یہ آپ کی لڑائی ہے ہماری نہیں
سیاست دان جو مقدمہ کرتے ہیں یا جن پر کیا جاتا ہے دونوں دراصل ’’کبڈی‘‘ کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں
مسئلہ یہ ہے کہ قومی امور کے متعلق کوئی فیصلہ صادر کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ آیا فیصلہ کنندگان کو ماضی بعید و قریب میں کیے گئے بڑے فیصلوں کے بارے میں بھی کوئی عدالت قائم کرنی چاہیے یا نہیں۔ وہ فیصلے جن کے وسیع تر اثرات نے فریقین کو تاریخی کرداروں میں ڈھال دیا۔ اس وقت کیا برائی کا پردہ چاک ہوا یا بھلائی کا جشن منایا گیا۔ ان فیصلوں کا سامنا کرنے والوں کی بعد میں مدح سرائی کی گئی یا خدمت؟ دوسرے لفظوں میں فیصلہ کنندگان کو تاریخی مقدمات کے بارے میں سائنٹیفک مشاہدہ کرنے، خود کسی فیصلے پر پہنچے، ذاتی قومی یا معاشرتی مصلحتوں کو نظر انداز کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ میں اس سلسلے میں اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے براہ راست بات کروں تو مناسب ہوگا۔
عدالتی ادب مانع ہونا چاہیے، یوں بھی زیر سماعت مقدمات پر گفتگو انصاف کا ادب نہیں، جو ہورہا ہے چل پڑا ہے، اب چلنا چاہیے، ہونے دو۔ لیکن ماضی کے جھروکے اب تک کھلے ہیں کیوںکہ کسی نے ان پر کھڑکی نہیں لگائی، وہاں سے اکثر آہ و فغاں کی آوازیں آتی ہیں اور کوئی قہقہے بھی لگاتا ہے۔ کوئی کہتاہے میرے ساتھ ظلم ہوا، میں ناکردہ گناہ میں مارا گیا۔ ایک عدالتی قتل کے ذریعے تم نے مجھے طاقت کے زور پر مروا دیا، جواباً کوئی ہنس کر کہتا ہے تم اسی قابل تھے، ایک جمہوری آمر قوم کا مطالبہ تھا میں نے تو قوم کی آواز پر کان دھرا اور وہ ایک مکمل ٹرائل تھا، تمہیں حق تھا اپنے بارے میں بات کرنے کا۔
نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے، قوم نے تو مجھے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے، میرے نام پر کئی حکومتیں وجود میں آئیں، وہ تمہاری سازش تھی، اقتدار میں رہنے کی ہوس۔ میرے محترم ماضی کے در و دریچے وا ہیں۔ وہاں ایک شور و غوغا مچا ہے، کیا ہمیں اسے سننا چاہیے؟ کیا اس وقت انصاف ہوا تھا؟ یہ سوال ہاں یا نہیں کہہ دینے سے جواب میں نہیں بدل جائے گا۔ لیکن جو تاریخ رقم ہوئی کسے پتا تھا کہ وہ ملک کا مستقبل بن جائے گی۔
لوگ کہتے ہیں ہمیں آج میں جینا ہے تو جو کل بیت گیا وہ بھی تو آج ہی تھا۔ اس آج میں ہم نے آج کی بات کیوں نہیں کی۔ یہ چھڑی ہم پر کیوں سوار رہتی ہے یہ کرو، وہ نہ کرو۔ بہرحال پانامہ لیکس سے کوئی بری ہو یا جیل جائے، اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ معاملات انجام پذیر نہیں، ایک نئی بحث کا آغاز ہوجاتے ہیں، یہ سیاسی کینسر ہے، انھیں اس تناظر میں سنا جانا چاہیے۔ ان میں ایک فریق ملک کے برے بھلے سے کہیں زیادہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس نعرے کے زیر سایہ اپنے مفادات حاصل کرلے۔ مزید برآں قوم کو یہ بات پتا نہ چلے۔ فیصلہ کرنے والے لاعلم رہیں اور بھیا کی گڈی چڑھ جائے۔
سیاست دان جو مقدمہ کرتے ہیں یا جن پر کیا جاتا ہے دونوں دراصل ''کبڈی'' کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں، ایک کھلاڑی مخالف کے پالے میں کبڈی کبڈی کہتا ہوا گیا، یا تو کسی کو چھوکر اپنی ٹیم میں کامیاب لوٹا یا مخالف کے ہاتھوں قینچی کی پکڑ سے پکڑا گیا۔ میں نے عرض کیا، میں کوئی رائے اس معاملے میں نہ تو دوںگا نہ دینی چاہیے، لیکن بطور ایک پاکستانی ایک شہری جو کچھ میرے ذہن و دل میں ہے اس کے لیے میں پورے خلوص سے کہتا ہوں وہ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی یا اسے منتشر ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔
