نائن الیون سے الیون نائن تک

یہ سوال بھی اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد پاک امریکا تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟

ایک ارب پتی بزنس مین چیختا چنگھاڑتا ہوا دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچ گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام تجزیے، سروے، ایگزٹ پولز، ماہرین کی آراء، سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیاں غلط ثابت کردیں، ہر کوئی ناکام ہوگیا، امریکی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ دنیا کی ہر خبر پر ان کی نظر ہے، ان کی ماہرانہ نظر سے کچھ بھی بچ کر نہیں جاسکتا مگر ان سب کے دعوے باطل ٹھہرے، اسی وجہ سے نو نومبر کو آنے والے اس نتیجہ کو نائن الیون کی طرز پر گیارہ نو (9/11) کہا جارہا ہے، جس دن ہر چیز تلپٹ ہوکر رہ گئی تھی۔

امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کیا ہے جس کے بارے میں امریکا میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک متعصب، منفی، بدکردار اور بدزبان شخص ہے، جو مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور اگر ایسا شخص امریکی صدر بن گیا تو امریکا میں اقلیتوں کے لیے خطرہ ہوگا، وہاں شدت پسندی زور پکڑے گی۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر مگر یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آیندہ چار برسوں کے لیے دنیا کی واحد سپر پاور کے ایوان صدر کے مکین قرار پاچکے ہیں اور ان کی سوچ، انداز فکر کے اثرات امریکا ہی نہیں دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔

ٹرمپ کی ساری زندگی ایک کامیاب بزنس مین کی زندگی تھی، انھیں اپنا سودا بیچنا آتا تھا، ایک ذہین کاروباری کے طور پر انھیں معلوم تھا کہ مارکیٹ میں کس سودے کی گنجائش ہے، اب سیاست کی مارکیٹ میں بھی ان کی یہ صلاحیت کام آئی، خوف اور نفرت پر مبنی ان کا سودا بک گیا، بلاشبہ امریکہ میں ٹرمپ نے مسلمانوں سے نفرت، انتہاپسندی، مہاجرین کا گوروں کا حق مارنا، امریکیوں کے معاشی مفادات کو ہوا دے کر فتح حاصل کی ہے۔

الیکشن جیتنے کے بعد ٹرمپ نے اچھی معتدل تقریر کی۔ یہ الیکشن مہم کے ٹرمپ نہیں بلکہ ایک سپر پاور کے نومنتخب صدر کی تقریر معلوم ہوئی، یہ سیاست کے عملی تقاضے ہیں۔ الیکشن لڑنا الگ بات ہے، تاہم وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ ٹرمپ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنا انتخابی ایجنڈہ ہی کئی اہم اور اختلافی باتوں پر استوار کیا تھا، جن سے ہٹنا ان کے لیے آسان نہیں، امریکی صدر اپنے پہلے ٹرم میں کچھ ایسے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی بنا پر وہ دوسری ٹرم کے لیے بھی منتخب ہوسکے، ٹرمپ پر یہ دباؤ بھی ہوگا۔ دوسرا ان میں ایک خاص قسم کا خبط عظمت بھی جھلکتا ہے، ایسے لوگ اہم اور فیصلہ کن اقدام کر گزرتے ہیں تاکہ بزعم خود نئی تاریخ رقم کرسکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی تاریخ کا نازک دور شروع ہوچکا ہے، ٹرمپ عام امریکیوں کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں یا پھر سپر پاور امریکا کے اندر موجود فالٹ لائنز کو مزید گہرا اور وسیع کریں گے۔ امریکا کے اندرونی تضادات کسی بڑے دھماکے کی طرف جائیں گے یا پھر امریکی سماج ٹرمپ کے شاک کو بھی سنبھال جائے گا۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں اس وقت قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، رفتہ رفتہ اس کا اندازہ ہوپائے گا۔جہاں تک مسئلہ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا ہے تو ان کے حوالے سے یہ بالکل درست کہا جارہا ہے کہ ان کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا ذرا مشکل ہوگا کہ وہ عالمی معاملات میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سے امریکی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اب دنیا پہلے سے مختلف ہوجائے گی۔

