بلدیاتی اداروں کو کام کرنے دیا جائے

کراچی میں عوام نہ لسانی سیاست سے دلچسپی رکھتے تھے نہ رنگ نسل اور قومیت کے حوالے سے ان میں تنگ نظری موجود تھی۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

کراچی کے منتخب میئرکی 39 مقدمات میں ضمانت کے بعد رہائی عمل میں آئی۔ 39 مقدمات میں وہ مقدمات بھی شامل ہیں جو 10 سال پہلے لگائے گئے الزامات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں پر بنائے گئے تھے۔

ہماری سیاسی روایت کے مطابق حکمران طبقات اپنے مخالفین پر احتیاطی مقدمات بنا کر رکھتے ہیں کہ ''داشتہ آید بہ کار'' 2007ء کے سانحے میں جو جانی نقصان ہوا وہ قابل افسوس ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ ہمارا ملک جس سیاسی کلچر کا حامل ہے اس میں مار دھاڑ، قتل و غارت گری ناگزیر عنصر کی طرح شامل ہے اس کی ایک وجہ وہ جاگیردارانہ نظام ہے جس کی سرشت میں تشدد شامل ہے۔ مار دھاڑ قتل و غارت کے اس کلچر کی وجہ سے ہمارے ملک میں پر امن اور مہذب کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگز کی روایت اس قدر ناگزیر بنی رہی کہ ہر سیاسی جماعت میں کسی نہ کسی قسم کے عسکری ونگز قائم رہے۔ عسکری ونگز اگرچہ سیاست جاریہ کا حصہ ہیں لیکن اس کلچر کا آغاز ایوب خان کے دور سے باضابطہ ہوا ایک مذہبی جماعت کی طلبا تنظیم میں تھنڈر اسکواڈ کے نام سے عسکری ونگ موجود تھا جو مخالفین کے خلاف لاٹھی ڈنڈے اور بعض اوقات ہتھیاروں کا استعمال بھی کرتا تھا۔

اس دور میں سیاست اتنے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی نہیں تھی جتنے ٹکڑوں میں آج بنی ہوئی نظر آتی تھی اس دور کی سیاست صرف دائیں اور بائیں سے پہچانی جاتی تھی، کراچی اس دور میں سیاست کا مرکز تھا۔ ہر تحریک کی قیادت کراچی ہی کرتا تھا، کراچی میں عوام نہ لسانی سیاست سے دلچسپی رکھتے تھے نہ رنگ نسل اور قومیت کے حوالے سے ان میں تنگ نظری موجود تھی۔ ایوب خان کے خلاف 1968ء میں جو تحریک چلی وہ نہ لسانی حوالے سے پہچانی جاتی تھی نہ نسل بلکہ آمریت کے خلاف یہ ایک ایسی عوامی تحریک تھی جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ ہم اس دور میں مزدوروں کی قیادت کرتے تھے اور ایوب خان کے خلاف چلنے والی اس تحریک میں جب مزدور طبقہ شامل ہوا تو نہ صرف کراچی میں یہ تحریک مضبوط ہوئی بلکہ ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے میں مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا۔

بات چلی تھی کراچی کے میئر وسیم اختر کے خلاف قائم 39 مقدمات سے۔ وسیم اختر اب رہا ہو چکے ہیں اور اس خواہش کا شدت سے اظہارکر رہے ہیں کہ بلدیاتی نظام کو قانون اور آئین کے مطابق پورے اختیارات کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے تا کہ کراچی کے عوام کو وہ سہولتیں وہ مراعات مل سکیں جو ہر جمہوری ملک میں بلدیاتی ادارے عوام کو فراہم کرتے ہیں، ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس ملک پر قابض وڈیرہ شاہی فطرتاً تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خواہشمند ہے وہ اختیارات میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کر سکتی۔


