امریکا تبدیلی کی راہ پر

ٹرمپ کی عمومی پالیسیوں کے پیش نظر باور کیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔

KARACHI:
نومنتخب امریکی صدر کے اس اعلان نے کہ وہ امریکا کی عظمت بحال کر دیں گے امریکیوں کے دل کے تار چھیڑ دیے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہزاروں امریکی ٹرمپ کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تاہم میرے اچھے دوست فرینک نیومن نے درست پیش گوئی کی تھی کہ ٹرمپ بڑی واضح اکثریت سے جیتیں گے جب کہ احتجاج کرنے والوں نے ہائی ویز کو بند کر دیا اور ٹرمپ کے پتلے جلائے۔

ٹرمپ کے سفید فام حامیوں نے سپرے کے ذریعے سواسٹیکا بنائے (جو نازی جرمنی کا نشان تھا) جب کہ غیر مسیحی عبادت گاہوں پر الٹے پلٹے جملے لکھے اور برسرعام یہودیوں' رنگدار لوگوں اور حجاب پہننے والی عورتوں کا ٹھٹھہ اڑایا۔ میڈیا میں ہلیری کلنٹن کی بھرپور حمایت جاری رہی جس پر ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے میڈیا کو زبانی طور پر گالیاں دی گئیں البتہ حملہ نہیں کیا گیا۔

ٹرمپ کی طرف سے الیکٹرونک میڈیا کے افسروں اور اینکروں کے ساتھ ملاقات کی گئی اور انھیں کہا ''آپ لوگوں نے میرے بارے میں غلط اندازے لگائے'' لیکن جہاں تک اوباما کے ساتھ ٹرمپ کے تعلقات کا تعلق ہے تو ان میں محبت کی کوئی کمی نہیں آئی۔ اوباما نے ہلیری کی انتخابی شکست کے ایک دن بعد ہی ٹرمپ کو وہائٹ ہاؤس میں مدعو کر لیا۔ اس سے صدارتی عہدے کی پرامن اور ہموار تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے جو امریکی روایت کا حصہ ہے۔ اوول آفس میں ہونے والے ہم آہنگی کے اجلاس سے جمہوریت کے مضبوطی کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔

ہلیری نے پاپولر ووٹوں میں ٹرمپ پر برتری حاصل کی ہے کالج کے تعلیم یافتہ ووٹروں نے جن میں سفید فام عورتوں کی اکثریت ہے ہلیری کو ترجیح دی جس کی پالیسیوں کے بارے میں پہلے سے پیش گوئی کی جا سکتی تھی لیکن ہلیری کے لیے اقلیتی ووٹ اس بڑی تعداد میں اکٹھے نہیں ہو سکے جتنے کہ 2008ء اور 2012ء میں اوباما کے لیے ڈالے گئے تھے۔ مختلف شعبوں میں کام کرنے والے سفید فام ووٹر اپنے روز گار کے ختم ہو جانے پر ناراض تھے کیونکہ بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنی فیکٹریاں سستی افرادی قوت اور ٹیکسوں کی بچت کی وجہ سے بیرون ملک منتقل کر لی ہیں۔

یہ لوگ مستقل ملازمت اور طرز زندگی پر بہت مطمئن تھے مگر جب ان کی ملازمتیں کسی متبادل بندوبست کے بغیر ختم ہو گئیں تو ان کو بہت زیادہ غصہ تھا۔ بیرون ملک سے نقل مکانی کر کے آنے والے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو وہ ملازمتیں مل گئیں جو پہلے سفید فام امریکیوں کے پاس تھیں چنانچہ انھوں نے اپنے مستقبل کی امیدیں ٹرمپ کے ساتھ وابستہ کر لیں۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے خلاف ہو گئے تھے۔ ان سفید فاموں میں ان کی اکثریت تھی جن کے پاس کالج کی ڈگری نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ ہلیری کو ڈیموکریٹک امیدواروں کے لیے مشن گن اور وسکانسن جیسی محفوظ ریاستوں سے بھی مطلوب ووٹ حاصل نہ ہو سکے۔ اوباما نے کاسترو کے کیوبا کے ساتھ تعلقات استوار کرکے گویا فلوریڈا کی ریاست تحفے میں ٹرمپ کو پیش کر دی۔


