کیاسادگی اختیارکرناجرم ہے

جوس بانڈے(Joyce Bande) ملک کی پہلی خاتون صدربن چکی تھی

raomanzarhayat@gmail.com

لاہور:
جوس بانڈے(Joyce Bande) ملک کی پہلی خاتون صدربن چکی تھی۔ملاوی کی صدر۔ایساملک جوغربت اورافلاس کی آخری حدوں کوچھورہاتھا۔روزسیکڑوں لوگ غذانہ ملنے کی وجہ سے لقمہ اَجل بن جاتے تھے۔اوسط درجے سے تعلق رکھنے والی خاتون ہونے کی بدولت معاشرے کی ہرناانصافی اورظلم دیکھ چکی تھی۔نچلے درجے سے سیاست شروع کی اورآہستہ آہستہ ترقی کرتی گئی۔

جب صدربننے کااعلان ہوا،تودارالحکومت سے کافی دورایک اور شہرمیں تھی۔اعلان کے فوراًبعد ملاوی کے دارالحکومت پہنچنا تھا۔ نزدیکی ائیرپورٹ پراسے سرکاری جیٹ لینے کے لیے موجود تھا۔سرکاری جہازمیں بیٹھی۔دارالحکومت پہنچی،حلف اُٹھایا اور صدربن گئی۔جوس کے دل میں کانٹے کی طرح عام لوگوں کی بدحالی،غربت اورتنگ دستی چبھ رہی تھی۔سیاہ رنگت کی بھاری بھرکم خاتون صدرتوبن چکی تھی مگر سمجھ نہیں آرہاتھاکہ پیچیدہ معاملات کو کس جگہ سے حل کرناشروع کرے۔ملک مکمل طور پرورلڈبینک اوردیگرمالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھا جاچکا تھا۔سابقہ صدرنے بے دریغ قرض لے لے کرملک کو غرق کر ڈالا تھا۔دیکھاجائے توہمارے ملک کابھی یہی حال ہے۔یہ ایک زرعی ملک ہے۔ صورت ملاوی سے بھی بدترہوتی۔

صدرجوس بانڈے نے اپنی سرکاری زندگی کا پہلا فیصلہ کیا۔اخراجات میں کمی کی جائے گی۔یہ اسکاسیاسی بیان نہیں بلکہ روح کی آوازتھی۔اس نے حکم دیاکہ جہازفی الفور بیچ دیاجائے۔ جتنے پیسے وصول ہوں،اس تمام کاغلہ خریدا جائے۔جہاں جہاں لوگ بھوک سے مررہے ہیں،فی الفور وہاں غذاپہنچائی جائے۔جوس کے بروقت فیصلے سے سیکڑوںانسانی جانیں بچ گئیں۔ہزاروں لوگوں کوایک وقت کاکھانانصیب ہوگیا۔مگرمسئلہ ابھی حل نہیں ہواتھا۔

جوس کوقصرصدارت میں منتقل ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ سابقہ صدرکودنیاکی قیمتی ترین گاڑیاں جمع کرنا تھا۔ سو کے قریب مہنگی ترین گاڑیاں محل میں کھڑی کی ہوئیں تھی۔ ذہن میں ہوناچاہیے کہ دنیاکے غریب ترین ملک ملاوی کا ذکرکررہاہوں۔ چین،امریکا یالندن کی بات نہیں کر رہا۔ ویسے ان ممالک کے صدراوروزراء اعظم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کے پاس سوکے قریب سرکاری گاڑیاں ہوں،جنھیں وہ اپنے لباس کے حساب سے تبدیل کریں۔امریکا کا صدر تو ایک لحاظ سے ہروقت بے رحم احتساب کی گرفت میں رہتا ہے۔

حالیہ شایع شدہ تصویروں میں بارک اوباما کی بیٹی کو دکھایاگیاہے۔گرمیوں کی چھٹیوں میں چندڈالرکمانے کے لیے واشنگٹن کے ایک عام سے ریسٹورنٹ میں ویٹریس کاکام کر رہی تھی۔چھٹی ملنے کے بعدگھرواپس جانے کے لیے عام مسافر بس کاانتظارکررہی تھی۔گھریامنزل وائٹ ہاؤس تھااور والد دنیاکاطاقت ورترین آدمی۔ہمارے جیسے ملکوں میں تویہ سادہ سی باتیں الف لیلیٰ کی کہانیاں نظرآتی ہیں۔بات صدرجوس اور سابقہ صدربنگوکی ہورہی تھی۔جوس اپنے سابقہ صدرکے قیمتی شوق کوجانتی تھی۔ہفتے کے بعد دوبارہ اپنے اسٹاف کو بلایا۔

حکم دیاکہ صدارتی گیراج کا معائنہ کرناچاہتی ہے۔ اسٹاف نے گزارش کی کہ اسے جوبھی گاڑی استعمال کے لیے چاہیے،فی الفورحاضرکردی جائے گی۔صدرجوس نے سبزرنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی۔خوش کرنے کے لیے فوری طورپرسبزرنگ کی رولزرائس حاضرکردی گئی۔مگریہ سب کچھ اس کی اجازت سے نہیں ہواتھا۔جب گیراج کی انسپکشن کے لیے نکلی تورولز رائز دیکھ کرپریشان ہوگئی۔اسٹاف نے عرض کی کہ پرانے صدر تو بالکل یہی کرتے تھے۔جس رنگ کے کپڑے،اسی رنگ کی گاڑی۔صدرجوس نے قیمتی ترین گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔پیدل ہی گیراج کی طرف روانہ ہوگئی۔پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعدگیراج پہنچ گئی۔وہاں پہنچ کرگاڑیاں دیکھیں تو ششدررہ گئی۔یقین نہیں آرہاتھاکہ یہ ایک غریب ملک کے صدرکے استعمال کے لیے سرکاری گاڑیاں ہیں۔

