رائیگاں
بنیادی بات یہی ہے کہ جمہوریت کا کارواں چلتا رہے، ورنہ شہدائے جمہوریت کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔
GILGIT:
قائد اعظم محمد علی جناح نے اعلان آزادی سے دو روز قبل 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے اپنے مشہور زمانہ خطاب میں کہا تھا کہ ''پہلی اور سب سے اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے، یاد رکھیے! آپ خودمختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے، یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ، اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن وامان برقرار رکھے، تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔ دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہیں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت خراب ہے، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے، میں امید کرتاہوں کہ آپ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں گے۔''
بانی پاکستان کی معروف تقریر کے مذکورہ اقتباس سے یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ امن وامان کا مسئلہ اور کرپشن و بدعنوانی جیسے ناسور روز اول ہی سے ہماری وراثت میں چلے آرہے ہیں، آج بھی قوم کو انھی دو عفریتوں کا سامنا ہے، امن و امان کا قیام ارباب اقتدار کے لیے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے، کراچی سے لے کر خیبر تک خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی خونیں وارداتوں میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 9/11 کے سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اتحادی بننے سے ملک میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور متشدد رجحانات کے فروغ میں تیزی آنے سے پورے ملک کا امن تہہ و بالا ہوکر رہ گیا، عام آدمی سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم لیڈر تک اور پبلک مقامات سے لے کر حساس اداروں تک کوئی بھی شخص اور ادارہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔ جمرود کار بم دھماکا اور پشاور ایئرپورٹ پر حملہ ان کی تازہ وارداتیں ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ دہشت گرد پاک فوج کے جوانوں کی دلیرانہ مزاحمت کے باعث ایئرپورٹ کے اندر داخل نہ ہوسکے، ورنہ زیادہ تباہی پھیلنے کا خطرہ تھا۔ تاہم جمرود میں 20 افراد ہلاک ہوگئے۔ ملک کے طول و عرض میں پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کی شبانہ روز کاوشوں اور جانی قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے عفریت پر کلی طور پر قابو نہیں پایا جاسکا۔پولیو ورکرز پر حملے دہشت گردی کے نئے خطرات میں ایک سنگین اضافہ ہے۔ بعینہ کرپشن و بدعنوانی کا مسئلہ بھی گلے کا ہار بنا ہوا ہے، یہ زہر ہماری رگ و پے میں اس طرح سرائیت کرچکا ہے کہ چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس لعنت سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔ قائد اعظم نے بالکل درست کہا کہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی کرپشن و بدعنوانی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، کہیں کم کہیں زیادہ۔ ہر ملک میں عوامی اور حکومتی سطح پر رشوت ستانی، بدعنوانی اور کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور آکاس بیل کی طرح پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن وطن عزیز کا حال سب سے برا ہے اور بقول قائد اعظم کے اس قبیح عمل کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی کرنا منتخب نمائندوں کی ذمے داری ہے۔ لیکن اس ملک کی بدنصیبی یہ ہے کہ برسر اقتدار آنے والے سول و عسکری ہر دو حکمرانوں نے قائد اعظم کا نام محض اپنے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا، ملک کو قائد کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بلند بانگ دعوے تو بہت کیے۔
لیکن جب تک اقتدار میں رہے قائد کے فرمودات اور سیاسی اصولوں کو پس پشت ڈالے رکھا۔ 11 اگست کی تقریر تو کسی نے یاد ہی نہیں رکھی، نتیجتاً نہ ملک میں جمہوری و سیاسی نظام مستحکم ہوا نہ مذہبی رواداری کو فروغ ملا اور نہ ہی رشوت ستانی، بدعنوانی، کرپشن، اقرباپروری، ناانصافی، ٹیکس چوری اور قومی وسائل اور ملکی دولت کی لوٹ سیل کے کلچر کو ختم کیا جاسکا بلکہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ ناسور پھیلتا ہی چلا گیا اور آج یہ حالت ہے کہ چیئرمین نیب فرماتے ہیں کہ ملک میں روزانہ 12 سے 15 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے جس میں پنجاب کا حصہ 65 فیصد ہے۔ ذرا غور فرمائیے! پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے جس کے سربراہ میاں نواز شریف جو خود کو قائد اعظم کا سپاہی کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے، لیکن دو مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجود وہ اپنے دعوؤں کا بھرم رکھنے میں ناکام رہے اور آج ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کرپشن کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ کیا قائد اعظم کے خواب کی یہی تعبیر ہے؟
چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی پریس بریفنگ کے مطابق ٹیکس چوری، سرکاری وسائل کے ضیاع اور دیگر شعبوں میں ہونے والی کرپشن سے بدعنوانی کا گراف بڑھتا جارہا ہے، نیب نے پبلک سیکٹر کے اداروں میں 351 ارب روپے سالانہ کرپشن کی نشاندہی کی ہے اور میگا پروجیکٹ میں بھی تقریباً 350 ارب کی کرپشن کا تخمینہ لگایا ہے، قومی دولت کے چار سے پانچ ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی 350 ارب سالانہ کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے، چیئرمین نیب کے بقول کرپشن کا دریا بہہ رہا ہے، مچھلیوں کے ساتھ مگرمچھ بھی ہیں، انھوں نے ڈاکٹرز، وکیل، صنعتکار، سیاستدانوں کو بھی ٹیکس چور قرار دے دیا ہے، جس پر ملک کے پارلیمان میں خاصی گرما گرم بحث ہورہی ہے اور چیئرمین نیب کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں نیب اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پر مبنی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب سے اس ضمن میں وضاحت طلب کی جائے جس پر وزیراعظم نے معاملے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی وزارتی کمیٹی قائم کردی ہے جو نیب اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کا جائزہ لے کر وزیر اعظم کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کرپشن کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال دینا قرین انصاف ہے؟ یقیناً نہیں، یہ تو ورثے میں ملا سرطان ہے جس کی بیخ کنی بہرحال ضروری ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ چیئرمین نیب نے عین اس موقع پر جب انتخابات میں صرف 3 سے 4 ماہ باقی ہیں یہ ''دھماکا'' کیوں کیا؟ اس حوالے سے ان کے اپنے ادارے کی کارکردگی کیا ہے؟ اچانک 15/12 ارب روپے روزانہ کرپشن کے انکشاف کے پیچھے کن قوتوں کا ہاتھ ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا بدامنی و کرپشن کو جواز بناکر عام انتخابات کے التوا اور نگران حکومت کو طول دینے کے تانے بانے تو نہیں بنے جارہے؟ کیا کہیں پی پی پی مخالف قوتوں کو ''کمک'' پہنچانے کے لیے جواز تو نہیں ڈھونڈے جارہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ درپردہ سازشی کہانیوں میں اپنی پسند کے رنگ بھرنے کی تیاری کی جارہی ہے؟ سوالات تو بے شمار ہیں، تاہم بنیادی بات یہی ہے کہ جمہوریت کا کارواں چلتا رہے، ورنہ شہدائے جمہوریت کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اعلان آزادی سے دو روز قبل 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے اپنے مشہور زمانہ خطاب میں کہا تھا کہ ''پہلی اور سب سے اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے، یاد رکھیے! آپ خودمختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے، یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ، اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن وامان برقرار رکھے، تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔ دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہیں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت خراب ہے، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے، میں امید کرتاہوں کہ آپ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کریں گے۔''
بانی پاکستان کی معروف تقریر کے مذکورہ اقتباس سے یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ امن وامان کا مسئلہ اور کرپشن و بدعنوانی جیسے ناسور روز اول ہی سے ہماری وراثت میں چلے آرہے ہیں، آج بھی قوم کو انھی دو عفریتوں کا سامنا ہے، امن و امان کا قیام ارباب اقتدار کے لیے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے، کراچی سے لے کر خیبر تک خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی خونیں وارداتوں میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 9/11 کے سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اتحادی بننے سے ملک میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور متشدد رجحانات کے فروغ میں تیزی آنے سے پورے ملک کا امن تہہ و بالا ہوکر رہ گیا، عام آدمی سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم لیڈر تک اور پبلک مقامات سے لے کر حساس اداروں تک کوئی بھی شخص اور ادارہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔ جمرود کار بم دھماکا اور پشاور ایئرپورٹ پر حملہ ان کی تازہ وارداتیں ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ دہشت گرد پاک فوج کے جوانوں کی دلیرانہ مزاحمت کے باعث ایئرپورٹ کے اندر داخل نہ ہوسکے، ورنہ زیادہ تباہی پھیلنے کا خطرہ تھا۔ تاہم جمرود میں 20 افراد ہلاک ہوگئے۔ ملک کے طول و عرض میں پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کی شبانہ روز کاوشوں اور جانی قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے عفریت پر کلی طور پر قابو نہیں پایا جاسکا۔