قانون کی حکمرانی

تبدیلی لانے کے لیے معاشرے میں ایک فکری تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ یہ کام اہل علم، اہل قلم، اہل دانش انجام دیتے ہیں.

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

کسی بھی معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے کے لیے قانون کی حکمرانی ضروری سمجھی جاتی ہے، ہمارا معاشرہ سر سے پیر تک برائیوں میں لتھڑا ہوا ہے بلکہ ہمارا ملک جرائم کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد فاٹا ایک ایسا علاقہ تھا جو عملاً جرائم کا اڈہ بنا ہوا تھا ملک بھر کے جرائم پیشہ لوگ بڑے بڑے جرائم کے بعد اس قانون سے بالاتر علاقے میں پناہ لیتے تھے، اس علاقے کی شناخت آزاد قبائل کے نام سے ہوتی تھی، جہاں ان کا اپنا قانون تھا، اپنی روایات تھیں، جہاں پاکستانی قانون کا گزر ہی ممکن نہ تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پورا پاکستان ہی فاٹا بنا ہوا ہے۔

ہمارے حکمران، ہمارے میڈیائی دانشور، ہمارے قانون اور انصاف کے آئی کون ہر روز بڑی اونچی آواز میں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمارے بگڑے ہوئے معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لیے قانون کی حکمرانی، قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں قانون، انصاف، ضمیر بیچے اور خریدے جارہے ہوں، جو ملک قانون انصاف، قلم اور ضمیر کا باڑا بنا ہوا ہو، جہاں کھلے عام ان متبرک اشیاء کی خریدو فروخت ہورہی ہو، جہاں قانون اور انصاف امتیازی ہوں، ایسے ملک میں معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے کے لیے قانون اور انصاف کی حکمرانی کی محض باتیں ایک سنگین مذاق کے علاوہ کیا ہوسکتی ہیں؟

ہمارے ملک میں قانون اور انصاف کا رویہ کس قدر امتیازی ہے، غریب طبقے پر قانون اور انصاف کس طرح لاگو ہوتا ہے اور ایلیٹ کو لوٹ مار کی کیسی کیسی قانونی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اس کا جائزہ لینے سے قبل ہم قانون ساز اداروں اور قانون کے اغراض و مقاصد پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ طبقاتی معاشروں اور جمہوری ملکوں میں قانون کی ہونے والی مٹی پلید ہونے کا اندازہ ہوسکے۔ جمہوری ملکوں میں قانون سازی کا مطلب غریب طبقے کے حقوق اورمفادات کا تحفظ ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ جرائم کی روک تھام بھی قانون کی ذمے داری ہوتی ہے ۔

عوام ایک معینہ مدت کے بعد اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرکے قانون ساز اداروں میں اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کریں۔ لیکن اگر 1973 کے آئین سے لے کر اٹھارہویں انیسویں ترامیم تک نظر ڈالیںتو آپ کو عوامی مفادات کے حوالے سے کوئی قانون دستور کی کوئی شق ایسی نظر نہیں آئے گی جو عوام کو طبقاتی نظام سے تحفظ مہیا کرتی ہو۔ اس کے برخلاف خواص کے مفادات کے تحفظ کا قدم قدم پر اہتمام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح ہمارے ملک میں موجود دہرے نظام تعلیم کو ہم ایک لعنت سمجھتے ہیں ہم اپنے دہرے نظام قانون کی برکات و تبرکات کے مضمرات کا ادراک رکھتے ہیں؟ کیا یہ دہرا نظام قانون دہرے نظام تعلیم سے مختلف ہے؟


ایک غریب شہری اپنا مکان بنانے کے لیے کسی مالیاتی ادارے سے ایک لاکھ کا قرض لیتا ہے اور دو لاکھ سے زیادہ ادا کر دیتا ہے،اس کے باوجود اس کا گھر اس لیے نیلام کردیا جاتا ہے کہ وہ سود کے ساتھ بننے والی تین ساڑھے تین لاکھ کی رقم ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کے برخلاف ایک صنعتکار، طبقہ اشرافیہ کا کوئی فرد اربوں روپوں کا قرض لیتا ہے اور لے کر ہضم کرجاتا ہے یا اربوں روپے کی کرپشن کرتا ہے تو ایسے قومی قانونی اور اخلاقی مجرم کو یا تو قرض معاف کرا لینے کی قانونی سہولت دی جاتی ہے یا کرپشن کی اربوں کی دولت کی واپسی کے لیے ''پلی بارگین''کے نام پر یا کالا دھن سفید کرانے کے لیے ایسی ایسی قانونی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں کہ قانون ہیرا منڈی کا مکین بن کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ایک سابق چیف آف نیول اسٹاف پر اربوں روپوں کی کرپشن کا الزام ثابت ہوا لیکن ''پلی بارگین'' کی قانونی سہولت کے ذریعے انھیں کرپشن کی یہ رقم آسان قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ ہماری اپوزیشن کے سب سے بڑے رہنما میاں برادران پر بینکوں سے اربوں روپوں کے قرض لینے اور واپس نہ کرنے کے الزام میں کیسز زیر سماعت ہیں۔ میاں برادران کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسز سیاسی انتقام میں بنائے گئے ہیں، دوسری طرف وہ اس بات کا اقرار بھی کر رہے ہیں کہ وہ یہ قرض اس لیے ادا نہیں کرسکے کہ وہ ادارہ دیوالیہ ہوگیا جس کے نام پر انھوں نے قرض لیا تھا۔ اسی طرح زرداری صاحب پر سوئس بینکوں میں کرپشن کی پانچ ارب کی رقم رکھنے کے الزام پر جو تاریخی مقدمہ چل رہا ہے اس کا انت ایک خط پر ہوگیا جس کا نہ زرداری کی صحت پر کوئی اثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے نہ قانون و انصاف کی حرمت پر کوئی آنچ آتی دکھائی دے رہی ہے۔ سارے کام بخیر و خوبی انجام پا رہے ہیں۔

