ایک ریکوئسٹ

ہم بھی تحریک انصاف یا پاکستان کی کسی بھی پارٹی کے معاملات میں کچھ نہیں کہتے نہ کہہ سکتے ہیں

barq@email.com

پی ٹی آئی کے ایک سرمایہ دار لیڈرکی ایک بات سے ہمارے دل میں کچھ نہ کچھ تو ضرور پھوٹ گیا ہے لیکن کہہ سکتے ہیں کہ کیا؟ ہاں مگر کم از کم لڈو تو نہیں پھوٹے کیونکہ لڈو کا ذائقہ ہمیں ابھی تک ازبر ہے حالانکہ شادی کے لڈو پھوٹنے کو ایک زمانہ ہو گیا ہے لیکن ان لڈوؤں کے ساتھ ہمارا اور بہت کچھ بھی پھوٹ گیا تھا، لیکن جو کچھ بھی پھوٹا ہے بہت اچھا پھوٹا ہے کیوں کہ جب جناب کی دولتمندی کے بارے میں سنا ہے ان کی ہر بات ہمیں اچھی لگنے لگی ہے

بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا

ان کا بیان ہے کہ تحریک تبدیلی کی جدوجہد جاری رکھے گی شاباش سبحان اللہ لگے رہو منا بھائی۔ اور اگر تحریک انصاف تبدیلی کی جدوجہد جاری رکھے گی تو ہم کون ہوتے ہیں کہ نہ رکھنا چاہیں بلکہ ایسے تمام معاملات میں ہم قصہ خوانی بازار کے دکانداروں اور آنے جانیوالوں کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، بہت پرانی بات ہے ایک لمبا تڑنگا پاگل قصہ خوانی میں ہمیشہ یہاں وہاں پھرتا رہتا تھا وہ ملشیے کا ایک بہت لمبا کرتا پہنتا تھا جو اس کے ٹخنوں کے اوپر تک ہوتا تھا شلوار نہیں ہوتی تھی ویسے تو وہ کچھ مانگتا نہیں تھا لوگ خود ہی کچھ دے دیتے تھے موڈ ہوتا تو قبول کر لیتا ورنہ آگے بڑھ جاتا تھا۔

کبھی کبھی اچانک اس کے دل میں نہ جانے کیا آ جاتا تھا کہ ایک جگہ کھڑا ہو جاتا تو لوگوں کا جمگھٹ ہو جاتا تو وہ اپنا اگلا دامن اٹھا کر گلے تک پہنچا دیتا اور ہجوم کی طرف منہ کر کے بولتا ''اس میں کسی کو کچھ کہنا ہے'' اردو میں ترجمہ لمبا ہو جاتا ہے لیکن وہ پشتو کے دو الفاظ بولتا تھا ''دیکے سوک خہ وائی'' اب اس میں کسی کو کیا کہنے کا یارا ہو سکتا اس لیے کوئی کچھ بھی نہیں کہتا، ہم بھی تحریک انصاف یا پاکستان کی کسی بھی پارٹی کے معاملات میں کچھ نہیں کہتے نہ کہہ سکتے ہیں، ہمارے لیے ان صاحب کے بیان کا دوسرا حصہ اہم ہے کہ نواز شریف سمیت ملک کو لوٹنے والوں سے قوم کی پائی پائی وصول کرینگے۔

اگرچہ اس میں یہ ''پائی پائی'' کے الفاظ ذرا الجھن پیدا کر رہے ہیں کہ اب پائی تو کیا اس کا پورا خاندان ہی ملیا میٹ ہو چکا ہے پیسہ آنہ دونی، چونیاں، اٹھنیاں حتی کہ روپے دو روپے اور پانچ دس روپے کے سکے بھی عوام کا سر کھا چکے ہیں لیکن پھر بھی ڈھارس تو بنتی ہے کہ ''وصولی'' ضرور ہو گی کیونکہ جو صاحب کہہ رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے ترین ہیں مالدار ترین، ایماندار ترین، صادق ترین، مخلص ترین اور عمران ترین وغیرہ اس لیے سچ ہی کہہ رہے ہوں گے۔

اب ان کی اس بات پر تو ہمیں ذرا بھی ڈاؤٹ نہیں ہے کہ وصولی کی یہ جدوجہد جاری رہے گی اور جدوجہد ایسی چیز ہے کہ ہمیشہ جاری رہتی ہے پہلے بھی جاری تھی اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی کیونکہ جدوجہد کا تعلق ہی خاندان ''گی'' سے ہے پاکستان بننے سے پہلے بھی یہ ''گی'' تھا بننے کے بعد بھی ''گی ہی گی'' ہے یعنی پاکستان اور ''گی'' کا ساتھ جنم جنم کا ساتھ ہے لیکن چونکہ انسان کی عمر بڑی مختصر ہوتی ہے ''گی'' کا ساتھ بالکل نہیں دے سکتی


عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے استواری ہائے ہائے

اس سے پہلے کہ یہ ''گی'' ہے بدل جائے ہماری ایک خواہش بلکہ آرزو اور حسرت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری یہ خواہش یہ حسرت آرزو کو پورا کرنا ان کے لیے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے کٹے ہوئے ناخن کا کام ہے اس لیے اگر اس کم بخت ''گی'' کے ''ہے'' سے پہلے پہلے ہی وہ ہمارے لیے عبدالرحیم خان خانان بن جائیں تو کیا ہی اچھا، عبدالرحیم خان خانان اکبر بادشاہ کے نور تنوں میں سے ایک رتن تھا اب جناب کپتان صاحب کے بارے میں ہمیں پتہ نہیں کہ ان کے کتنے ''رتن'' ہیں لیکن جناب کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ بھی ان نو یا چار یا پانچ رتنوں میں ایک ہیں.

