منڈا ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کیوں
800 میگاواٹ صلاحیت کے منڈا ڈیم کا معاملہ پچھلے کئی سال سے لٹکا ہوا ہے۔
قومی وطن پارٹی کے رہنماء آفتاب احمد خان شیرپاؤ' کافی عرصے سے' پریس کانفرنسوں' قومی اسمبلی کے فلور اور جلسوں میں' حکومت سے منڈا ڈیم کی جلد تعمیر کا مطالبہ کر ر ہے ہیں' دوسری طرف نریندر مودی کی' دریاؤں کا پانی بند کرنے کی دھمکی سے حکومتی ایوانوں میں سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔
پاکستان میں پسماندگی' توانائی اور پانی کی کمی' مودی کی پانی بند کرنے کی دھمکیاں' ان سب کا سبب' ہماری غلط پالیسیاں ہیں' اگر معلومات حاصل کی جائیں' تو حکومت پاکستان کی لاپرواہی اور خراب گورننس کا ایک اور عقدہ کھلتا ہے۔ منڈا ڈیم کی اہمیت کے پیش نظر' یہ منصوبہ حکومت کی اہم مسائل سے چشم پوشی کا ایک اور ثبوت بھی ہے' اس وقت جب ملک میں بجلی اور پانی کی کمی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے اور حکومت' تیل' کوئلے' ہوا اور سورج جیسے مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگا رہی ہے۔
معلوم نہیں کہ پن بجلی جیسے سستے اور ماحول دوست ذریعے سے بجلی پیدا کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ پنجاب کے حکمرانوں سے تو گلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن پختون قوم پرستی کا دعوے کرنے والے بھی پانچ سال تک اس مسئلے پر خاموش رہے' آج بھاشا اور داسو ڈیم کے بارے میں بھی حکومت سست روی دکھا رہی ہے لیکن منڈا ڈیم کا قصہ بھی کافی پرانا اور دردناک ہے۔
دریائے سوات پر واقع یہ ڈیم' مہمند ایجنسی کے تحصیل پڑانگ غار میں واقع ہے' یہاں پہلے ایک ہیڈ ورکس تھا' جہاں سے نہریں نکل کر چارسدہ' مردان اور شبقدر کا وسیع رقبہ سیراب کرتی تھی' 2010ء کے سیلاب نے اس ہیڈ ورکس کو توڑ دیا اور اس طرح اس علاقے کی اراضی بنجر ہو گئی' حکومت نے بعد میں یہاں پر ہیڈورکس کی مرمت تو کر دی' لیکن اصل مسئلہ یہاں پر ایک ڈیم کی تعمیر کا ہے' ایک حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق اس ڈیم کا قصہ تو الف لیلی کا قصہ بن گیا ہے۔
اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد خواجہ آصف کی یہ بات صحیح لگتی ہے کہ اگر پلاننگ کمیشن ہوتا تو تاج محل کبھی بھی تعمیر نہ ہوتا' انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو پلاننگ کمیشن کو ختم کیا جائے' کیونکہ یہ ادارہ ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
800 میگاواٹ صلاحیت کے منڈا ڈیم کا معاملہ پچھلے کئی سال سے لٹکا ہوا ہے' اس تاخیرکی بنیادی وجہ' بیوروکریسی کی طرف سے پیدا کردہ رکاوٹیں ہیں' اس کے متعلق ایک رپورٹ حالیہ دنوں میں منظر عام پر آئی ہے' سرکاری دستاویزات کے مطابق اس پراجیکٹ کی فزیبیلٹی اسٹڈی 2000ء میں کی گئی تھی۔ 2008ء میں یہ ذمے داری واپڈا کے سپرد کر دی گئی'11 اکتوبر 2008ء کو PC-II منظور ہوئی' اس پر اخراجات کا تخمینہ 652 ملین روپے لگایا گیا تھا' بعد میں مقابلے کے ذریعے' بین الاقوامی اور مقامی کنسلٹنٹس کا ایک کنسورشیم تشکیل دیا گیا۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ پرانی فزیبیلٹی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے اور ایک تفصیلی ڈیزائن تیار کیا جائے' اس کے اخراجات کا تخمینہ 611 ملین روپے لگایا گیا تھا۔PC-II کا نظرثانی شدہ تخمینہ' جس میں تحقیقات کے اخراجات بھی شامل تھے کل 1246 ملین روپے بنا '2012ء میں کام شروع ہوا اور اس کو مئی 2014ء میں مکمل ہونا تھا' ڈیزائن کا 60 فی صد کام مکمل ہو گیا تھا' ڈیزائن کا بقایا کام 18 ماہ تک معطل رہا' کیونکہ پلاننگ کمیشن نے نظر ثانی شدہ PC-II منظور نہیں کیا تھا۔
