شہرتِ عالی مقام

اسلام نہایت مضبوط عالمگیر مذہب ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ہے۔

کون آیا کون گیا، یہ ہر ملک میں ہے۔ کسی نے کہا کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ ان کی بات ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے اگر کوئی اچھی شخصیت، وفادار، محب وطن، عوام کی ہمدرد رخصت ہوئی ہے تو اس کا پورے ملک پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ ایسا اثر جس کو مدتوں نہیں بھلا سکتے۔ جو کچھ ملک و قوم پر اثر انداز ہوتا ہے وہ انمٹ ہے، اگر چاہیں مٹانا لیکن مٹا نہیں سکتے، تاریخ کا حصہ بننے کے بعد الگ نہیں کرسکتے۔ہم کو اس امر پر فخر ہے ہمارا ملک ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہے۔ اسلامی پہلو اپنائیں یا غیر اسلامی باتوں کو کثرت سے استعمال کریں، جمہوریت بھی استعمال ہو تو وہ بھی غیر اسلامی طور طریقوں سے۔ اسلام میں رشوت حرام ہے، لینے والا دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

سود حرام، کمیشن حرام، لوٹ مار حرام، قتل و غارت حرام، غریبوں کا پیسہ اپنے اوپر اپنی جائیدادوں میں لگائیں یہ بھی حرام ہیں۔ یورپی ممالک سے قرض لیں، 75 فیصد خود کھائیں، 25 فیصد ملک و عوام پر لگے، جو 75 فیصد پیسہ ہے وہ حرام ہے۔ اپنے اغراض و مقاصد پورے کرنے کے لیے ملک کو مقروض کردیا جائے، یہ بھی اسلام میں حرام ہے۔ عوام سے جھوٹے وعدے، عہد و پیما یہ سب حرام باتیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ چند باتیں جو ذہن میں آئیں اگر تحقیق کی جائے تو لاتعداد باتیں جو اسلام میں حرام، ان کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اپنے حکمرانوں سے کوئی فرد سوال نہیں کرسکتا، کوئی بات پوچھنا تو درکنار ملاقات نہیں کرسکتا۔ سمجھنے سے قاصر ہوں، پھر کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔

ہاں یہ جب آزاد ہوا اس وقت اس نام پر آزادی عمل میں آئی اور مصمم ارادہ تھا کہ اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں گے۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ اسلامی نظام قائم ہوگا۔ آج تک اسی آسرے میں رہے، کب اسلامی نظام آئے گا یا کب اسلامی قانون پر عمل ہوگا۔ وہ علما جو دین و مذہب میں خاص معلومات نہیں رکھتے، وہ بھی ان باتوں سے الگ بلکہ دور۔ اگر قریب ہیں تو اسلام آباد کے قریب۔دیگر ملکوں میں ایسے حکمران ہیں جو مسلم نہیں لیکن اپنے ملک میں ایسے قوانین، اصول، اعمال نافذ کردیے جن میں اسلام کی جھلک نمایاں ہیں۔

مثال کے طور پر وہاں کی حکومت نے عوام کی ساری ذمے داری اپنے اوپر عاید کی ہے، کوئی بھوکا، ننگا، بغیر مکان نہیں رہ سکتا۔ اس کو شفاف پینے کے پانی کی تکلیف ہے نہ بجلی کا ملال، 24 گھنٹے بجلی وافر مقدار میں، زراعت ہو، کھیتی باڑی، آب پائیں، اسکول، اسپتال، غذائی اشیا کی فراہمی الغرض عوام کو کہیں بھی کسی قسم اور مقام پر تکلیف نہیں۔ بے روزگار کو مالی معاونت، کوئی شخص کہیں سے ریٹائر ہوا اس کی پنشن حکومت دیتی ہے، اتنی پنشن ہوئی ہے وہ فراخ دلی سے اپنا خرچ چلاسکتا ہے، کوئی تنگی نہیں۔ بوڑھوں کو ایک اچھی دیکھ بھال کہیں کسی کو تکلیف نہیں، اگر خدانخواستہ کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے، علاج معالجہ سے لے کر مالی طور پر حکومت ان کو خوشحال رکھتی ہے، علاج ایسا جب تک وہ صحیح نہ ہوجائے اس کو نہیں چھوڑتے، گھر پر ڈاکٹر، نرسیں آتی ہیں اور دیکھ بھال جاری رہتی ہے۔


معذرت کے ساتھ ان ملکوں میں کوئی ''اسلامی جمہوریہ'' نہیں، ان کا کوئی بھی فارم کسی سے بھروادیا جاتا ہے تو اس میں کوئی مذہب نہ کوئی قبلہ قطعی نہیں ان کے لیے سب انسان ہیں۔ ان تمام باتوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے ہم نے شاید قرآن شریف ترجمے سے نہیں پڑھا اور اگر ترجمہ پڑھا تو بھول گئے یا عمل نہیں کیا۔ ان لوگوں نے شاید قرآن شریف کا سارا ترجمہ اپنے لیے ایک کارآمدہ سمجھا، جس پر یہ کامیاب ہیں۔