کیوبا کے لاطینی نژاد باشندے اوباما کی اس پالیسی کو قبول نہ کر سکے۔ ایک سینئر سیاسی تجزیہ نگار مشیل ڈگلیئرجو کہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایک تھنک ٹینک ''تھرڈ وے'' کے ساتھ منسلک ہے کا کہنا ہے کہ سفید فام افرادی قوت اور کالج کی ڈگری کے حامل سفید فاموں میں اختلاف کا پیدا ہونا اس سال کی سب سے اہم کہانی ہے۔ مڈل کلاس میں شامل سمجھے جانے والے امریکیوں میں سے آدھے جو سالانہ ایک لاکھ یا اس سے زیادہ ڈالر کماتے تھے وہ سب 70 سالہ ارب پتی ٹرمپ کے ووٹر بن گئے۔

امریکی امداد کے کھربوں ڈالر ترقی پذیر ملکوں کا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے دیے گئے ہیں جب کہ امریکی مستحقین کو نظرانداز کر دیا گیا ہے اور مزید المیہ یہ کہ تیسری دنیا کے کرپٹ لیڈروں نے اس امریکی امداد سے اربوں کھربوں ڈالر خود ہڑپ کر کے اپنے عوام کو اور زیادہ غریب بنا دیا ہے۔ امریکی انتخابات کے بارے میں کیے جانے والے سروے کے مطابق 53فیصد مردوں نے ری پبلکن پارٹی کو ووٹ دیے جب کہ 54فیصد عورتوں نے ہلیری کیمپ کو ووٹ دیے ٹرمپ کو 42فیصد ووٹ ملے ہر دس رائے دہندگان میں سے چار نے ٹرمپ کی طرف سے تبدیلی کے نعرے کو ووٹ دیے ری پبلکن نے جیمز کومے کو ایف بی آئی کا ڈائریکٹر تعینات کر دیا جنہوں نے انتخاب سے گیارہ روز قبل ہلیری کے ای میلز سکینڈل کو آشکار کر دیا اور الیکشن سے صرف دو دن قبل ہلیری کلنٹن کے ایک بیان کو شایع کر کے ان کی انتخابی مہم میں رکاوٹ پیدا کر دی اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاپولر ووٹ حاصل کر کے جیتنے کا امکان پیدا ہو گیا جب کہ ٹرمپ کی اصل جیت الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی برتری سے ہوئی۔

ہلیری مسلسل ٹرمپ پر سیاسی تجربے کی کمی کا الزام عائد کرتی رہیں لیکن اس کا نتیجہ ہلیری کی توقع کے برعکس برآمد ہوا اور عوام کے لیے ٹرمپ کی کشش میں الٹا اضافہ ہو گیا اور انھوں نے ٹرمپ کو تبدیلی کا نمایندہ سمجھ لیا۔ دوسری طرف میرے دوست فرینک نیومن کے مطابق ہلیری اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزامات سے دامن بچانے میں ناکام رہی۔ ٹرمپ 1982ء کے بعد ری پبلکن پارٹی کا پہلا صدر ہے جس کو ایوان نمایندگان اور سینیٹ دونوں میں اکثریت حاصل ہو گئی ہے جب کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات کے لیے ٹرمپ کا انتخاب آیندہ دو تین دہائیوں کے لیے امریکی سیاست کے رخ کو تبدیل کر دے گا۔ اٹارنی جنرل کے طور پر ٹرمپ نے سینیٹر جیف کو متعین کیا، مائک پومپیو کو سی آئی اے چیف بنا دیا اور لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلائن کو ناسا کا سربراہ۔ یہ سب لوگ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

فلائن اسلام کو کمیونزم کی طرح کا خطرہ قرار دیتے ہیں جب کہ وہائٹ ہاؤس کے چیف سٹیو بینون کو نسل پرست سفید فام کہا جاتا ہے۔ ٹرمپ اوماما کی ان تمام پالیسیوں کو جو اسے پسند نہیں تبدیل کر دے گا ان میں ہیلتھ کیئر پالیسی بھی شامل ہے اور سب سے اولین ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ ہے۔ پیرس کی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی امریکا کی شمولیت ٹرمپ کو پسند نہیں یعنی وہ زہریلی گیسوں کا اخراج کم کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے نسل پرست سفید فام تنظیم کو کلوکلان سے جو غیر سفید فاموں پر جسمانی تشدد کی قائل ہے ٹرمپ نے اپنا فاصلہ بڑھا دیا ہے۔

ٹرمپ کی عمومی پالیسیوں کے پیش نظر باور کیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔ پاکستان کے بارے میں غور کرنے میں ٹرمپ کو ابھی وقت لگے گا کیونکہ اس پر بھارتی لابی کا شدید اثر ہے نیز اس نے پاکستان کے شدید مخالف افغان نژاد زلمے خالیزاد کو اہم عہدہ دے دیا ہے جب کہ احسان فراموش افغان پاکستان کے خلاف بھارت کی پراکسی جنگ میں مصروف ہیں۔ ۔۔۔
Load Next Story