2008ء کے بعد اس تاخیر کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوتا گیا' نظرثانی شدہ PC-II جس کے اخراجات کا تخمینہ 1246ملین روپے تھا' چیئرمین ECNEC نے اس منصوبے کی عبوری منظوری دینے کے بعد 21 مارچ 2012ء کو کام شروع کرنے کے لیے 400 ملین روپے کی منظوری بھی دے دی تاہم 2013ء میں کام کی رفتار کم ہو گئی' جون 2014ء میں کام مکمل تعطل کا شکار ہو گیا۔ یہ کام آج (نومبر 2016ء) تک بند ہے۔
اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کو سالانہ 55 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے' حالیہ سالوں میں سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور اس ڈیم کی غیر موجودگی' خیبر پختونخوا میںخاص کر چارسدہ اور نوشہرہ' جنوبی پنجاب اور سندھ میں جانی اور مالی نقصانات میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے' ڈیڑھ سال کی تاخیر کی وجہ سے منصوبے کے اخراجات میں بھی 25 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔
PC-II کے نظر ثانی مسودے میں بھی 1200ملین روپے سے زیادہ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے' جس کو پلاننگ ڈویژن نے 2014ء میں زبردستی کم کر کے 937 ملین روپے کر دیا'ملکی معیشت اور فاٹا کے لیے سیاسی اہمیت کا ایک اہم پن بجلی اور آبپاشی کا منصوبہ'2004ء سے نظر انداز کیا جا رہا ہے' قومی اہمیت کے اس اہم منصوبے کی تعمیر میں اتنی لمبی تاخیر' جس کی وجہ سے اخراجات میں اضافے اور بجلی کی پیداوار اور زراعت میں نقصانات کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہو گیا ہے' اس کی وجوہات جاننے کے لیے وزیر اعظم کو چائیے کہ اعلی اختیارات کی انکوائری کمیٹی بنائی جائے ورنہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ حکومت کی اس نا اہلی کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا جائے۔
پاکستان میں پسماندگی' توانائی اور پانی کی کمی' مودی کی پانی بند کرنے کی دھمکیاں' ان سب کا سبب' ہماری غلط پالیسیاں ہیں' اگر معلومات حاصل کی جائیں' تو حکومت پاکستان کی لاپرواہی اور خراب گورننس کا ایک اور عقدہ کھلتا ہے۔ منڈا ڈیم کی اہمیت کے پیش نظر' یہ منصوبہ حکومت کی اہم مسائل سے چشم پوشی کا ایک اور ثبوت بھی ہے' اس وقت جب ملک میں بجلی اور پانی کی کمی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے اور حکومت' تیل' کوئلے' ہوا اور سورج جیسے مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگا رہی ہے۔
معلوم نہیں کہ پن بجلی جیسے سستے اور ماحول دوست ذریعے سے بجلی پیدا کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ پنجاب کے حکمرانوں سے تو گلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن پختون قوم پرستی کا دعوے کرنے والے بھی پانچ سال تک اس مسئلے پر خاموش رہے' آج بھاشا اور داسو ڈیم کے بارے میں بھی حکومت سست روی دکھا رہی ہے لیکن منڈا ڈیم کا قصہ بھی کافی پرانا اور دردناک ہے۔
دریائے سوات پر واقع یہ ڈیم' مہمند ایجنسی کے تحصیل پڑانگ غار میں واقع ہے' یہاں پہلے ایک ہیڈ ورکس تھا' جہاں سے نہریں نکل کر چارسدہ' مردان اور شبقدر کا وسیع رقبہ سیراب کرتی تھی' 2010ء کے سیلاب نے اس ہیڈ ورکس کو توڑ دیا اور اس طرح اس علاقے کی اراضی بنجر ہو گئی' حکومت نے بعد میں یہاں پر ہیڈورکس کی مرمت تو کر دی' لیکن اصل مسئلہ یہاں پر ایک ڈیم کی تعمیر کا ہے' ایک حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق اس ڈیم کا قصہ تو الف لیلی کا قصہ بن گیا ہے۔
اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد خواجہ آصف کی یہ بات صحیح لگتی ہے کہ اگر پلاننگ کمیشن ہوتا تو تاج محل کبھی بھی تعمیر نہ ہوتا' انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو پلاننگ کمیشن کو ختم کیا جائے' کیونکہ یہ ادارہ ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
800 میگاواٹ صلاحیت کے منڈا ڈیم کا معاملہ پچھلے کئی سال سے لٹکا ہوا ہے' اس تاخیرکی بنیادی وجہ' بیوروکریسی کی طرف سے پیدا کردہ رکاوٹیں ہیں' اس کے متعلق ایک رپورٹ حالیہ دنوں میں منظر عام پر آئی ہے' سرکاری دستاویزات کے مطابق اس پراجیکٹ کی فزیبیلٹی اسٹڈی 2000ء میں کی گئی تھی۔ 2008ء میں یہ ذمے داری واپڈا کے سپرد کر دی گئی'11 اکتوبر 2008ء کو PC-II منظور ہوئی' اس پر اخراجات کا تخمینہ 652 ملین روپے لگایا گیا تھا' بعد میں مقابلے کے ذریعے' بین الاقوامی اور مقامی کنسلٹنٹس کا ایک کنسورشیم تشکیل دیا گیا۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ پرانی فزیبیلٹی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے اور ایک تفصیلی ڈیزائن تیار کیا جائے' اس کے اخراجات کا تخمینہ 611 ملین روپے لگایا گیا تھا۔PC-II کا نظرثانی شدہ تخمینہ' جس میں تحقیقات کے اخراجات بھی شامل تھے کل 1246 ملین روپے بنا '2012ء میں کام شروع ہوا اور اس کو مئی 2014ء میں مکمل ہونا تھا' ڈیزائن کا 60 فی صد کام مکمل ہو گیا تھا' ڈیزائن کا بقایا کام 18 ماہ تک معطل رہا' کیونکہ پلاننگ کمیشن نے نظر ثانی شدہ PC-II منظور نہیں کیا تھا۔
2008ء کے بعد اس تاخیر کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوتا گیا' نظرثانی شدہ PC-II جس کے اخراجات کا تخمینہ 1246ملین روپے تھا' چیئرمین ECNEC نے اس منصوبے کی عبوری منظوری دینے کے بعد 21 مارچ 2012ء کو کام شروع کرنے کے لیے 400 ملین روپے کی منظوری بھی دے دی تاہم 2013ء میں کام کی رفتار کم ہو گئی' جون 2014ء میں کام مکمل تعطل کا شکار ہو گیا۔ یہ کام آج (نومبر 2016ء) تک بند ہے۔
اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کو سالانہ 55 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے' حالیہ سالوں میں سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور اس ڈیم کی غیر موجودگی' خیبر پختونخوا میںخاص کر چارسدہ اور نوشہرہ' جنوبی پنجاب اور سندھ میں جانی اور مالی نقصانات میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے' ڈیڑھ سال کی تاخیر کی وجہ سے منصوبے کے اخراجات میں بھی 25 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔
PC-II کے نظر ثانی مسودے میں بھی 1200ملین روپے سے زیادہ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے' جس کو پلاننگ ڈویژن نے 2014ء میں زبردستی کم کر کے 937 ملین روپے کر دیا'ملکی معیشت اور فاٹا کے لیے سیاسی اہمیت کا ایک اہم پن بجلی اور آبپاشی کا منصوبہ'2004ء سے نظر انداز کیا جا رہا ہے' قومی اہمیت کے اس اہم منصوبے کی تعمیر میں اتنی لمبی تاخیر' جس کی وجہ سے اخراجات میں اضافے اور بجلی کی پیداوار اور زراعت میں نقصانات کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہو گیا ہے' اس کی وجوہات جاننے کے لیے وزیر اعظم کو چائیے کہ اعلی اختیارات کی انکوائری کمیٹی بنائی جائے ورنہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ حکومت کی اس نا اہلی کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا جائے۔