خان خانان کہیں جا رہا تھا راستے میں ایک اس زمانے کے کالم نگار کو پتہ چلا تو اس نے پیش ہو کر مدعا عرض کیا کہ میں نے آج تک کبھی اکٹھی ایک لاکھ اشرفیاں نہیں دیکھی ہیں اگر آپ دیدار کرا دیں تو بندہ کی یہ آرزو پوری ہو جائے گی ۔ خان خانان نے اس وقت خزانچی کو حکم دیا کہ ایک لاکھ اشرفیاں لا کر اس فقیر یا کالم نگار کے سامنے ڈھیر کر دی جائیں حکم کی تکمیل ہوئی کیونکہ اس زمانے میں یہ صوابدیدی اعلانات اور پھر دفتر ہفت خوان سر کر کے دو چار سال بعد چیک ملنے کا تھرو پراپر چینل نہیں ہوتا تھا اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے۔

ہمیں بھی درمیان میں ایک واقعہ یاد آیا کراچی کے ایک صاحب نے ہمیں ایک موضوع پر کتاب لکھنے کے لیے کہا اور پچاس ہزار کا چیک بھی بھجوا دیا ہم نے کتاب لکھ ڈالی ان کا کہنا تھا کہ چھاپنے کی ذمے داری بھی میری ۔ کتاب لکھ چکنے کے بعد چیک بینک والوں کو دیا تو انھوں نے اعتراض کیا کہ چیک پر تاریخ لکھتے ہوئے اوور رائٹنگ ہو گئی یہ چیک کیش نہیں ہو سکتا۔

اب اس شخص کا صرف نام اور ٹیلی فون نمبر ہی ہمیں معلوم تھا ڈاک کا پتہ کوئی نہیں تھا، ٹیلی فون نے تو وہ شروع کر دیا جو ایسے لوگوں کے ٹیلی فونوں کا خاصہ ہوتا ہے ''رابطہ ممکن نہیں'' چیک اور کتاب دونوں ہمارے پاس پڑے ہیں اور اس شخص کا کوئی اتہ پتہ نہیں، لیکن عبدالرحیم خان خانان نے اس وقت ایک لاکھ اشرفیاں سکہ رائج الوقت اس کالم نگار کے سامنے ڈھیر کر دیے، کالم نگار نے آنکھ بھر کے دیکھا آرزو پوری ہوئی اور شکریہ ادا کر کے جانے لگا تو خان خانان نے آواز دی اسے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو۔

کالم نگار نے کہا حضور میں نے تو صرف دیکھنے کی تمنا کی تھی لیکن خان خانان نے زبردستی وہ اشرفیاں اسے دے ڈالیں، ویسے بھی اس کا کیا جا رہا تھا مال مفت دل بے رحم ۔ اس قسم کے امراء اور خاص الخاص لوگ عوام ہی کی گردن کے ویمپائر ہوتے ہیں خود تو پھول بھی اپنے ہاتھ سے نہیں توڑتے، سب کچھ تو عوام ہی کا چھینا ہوا ہوتا ہے، آپ سوچیں گے کہ یہ ہم کہاں کہاں کی ہانکنے لگے تو عرض ہے کہ کہاں کہاں کی نہیں ہانک رہے ہیں بلکہ جناب کو اپنے مطلب کی طرف ہانک رہے ہیں، اور وہ مطلب یہ ہے کہ ''گی'' تو نہ جانے کب جواں ہو گی پھر ''گا'' یا ''گے'' سے اس کی شادی ہو گی اور کب ''ہے'' کی ولادت ہو گی یعنی کون جیتا ہے تری ''گی'' کے ''ہے'' ہونے تک۔

اگر اس دوران جناب ہمیں ایک دو کروڑ کا چیک بھجوا دیں بخدا ہم نے کبھی اتنی مالیت کا چیک نہیں دیکھا ہے اور اس آرزو کو لے کر مرنا نہیں چاہتے، ایک بار بس صرف ایک بار ۔ میرا کہا مان لیجیے ۔ لیکن دستخط وغیرہ احتیاط سے کر دیجیے ہم اسے بینک لے جا کر کیشن نکلوا لیں گے صرف چند لمحے دیدار کر لیں گے پھر اسی وقت ۔ یہ آپ سے ہمارا پکا وعدہ ہے کہ اسی وقت بینک والے سے کہیں گے کہ ہمارا کام ہو گیا اور اسے اب اسی اکاؤنٹ میں دوبارہ ڈال دیجیے، اس کے بعد ''گی'' کے ''ہے'' ہونے کا انتظام آرام سے کریں گے اپنا جانے کا وقت آیا تو اپنے بیٹے کو اپنی جگہ بٹھا دیں گے اور اسے بھی وصیت کر دیں گے کہ اپنی جگہ ۔ مطلب یہ کہ کیا پتہ ۔ ٹرین لیٹ ہو جائے۔
Load Next Story