خط استوا سے قطر تک
ایک وزیراعظم کی وزارت خط نہ لکھنے کی نذر ہوگئی اور اب دوسرے وزیراعظم کی وزارت بھی خط پر اٹک گئی ہے۔
لفظ خط کو یاد کرو تو اس سے پہلی وابستہ یاد "خط استوا" کی ہے۔ تب سے ہی لفظ خط سے نفرت ہوگئی تھی۔ پہلا تاثر ہی تابوت کا آخری کیل ثابت ہوا اور آج تک لفظ خط سے کوئی اچھی یاد وابستہ نہیں۔ ریاضی کے مسئلے اور خط استوا کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیوں بنائے اور کیوں پڑھائے گئے۔ اندازہ کریں کہ ایک بندے نے ایک فرضی خط کھینچا اور وہ وہم سب کو پڑھنا پڑھا۔ سوچ کر ہی دل ڈوب سا جاتا ہے کہ اگر اس بندے نے چند اور خط کھینچ دئیے ہوتے تو مجھے جیسے ہزاروں ناخواندہ رہ جاتے۔
شکر ہے کہ اس نے ایک ہی خط کھینچا، مزید خط بھی کھینچ لیتا تو ہم نے اسکا کیا بگاڑ لینا تھا۔ مطالعہ پاکستان کی ہر چیز ہمیں سرورعزیز صاحب نے یاد کروادی، وہ گلوب لیکر ہمیں پڑھاتے تھے کہ، کون سا ملک کہاں واقع ہے اور کون سا ملک کس کا ہمسایہ ہے۔ یہ سب چیزیں ان کو زبانی یاد تھیں، انہوں نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ کسی طرح ہم کو خط استوا اور اس سے منسلک خط سرطان، خط جدی، خط طول البلد اور عرض البلد سمجھ آجائیں مگر نتیجہ وہی کے ڈھاک کے تین پات
خط سے وابستہ دوسری یاد، اس محبت نامے کی ہے جو ہمارے چار دوستوں نے مل کر اپنی اکلوتی محبوبہ کو لکھا تھا۔یہ چاروں تب پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے، لکھنے پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ ان کو لکھنا بالکل نہیں آتا تھا، پڑھ شاید یہ لیتے تھے مگر یہ بات مجھے اچھی طرح یا دنہیں۔ لکھنا نہیں آتا تھا مگر اب اس کے باعث خط لکھنا تو نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، تو فیصلہ کیا گیا کہ کلاس کے سب سے ذہین لڑکے سے خط لکھوایا جائے۔
یہ بھی اس معاشرے کا اصول ہے کہ جس کو لکھنا پڑھنا نہ آتا ہو اسے رعب جمانا ضرور آتا ہے۔ آپ پارلیمنٹ کے بیشتر ممبران کو ہی دیکھ لیں۔ بہرحال زد وکوب کرکے یا ڈرا دھمکا کر یہ خط تو لکھوالیا گیا مگر محبوبہ کے ہاتھوں میں پہنچنے کے بجائے یہ خط غلط ہاتھوں میں پہنچ گیا، اور ان چاروں کو اسکول کو داغ مفارقت دینا پڑا۔ آج بھی ہمارے محلے میں ان چاروں کے بردارانہ تعلقات اور اتحاد و یگانگت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
خط سے وابستہ باقی یادیں ناکام عاشقوں کی آہوں، سسکیوں اور شعروں کی صورت میں آپ تک بھی پہنچی ہوں گی۔ بعض شعراء کو تو خط کا جواب تک نہیں ملا اسی لئے انہوں نے شعر کہہ دیا کہ،
مگر چند روز قبل ایک نیا خط پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملا۔ جی ہاں یہ وہ خط ہے جو قطری شہزادے نے شریف خاندان کے بیرون ملک فلیٹس کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس خط میں کہا گیا کہ شریف خاندان نے قطر میں کاروبار کیا تھا، 2006 میں اسی کاروبار سے رقم شریف خاندان کو دی گئی جس سے لندن میں فلیٹس خریدے گئے۔ پہلا خط یعنی خط استوا مجھ سمیت بہت ساروں کو سمجھ نہیں آیا، دوسرا خط منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی پکڑا گیا، تیسرا خط وہ ہے جس کا جواب ہی نہیں آیا اور اب یہ چوتھا خط ہمارے سامنے ہے۔
حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ یہ خط بھی تاریخ دہرائے گا، اس کی نہ تو سمجھ آرہی ہے، نہ یہ کسی کو منزل مقصود تک پہنچائے گا اورنہ ہی اس سے کسی مثبت جواب کی توقع ہے۔ ایک پیارے دوست نسیم نیازی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست اور خط کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک وزیراعظم کی وزارت خط نہ لکھنے کی نذر ہوگئی اور اب دوسرے وزیراعظم کی وزارت بھی خط پر اٹک گئی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شکر ہے کہ اس نے ایک ہی خط کھینچا، مزید خط بھی کھینچ لیتا تو ہم نے اسکا کیا بگاڑ لینا تھا۔ مطالعہ پاکستان کی ہر چیز ہمیں سرورعزیز صاحب نے یاد کروادی، وہ گلوب لیکر ہمیں پڑھاتے تھے کہ، کون سا ملک کہاں واقع ہے اور کون سا ملک کس کا ہمسایہ ہے۔ یہ سب چیزیں ان کو زبانی یاد تھیں، انہوں نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ کسی طرح ہم کو خط استوا اور اس سے منسلک خط سرطان، خط جدی، خط طول البلد اور عرض البلد سمجھ آجائیں مگر نتیجہ وہی کے ڈھاک کے تین پات
خط سے وابستہ دوسری یاد، اس محبت نامے کی ہے جو ہمارے چار دوستوں نے مل کر اپنی اکلوتی محبوبہ کو لکھا تھا۔یہ چاروں تب پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے، لکھنے پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ ان کو لکھنا بالکل نہیں آتا تھا، پڑھ شاید یہ لیتے تھے مگر یہ بات مجھے اچھی طرح یا دنہیں۔ لکھنا نہیں آتا تھا مگر اب اس کے باعث خط لکھنا تو نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، تو فیصلہ کیا گیا کہ کلاس کے سب سے ذہین لڑکے سے خط لکھوایا جائے۔
یہ بھی اس معاشرے کا اصول ہے کہ جس کو لکھنا پڑھنا نہ آتا ہو اسے رعب جمانا ضرور آتا ہے۔ آپ پارلیمنٹ کے بیشتر ممبران کو ہی دیکھ لیں۔ بہرحال زد وکوب کرکے یا ڈرا دھمکا کر یہ خط تو لکھوالیا گیا مگر محبوبہ کے ہاتھوں میں پہنچنے کے بجائے یہ خط غلط ہاتھوں میں پہنچ گیا، اور ان چاروں کو اسکول کو داغ مفارقت دینا پڑا۔ آج بھی ہمارے محلے میں ان چاروں کے بردارانہ تعلقات اور اتحاد و یگانگت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
خط سے وابستہ باقی یادیں ناکام عاشقوں کی آہوں، سسکیوں اور شعروں کی صورت میں آپ تک بھی پہنچی ہوں گی۔ بعض شعراء کو تو خط کا جواب تک نہیں ملا اسی لئے انہوں نے شعر کہہ دیا کہ،
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
مگر چند روز قبل ایک نیا خط پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملا۔ جی ہاں یہ وہ خط ہے جو قطری شہزادے نے شریف خاندان کے بیرون ملک فلیٹس کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس خط میں کہا گیا کہ شریف خاندان نے قطر میں کاروبار کیا تھا، 2006 میں اسی کاروبار سے رقم شریف خاندان کو دی گئی جس سے لندن میں فلیٹس خریدے گئے۔ پہلا خط یعنی خط استوا مجھ سمیت بہت ساروں کو سمجھ نہیں آیا، دوسرا خط منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی پکڑا گیا، تیسرا خط وہ ہے جس کا جواب ہی نہیں آیا اور اب یہ چوتھا خط ہمارے سامنے ہے۔
حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ یہ خط بھی تاریخ دہرائے گا، اس کی نہ تو سمجھ آرہی ہے، نہ یہ کسی کو منزل مقصود تک پہنچائے گا اورنہ ہی اس سے کسی مثبت جواب کی توقع ہے۔ ایک پیارے دوست نسیم نیازی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست اور خط کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک وزیراعظم کی وزارت خط نہ لکھنے کی نذر ہوگئی اور اب دوسرے وزیراعظم کی وزارت بھی خط پر اٹک گئی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