بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں …
وزیرستان جو دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا تھا وہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
معاشرے میں قابل احترام مقام حاصل کرنے کے لیے انسان کا کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے کہ اس کے دشمن بھی اس کی شخصیت وکردار کے معترف ہوں،ان خصوصیات میں سے چند کو ہم یوں بیان کرسکتے ہیں۔ اصول پسندی، ذمے دارانہ رویہ، غیرت وحمیت، دیانتداری، اپنی صلاحیت (خداداد) و اہلیت کا بروقت اور مثبت اظہارواستعمال۔ ان چیدہ چیدہ خصوصیات کا حامل شخص اپنے حلقہ احباب ہی میں نہیں،اپنے ملک بلکہ ساری دنیا میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ رہے نہ رہے اس کا ذکر ہمیشہ بطور مثال آنے والی نسلوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالوں میں سے تازہ ترین مثال عبدالستار ایدھی کی ہے۔
ایسے لوگ آنے والی نسلوں اور اپنے فوراً بعد آنے والوں کو بھی سوچنے پر مجبورکرتے ہیں کہ جو مثال قائم ہوچکی ہے اس کو برقرار رکھنا چاہیے۔کسی نا اہل یا منفی رویے کے حامل شخصیت کے بعد باصلاحیت اور مثبت انداز فکروعمل رکھنے والی شخصیت کا جو اثر معاشرے پر پڑتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، افراد معاشرہ فوراً ایسی شخصیت کے جو ماضی کی خامیوں کے برعکس ہو نہ صرف خوبیوں اور صلاحیتوں کو محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کا احترام بھی ازخودکرنے لگتے ہیں۔ جو اثرات ہم نے اچھی شخصیت کے معاشرے پر ثبت ہونے کا ذکر کیا ہے، بالکل اسی طرح معاشرتی بگاڑ و زوال نااہل اور غیر ذمے دار شخصیت کے کسی بھی اعلیٰ واہم مقام پر فائز ہونے کے بھی ہوتے ہیں اور معاشرے کا ہر فرد اگرچہ ایسے لوگوں کو مطعون کرتا ہے مگر اس کے اثرات سے خود کو بچانے کی بجائے اس کے ہی رنگ میں رنگے جانے پر فخر بھی کرتا ہے۔
اس تمہید کے بعد اگر میں یہ لکھوں کہ جنرل راحیل شریف نے اپنی اصول پسندی، پیشہ ورانہ ذمے داری اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ملک و قوم کے لیے نہ صرف مثبت انداز میں حد کمال تک قلیل مدت میں استعمال کرکے جو مقام اہل وطن کے دلوں میں قائم کیا ہے، اس کی مثال بہت کم نظر آتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جس وقت کمان سنبھالی ملک کراچی سے خیبر تک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ انھوں نے فوجی قیادت سنبھالتے ہی ملکی سالمیت و تحفظ کو اولیت دی اور اپنی ذمے داری کو بصد خلوص پیشہ ورانہ مہارت سے ادا کیا۔
وزیرستان جو دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا تھا وہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے حکمراں دہشت گردوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوشاں تھے، مذاکرات کے لیے وفد تیار تھا وہ تو دوسری جانب سے بار بار وفد میں رد و بدل اور شرائط عائد کی جا رہی تھیں، اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح زبان زد خاص و عام تھی۔ ساتھ ساتھ ملک بھر میں دہشت گرد کارروائیاں اور خودکش حملے بھی جاری تھے اور مختلف گروہ ان کی ذمے داری بھی ببانگ دہل قبول کر رہے تھے۔
اس نازک صورتحال میں ہمارے سیاستدانوں کا کردار ناقابل یقین حد تک ملکی مفاد کے برعکس تھا۔ ایک جماعت کے سربراہ طالبان کا دفتر پاکستان میں قائم کرانے کے لیے بے چین تھے تو دوسری سیاسی جماعت کے سربراہ ملک میں کچھ علاقہ ان کو دینے کی بات کر رہے تھے کہ انھیں ایک قطعہ اراضی دے دیا جائے جہاں وہ اپنے انداز اورطریقے سے زندگی بسر کرسکیں۔ گویا اس علاقے میں کوئی ایسا جادوئی نظام رائج ہوگا کہ وہ اس کی سرحد پار کرکے باقی پاکستان کو نہ صرف نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ اس علاقے سے باہر قدم بھی نہ رکھیں گے، باالفاظ دیگر ریاست کے اندر ریاست کا قیام دہشت گردی سے نجات کا واحد طریقہ قرار پایا۔
