وزیراعظم کو استثنیٰ نہیں دیا صدر کو بھی نہیں دینگے چیف جسٹس

کیسے ہوسکتا ہے کوئی عدالت کو گالی دے اورکہے استثنیٰ ہے،ریمارکس

عوامی عہدے رکھنے والوں کو استثنیٰ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر حاصل ہے،کیسے ہوسکتا ہے کوئی عدالت کو گالی دے اورکہے استثنیٰ ہے،ریمارکس۔ فوٹو ایکسپریس

KARACHI:
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے خلاف حالیہ نئی قانون سازی پر پارلیمنٹ میں کی گئی بحث کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون ہوں تو یہ چیز تباہی کی طرف لے جائے گی جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح کیا ہے کہ وزیر اعظم کو استثنیٰ نہیں دیا تو صدر کو بھی نہیں دیں گے۔

صدر،وزیراعظم سمیت کوئی بھی مجسٹریٹ کی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا،عوامی عہدے رکھنے والوں کو استثنیٰ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر حاصل ہے،عدلیہ کی تضحیک کا کسی کو اختیار نہیں،کیسے ہوسکتا ہے کوئی عدالت کو گالی دے اور پھر کہے استثنیٰ ہے۔بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے توہین عدالت قانون کے خلاف دائر درخواستوں کے مقدمے کی سماعت کی ۔درخواست گزار عبد الرحمن صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو بنیادی حقوق ،عدلیہ کی آزادی اور اسلامی قوانین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں۔

آرٹیکل 202 ڈی کے تحت یہ ایکٹ خود توہین عدالت ہے، بابر اعوان ،وزیر اعظم ، اٹارنی جنرل اور ملک ریاض کے کیس زیر سماعت ہیں،یہ قانون جلد بازی میں کچھ لوگوں کو بچانے کے لیے بنایا گیا،توہین عدالت کا قانون بنا کر عدالت کے اختیارات کو کم کر دیا گیا ہے، امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قوانین تباہی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔


جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون ہوں تو یہ چیز تباہی کی طرف لے جائے گی یہ تو قرآن و سنت کی بھی پیش گوئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امیر اور غریب کے لیے مساوی قوانین خطبہ الوداع سے بھی واضح ہیں،چرچل نے بھی کہا تھا کہ اگر عدلیہ آزاد ہے تو جنگ جیت جائیں گے،سپریم کورٹ کے فرائض میں شامل ہے کہ قانون سازی کو بچانے کی کوشش کرے،عوامی عہدے رکھنے والوں کو استثنیٰ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر حاصل ہے۔

عدلیہ کی تضحیک کا کسی کو اختیار نہیں،سیاستدانوں کی بصیرت تھی کہ قانون کو 18 ویں ترمیم میں نہیں چھیڑا۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیسے ہوسکتا ہے کوئی عدالت کو گالی دے اور پھر کہے کہ اسے تو استثنیٰ ہے،صدرسمیت کوئی تصور نہیں کرسکتا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرے خواہ وہ مجسٹریٹ کی عدالت ہی کیوں نہ ہو، کیا امریکی صدر رچرڈ نکسن کو استثنیٰ ملا تھا؟جسٹس تصدق جیلانی نے کہاکہ ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، ہمارے سامنے تو صرف یہ قانون زیر سماعت ہے۔

درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر نے کہاکہ جب آرٹیکل248 ون میں توہین عدالت سے استثنیٰ نہیں تو پھر یہ کیسے کسی قانون کے ذریعے مل سکتاہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ معاملہ بہت سادہ ہے ، صدر کو حاصل استثنیٰ متاثر نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمانی ریکارڈ میں دیکھیں گے کہ اس بل پر کیا غوروفکر ہوا، وکیل نے کہاکہ بل پر بحث نہ ہونے پر اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا واک آئوٹ حل ہے؟ ان کو تو وہاں مزاحمت کرنا چاہیے تھی۔

جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ یہ ووٹر کے حق سے ناانصافی ہے کہ باہر جاکر کافی پینا شروع کردیں جسٹس تصدق جیلانی نے کہاکہ ایسا رویہ ، مینڈیٹ سے دھوکا دہی ہے عدالت نے وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ کو کہاکہ پارلیمنٹ میں توہین عدالت قانون پر کی جانے والے بحث کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے کہاہے کہ کوشش ہوگی کہ کیس کی سماعت مکمل کرلی جائے۔

Recommended Stories

Load Next Story