استعمال کیے جا رہے ہیں۔
پانی کی آلودگی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سی اور گردوں کے امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ منچھر جھیل کے آلودہ پانی کی وجہ سے قرب و جوار کے گاؤں میں ہیپاٹائٹس سی کے لاتعداد مریض پائے جاتے ہیں۔ منچھر جو کبھی شفاف پانی کی جھیل ہوا کرتی تھی۔ آج کل کھارے اور آلودہ پانی کے تالاب میں بدل چکی ہے۔ جہاں آج بھی یہ جھیل دس ہزار مچھیروں کی کفالت کرتی ہے۔ آر بی او ڈی سیم نالے کے بعد منچھر کا پانی زہر آلود ہو چکا ہے۔
پانی کے پلانٹس کی صفائی اور دیکھ بھال نہ ہو سکنے کی وجہ سے آلودہ پانی زندگی کے بجائے موت بانٹ رہا ہے۔ سڑکیں یا گھر بناتے وقت سیوریج یا پانی کی پائپ لائنز کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ پانی کے ناقص میٹریل سے بنے پائپ ٹوٹ جاتے ہیں اور پانی کی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی محاذ آرائی عوام کی بنیادی ضروریات اور شفاف غذا و پانی کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کی پیداوار کا طریقہ تبدیل نہ کیا گیا تو موت کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال پینسٹھ لاکھ لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ہوا میں موجود تیزابیت، مٹی، نائٹروجن آکسائیڈ اور سلفر آکسائیڈ مستقل انسانی صحت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ایشیائی سب سے زیادہ ماحول کے غیر فطری انداز سے متاثر ہو رہے ہیں۔
بڑھتی آلودگی کی وجہ عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کی کمی ہے۔ ویسے تو یہ کمی ہر سطح پر پائی جاتی ہے، مگر ہمارے گھر، گلیاں، راستے، خالی جگہیں، گند و کچرے سے بھرپور دکھائی دیتے ہیں۔ اگر عوامی زندگی صفائی ستھرائی کے حوالے سے چند اچھے اصول اپنا لے تو اسپتالوں کی رونق زوال پذیر ہو سکتی ہے، جہاں مریضوں کے کمرے اور بستر تک میسر نہیں ہیں اور لوگ گھنٹوں انتظار کرتے رہتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ گند اور کچرے کو منتقل کرنے کا ہے۔ شہروں کی انتظامیہ اس سلسلے میں ہمیشہ سے غیر موثر رہی ہے۔ سری لنکا میں دیکھا تھا کہ باغات، ریستوران یا کمرشل ایریاز میں، وہاں موجود عملہ تمام تر فضول اشیا کو پلاسٹک کے بیگ میں رکھ کر باہر ڈال دیتا اور گاڑیاں آ کر وہ پیک ہوئی تھیلیاں اٹھا کر لے جاتیں۔ لہٰذا کسی جگہ بھی آلودگی دکھائی نہیں دیتی لیکن زیادہ آبادی والے ملکوں میں جب تک واضح لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا جاتا، یہ ترتیب یا نظم و ضبط ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ہمارے ملک میں صنعتی ویسٹیج ہو یا اسپتالوں کی مہلک استعمال شدہ اشیا، انھیں آبادی سے دور نہیں منتقل کیا جاتا۔ موقع ملتے ہی اس نقصان دہ مواد کو آبادی کے درمیان پھینک دیا جاتا ہے۔ استعمال شدہ انجکشن و دیگر سامان کئی انسانوں کو مختلف بیماریاں منتقل کر دیتا ہے، جن میں ہیپاٹائٹس سی بھی شامل ہے جو کچرے میں شامل سینیٹی پیڈز اور اوپن باتھ رومز سے تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مگر لوگوں کو بیماری سے بچنے کی احتیاطی تدابیر کا سرے سے علم نہیں ہوتا۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سیاست کے داؤ پیچ میں الجھا رہتا ہے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دریاؤں اور سمندر کو اس مہلک مواد سے بچایا جائے۔ کیونکہ انسانی آبادیوں کو متاثر کرنے کے ساتھ یہ ویسٹیج دریا اور سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور کا یہ سنگین ترین مسئلہ ہے، جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مہلک اور وبائی بیماریاں تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہیں۔ ماحولیات کا شعبہ، صحت و شہروں کی انتظامیہ کو مل بیٹھ کر کوئی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ عوامی زندگی پہلے ہی سے لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور امن و امان کے مسئلوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نہ تو زیبرا کراسنگ ہیں نہ ہی پبلک باتھ رومز۔ ٹرانسپورٹ و پارکنگ کی سہولیات کا فقدان الگ۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز عوامی زندگی کے اطمینان میں پایا جاتا ہے۔ مثال اگر مزدور کی اجرت پندرہ ہزار روپے فی مہینہ مقرر کی جاتی ہے تو اس کے گھر میں آٹھ افراد اوسط درجے کا کھانا ایک دن میں بارہ سو روپے کا کھاتے ہیں تو ان پیسوں سے انھیں کھانا تک نہیں میسر ہو گا۔
اگر دو یا تین لوگ مل کر بھی کام کر لیں تو بھی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ جہاں صحت، دوائیں اور اسپتال مہنگے ہوں وہاں خوراک کی قلت کے ماروں کا کیا علاج ہو گا۔ لہٰذا ملک میں مہلک بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ جسم میں غذا کی قلت کی وجہ سے مدافعتی نظام کے کمزور ہونے سے بیماریوں کے حملے کا خدشہ رہتا ہے۔ مہلک بیماریوں اور خاص طور پر کینسر میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2030ء تک کینسر کی وجہ سے 55 لاکھ عورتیں لقمہ اجل بن جائیں گی۔ 2012ء میں دنیا بھر میں کینسر کے 67 لاکھ مریضوں میں 35 لاکھ خواتین زندگی سے محروم ہوگئیں۔ طبی ماہرین اس کی وجہ غیر صحت مند غذا، ذہنی دباؤ اور ماحولیاتی آلودگی بتاتے ہیں۔ پاکستان میں پانی، ہوا اور زمین کی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ ہمارا ملک ہر روز 50,000 ٹن آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
آج تک ہم سائلنسر کے بغیر گاڑیوں، دھوئیں اور سی این جی سلینڈر کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی حتمی حل نہیں نکال سکے۔ جدید تحقیق کے مطابق پلاسٹک کا سامان، پلاسٹک کے شاپرز میں گرم چائے، دودھ یا کھانا یا سوپ وغیرہ مضر صحت ہے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک کے سامان کی جگہ شیشہ، چینی یا اسٹیل کے برتن استعمال کیے جا رہے ہیں۔
پانی کی آلودگی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سی اور گردوں کے امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ منچھر جھیل کے آلودہ پانی کی وجہ سے قرب و جوار کے گاؤں میں ہیپاٹائٹس سی کے لاتعداد مریض پائے جاتے ہیں۔ منچھر جو کبھی شفاف پانی کی جھیل ہوا کرتی تھی۔ آج کل کھارے اور آلودہ پانی کے تالاب میں بدل چکی ہے۔ جہاں آج بھی یہ جھیل دس ہزار مچھیروں کی کفالت کرتی ہے۔ آر بی او ڈی سیم نالے کے بعد منچھر کا پانی زہر آلود ہو چکا ہے۔
پانی کے پلانٹس کی صفائی اور دیکھ بھال نہ ہو سکنے کی وجہ سے آلودہ پانی زندگی کے بجائے موت بانٹ رہا ہے۔ سڑکیں یا گھر بناتے وقت سیوریج یا پانی کی پائپ لائنز کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ پانی کے ناقص میٹریل سے بنے پائپ ٹوٹ جاتے ہیں اور پانی کی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی محاذ آرائی عوام کی بنیادی ضروریات اور شفاف غذا و پانی کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