اس حوالے سے المیہ یہ رہا ہے کہ چونکہ بلدیاتی نظام میں بعض اختیارات صوبائی حکومتوں سے منتقل ہو کر بلدیاتی اداروں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں اگرچہ یہ اختیارات محدود ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ کار بھی محدود ہوتا ہے لیکن ہمارے وڈیرہ شاہی ذہنیت کے حکمران اختیارات کی اس تقسیم کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اسی نفسیات کا کرشمہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جمہوری حکومت میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے ہیں ورنہ بلدیاتی انتخابات ہمیشہ فوجی حکومتوں کے دوران ہی کرائے گئے ہیں۔ 2002ء کے ناظمین کے بلدیاتی انتخابات بھی ایک فوجی آمر کے دور میں ہی کرائے گئے اور ناظمین کے ان بلدیاتی اداروں نے جو کارکردگی دکھائی اس کا اعتراف ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی کیا گیا۔

بھتہ، چندہ، اغوا برائے تاوان جیسی جو لعنتیں ہماری سیاست میں در آئی تھیں ان کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا گیا ہے اور اہل سیاست کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہو گا کہ اب ان برائیوں کے ساتھ سیاست نہیں کی جا سکتی اب صرف اور صرف تشدد سے پاک پُر امن سیاست ہی عوام قبول کریں گے اگر ہمارے سیاست دان اس حقیقت کو سمجھ رہے ہیں تو نہ سیاست شجر ممنوعہ ہو گی نہ عوام سیاست کے نام سے خوفزدہ ہوں گے۔ بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے کراچی کے عوام بد ترین مسائل کا شکار ہیں۔ بجلی پانی ٹرانسپورٹ اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے عوام کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ سارا کراچی کچرے کے ڈھیر میں بدل کر رہ گیا ہے۔

کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوایم نے بھرپور کامیابی حاصل کی ہے اگرچہ ایم کیو ایم اب تین حصوں میں بٹ چکی ہے لیکن کراچی کے عوام کا مینڈیٹ ایم کیو ایم کو ہی حاصل ہے جو اب تقسیم کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کہلاتی ہے۔ وسیم اختر کا تعلق اسی ایم کیو ایم پاکستان سے ہے اور بحیثیت میئر کراچی وسیم اختر کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے لیکن بد قسمتی سے اب تک ایم کیو ایم پاکستان اور اس کے میئر کو یہ شکایت ہے کہ بلدیاتی اداروں کو وہ اختیارات نہیں دیے جا رہے جو قانون اور آئین کی رو سے انھیں ملنا چاہیئں۔

اس کی ایک روایتی وجہ تو یہ ہے کہ ہماری صوبائی حکومتیں اپنے کلی اختیارات سے دست بردار ہونا نہیں چاہتیں کیوںکہ اس سے ان کے مالی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔ ورنہ خوف یہ ہے کہ اگر بلدیاتی ادارے خلوص نیت اور بھرپور طریقے سے عوام کی خدمت کریں تو 2018ء کے الیکشن میں اس کا سیاسی فائدہ اس سیاسی جماعت کو ہو گا جو بلدیاتی اداروں کے ذریعے کراچی کے عوام کے مسائل حل کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے گی۔ یہ خوف بھی صوبائی حکومت کو بلدیاتی اداروں کو پورے اختیارات دینے کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے۔ لیکن کراچی لگ بھگ ایک عشرے سے جن بلدیاتی سہولتوں سے محروم ہے اس کا تقاضا ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کو مکمل مالی اور انتظامی اختیارات مہیا کرے تا کہ کراچی کے عوام وہ سہولتیں حاصل کر سکیں جن سے وہ محروم ہیں۔

اس حوالے سے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم اب تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے کسی جماعت کا تقسیم ہو جانا اس قدر نقصان رساں نہیں جس قدر منقسم دھڑوں کا آپس میں برسر پیکار ہو جانا نقصان رساں بن جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اختیارات سے محروم دھڑے عوام میں اپنا منشور پیش کر کے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور محض الزامی سیاست سے کام چلانے کی کوشش نہ کریں۔ کراچی کے عوام با شعور ہیں وہ مخلص اور عوام دوست سیاسی جماعتوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔
Load Next Story