اہم سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد امریکا پہلے سے کس قدر مختلف ہوجائے گا؟ تبدیل شدہ امریکا سے جڑا ہوا دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کے دنیا بھر پر کیا اثرات برآمد ہوں گے۔ سپر پاور میں آنے والی تبدیلی صرف اسی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اکثر اوقات یہ ایک لہر پیدا کرتی ہے، جو دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی گہرے اثرات کا باعث بنتی ہے۔ دنیا بھر میں تجزیہ کار، تھنک ٹینک اور حکومتی ماہرین ٹرمپ کے پالیسی بیانات، اس کے الیکشن ایجنڈے کا تجزیہ کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔

نومنتخب امریکی صدر روس کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، اگر واقعی امریکا روس اور چین کے ساتھ مقابلہ بازی کے بجائے شراکت کا رویہ رکھے گا تو اس کے عالمی امن پر اچھے اثرات پڑیں گے لیکن ماضی کا تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ عالمی امن کو تباہ کیا ہے۔ روس، چین اور اسلامی دنیا کو اس نے ہمیشہ اپنا حریف سمجھا ہے۔ نئے امریکی صدر کو اپنی پالیسیوں سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دنیا میں امن کا خواہاں ہے یا نہیں؟ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے آیندہ پالیسیاں ثابت کریں گی کہ امریکا نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے یا نہیں؟


ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کی وجہ سے دنیا میں خصوصاً مسلم ورلڈ میں بہت خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے اور یہ بغیر کسی وجہ کے نہیں ہے بلکہ ٹرمپ کے اپنے ہی بیانات ہیں جو کہ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران دیے۔

امریکا میں اقلیتیں بشمول مسلمان اور وہ تمام لوگ جو دوسرے ممالک سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں، بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اس سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں جو نائن الیون کے بعد بش اور اوبامہ نے کیا ہے۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل و غارت بش اور اوبامہ کے ادوار میں ہوا، ٹرمپ اس سے زیادہ کیا برا کریں گے؟ ٹرمپ سے پہلے امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں تباہی و بربادی پھیلادی۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد پاک امریکا تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ دھوکا دیا، استعمال کیا، نائن الیون کے بعد ہمارے ملک کو دہشتگردی کا نشانہ بنوایا، یہاں ڈرون حملے کیے اور سیکڑوں افراد بشمول خواتین و بچوں کو مارا، ایبٹ آباد پر حملہ کیا، سلالہ میں ہمارے کئی فوجیوں کو شہید کیا، پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا اور یہاں افرا تفری پھیلانے کا سامان پیدا کیا۔ اب ٹرمپ اس سے زیادہ پاکستان کو کیا نقصان پہنچائیں گے؟

ٹرمپ کی فتح سے پاکستان میں ایک تشویش کی لہر بھی موجود ہے کہ ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں خیالات بہت منفی ہیں، یہ تشویش بجا ہے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکی ریاست افراد کے بجائے اداروں پر زیادہ انحصار کرتی ہے اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیاں صدر بش یا صدر اوبامہ کی ذاتی پسند ناپسند سے زیادہ امریکی اداروں کے ماہرین کی مجموعی سوچ کی آئینہ دار ہیں اور مستقبل میں بھی فیصلہ سازی کے اس طریقہ کار میں فوری تبدیلی کا بہت کم امکان ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ووٹ حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کہا جاتا ہے، بہت وعدے وعید کیے جاتے ہیں لیکن جب اقتدار کی ذمے داری سر پر پڑتی ہے تو فیصلے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کا دور پاکستان کے لیے ایک مشکل دور ثابت ہوگا لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے بارے میں امریکا کی پالیسی پہلے ہی بہت سخت ہے اس لیے اس میں مزید کسی بھی قسم کی سختی کی گنجائش بہت کم ہے۔

ویسے بھی امریکی پالیسی اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے، لہٰذا جنوبی ایشیا میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر امریکی پالیسی ساز اسے نظر انداز نہیں کرسکتے، اب پاکستانی پالیسی سازوں پر ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ امریکا سے تعلق کو کس نہج پر لے جاتے ہیں، نئے صدر کے ساتھ زمینی حقائق کے مطابق بڑی ذہانت اور مدبرانہ طریقے سے معاملات طے کرنا ہوں گے اور اس مقصد کے لیے امریکا میں پاکستان کو بہت حکمت سے لابنگ کرنی چاہیے۔

پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ نئے امریکی صدر کو جنوبی ایشیا اور افغانستان کے لیے متوازن پالیسی اختیار کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھی برقرار رہے اور پاک امریکا تعلقات بھی بہتر رہیں۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان، بھارت اور طالبان کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دور صدارت جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔
Load Next Story