پبلک اکاونٹس کمیٹی کا درست اقدام

چیئرمین پی اے سی نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے پلاٹوں سے متعلق تفصیلات اکٹھی نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا.

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسلام آباد میں قواعد کے تحت مطلوبہ جگہ ہی پر پلاٹ کی الاٹمنٹ قائم رکھنے کی سفارش کی ہے۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

پاکستان آج جس بحران سے دوچار ہے ، اس کی وجوہات ایک نہیں کئی ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے خارجہ امور میں جو ترجیحات متعین کیں، وہ آج غلط ثابت ہورہی ہیں، اسی طرح اندرون ملک جو طرزحکمرانی اختیار کیا گیا ، اس کا نتیجہ معاشی زوال اور سماجی انتشار کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔حکمران طبقے نے اپنے لیے ایسے قانونی اختیارات حاصل کیے جن کے استعمال سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیاجس نے بغیر محنت کے خوشحالی اور اثرورسوخ حاصل کرلیا ہے۔صدر ، وزیراعظم ، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کوایسے صوابدیدی اختیارات مل گئے جن کے استعمال سے منظور نظر افراد کو مختلف طریقے سے نوازا جا سکتا ہے۔

ان میں پلاٹ الاٹ کرنے کے صوبدیدی اختیارات بھی شامل تھے،کوئی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا تواسے بھی ایسے ہی اختیارات مل گئے۔وزیروں، کمشنروں اور دیگر افسروں کے اختیارات الگ ہیں۔انھی اختیارات کے نتیجے میں پاکستان میں نودولتیوں کا ایسا طبقہ وجود میں آیا،جو محنت کی عظمت پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اس کا دارومدار حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ آج پاکستان کے بیشتر مسائل کا ذمہ دار یہی طبقہ بنا ہوا ہے ۔ حکمرانوں کی جانب سے اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور حامیوں کو نوازنے کے مختلف حربوں میں سے آسان ترین حربہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ ہے۔وزراء ان کے حواری اور اعلیٰ سرکاری افسران انتہائی قیمتی مالیت کے پلاٹ کوڑیوں کے بھائو اپنے نام الاٹ کرا لیتے ہیں ۔ بعض اوقات تو وہ کئی کئی پلاٹ الاٹ کرا لیتے ہیں۔ اسی غلط روایت کے خاتمے کے لیے قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے گریڈ 22 کے افسران کو دو پلاٹس دینے کی مشرف دور کی پالیسی ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو پلاٹس کی پالیسی آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی تھی' حکومت اسپیشل پیکیج کے تحت پلاٹس الاٹ منٹ کی سمری واپس لے۔

سیاست کے بے رحم کھیل میں ہر پارٹی اقتدار حاصل کرنے کے لیے جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتی ہے۔ جوڑ توڑ سیاسی کھیل کا ایک حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں مختلف سیاستدانوں کی حمایت کے بل بوتے پر اقتدار کی سیڑھی چڑھنے کے لیے ان کے جائز و ناجائز مطالبات کو تسلیم کر لیتی ہیں۔ اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن ہونے والی پارٹی اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے حامیوں کو مختلف مراعات سے نوازتی ہے۔ حکومت میں شریک سیاستدان بھی حکمرانوں کی ہر کمزوری سے بخوبی آگاہ ہوتے اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


چونکہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ ایک قانونی طریقہ ہے اور پلاٹ حاصل کرنے والے کا دامن بھی کرپشن کے الزامات سے داغدار نہیں ہوتا لہٰذا سیاستدان اور اعلیٰ سرکاری افسران حکومتی آشیر باد سے زیادہ مالیت کے قیمتی پلاٹ کوڑوں کے مول اپنے نام الاٹ کرا لیتے ہیں۔ پلاٹوں کی سیاست کی یہ استحصالی پالیسی ہر حکومت کے دور میں پنپتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پلاٹوں کا جمعہ بازار لگ گیا اور اس لوٹ سیل میں بااثر طبقے نے اتنی سرعت دکھائی کہ تھوڑے عرصے ہی میں انھوں نے دولت کے انبار لگا لیے۔ آج پاکستان میں پلاٹوں کی سیاست اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کئی اعلیٰ افسران کو اسلام آباد میں دو دورہائشی پلاٹ رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ ایسی خبریں بھی اخبارات میں شایع ہوئی ہیں کہ کئی گریڈ 22 کے افسروں کو صوبائی حکومتیں بھی پلاٹ سے نوازتی ہیں۔ اخبارات میں شایع ہونے والی بعض اطلاعات کے مطابق گریڈ 22 کے چند افسران ایسے بھی ہیں جنہوں نے 6/6 پلاٹ حاصل کیے۔ ان پلاٹوں کے عوض اعلیٰ افسران ہر حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے اور اس کی غلط پالیسیوں کے باوجود عوام میں اس کا امیج قائم رکھنے کے لیے داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے رہتے ہیں۔ایسا بھی ہوا ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسروں میں پلاٹوں کے حصول کی اس قدر دوڑ لگی کہ جس افسر کو اگر کم مالیت کے علاقے میں پلاٹ الاٹ ہوا تو اس نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پوش علاقوں میں اس کی منتقلی کے لیے ہاتھ پائوں مارنے شروع کردئیے۔

