فلسطینی قیدیوں کا انتفاضہ
اسرائیل سے صرف مزاحمت کی زبان میں بات کی جانی چاہیے کیونکہ اسرائیل مزاحمت اور مقابلے کی زبان ہی سمجھتا ہے۔
اسرائیلی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں کے لامتناہی دردکے صفحات کی کہانی انتہائی درد ناک ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ 5000 سے زیادہ فلسطینی قیدی انتہائی خطرناک حالت میں اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور صہیونی مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں میں خواتین، بچے اور بوڑھوں سمیت نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر غاصب صہیونی فوجیوں کی جانب سے نفسیاتی اور جسمانی اذیتوں کا شکار ہورہے ہیں۔دریں اثناء فلسطینی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف احتجاج کی ایک چیخ سنائی دیتی ہے تاہم وہ کافی نہیں ہے۔ایسے حالات میں صہیونی زندانوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور استقامت کا جو ہتھیار پسند کیا ہے وہ ہے اسیروں کی بھوک ہڑتال۔یعنی فلسطینی مجاہد عوام جو اس وقت غاصب اسرائیل کے عقوبت خانوں میں اپنی زندگی کے روزوشب گزاررہے ہیں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب دو ٹوک بات ہو گی،یعنی ،''آزادی یا شہادت''۔اس عزم کے ساتھ کہ شاید ہماری شہادت یا ہماری آزادی تمام فلسطینیوں کی مشکلات اور قید وبند کی سختیوں کو ختم کرنے کا باعث بنے ۔
فلسطینی اسیروں نے عہد کر لیا ہے کہ اب وہ اس وقت تک صہیونی زندانوں میں بھوک ہڑتال پر رہیں گے جب تک آخری فلسطینی قیدی صہیونی جیلوں سے رہائی نہیں پا لیتا۔اور اس عظیم جہاد کے لیے انھوںنے جہاد کی راہ میں جس ہتھیار کو اختیار کیا ہے وہ کوئی بندوق یا کوئی ٹینک یا پھر کوئی میزائل نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید ہونے کے باوجود فاتح قرار دلوایا ہے۔بھوک ہڑتال ! بھوک ہڑتال فلسطینی اسیروں کا ایسا ہتھیار ہے جس نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر امتحان میں ڈال دیا ہے۔خصوصاً طاقت کے نشے میں دھت غیر قانونی جارح ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو کہ فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیران کے انتفاضہ کے سبب پوری دنیا امریکا اور اسرائیل کے اصلی اور مکروہ چہرے کو دیکھ رہی ہے۔دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح پوری دنیا میں انسانی حقوق کے نام پر واویلا کرنے والا امریکا ،اسرائیل کے اندر انسانی حقوق کی پائمالی پر نہ صرف خاموش بلکہ انسانی حقوق کو تاراج کرنے میں بھرپور طور پر شامل بھی ہے۔
آج کل اسرائیلی جیلوں میں قید جو فلسطینی طویل مدت سے بھوک ہڑتال پر ہیں ان میں سر فہرست ایمن شروانہ ہیں جو 21دسمبر کو بھوک ہڑتال کے 174ویں روز میں داخل ہو چکے ہیں ،ان کے ساتھ سامر العساوی ہیں جو آج بھوک ہڑتال کے 143ویں روز میں داخل ہو گئے ہیں ۔اسی طرح دیگر فلسطینی مجاہد قیدیوں میں طارق قعدان ،غفار عزالدین اور یوسف شعبان شامل ہیں جو اپنی احتجاجی تحریک یعنی بھوک ہڑتال کے 24ویں روز میں داخل ہو چکے ہیں۔
ایمن شروانہ اور سامر العساوی کے بارے میں میڈیکل ذرایع یہ کہتے ہیں کہ ان کا بچنا مشکل ہو تا جا رہاہے اگر ان کوبھوک ہڑتال سے نہ ہٹایا گیا تو یہ شہید ہو سکتے ہیں لیکن دوسری جانب ایمن شروانہ اور سامر العساوی پر عزم ہیں اور آزادی یا شہادت کے منتظر ہیں۔لیکن اپنا جہاد یعنی بھوک ہڑتال کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔
یہاں قارئین کی خدمت میں ایک اہم بات عرض کرتا چلوں کہ دنیا بھر میں ان فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کہیں ایک روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جا رہے ہیں تو کہیں روزے رکھ کر ان مجاہد فلسطینی اسیروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جا رہی ہے تو کہیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر آن لائن یکجہتی فورم بنا دیا گیا ہے ،جس کا مقصد فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیروں کی بھرپور حمایت اور یکجہتی کرنا ہے۔
اسی طرح فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے بھی پوری دنیا کے حریت پسندوں اور انسان دوستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے دونوں ہیروایمن الشروانہ اور سامر العساوی سے اظہار یکجہتی کے لیے پروگرام ترتیب دیں۔ فلسطینی وزیر اعظم نے دونوں مجاہد فلسطینی اسیروں کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ دونوں مجاہدین پوری فلسطینی عوام اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی خاطر عظیم جہاد کر رہے ہیں اور اسرائیلی جیلوں میں قید ہونے کے باجود بھوک ہڑتال پر ہیں ۔ اور اب حالت یہ ہے کہ عنقریب شہید ہونے والے ہیں لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔لہٰذا پوری فلسطینی قوم اسیروں کے انتفاضہ میں برابر کی شریک ہے اور شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
کچھ احوال اسرائیلی جیلوں کا بھی ذکر کر دیا جائے کہ آخر اسرائیلی جیلوں کی کیا صورت حال ہے؟ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو مختلف بیس اسرائیلی جیلوں میں قید کیا گیا ہے جہاں پر رہنے کی جگہ انسانی زندگی کے قابل نہیں ہے۔اسرائیلی جیلیں کیڑوں،لال بیگوں ،چوہوں اور بچھوئوں سمیت کئی خطر ناک کیڑوں سے بھری پڑی ہیں جب کہ یہی خطرناک کیڑے فلسطینی قیدیوں کے استراحت کے لیے استعمال کیے جانے والے سامان اور دیگر اشیاء میں پائے جاتے ہیں اور فلسطینیوں کے لیے سخت اذیت کا باعث بنتے ہیں،جب کہ النقبہ کے مقام پر موجود ایک اسرائیلی جیل میں خطرناک سانپ بھی موجود ہیں جو قیدیوں کے لیے خطرناک ہیں۔
اسرائیلی حکام جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں سے بیس بیس گھنٹے لگاتار تفتیش کرتے رہتے ہیں اور ان کو سونے بھی نہیں دیا جاتا یا پھر جب ان کا دل چاہتا ہے فلسطینی قیدیوں کو نیند سے بیدار کر کے تفتیش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل بیس بیس گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک نہیں کیا جا رہا اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ اسرائیل جیلیں غیر انسانی ہیں اور انسانیت کی سطح سے گری ہوئی ہیں۔
فلسطین میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری نے قیدیوں کے مسئلے پر اسرائیل پر دبائو نہ بڑھایا تو نتائج خطرناک ہوں گے اور فلسطینی قیدیوں نے عہد کر لیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنی روح کے ساتھ شکست دینے کے لیے تیار ہیں اور بھوک ہڑتال کے اس ہتھیار کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
آزادی ہر انسان کا حق ہے اور یہی حق فلسطینی قیدی حاصل کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔ اسرائیل اب زیادہ دیر تک بین الاقوامی تحفظ میں نہیں رہ پائے گا اور امید ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے بھوک ہڑتالی انتفاضہ کے سامنے سر تسلیم خم ہو جائے گا۔اسرائیل یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین سے مبرا ہے اور فلسطینی قیدیوں کو لگتا ہے کہ نا معلوم مستقبل میں ہی ان کی قسمت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ''اسرائیل سے صرف اور صرف مزاحمت اور مقاومت کی زبان میں بات کی جانی چاہیے کیونکہ اسرائیل مزاحمت اور مقابلے کی زبان ہی سمجھتا ہے۔''
اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں میں خواتین، بچے اور بوڑھوں سمیت نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر غاصب صہیونی فوجیوں کی جانب سے نفسیاتی اور جسمانی اذیتوں کا شکار ہورہے ہیں۔دریں اثناء فلسطینی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف احتجاج کی ایک چیخ سنائی دیتی ہے تاہم وہ کافی نہیں ہے۔ایسے حالات میں صہیونی زندانوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور استقامت کا جو ہتھیار پسند کیا ہے وہ ہے اسیروں کی بھوک ہڑتال۔یعنی فلسطینی مجاہد عوام جو اس وقت غاصب اسرائیل کے عقوبت خانوں میں اپنی زندگی کے روزوشب گزاررہے ہیں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب دو ٹوک بات ہو گی،یعنی ،''آزادی یا شہادت''۔اس عزم کے ساتھ کہ شاید ہماری شہادت یا ہماری آزادی تمام فلسطینیوں کی مشکلات اور قید وبند کی سختیوں کو ختم کرنے کا باعث بنے ۔
فلسطینی اسیروں نے عہد کر لیا ہے کہ اب وہ اس وقت تک صہیونی زندانوں میں بھوک ہڑتال پر رہیں گے جب تک آخری فلسطینی قیدی صہیونی جیلوں سے رہائی نہیں پا لیتا۔اور اس عظیم جہاد کے لیے انھوںنے جہاد کی راہ میں جس ہتھیار کو اختیار کیا ہے وہ کوئی بندوق یا کوئی ٹینک یا پھر کوئی میزائل نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید ہونے کے باوجود فاتح قرار دلوایا ہے۔بھوک ہڑتال ! بھوک ہڑتال فلسطینی اسیروں کا ایسا ہتھیار ہے جس نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر امتحان میں ڈال دیا ہے۔خصوصاً طاقت کے نشے میں دھت غیر قانونی جارح ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو کہ فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیران کے انتفاضہ کے سبب پوری دنیا امریکا اور اسرائیل کے اصلی اور مکروہ چہرے کو دیکھ رہی ہے۔دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح پوری دنیا میں انسانی حقوق کے نام پر واویلا کرنے والا امریکا ،اسرائیل کے اندر انسانی حقوق کی پائمالی پر نہ صرف خاموش بلکہ انسانی حقوق کو تاراج کرنے میں بھرپور طور پر شامل بھی ہے۔
آج کل اسرائیلی جیلوں میں قید جو فلسطینی طویل مدت سے بھوک ہڑتال پر ہیں ان میں سر فہرست ایمن شروانہ ہیں جو 21دسمبر کو بھوک ہڑتال کے 174ویں روز میں داخل ہو چکے ہیں ،ان کے ساتھ سامر العساوی ہیں جو آج بھوک ہڑتال کے 143ویں روز میں داخل ہو گئے ہیں ۔اسی طرح دیگر فلسطینی مجاہد قیدیوں میں طارق قعدان ،غفار عزالدین اور یوسف شعبان شامل ہیں جو اپنی احتجاجی تحریک یعنی بھوک ہڑتال کے 24ویں روز میں داخل ہو چکے ہیں۔
ایمن شروانہ اور سامر العساوی کے بارے میں میڈیکل ذرایع یہ کہتے ہیں کہ ان کا بچنا مشکل ہو تا جا رہاہے اگر ان کوبھوک ہڑتال سے نہ ہٹایا گیا تو یہ شہید ہو سکتے ہیں لیکن دوسری جانب ایمن شروانہ اور سامر العساوی پر عزم ہیں اور آزادی یا شہادت کے منتظر ہیں۔لیکن اپنا جہاد یعنی بھوک ہڑتال کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔
یہاں قارئین کی خدمت میں ایک اہم بات عرض کرتا چلوں کہ دنیا بھر میں ان فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کہیں ایک روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جا رہے ہیں تو کہیں روزے رکھ کر ان مجاہد فلسطینی اسیروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جا رہی ہے تو کہیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر آن لائن یکجہتی فورم بنا دیا گیا ہے ،جس کا مقصد فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیروں کی بھرپور حمایت اور یکجہتی کرنا ہے۔