دہشت گردوں کی وحشیانہ کارروائیوں کا جب فوجی جوان جواب دیتے اور انھیں واصل جہنم کرتے اور کچھ جوان بھی جام شہادت نوش کرتے تو دہشت گردوں کی نماز جنازہ میں شرکت کو باعث ثواب و افتخار سمجھا جاتا انھیں شہدا اور فوجی جوانوں کو مردہ قرار دیا جاتا۔ حکمرانوں کے منہ پر گویا تالے پڑے ہوئے تھے، فوجی جوان اپنی جانوں پرکھیل کر دہشتگردی کا نیٹ ورک توڑتے رہے۔ اسی دوران آرمی پبلک اسکول پشاورکا انتہائی دل دہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا۔ اس کے بعد تو جنرل راحیل شریف نے بلا تاخیر آپریشن ضرب عضب شدت سے شروع کردیا صاحبان اقتدار بھی گوں مگوں کی کیفیت میں تھے، اسکول کے معصوم طلبا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے خوابیدہ قوم کو جھنجھوڑ کر بیدارکردیا۔
یوں قوم آپریشن ضرب عضب پر دل سے یا کچھ لوگ بددلی سے بہرحال متفق ہوگئے۔ سب واقف ہیں کہ ضرب عضب کے اثرات کے باعث ملک میں بڑی حد تک دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی، اگرچہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی مگر سیاسی و حکومتی سطح پر روابط مضبوط نہ ہونے کے باعث فوج کی تمام تر کوششوں کے باوجود معاشرے میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں اور سہولت کاروں کو مکمل طور پر قابو نہ کیا جاسکا جوکہ حکومت کی ذمے داری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ بلوچستان میں اس سال کے آغاز سے نومبر تک پانچ بڑے سانحات کے علاوہ بھی کئی واقعات دہشت گردی کے رونما ہوچکے ہیں۔
سندھ کی صورتحال بھی کوئی اطمینان بخش نہیں اسی دوران کئی اساتذہ، فنکار اور مذہبی افراد کو قتل کیا گیا، حتیٰ زنانی مجالس عزا تک کو نشانہ بنایا گیا، وفاقی و صوبائی حکومتیں ہمیشہ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرکے اپنا فرض ادا کردیتی ہے۔جنرل راحیل شریف نے (دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پانے والے) اب تو اپنی الوداعی ملاقاتوں کا بھی آغاز کردیا ہے، تو عوام کی وہ امید کہ شاید جنرل صاحب مدت ملازمت میں توسیع پر راضی ہوجائیں دم توڑ چکی ہیں۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، کاروبار حیات چلتا رہتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جنرل راحیل شریف سے پہلے بھی جنرلز آتے رہے اور آیندہ بھی آتے رہیں گے (خدا ملک کو سلامت رکھے) مگر آئے تو جنرل ضیا الحق بھی تھے۔ بات آنے جانے کی نہیں، بات یہ ہے کہ کون ملک کے لیے کیا کرتا ہے اورکیسے؟ باعزت جانے والے اور شاندار کارکردگی کا تمغہ سینے پر سجائے جانے والے کو ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے جس کے جنرل راحیل شریف واقعی مستحق ہیں کہ انھوں نے (ملکی خدمت کے لیے ہی سہی) اپنی اصول پسندی پر آنچ نہ آنے دی۔ ہم نے جو ابتدا میں لکھا کہ جب ایک بار اچھی مثال قائم ہوجاتی ہے آنے والے اس مثال کو قائم رکھنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوشاں رہتے ہیں بلکہ اس قائم شدہ معیار پر پورا اترنے کے لیے اپنے فرائض کی بجاآوری میں جی جان سے لگ جاتے ہیں۔