جو اظہار میں کررہا ہوں اسے میرے نیک نیتی سے جوڑ کر پڑھا جائے۔ محترم ہمارے تاریخ گواہ ہے کہ پانامہ لیکس جیسے مقدمات پر حتمی فیصلے دینے سے ہمیں حاصل کچھ نہیں ہوا، جو مرگئے وہ مرے نہیں زندہ ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے، جو بچ گئے وہ اس روش سے باز آکر نہ دیے جس پر وہ چل رہے تھے۔ پھر ان پر کتابیں تحریر ہوئیں، مقالے لکھے گئے، بے شمار تنقید ہوئی جب کہ اس کام کے لیے ملک میں بہت سے ادارے موجود ہیں آپ انھیں اپنے فیصلوں سے مضبوط اور حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد کروائے، وکلا نے کہا یہ آپ کا کام نہیں سیاسی معاملات ہیں۔ اس سے ساکھ متاثر ہوگی بہرحال اب تو بھینس گئی پانی میں، لیکن مشورہ ہے کہ مختصر وقت میں جامع بات کرکے معاملے کو نمٹا دیجیے، جتنی تفصیل میں جائیں گے کرپشن کا ریشم الجھتا جائے گا۔
آپ تمام حضرات نہایت فہمیدہ ہیں۔ لہٰذا کوئی فہم فراہم نہیں کرسکتا، ان کی لڑائی قطعاً ملک کے لیے نہیں، قوم کا مفاد ان کا مطمع نظر نہیں۔ صرف ذاتی جنگ ہے، حکومت و اقتدار کے حصول کے لیے، جس میں ایک فریق 600 دلائل دوسرا 1000 دے رہا ہے۔ دیکھیے بات کہاں سے شروع ہوئی، سعودی عرب پھر دبئی، پھر قطر اور نجانے یہ کہاں کہاں جائے گی۔ دوسرے بھائی 2013 سے چلے راستے بھر ہارتے گئے اور 2016 میں پہنچ کر انھیں شدت سے احساس ہوا کہ ان کی سیاسی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی، سو کیا کیا جائے انھوں نے جھٹ پانامہ یا پاجامہ زیب تن کرلیا۔ اور مجھے یقین ہے کہ شریف یہاں بھی شریف ثابت ہوئے تو وہ کچھ اور دیکھیں گے۔ الیکشن 2018 ان کا ہدف ہے، انھیں اگلا وزیراعظم بننا ہے، کسی بھی قیمت پر، لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں کہا کہ اس Exercise سے اپوزیشن اچھی ہوگئی جس سے قوم کو بہرحال فائدہ ہوا تو ہم انھیں شکریہ کہتے ہیں۔
یہ ماننے کے لیے البتہ تیار نہیں کہ جنگ ہماری لڑی جارہی ہے یا ملک کی۔ آپ کے ساتھ کون کھڑا ہے؟ وہی پانامہ زدہ لوگ، بھائی جان آج کا پاکستان آج کے پاکستانی اس قدر بھی خوابیدہ نہیں کچھ نہ کچھ معلومات ضرور رکھتے ہیں آپ اگر اسی قدر انصاف پسند ہیں تو اپنے رہنماؤں پر بھی گرفت فرمائیں۔ ایک جانب سے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی پر بھی دہائی دی جارہی ہے۔ بات غلط بھی نہیں۔ آج کے معتوبین کل یہی عذاب کسی اور پر ڈھا رہے تھے، برادر ملک ترکی کے اس وزیراعظم کی آمد پر اپنی تقاریر میں پارلیمنٹ کو منقسم قرار دے رہے تھے فرق یہ ہے کہ اس وقت یہ اپوزیشن تھے آج کوئی اور ہے تو ان امور پر برا ماننے والی بات نہیں جیساکہ حکومتی وزرا مان رہے ہیں۔
کوئی مخالف لیڈر کو ذہنی بیمار کہتا ہے کوئی جسمانی، خود مخالف لیڈر انھیں سکیورٹی رسک قرار دیتے ہیں۔ حضور والا یہ مکمل طور پر ایک سیاسی لڑائی ہے کسی کرپشن کے خلاف نہیں، ہاں اگر آپ سوموٹو ایکشن لیں، جیسا کراچی پر لیا اور بہت سے معاملات میں، تب ہم بحیثیت قوم اسے کرپشن کے خلاف راست قدم قرار دیں گے۔