اسی طرح فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے بھی پوری دنیا کے حریت پسندوں اور انسان دوستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے دونوں ہیروایمن الشروانہ اور سامر العساوی سے اظہار یکجہتی کے لیے پروگرام ترتیب دیں۔ فلسطینی وزیر اعظم نے دونوں مجاہد فلسطینی اسیروں کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ دونوں مجاہدین پوری فلسطینی عوام اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی خاطر عظیم جہاد کر رہے ہیں اور اسرائیلی جیلوں میں قید ہونے کے باجود بھوک ہڑتال پر ہیں ۔ اور اب حالت یہ ہے کہ عنقریب شہید ہونے والے ہیں لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔لہٰذا پوری فلسطینی قوم اسیروں کے انتفاضہ میں برابر کی شریک ہے اور شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
کچھ احوال اسرائیلی جیلوں کا بھی ذکر کر دیا جائے کہ آخر اسرائیلی جیلوں کی کیا صورت حال ہے؟ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو مختلف بیس اسرائیلی جیلوں میں قید کیا گیا ہے جہاں پر رہنے کی جگہ انسانی زندگی کے قابل نہیں ہے۔اسرائیلی جیلیں کیڑوں،لال بیگوں ،چوہوں اور بچھوئوں سمیت کئی خطر ناک کیڑوں سے بھری پڑی ہیں جب کہ یہی خطرناک کیڑے فلسطینی قیدیوں کے استراحت کے لیے استعمال کیے جانے والے سامان اور دیگر اشیاء میں پائے جاتے ہیں اور فلسطینیوں کے لیے سخت اذیت کا باعث بنتے ہیں،جب کہ النقبہ کے مقام پر موجود ایک اسرائیلی جیل میں خطرناک سانپ بھی موجود ہیں جو قیدیوں کے لیے خطرناک ہیں۔
اسرائیلی حکام جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں سے بیس بیس گھنٹے لگاتار تفتیش کرتے رہتے ہیں اور ان کو سونے بھی نہیں دیا جاتا یا پھر جب ان کا دل چاہتا ہے فلسطینی قیدیوں کو نیند سے بیدار کر کے تفتیش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل بیس بیس گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک نہیں کیا جا رہا اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ اسرائیل جیلیں غیر انسانی ہیں اور انسانیت کی سطح سے گری ہوئی ہیں۔
فلسطین میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری نے قیدیوں کے مسئلے پر اسرائیل پر دبائو نہ بڑھایا تو نتائج خطرناک ہوں گے اور فلسطینی قیدیوں نے عہد کر لیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنی روح کے ساتھ شکست دینے کے لیے تیار ہیں اور بھوک ہڑتال کے اس ہتھیار کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
آزادی ہر انسان کا حق ہے اور یہی حق فلسطینی قیدی حاصل کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔ اسرائیل اب زیادہ دیر تک بین الاقوامی تحفظ میں نہیں رہ پائے گا اور امید ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے بھوک ہڑتالی انتفاضہ کے سامنے سر تسلیم خم ہو جائے گا۔اسرائیل یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین سے مبرا ہے اور فلسطینی قیدیوں کو لگتا ہے کہ نا معلوم مستقبل میں ہی ان کی قسمت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ''اسرائیل سے صرف اور صرف مزاحمت اور مقاومت کی زبان میں بات کی جانی چاہیے کیونکہ اسرائیل مزاحمت اور مقابلے کی زبان ہی سمجھتا ہے۔''