غیر یقینی انتخابی صورت حال

نگران حکومت مارچ میں قائم ہوگی تو آئین کا سہارا لے کر ایک سال تک عام انتخابات کے التوا کے بیان کیوں دیے جارہے ہیں؟

دیگر وزراء کی طرح وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ عام انتخابات وقت پرہوں گے، مگر آئین میں ایک سال کے لیے عام انتخابات کے التواکی بھی گنجائش ہے۔ عام انتخابات کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کے وفاقی اور صوبائی وزرا مختلف بیانات دے رہے ہیں اور تمام کے بیانات میں تضاد واضح طور پر موجود ہے اور انھوں نے مارچ کی مختلف تاریخوں تک موجودہ حکومت کے اقتدار میں رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

موجودہ حکومت اپنی مدت کے پونے پانچ سال مکمل کرچکی ہے جو ایک حساب سے ان کا ٹرم مکمل ہے اور انھیں جنوری سے قبل ہی نگران حکومت قائم کردینی چاہیے۔ ملک میں یہ پہلا خوش آئند موقع ہے کہ ایک سیاسی حکومت اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد عام انتخابات کی جانب جارہی ہے اور موجودہ سیاسی حکومت نے ہی اپوزیشن کی مشاورت سے نگران حکومت بنائی ہے، مگر نگران حکومت کے قیام کے سلسلے میں ملک میں غیر یقینی صورت حال پائی جارہی ہے۔اس سلسلے میں یہ بھی افواہیں ہیں کہ بعض بڑی پارٹیاں بھی عام انتخابات کا کچھ التوا چاہتی ہیں،اس سلسلے میں سب سے بڑی خواہش تو صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کی ہوسکتی ہے تاکہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے ہی صدرآصف علی زرداری کوآئندہ سال ستمبر سے قبل دوبارہ صدر منتخب کرایا جاسکے ، جس کے بعد عام انتخابات بیشک ہوجائیں اور پیپلز پارٹی اگر اپنی حکومت نہ بھی بنوا سکے تو بھی ان کا اپنا صدر آئندہ 2018 کے انتخابات تک برقرار رہے۔

ملک میں عام انتخابات تو تواتر کے ساتھ کبھی نہیں ہوئے البتہ فوجی صدور کی موجودگی میں ایک نہیں تین بار بلدیاتی انتخابات ضرور ہوئے ہیں۔ سابق فوجی صدر جنرل ایوب نے دو بار، جنرل ضیاء الحق نے تین بار اور جنرل پرویز نے اپنے اپنے ادوار میں بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے پر بلدیاتی انتخابات کرائے اور یہ بلدیاتی انتخابات ان کی مقررہ مدت مکمل ہونے سے قبل کرائے گئے، بلدیاتی اداروں کی مدت چار سال تھی، مگر جنرل ضیاء اورجنرل پرویز نے تین ماہ قبل ہی بلدیاتی عہدیداروں کو سبکدوش کردیا تھا۔ اب تک یہ اعزاز بھی فوجی آمروں کو حاصل رہا ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات کرائے جب کہ پیپلز پارٹی نے اپنی چار حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا ریکارڈ قائم رکھا ہے اور ملک کی موجودہ چاروں صوبائی حکومتوں نے سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات نہ کراکر آئین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے جس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور چاروں میں سے کسی ایک وزیر اعلیٰ نے اس جانب توجہ نہیں دی۔


جب ملک میں بلدیاتی انتخابات ان کی مقررہ مدت سے قبل متعدد بار ہوچکے ہیں تو عام انتخابات بھی پورے پانچ سال مکمل ہونے سے قبل کیوں نہیں کرائے جارہے؟ 2008ء کے عام انتخابات 18 فروری کو ہوئے تھے جنھیں چار سال دس ماہ گزر چکے ہیں اور موجودہ حکومت کی مدت ضروری نہیں کہ 26 مارچ 2013 کو مکمل ہو، جب ان کا وزیر اعظم منتخب ہوا تھا۔ موجودہ حکومت اپنی مدت کے مکمل پانچ سال اقتدار میں رہنے کی خواہش مند ضرور ہے اور اس کے بعد بھی آئین کے تحت ایک سال کے التوا کا آپشن استعمال کرنے یا نہ کرنے کا بھی اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے، مگر وفاقی وزیروں کے متضاد بیانات کہ ''آئین کے تحت عام انتخابات ایک سال التوا میں چلے جائیں تو یہ غیر آئینی نہیں ہوگا'' مسلسل دیے جارہے ہیں۔ آئین میں واضح ہے کہ کن حالات میں ایسا ممکن ہے۔ فی الحال تو ملک میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے کہ حکومت ملک میں ایمرجنسی نافذ کردے اور آئین میں دیے گئے آپشن کے تحت عام انتخابات ایک سال آگے بڑھا کر اپنے اقتدار کی مدت بڑھا لے جو آئین کے مطابق درست ہوگا۔ موجودہ صوبائی حکومتیں آئین کی خلاف ورزی کرکے جب بلدیاتی انتخابات نہیں کروا رہی تو وفاقی حکومت کو تو ایک سال عام انتخابات نہ کرانے کی آئین نے مشروط اجازت دے رکھی ہے۔

قوم تو وفاقی وزیروں کے بیانات پر اعتماد نہیں کرتی کیونکہ عام انتخابات کے سلسلے میں سب کے بیانات مختلف ہیں اور حکمرانوں کو بھی قابل اعتماد نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ ماضی میں بھی وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے تھے اور رہے صدر مملکت، وہ اس سلسلے میں مکمل طور پر خاموش ہیں۔ صدر زرداری نے بھی تین سال قبل آئندہ چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کراچی میں کیا تھا جو پورا نہیں ہوا۔ اور تو اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے متحدہ کے مطالبات کے باوجود سندھ میں اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں کی اور سندھ میں صدر زرداری کے اعلان کے مطابق بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکے تھے۔

عام انتخابات کے لیے نگران حکومت صدر مملکت نے بنانی ہے جس کی تشکیل کے لیے حکومت نے اب تک اپوزیشن لیڈر سے کوئی رابطہ نہیں کیا جس کی تصدیق اپوزیشن لیڈر نثار علی خان کرچکے ہیں، مگر بعض وزراء اس سلسلے میں بھی غلط بیانات دے رہے ہیں تو ان حالات میں کس پر اعتبار کیا جائے؟ اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں عام انتخابات غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں اور حکومت کی حریف پارٹیوں سمیت عوامی سطح پر یقین نہیں کیا جارہا کہ آئندہ مارچ میں نگران حکومت قائم ہوجائے گی اور عام انتخابات ایک سال کے لیے ملتوی نہیں ہوں گے، جن کی طرف بار بار وفاقی وزرا اشارے دے رہے ہیں۔ ان دہرے بیانات کے باعث اب تک انتخابی صورت حال واضح نہیں ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ نگران حکومت مارچ میں قائم ہوگی تو آئین کا سہارا لے کر ایک سال تک عام انتخابات کے التوا کے بیان کیوں دیے جارہے ہیں؟
Load Next Story