پولیو ورکرز پر حملے دہشت گردی کے نئے خطرات میں ایک سنگین اضافہ ہے۔ بعینہ کرپشن و بدعنوانی کا مسئلہ بھی گلے کا ہار بنا ہوا ہے، یہ زہر ہماری رگ و پے میں اس طرح سرائیت کرچکا ہے کہ چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس لعنت سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔ قائد اعظم نے بالکل درست کہا کہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی کرپشن و بدعنوانی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، کہیں کم کہیں زیادہ۔ ہر ملک میں عوامی اور حکومتی سطح پر رشوت ستانی، بدعنوانی اور کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور آکاس بیل کی طرح پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن وطن عزیز کا حال سب سے برا ہے اور بقول قائد اعظم کے اس قبیح عمل کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی کرنا منتخب نمائندوں کی ذمے داری ہے۔ لیکن اس ملک کی بدنصیبی یہ ہے کہ برسر اقتدار آنے والے سول و عسکری ہر دو حکمرانوں نے قائد اعظم کا نام محض اپنے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا، ملک کو قائد کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بلند بانگ دعوے تو بہت کیے۔
لیکن جب تک اقتدار میں رہے قائد کے فرمودات اور سیاسی اصولوں کو پس پشت ڈالے رکھا۔ 11 اگست کی تقریر تو کسی نے یاد ہی نہیں رکھی، نتیجتاً نہ ملک میں جمہوری و سیاسی نظام مستحکم ہوا نہ مذہبی رواداری کو فروغ ملا اور نہ ہی رشوت ستانی، بدعنوانی، کرپشن، اقرباپروری، ناانصافی، ٹیکس چوری اور قومی وسائل اور ملکی دولت کی لوٹ سیل کے کلچر کو ختم کیا جاسکا بلکہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ ناسور پھیلتا ہی چلا گیا اور آج یہ حالت ہے کہ چیئرمین نیب فرماتے ہیں کہ ملک میں روزانہ 12 سے 15 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے جس میں پنجاب کا حصہ 65 فیصد ہے۔ ذرا غور فرمائیے! پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے جس کے سربراہ میاں نواز شریف جو خود کو قائد اعظم کا سپاہی کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے، لیکن دو مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجود وہ اپنے دعوؤں کا بھرم رکھنے میں ناکام رہے اور آج ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کرپشن کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ کیا قائد اعظم کے خواب کی یہی تعبیر ہے؟
چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی پریس بریفنگ کے مطابق ٹیکس چوری، سرکاری وسائل کے ضیاع اور دیگر شعبوں میں ہونے والی کرپشن سے بدعنوانی کا گراف بڑھتا جارہا ہے، نیب نے پبلک سیکٹر کے اداروں میں 351 ارب روپے سالانہ کرپشن کی نشاندہی کی ہے اور میگا پروجیکٹ میں بھی تقریباً 350 ارب کی کرپشن کا تخمینہ لگایا ہے، قومی دولت کے چار سے پانچ ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی 350 ارب سالانہ کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے، چیئرمین نیب کے بقول کرپشن کا دریا بہہ رہا ہے، مچھلیوں کے ساتھ مگرمچھ بھی ہیں، انھوں نے ڈاکٹرز، وکیل، صنعتکار، سیاستدانوں کو بھی ٹیکس چور قرار دے دیا ہے، جس پر ملک کے پارلیمان میں خاصی گرما گرم بحث ہورہی ہے اور چیئرمین نیب کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں نیب اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پر مبنی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب سے اس ضمن میں وضاحت طلب کی جائے جس پر وزیراعظم نے معاملے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی وزارتی کمیٹی قائم کردی ہے جو نیب اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کا جائزہ لے کر وزیر اعظم کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کرپشن کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال دینا قرین انصاف ہے؟ یقیناً نہیں، یہ تو ورثے میں ملا سرطان ہے جس کی بیخ کنی بہرحال ضروری ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ چیئرمین نیب نے عین اس موقع پر جب انتخابات میں صرف 3 سے 4 ماہ باقی ہیں یہ ''دھماکا'' کیوں کیا؟ اس حوالے سے ان کے اپنے ادارے کی کارکردگی کیا ہے؟ اچانک 15/12 ارب روپے روزانہ کرپشن کے انکشاف کے پیچھے کن قوتوں کا ہاتھ ہے اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا بدامنی و کرپشن کو جواز بناکر عام انتخابات کے التوا اور نگران حکومت کو طول دینے کے تانے بانے تو نہیں بنے جارہے؟ کیا کہیں پی پی پی مخالف قوتوں کو ''کمک'' پہنچانے کے لیے جواز تو نہیں ڈھونڈے جارہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ درپردہ سازشی کہانیوں میں اپنی پسند کے رنگ بھرنے کی تیاری کی جارہی ہے؟ سوالات تو بے شمار ہیں، تاہم بنیادی بات یہی ہے کہ جمہوریت کا کارواں چلتا رہے، ورنہ شہدائے جمہوریت کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