اس غلط عمل کو روکنے کے لیے پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز سے اعلیٰ افسران کے پلاٹوں کی پوش علاقوں میں منتقلی منسوخ کرنے اور قواعد کے تحت مطلوبہ جگہ ہی پر پلاٹ کی الاٹمنٹ قائم رکھنے کی سفارش کی ہے۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کی یہ سفارش کہ سیاستدانوں' ججوں' بیوروکریٹس اور جرنیلوں کو زرعی زمین کی الاٹمنٹ اور سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر جانے والے افسران کو پلاٹ دینے کی پالیسی ختم کی جائے' قابل ستائش ہے۔ زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے زراعت کو شدید نقصان پہنچتا ہے کیونکہ جس شخص کا زرعی پس منظر ہی نہیں اور وہ زراعت کی الف ب سے نابلد ہے وہ زرعی ترقی کے لیے کیونکر فعال کردار ادا کرے گا۔ مخصوص گروپوں کو پلاٹوں اور زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ سے ملک سکڑتا جا رہا ہے جس سے زمینوں کی مالیت میں بھی بے جا اضافہ ہونے سے عام آدمی کے لیے رہائشی پلاٹ کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے پی اے سی سفارشات کابینہ ڈویژن' اسٹیبلشمنٹ' وزارت دفاع اور وزارت ہائوسنگ کو ارسال کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ وزارت ہائوسنگ کئی کئی پلاٹس لینے والے بیورو کریٹس کی جانب سے غلط بیان حلفی جمع کرانے کی تحقیقات کرے۔ یہ اہم پیش رفت ہے جس پر فوری کارروائی ہونی چاہیے۔

چیئرمین پی اے سی نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے پلاٹوں سے متعلق تفصیلات اکٹھی نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ تمام صوبوں کی انتظامیہ پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پلاٹوں کے متعلق تمام تفصیلات جمع کرے تاکہ پلاٹوں کی ناجائز الاٹمنٹ کو روکا جا سکے۔ آئندہ کسی سرکاری افسر کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں کیا جانا چاہیے۔پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں برسراقتدار آنے والے آمر ہوں یا جمہوری حکمران یا پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوروکریسی کسی نے بھی اپنے مفادات سے ہٹ کر ملکی مفادات کو ترجیح نہیں دی۔

جب ہر سرکاری محکمے کا افسر ہو یا کوئی چپڑاسی'وہ اپنے کام کی تنخواہ اور الائونس وصول کرتا ہے'اس اصول کو مدنظر رکھا جائے تو کسی سرکاری افسر اور اہلکار کو پلاٹ دینے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔اسی طرح جو سیاستدان سینٹ یا قومی اسمبلی کے رکن بنتے ہیںیا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب ہوتے ہیں'انھیں قومی خزانے سے باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔اسی طرح صدر ہو یا وزیراعظم'اسپیکر اسمبلی ہوں یا چیئرمین سینٹ یا گورنر صاحبان سب کو سرکاری خزانے سے معاوضہ ملتا ہے۔اس کے بعد انھیںصوابدیدی اختیارات دینا درست طریقہ نہیں ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو درست خطوط پر چلایا جائے اور ہر شخص وہی کرے جس کا اسے معاوضہ ملتا ہے۔ اکائونٹس کمیٹی نے اب گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دیا ہے۔ ارباب اختیار پر لازم آتا ہے کہ وہ پلاٹوں کی سیاست کے اس استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے قدم اٹھائیں تاکہ کرپشن کے اس باب کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے۔
Load Next Story