فکری املاک کے حقوق کی خلاف ورزی

حقوقِ تخلیقی املاک کے تحفظ کے خلاف تین مقبول دلائل موجود ہیں

ayazbabar@gmail.com

QUETTA:
اگر ممتاز غزل گائیک مہدی حسن کے ریکارڈز اور کیسٹوں کی غیر قانونی نقل تیار نہ کی جاتی تو اُنھیں اُس وقت جب وہ بستر ِ علالت پر تھے، کسی کی مدد کی ضرورت نہ ہوتی۔وہ رائیلٹی کی مد میں ہونے والی آمدنی سے کروڑ پتی ہوتے۔یہ معاملہ صرف انھی کی ذات تک محدود نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں فکری اور تخلیقی کاوشوں کے سرقہ،کاپی رائٹ قوانین پر ناقص انداز میں عمل درآمد اور اس بارے میں فن کاروں اوردانشوروں میں آگہی کے اس فقدان کی وجہ سے کہ ان کی تخلیقی املاک کے حقوق کا کس طرح تحفظ کیا جائے، متعدد گلو کاروں، موسیقاروں،ادیبوں اور فلم و ٹی وی ڈراموں کے پروڈیوسرز اور شاعروں نے نقصان اٹھایا ہے۔

اگرچہ ان لوگوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی کوشش نہیں کی تاہم اب امید کی ایک کرن نظر آ رہی ہے۔یہ روشنی بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ اور ملک میں غیر ملکی اور مقامی صنعت کی بھرپور کوششوں سے پیدا ہوئی ہے۔دنیا کے ملکوں کی اکثریت نے انٹیلچوئل پراپرٹی رائٹس(IPR) یعنی تخلیقی املاک کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کا عزم کر رکھا ہے۔

پاکستان کی حکومت کو آئی پی آر سے متعلق تمام محکموں کو ایک ہی ادارے کے ماتحت کرنے میں کچھ وقت لگا۔کاپی رائٹ رجسٹریشن وزارت ِ تعلیم کے تحت، ٹریڈ مارکس وزارت تجارت کے تحت اور پیٹینٹ رجسٹریشن کا کام وزارت صنعت کے تحت تھا۔ یہ مختلف وزارتوں کے ساتھ لڑائی تھی، جو اپنے اپنے دائرہ ء اختیار کا تحفظ کرنا چاہتی تھیں اور اس کے لیے وہ ظاہری طور پر اور در پردہ ایک دوسرے سے لڑتی رہتی تھیں۔

جب حکومت نے اپنی بین الاقوامی ذمے داری پوری کرنے کے لیے تمام اعتراضات کو مسترد کر دیا تو ایک نئی چپقلش چل نکلی۔اس بار یہ معاملہ اٹھ کھڑا ہوا کہ نو تشکیل شدہ انٹیلچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان (IPO) پر کس کا کنٹرول ہونا چاہیے۔بالآخر اس مسئلہ کو وزیر اعظم نے حل کیا اور آئی پی او کو براہ راست کیبنٹ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ IPO براہ راست وزیر اعظم کو جوابدہ ہو گی۔

حکومت کی جانب سے تخلیقی املاک کے حقوق کی حفاظت کی اپنی ذمے داری پوری کرنے کے لیے ایک ساتھ تین اقدامات کیے گئے: اول، پالیسی ساز اور ریگولیٹری ادارے کی حیثیت سے آئی پی او کا قیام؛ دوئم، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(FIA) کو آئی پی آر قوانین اور ضابطوں کے نفاذ کا اختیار دیا گیا؛ اور سوئم، نقلی اورمسروقہ مصنوعات کو منگوانے اور یہاں سے باہر بھجوانے کی روک تھام کے لیے کسٹمز کو فعال کیا گیا۔ فلموں، موسیقی اور سافٹ وئر کی نقلی سی ڈیز کے بڑے تیار کنندگان پر ایف آئی کے چھاپوں اور ترقی پذیر ملکوں کو مسروقہ مواد کی اسمگلنگ کی سختی سے روک تھام کا بہت فائدہ ہوا۔

بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کے لیے تخلیقی املاک کے حقوق کے ضمن میں کچھ پیشرفت کے باوجود آئی پی او ابتدا میں اپنا جوش و خروش کھو بیٹھا ہے اور اس نے صوبائی سطح پر بھی خصوصی ٹریبونل قائم کرنے میں برسوں لگا دیے؛اس کے علاوہ تخلیقی املاک کے حقوق کی خلاف ورزی پر اب بھی قانون کے تحت جو زیادہ سے زیادہ سزا ہے وہ اتنی نہیں ہے کہ اس قسم کے جرائم سے روکنے کے لیے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر سکے۔ان معاملات کو آئی پی او کے پالیسی بورڈ کا باقاعدگی سے اجلاس بلا کر حل کیا جا سکتا ہے جو فی الوقت معمول نہیں ہے۔

ان تمام کوششوں سے کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔امریکی محکمہ ء تجارت کی ''پرائریٹی واچ لسٹ'' (ملکوں کی ایسی فہرست جس پر ترجیحی بنیاو پر نظر رکھی جاتی ہے) سے پاکستان کا نام ہی خارج کر دیا گیا تھا۔ پاکستان مسروقہ اور نقلی مصنوعات کے ایک بڑے ذریعے کے طور پر طویل عرصہ تک 14 ملکوں کی اس فہرست میں شامل رہا۔ حالانکہ ہم روس، چین، بھارت اور فلپائن جیسے بعض دوسرے ملکوں جیسے بُرے نہیں تھے۔اب ہمارا نام 45 ملکوں کے ایک بڑے کلب میں آرڈنری واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

اب سب سے اہم کام یہ ہے کہ اس بارے میں شعور بیدار کیا جائے کہ تخلیقی اثاثوں کے حقوق کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔صرف عام لوگوں ہی کو اس بارے میں بتانا اور تعلیم دینا ضروری نہیں ہے ۔ میں حکومت اور اعلیٰ عدلیہ میں متعدد ایسے پالیسی سازوں سے مل چکا ہوں جن کا خیال ہے کہ '' انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کا تحفظ اپنے بھاری منافع کی حفاظت کے لیے کثیر القومی کمپنیوں کا واویلا ہے'' ۔اور یہ کہ ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ، بقول ان کے، ہم اس''مہنگی عیاشی'' کے متحمل نہیں ہو سکتے۔


حقوقِ تخلیقی املاک کے تحفظ کے خلاف تین مقبول دلائل موجود ہیں۔کتابوں اور سافٹ وئر کے کاپی رائٹس کے تحفظ کے خلاف دل کو چھولینے والی ایک دلیل یہ ہے کہ ہم ایک غریب قوم ہیں اور اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ''ہمیں بھیک مانگنی چاہیے، ادھار لینا چاہیے اور چوری بھی کرنی چاہیے''۔ اسی طرح، پڑھے لکھے لوگوں کا یہ طبقہ کہتا ہے کہ ہم مہنگی دوائیں نہیں خرید سکتے اس لیے دوائیں تیار کرنے والی ان کمپنیوں کو پیٹینٹ رائٹس نہیں دیے جانے چاہئیں۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ لوگ غیر قانونی نقل اس لیے تیار کرتے ہیں کہ بڑی کمپنیوں کی مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں اور وہ بھاری منافع کماتی ہیں۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم بنیادی مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ ان سب لوگوں کو جو حقوقِ تخلیقی املاک کے تحفظ کی مخالفت کرتے ہیں ایک ہی مشترکہ تشویش ہے یعنی: غریب آدمی کی بہبود اور یہ احساس کہ چونکہ ہم غریب ہیں اس لیے ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ چونکہ ہم غریب ہیں اس لیے ہمیں چوری کرنے کا حق حاصل ہے۔

عوام کے تمام بہی خواہ بنیادی طور پر عوامی بھلائی کے اس سارے معاملے کو الجھا رہے ہیں۔ عوام کے تعلیم حاصل کرنے کے حق، معلومات تک رسائی کے حق، کم قیمت پر صحت کی حفاظت اور مناسب قیمتوں پر اشیائے صرف کے حصول کے حق کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ مگر وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ لوگوں کو تعلیم اور صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، یہ پرائیویٹ سیکٹر، ان ادیبوں، فنکاروں اور سائنسدانوں کی ذمے داری نہیں ہے جو جعل سازوں اور کاپی رائٹس کی چوری کرنے والوں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام حکومتوں کو ابہام کی کیفیت اچھی لگتی ہے تاکہ وہ سماجی شعبے کی دیکھ بھال کی اپنی بنیادی ذمے داری سے جان چھڑا سکیں۔اور ہمارے پڑھے لکھے لوگ اس کام میں آسانی پیدا کر رہے ہیں۔