بینکوں کے نادہندگان کے ڈھائی کھرب کا کیس برسوں سے عدالت عالیہ کی میز پر پڑا ہوا ہے، لیکن اس کی باری ہی نہیں آرہی ہے۔ یہ قرض چونکہ ایرے غیرے نتھو خیروں نے نہیں لیا بلکہ اشرافیہ کے شہزادوں نے لیا ہے اس لیے اس کی وصولی میں کوئی جلدی نہیں۔ ملک کے تقریباً ہر بڑے ادارے پر اربوں کی کرپشن کے انکشافات ہورہے ہیں اور یہ کرپشن چونکہ کسی چپڑاسی یا کلرک نے نہیں کی بلکہ طبقہ اشرافیہ کے بھائی بندوں نے کی ہے اس لیے نہ وہ قانون کے شکنجے میں آرہے ہیں نہ ان کے گھر جائیدادوں کی نیلامی ہورہی ہے۔ غریب کا ایک بچہ امتحان کے دوران نقل کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اسے فوری پکڑ لیا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے، لیکن اشرافیہ کے شہزادے جعلی ڈگریوں کے ساتھ ایم پی اے، ایم این اے بن جاتے ہیں اور قانون اور انصاف ان مجرموں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ اپنے عہدوں سے رسماً مستعفی ہوجاتے ہیں اور دوبارہ انتخابات جیت کر قانون اور انصاف کا مذاق اڑاتے ہیں۔ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ایک وڈیرے کی جیل سے دس ، پندرہ سال بعد ہاریوں کے خاندان کے خاندان برآمد ہوتے ہیں پولیس ان برآمد کنندگان کو انصاف کی عدالت میں پیش کرتی ہے اور انصاف انھیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی آزادی دے کر رخصت کردیتا ہے۔ انھیں نجی جیلوں میں رکھنے والے وڈیروں، جاگیرداروں کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے، اس کی کوئی خبر میڈیا میں نہیں آتی۔ اجتماعی آبرو ریزی کے بے شمار جرم آئے دن ہوتے ہیں لیکن چونکہ بے آبرو کی جانے والی لڑکیاں غریب بے نوا ہاریوں، کسانوں کی ہوتی ہیں اور بے حرمتی کا جرم کرنے والوں کا تعلق چونکہ اشرافیہ سے ہوتا ہے لہٰذا نہ انھیں سنگسار کرنے کی کوئی خبر میڈیا میں آتی ہے نہ انھیں سزائے موت دینے کا کوئی فیصلہ سامنے آتا ہے۔ ہر شہر میں جرائم کے اڈے موجود ہیں اور جرائم کا دھڑلے سے ارتکاب کیا جارہا ہے لیکن چونکہ جرائم پیشہ افراد تھانے کو ہفتہ یا مہینہ دیتے ہیں لہٰذا جرائم قانونی بن جاتے ہیں اگر کوئی مجرم پکڑا جاتا ہے تو وکلاء اس کی ضمانت منٹوں میں کرالیتے ہیں اور مجرم قانون پر ہنستا ہوا گھر چلا جاتا ہے۔

یہ ہے ہمارے معاشرتی چہرے کی ایک جھلک، جسے بہتر کرنے کے لیے قانون کی حکمرانی کا نسخہ عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ اس پورے داغدار بیمار معاشرتی جسم کے علاج کے لیے دو طرح کی سوچ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہے۔ ایک طرز فکر وہ ہے جو Status Quo کے اندر رہتے ہوئے چھوٹی موٹی اصلاحات کے ذریعے بیماریوں سے اٹے اس معاشرتی جسم کے علاج پر یقین رکھتی ہے۔ دوسری طرز فکر اس بیمار جسم کو صحت مند بنانے کے لیے پورے نظام کی تبدیلی ضروری سمجھتی ہے اور نظام کی تبدیلی کے لیے Status Quo کو توڑنا ضروری سمجھتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی یہ خطرناک صورت حال پیدا ہوئی وہاں پورے نظام پورے سیٹ اپ کو تبدیل کرکے ہی معاشرتی زندگی کو صحت مند بنایا گیا۔ اس قسم کی تبدیلی راتوں رات نہیں آتی، اس قسم کی تبدیلی لانے کے لیے معاشرے میں ایک فکری تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ یہ کام اہل علم، اہل قلم، اہل دانش انجام دیتے ہیں، اگرچہ ان کی آواز ایک وقت میں اسٹیٹس کو کے نقارے میں طوطی کی آواز محسوس ہوتی ہے، لیکن ایک وقت آتا ہے جب یہ طوطی خود نقارہ بن جاتی ہے۔

ہمارے قارئین کی ایک بڑی تعداد فیس بک پر ہم سے رابطہ چاہتی ہے۔ ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہم اپنی فیس بک کا ایڈریس دے رہے ہیں۔

www.facebook.com/zaheer.akhtar.750
Load Next Story