ان کو کسی اسلامی نظام کی ضرورت نہیں، ان کی کارکردگی ایسی ہے جس میں سارا اسلام جھلک رہا ہے، ان میں جو اسلام قبول کرتے ہیں وہ لوگ ہم سے بہت آگے اسلام کے ہر پہلو اپناتے ہیں، ہم کو دیکھ کر شرم آتی ہے ہم مسلمان اور یہ نو وارد مسلمان ہم سے بہت زیادہ پابند۔ کوئی غیر اسلامی، غیر شرعی کام نہیں کرتے، جب کہ اسلام نہایت مضبوط عالمگیر مذہب ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام مذاہب کو اگر باریک چھنوں سے چھان لیں، چھنا ہوا جو حاصل ہوگا وہ اسلامی شعار، اسلامی چلن ہے اور بہت سی نیک بااخلاق باتیں ملیںگی ہر مذہب میں۔ کچھ اچھی باتیں ضرور ہیں لیکن وہ اس سے زیادہ اچھائیوں پر عمل پیرا ہیں، وہ زیادہ اچھی باتیں ہیں اسلام میں۔ کچھ کام اور حرکات ایسی ہیں جو ہمارے مذہب سے جدا بلکہ حرام ناجائز ہیں، امن سے ہم دور ہیں اور نہ ہی یہ لوگ ان باتوں پر اصرار کرتے ہیں، ہم لوگ ویسے بھی ان کی ایسی حرکات و سکنات سے دور ہیں۔ افسوس ہم نے کسی سے اچھائی نہیں سیکھی، دوسروں نے ہمارے مذہب سے اچھائی سیکھ لی۔

اپنے ملک کا جائزہ لیتے ہیں تو اس بات پر شدید تکلیف پہنچتی ہے۔ بجائے ترقی پانے کے ہم تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ دو کارنامے ہمارے ایسے ہیں جن سے دنیا میں بڑی شہرت ہوئی، شہرت عام سے لے کر شہرت عالی مقام، دنیا کی مشہور شہرت ہمارے ملک نے حاصل کی۔ یہ ایسے کارنامے ہیں جو ابھی تک باقی ہیں بقول ''طاہر القادری صاحب'' کے ایک تو دفن ہوگا، دوسرا اڑ جائے گا۔ سمجھ لو دونوں ہی ختم ہیں۔ قومی سلامتی بڑی بات ہے، سمجھ لیں بیس کروڑ عوام کی عزت و غیرت پنہاں ہے۔ اپنا کام دکھا دیا اور معصوم بن گئے، ہوا بھی کچھ نہیں اور شاید نہ کچھ ہوگا۔ ایسے مسئلے کو اتنا لمبا ہونے نہیں دینا چاہیے، اس کو تو دو چار دن میں چیر پھاڑ دینا چاہیے۔ ایک وزیر کو معطل کردیا جو اصل لوگ تھے وہ عیش کررہے ہیں اور شاید وہ اسی طرح عیش کریںگے۔ اس حکومت نے کچھ نہیں کرنا۔ جو شخص خود جو کام کرے پھر وہ اس پر کس طرح ایکشن لے سکتا ہے۔

جس کو پکڑے گا وہ سارے پول کھولے گا اس لیے ان کو لیکس قرار دے کر ٹھنڈا کرنے کی ہمہ تن کاوش کی۔ اس سے پہلے جو کارنامہ پانامہ لیکس کاآیا اس کو بھی تقریباً سات ماہ تو ہوگئے، کچھ نہ بنا وقت کو ٹالنے کی کوشش اب سپریم کورٹ میں کیس پہنچ گیا ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان شہرت کا منبع ہے، اس منبع سے جو پانی باہر آتا ہے وہ بھی شہرت ہے، ملک کی کسی شے کو آپ اٹھائیں آپ کو کسی قسم کی شہرت ضرور ملے گی، پانی میں بھی کمیشن ہوتا ہے، تعمیرات کمیشن مثال ہیں۔ یلو، گرین یہ بھی بڑی شہرت کے ساتھ بڑے کمیشن ہیں۔ بجلی بنانے اور بڑھانے کے بڑے مشہور بجلی گھر تعمیر ہورہے ہیں، وہ بھی تو کمیشن ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ عام لوگ کہہ رہے ہیں۔

پہلے خاص لوگوں نے بتایا، ہمارے سینئر سیاست دان شیخ رشید احمد تو بہت کچھ بتاتے رہے جس کی وجہ سے شہرت حاصل ہوتی رہی۔ کسی نے کہا ہے اگر بدنام نہ ہوںگے تو کیا نام نہ ہوگا۔ جناب عالی! بدنام ہونے پر تو بڑا نام پیدا ہوتا ہے، ایسا نام ہوتا ہے جو پوری دنیا کی زینت بنتا ہے، اس پر بھی کچھ لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر دنیا میں کرپٹ لوگوں میں ہمارا نام نہ ہو تو سب بیکار ہے، یہ بھی بڑا پن ہے، پوری دنیا جان جائے کون سا ملک ایسا ہے جہاں جب چاہیں اپنے مطلب کے لوگ حاصل کرسکتے ہیں، یہ ان لوگوں کی بڑی بات ہے۔
Load Next Story