آئیے اب ہر مفروضے کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں۔ کتابوں اور آرٹ ورکس کے سرقہ کی وجہ سے ہمارے کتنے تخلیق کاراپنے ان حیرت انگیز شہ پاروں کی آمدنی سے اپنا پیٹ پال سکتے ہیں؟ہمارے کورس کی کتابیں اتنے گھٹیا معیار کی کیوں ہوتی ہیں؟کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے اسکالرز کو مناسب معاوضہ ادا نہیں کرتے اور راتوں رات ان کی کتابوں کی غیر قانونی نقل تیار ہو جاتی ہے۔

جہاں تک نصاب کی غیر ملکی کتابوں کا تعلق ہے،جو زیادہ تر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں استعمال کی جاتی ہیں تو حکومت ان کے اشاعتی حقوق کیوں نہیں خریدسکتی تاکہ چوری چکاری میں ملوث ہونے کی بجائے باعزت طریقے سے کا م کیا جائے؟زیادہ تر صورتوں میں یہ صرف مڈل مین ہی ہوتا ہے جو دوسروں کے ساتھ سرقہ میں ملوث ہوتا ہے،اور اصل میں مال کماتا ہے جب کہ قاری کو برائے نام کم قیمت پر گھٹیا معیار کی کتابیں ملتی ہیں۔

Patented دواؤں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔پیٹینٹ پروٹیکشن کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے کہ یہ پابندی مقامی تیار کنندگان کو مارکیٹ میں داخل ہونے سے روکتی ہے اور اس سے مختلف کمپنیوں کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ اپنی دوائیں مہنگی قیمتوں پر فروخت کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزارت صحت کے پاس رجسٹرڈ 1000 بنیادی دواؤں میں سے صرف5% ایسی ہیں جنھیں پیٹینٹ کے تحت تحفظ حاصل ہے۔چنانچہ مقامی صنعت کے سامنے وسیع و عریض میدان کھلا ہوا ہے۔ پیٹینٹ رائٹس بھی عمر بھر کے لیے نہیں ہوتے، یہ سات سے آٹھ سال میں ختم ہو جاتے ہیں۔

دلائل کا لب لباب یہ ہے کہ جعلسازی کی اس لیے حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ بڑی کمپنیاں زیادہ قیمتوں پر اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے اداروں کو اپنی مصنوعات متعارف کرانے اور انھیں کسی بھی قیمت حتیٰ کہ مفت فروخت کرنے سے بھی کوئی نہیں روکتا۔ مگر انھیں دوسری کمپنیوں کے گھوڑے پر سواری کا حق نہیں ہونا چاہیے جو اپنے برانڈز کی تیاری کے لیے سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ یہ صارفین کو دھوکہ دینے کا بھی معاملہ ہے جو ملتی جلتی مصنوعات کو اصل سمجھ کر خریدتے ہیں۔

ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ حقوق ِ تخلیقی املاک کی خلاف ورزیوں پر اس وجہ سے بھی پابندی نہیں لگانی چاہیے یا ان کی مذمت نہیں کی جانی چاہیے کہ کثیر القومی کمپنیاں اور امریکی حکومت ان قوانین پر موثر عمل درآمد کے لیے کہہ رہی ہیں۔کیا عملاً ہم مغرب کی بات سننے سے انکار کے متحمل ہو سکتے ہیں جو ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے؟

ان کی جانب سے تجارتی پابندیاں ہمارے ان غریب لوگوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں جو قابل برآمد مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ یہ تنقید مجھے چیئرمین ماؤ کی اس عجیب منطق کی یاد دلاتی ہے جسے اب چینی بھی شاید بھول چکے ہوں گے کہ '' اس کی مخالفت کرو جس کی دشمن حمایت کرے اور اس کی حمایت کرو جس کی دشمن مخالفت کرے''۔
Load Next Story