جنرل راحیل کی اصول پسندی کہ انھوں نے توسیع نہ لے کر دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی نہ ان کی راہ میں حائل ہوئے۔ وہ جنرل جس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے علاوہ ایک بہترین وزیر خارجہ کا کردار بھی ادا کیا، وہ تمام اہم ممالک کے دوروں پر گئے اپنے ہم منصبوں اور سربراہان حکومت سے ملاقاتیں کرکے پاکستان کا وقار بڑھایا۔ کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور پاک افواج کے درست امیج کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ پوری قوم اس عظیم جنرل کو سلام عقیدت کے ساتھ الوداع کہتی ہے اور امید رکھتی ہے کہ اگر قوم و ملک کو کبھی ان کی ضرورت پڑی تو ہمیں مایوس نہیں کریں گے اور آنے والے ان کے نقش پا پر چل کر آپریشن ضرب عضب کو مکمل کریں گے۔
ایسے لوگ آنے والی نسلوں اور اپنے فوراً بعد آنے والوں کو بھی سوچنے پر مجبورکرتے ہیں کہ جو مثال قائم ہوچکی ہے اس کو برقرار رکھنا چاہیے۔کسی نا اہل یا منفی رویے کے حامل شخصیت کے بعد باصلاحیت اور مثبت انداز فکروعمل رکھنے والی شخصیت کا جو اثر معاشرے پر پڑتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، افراد معاشرہ فوراً ایسی شخصیت کے جو ماضی کی خامیوں کے برعکس ہو نہ صرف خوبیوں اور صلاحیتوں کو محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کا احترام بھی ازخودکرنے لگتے ہیں۔ جو اثرات ہم نے اچھی شخصیت کے معاشرے پر ثبت ہونے کا ذکر کیا ہے، بالکل اسی طرح معاشرتی بگاڑ و زوال نااہل اور غیر ذمے دار شخصیت کے کسی بھی اعلیٰ واہم مقام پر فائز ہونے کے بھی ہوتے ہیں اور معاشرے کا ہر فرد اگرچہ ایسے لوگوں کو مطعون کرتا ہے مگر اس کے اثرات سے خود کو بچانے کی بجائے اس کے ہی رنگ میں رنگے جانے پر فخر بھی کرتا ہے۔
اس تمہید کے بعد اگر میں یہ لکھوں کہ جنرل راحیل شریف نے اپنی اصول پسندی، پیشہ ورانہ ذمے داری اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ملک و قوم کے لیے نہ صرف مثبت انداز میں حد کمال تک قلیل مدت میں استعمال کرکے جو مقام اہل وطن کے دلوں میں قائم کیا ہے، اس کی مثال بہت کم نظر آتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جس وقت کمان سنبھالی ملک کراچی سے خیبر تک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ انھوں نے فوجی قیادت سنبھالتے ہی ملکی سالمیت و تحفظ کو اولیت دی اور اپنی ذمے داری کو بصد خلوص پیشہ ورانہ مہارت سے ادا کیا۔
وزیرستان جو دہشت گردوں کا گڑھ بنا ہوا تھا وہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے حکمراں دہشت گردوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوشاں تھے، مذاکرات کے لیے وفد تیار تھا وہ تو دوسری جانب سے بار بار وفد میں رد و بدل اور شرائط عائد کی جا رہی تھیں، اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح زبان زد خاص و عام تھی۔ ساتھ ساتھ ملک بھر میں دہشت گرد کارروائیاں اور خودکش حملے بھی جاری تھے اور مختلف گروہ ان کی ذمے داری بھی ببانگ دہل قبول کر رہے تھے۔
اس نازک صورتحال میں ہمارے سیاستدانوں کا کردار ناقابل یقین حد تک ملکی مفاد کے برعکس تھا۔ ایک جماعت کے سربراہ طالبان کا دفتر پاکستان میں قائم کرانے کے لیے بے چین تھے تو دوسری سیاسی جماعت کے سربراہ ملک میں کچھ علاقہ ان کو دینے کی بات کر رہے تھے کہ انھیں ایک قطعہ اراضی دے دیا جائے جہاں وہ اپنے انداز اورطریقے سے زندگی بسر کرسکیں۔ گویا اس علاقے میں کوئی ایسا جادوئی نظام رائج ہوگا کہ وہ اس کی سرحد پار کرکے باقی پاکستان کو نہ صرف نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ اس علاقے سے باہر قدم بھی نہ رکھیں گے، باالفاظ دیگر ریاست کے اندر ریاست کا قیام دہشت گردی سے نجات کا واحد طریقہ قرار پایا۔