ورنہ یہ سیاسی بازیگر ہم انھیں 50 سال سے بھگتتے آرہے ہیں، ابھی سابقہ الیکشن میں یہ خود کرپشن پر فریقین کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کررہے تھے۔ سوئس اکاؤنٹ سے مکمل پیسہ واپس لانے کے دعوے کررہے تھے، جب حکومت آئی تو انھی مخالفین سے شیر و شکر دکھائی دیے، بلکہ ہم ادھر ستم ادھر کا معاہدہ بھی۔یہ ہمیں پچھلے 70 برسوں سے درس دیتے چلے آرہے ہیں، جو ان کا نعرہ بھی ہے کہ ''میرے بھائیو! مان لو، سمجھ جاؤ، ہمارے مفاد میں ہی تمہارا مفاد ہے''۔ لہٰذا حضور والا اس معاملے کو جتنی جلد نمٹا دیں گے بہتر ہوگا۔
عدالتی ادب مانع ہونا چاہیے، یوں بھی زیر سماعت مقدمات پر گفتگو انصاف کا ادب نہیں، جو ہورہا ہے چل پڑا ہے، اب چلنا چاہیے، ہونے دو۔ لیکن ماضی کے جھروکے اب تک کھلے ہیں کیوںکہ کسی نے ان پر کھڑکی نہیں لگائی، وہاں سے اکثر آہ و فغاں کی آوازیں آتی ہیں اور کوئی قہقہے بھی لگاتا ہے۔ کوئی کہتاہے میرے ساتھ ظلم ہوا، میں ناکردہ گناہ میں مارا گیا۔ ایک عدالتی قتل کے ذریعے تم نے مجھے طاقت کے زور پر مروا دیا، جواباً کوئی ہنس کر کہتا ہے تم اسی قابل تھے، ایک جمہوری آمر قوم کا مطالبہ تھا میں نے تو قوم کی آواز پر کان دھرا اور وہ ایک مکمل ٹرائل تھا، تمہیں حق تھا اپنے بارے میں بات کرنے کا۔
نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے، قوم نے تو مجھے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے، میرے نام پر کئی حکومتیں وجود میں آئیں، وہ تمہاری سازش تھی، اقتدار میں رہنے کی ہوس۔ میرے محترم ماضی کے در و دریچے وا ہیں۔ وہاں ایک شور و غوغا مچا ہے، کیا ہمیں اسے سننا چاہیے؟ کیا اس وقت انصاف ہوا تھا؟ یہ سوال ہاں یا نہیں کہہ دینے سے جواب میں نہیں بدل جائے گا۔ لیکن جو تاریخ رقم ہوئی کسے پتا تھا کہ وہ ملک کا مستقبل بن جائے گی۔
لوگ کہتے ہیں ہمیں آج میں جینا ہے تو جو کل بیت گیا وہ بھی تو آج ہی تھا۔ اس آج میں ہم نے آج کی بات کیوں نہیں کی۔ یہ چھڑی ہم پر کیوں سوار رہتی ہے یہ کرو، وہ نہ کرو۔ بہرحال پانامہ لیکس سے کوئی بری ہو یا جیل جائے، اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ معاملات انجام پذیر نہیں، ایک نئی بحث کا آغاز ہوجاتے ہیں، یہ سیاسی کینسر ہے، انھیں اس تناظر میں سنا جانا چاہیے۔ ان میں ایک فریق ملک کے برے بھلے سے کہیں زیادہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس نعرے کے زیر سایہ اپنے مفادات حاصل کرلے۔ مزید برآں قوم کو یہ بات پتا نہ چلے۔ فیصلہ کرنے والے لاعلم رہیں اور بھیا کی گڈی چڑھ جائے۔
سیاست دان جو مقدمہ کرتے ہیں یا جن پر کیا جاتا ہے دونوں دراصل ''کبڈی'' کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں، ایک کھلاڑی مخالف کے پالے میں کبڈی کبڈی کہتا ہوا گیا، یا تو کسی کو چھوکر اپنی ٹیم میں کامیاب لوٹا یا مخالف کے ہاتھوں قینچی کی پکڑ سے پکڑا گیا۔ میں نے عرض کیا، میں کوئی رائے اس معاملے میں نہ تو دوںگا نہ دینی چاہیے، لیکن بطور ایک پاکستانی ایک شہری جو کچھ میرے ذہن و دل میں ہے اس کے لیے میں پورے خلوص سے کہتا ہوں وہ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی یا اسے منتشر ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔
جو اظہار میں کررہا ہوں اسے میرے نیک نیتی سے جوڑ کر پڑھا جائے۔ محترم ہمارے تاریخ گواہ ہے کہ پانامہ لیکس جیسے مقدمات پر حتمی فیصلے دینے سے ہمیں حاصل کچھ نہیں ہوا، جو مرگئے وہ مرے نہیں زندہ ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے، جو بچ گئے وہ اس روش سے باز آکر نہ دیے جس پر وہ چل رہے تھے۔ پھر ان پر کتابیں تحریر ہوئیں، مقالے لکھے گئے، بے شمار تنقید ہوئی جب کہ اس کام کے لیے ملک میں بہت سے ادارے موجود ہیں آپ انھیں اپنے فیصلوں سے مضبوط اور حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد کروائے، وکلا نے کہا یہ آپ کا کام نہیں سیاسی معاملات ہیں۔ اس سے ساکھ متاثر ہوگی بہرحال اب تو بھینس گئی پانی میں، لیکن مشورہ ہے کہ مختصر وقت میں جامع بات کرکے معاملے کو نمٹا دیجیے، جتنی تفصیل میں جائیں گے کرپشن کا ریشم الجھتا جائے گا۔
آپ تمام حضرات نہایت فہمیدہ ہیں۔ لہٰذا کوئی فہم فراہم نہیں کرسکتا، ان کی لڑائی قطعاً ملک کے لیے نہیں، قوم کا مفاد ان کا مطمع نظر نہیں۔ صرف ذاتی جنگ ہے، حکومت و اقتدار کے حصول کے لیے، جس میں ایک فریق 600 دلائل دوسرا 1000 دے رہا ہے۔ دیکھیے بات کہاں سے شروع ہوئی، سعودی عرب پھر دبئی، پھر قطر اور نجانے یہ کہاں کہاں جائے گی۔ دوسرے بھائی 2013 سے چلے راستے بھر ہارتے گئے اور 2016 میں پہنچ کر انھیں شدت سے احساس ہوا کہ ان کی سیاسی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی، سو کیا کیا جائے انھوں نے جھٹ پانامہ یا پاجامہ زیب تن کرلیا۔ اور مجھے یقین ہے کہ شریف یہاں بھی شریف ثابت ہوئے تو وہ کچھ اور دیکھیں گے۔ الیکشن 2018 ان کا ہدف ہے، انھیں اگلا وزیراعظم بننا ہے، کسی بھی قیمت پر، لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں کہا کہ اس Exercise سے اپوزیشن اچھی ہوگئی جس سے قوم کو بہرحال فائدہ ہوا تو ہم انھیں شکریہ کہتے ہیں۔
یہ ماننے کے لیے البتہ تیار نہیں کہ جنگ ہماری لڑی جارہی ہے یا ملک کی۔ آپ کے ساتھ کون کھڑا ہے؟ وہی پانامہ زدہ لوگ، بھائی جان آج کا پاکستان آج کے پاکستانی اس قدر بھی خوابیدہ نہیں کچھ نہ کچھ معلومات ضرور رکھتے ہیں آپ اگر اسی قدر انصاف پسند ہیں تو اپنے رہنماؤں پر بھی گرفت فرمائیں۔ ایک جانب سے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی پر بھی دہائی دی جارہی ہے۔ بات غلط بھی نہیں۔ آج کے معتوبین کل یہی عذاب کسی اور پر ڈھا رہے تھے، برادر ملک ترکی کے اس وزیراعظم کی آمد پر اپنی تقاریر میں پارلیمنٹ کو منقسم قرار دے رہے تھے فرق یہ ہے کہ اس وقت یہ اپوزیشن تھے آج کوئی اور ہے تو ان امور پر برا ماننے والی بات نہیں جیساکہ حکومتی وزرا مان رہے ہیں۔
کوئی مخالف لیڈر کو ذہنی بیمار کہتا ہے کوئی جسمانی، خود مخالف لیڈر انھیں سکیورٹی رسک قرار دیتے ہیں۔ حضور والا یہ مکمل طور پر ایک سیاسی لڑائی ہے کسی کرپشن کے خلاف نہیں، ہاں اگر آپ سوموٹو ایکشن لیں، جیسا کراچی پر لیا اور بہت سے معاملات میں، تب ہم بحیثیت قوم اسے کرپشن کے خلاف راست قدم قرار دیں گے۔
ورنہ یہ سیاسی بازیگر ہم انھیں 50 سال سے بھگتتے آرہے ہیں، ابھی سابقہ الیکشن میں یہ خود کرپشن پر فریقین کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کررہے تھے۔ سوئس اکاؤنٹ سے مکمل پیسہ واپس لانے کے دعوے کررہے تھے، جب حکومت آئی تو انھی مخالفین سے شیر و شکر دکھائی دیے، بلکہ ہم ادھر ستم ادھر کا معاہدہ بھی۔یہ ہمیں پچھلے 70 برسوں سے درس دیتے چلے آرہے ہیں، جو ان کا نعرہ بھی ہے کہ ''میرے بھائیو! مان لو، سمجھ جاؤ، ہمارے مفاد میں ہی تمہارا مفاد ہے''۔ لہٰذا حضور والا اس معاملے کو جتنی جلد نمٹا دیں گے بہتر ہوگا۔