دہشت گردوں کی وحشیانہ کارروائیوں کا جب فوجی جوان جواب دیتے اور انھیں واصل جہنم کرتے اور کچھ جوان بھی جام شہادت نوش کرتے تو دہشت گردوں کی نماز جنازہ میں شرکت کو باعث ثواب و افتخار سمجھا جاتا انھیں شہدا اور فوجی جوانوں کو مردہ قرار دیا جاتا۔ حکمرانوں کے منہ پر گویا تالے پڑے ہوئے تھے، فوجی جوان اپنی جانوں پرکھیل کر دہشتگردی کا نیٹ ورک توڑتے رہے۔ اسی دوران آرمی پبلک اسکول پشاورکا انتہائی دل دہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا۔ اس کے بعد تو جنرل راحیل شریف نے بلا تاخیر آپریشن ضرب عضب شدت سے شروع کردیا صاحبان اقتدار بھی گوں مگوں کی کیفیت میں تھے، اسکول کے معصوم طلبا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے خوابیدہ قوم کو جھنجھوڑ کر بیدارکردیا۔
یوں قوم آپریشن ضرب عضب پر دل سے یا کچھ لوگ بددلی سے بہرحال متفق ہوگئے۔ سب واقف ہیں کہ ضرب عضب کے اثرات کے باعث ملک میں بڑی حد تک دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی، اگرچہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی مگر سیاسی و حکومتی سطح پر روابط مضبوط نہ ہونے کے باعث فوج کی تمام تر کوششوں کے باوجود معاشرے میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں اور سہولت کاروں کو مکمل طور پر قابو نہ کیا جاسکا جوکہ حکومت کی ذمے داری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ بلوچستان میں اس سال کے آغاز سے نومبر تک پانچ بڑے سانحات کے علاوہ بھی کئی واقعات دہشت گردی کے رونما ہوچکے ہیں۔
سندھ کی صورتحال بھی کوئی اطمینان بخش نہیں اسی دوران کئی اساتذہ، فنکار اور مذہبی افراد کو قتل کیا گیا، حتیٰ زنانی مجالس عزا تک کو نشانہ بنایا گیا، وفاقی و صوبائی حکومتیں ہمیشہ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرکے اپنا فرض ادا کردیتی ہے۔جنرل راحیل شریف نے (دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پانے والے) اب تو اپنی الوداعی ملاقاتوں کا بھی آغاز کردیا ہے، تو عوام کی وہ امید کہ شاید جنرل صاحب مدت ملازمت میں توسیع پر راضی ہوجائیں دم توڑ چکی ہیں۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، کاروبار حیات چلتا رہتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جنرل راحیل شریف سے پہلے بھی جنرلز آتے رہے اور آیندہ بھی آتے رہیں گے (خدا ملک کو سلامت رکھے) مگر آئے تو جنرل ضیا الحق بھی تھے۔ بات آنے جانے کی نہیں، بات یہ ہے کہ کون ملک کے لیے کیا کرتا ہے اورکیسے؟ باعزت جانے والے اور شاندار کارکردگی کا تمغہ سینے پر سجائے جانے والے کو ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے جس کے جنرل راحیل شریف واقعی مستحق ہیں کہ انھوں نے (ملکی خدمت کے لیے ہی سہی) اپنی اصول پسندی پر آنچ نہ آنے دی۔ ہم نے جو ابتدا میں لکھا کہ جب ایک بار اچھی مثال قائم ہوجاتی ہے آنے والے اس مثال کو قائم رکھنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوشاں رہتے ہیں بلکہ اس قائم شدہ معیار پر پورا اترنے کے لیے اپنے فرائض کی بجاآوری میں جی جان سے لگ جاتے ہیں۔
جنرل راحیل کی اصول پسندی کہ انھوں نے توسیع نہ لے کر دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی نہ ان کی راہ میں حائل ہوئے۔ وہ جنرل جس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے علاوہ ایک بہترین وزیر خارجہ کا کردار بھی ادا کیا، وہ تمام اہم ممالک کے دوروں پر گئے اپنے ہم منصبوں اور سربراہان حکومت سے ملاقاتیں کرکے پاکستان کا وقار بڑھایا۔ کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور پاک افواج کے درست امیج کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ پوری قوم اس عظیم جنرل کو سلام عقیدت کے ساتھ الوداع کہتی ہے اور امید رکھتی ہے کہ اگر قوم و ملک کو کبھی ان کی ضرورت پڑی تو ہمیں مایوس نہیں کریں گے اور آنے والے ان کے نقش پا پر چل کر آپریشن ضرب عضب کو مکمل کریں گے۔