محسوس ہوتاتھاکہ دنیاکے امیرترین بادشاہ یاشہنشاہ کے لیے شاہی سواریوں کااژدہام ہے۔گیراج میں ہرگاڑی کو احتیاط سے دیکھا۔ان کی تعدادسوکے لگ بھگ تھی۔ کونسا قیمتی برانڈ تھا،جسکی گاڑی وہاں موجودنہیں تھی۔ ایسی بھی مرسیڈیزیں موجودتھیں،جوبالکل نئی تھیں۔ ان کو استعمال کرنے کی باری ہی نہیں آئی تھی۔صدرکااسٹاف پریشان تھا کہ جوس کیاکررہی ہے۔اکثرکاخیال تھاکہ اپنے عزیزوں، اہل خانہ،سیاسی دوستوں اوررشتہ داروں کے لیے گاڑیاں منتخب کررہی ہے۔تاکہ جب تک صدرہے،انکوبھی سرکاری خرچ پرخوب مزے کروائے۔اسٹاف کاقیافہ بالکل غلط تھا۔اگرہماراملک ہوتا، تو صدرجوس کے اسٹاف کااندازہ بالکل ٹھیک ہوتا۔یہاں تو اقتدارکواستعمال ہی اپنے پیاروں کومزے کروانے کے لیے کیا جاتاہے۔


جتنابڑاسرکاری یا سیاسی عہدہ،اتنی ہی مراعات کو تقسیم کرنے کی درجہ بندی۔ خیرصدرجوس نے اسٹاف کوحکم دیاکہ تمام گاڑیاں نیلام کردی جائیں۔نیلامی میں اس کے خاندان کاکوئی فرد، رشتہ داریادوست حصہ نہیں لیگا۔اسٹاف کے لیے یہ حکم انتہائی غیرمناسب تھا۔اتنی قیمتی سرکاری گاڑیاں اور نیلامی۔ یہ توصدرکے عہدے کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ سمجھے کہ صدرجوس اپناذہنی توازن کھوبیٹھی ہے،باولی ہوگئی ہے۔ سب سے معتمدافسرنے ہاتھ باندھ کرکہاکہ آپ اپنا فیصلہ واپس لیں کیونکہ سفرکے لیے ان قیمتی گاڑیوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔

جوس نے دوبارہ تحکمانہ لہجے میں حکم کااعادہ کیا۔سوکی سوگاڑیاں نیلام کی جائیں اور حصول شدہ رقم سے قحط ذدہ لوگوں کے کھانے پینے کاانتظام کیاجائے۔صدرکے اَٹل فیصلہ سے مجبورہوکرتمام کی تمام گاڑیاں نیلام کردی گئیں۔پوری دنیاسے تاجراورخریدارآئے۔پیسے دیے اور گاڑیاں لے گئے۔صدرکے لیے صرف ایک معمولی سی گاڑی کا انتظام کیاگیا۔صدرکے حکم کے مطابق تمام رقم سے غلہ خریدا گیااورفوری طورپرقحط ذدہ علاقوں میں پہنچادیا۔

اس کے بعد،صدرجوس نے اپنے فنانس منسٹرکوبلایااور دریافت کیاکہ بحیثیت صدراس کی سرکاری تنخواہ کتنی ہے۔ فنانس منسٹرسمجھاکہ صدراپنی تنخواہ بڑھانے کاسوچ رہی ہیں۔ تنخواہ بتانے کے بعدلجاجت سے مشورہ دیاکہ یہ بہت کم ہے،لہذاسالانہ تنخواہ کودگناکردیناچاہیے۔صدرجوس شدید غصہ میں آگئی۔حکم دیاکہ صدرکی سالانہ تنخواہ کوفی الفور آدھا کردیاجائے۔اس کے ساتھ ساتھ وزراء کی تنخواہ کوبھی نصف کر دیاجائے۔صدرکوغصے میں دیکھ کرفنانس منسٹررفوچکر ہو گیا۔ احکامات کے مطابق بشمول صدرتمام سیاسی عہدوں پر فائز لوگوں کی تنخواہ آدھی کردی گئی۔تمام انقلابی اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا،کہ صدرجوس تقریباًدس لاکھ انسانوں کی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہوگئی۔

اس کے عزم وہمت کودیکھ کرتمام دنیاکے مالیاتی اداروں اورحکومتوں نے اپنے خزانوں کے مونہہ کھول دیے۔مگرصدرجوس نے انتہائی کم غیرملکی امداد قبول کی۔اپنے دوسال کے دورحکومت میں عوام پرآسانیوں کے دروازے کھول دیے۔اس نے ذاتی مالی قربانیاں دیں۔ سادگی کی مثال قائم کی اورقوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ملاوی بہت جان لیواقحط سے واپس نکل آیا۔

اب اپنے ملک پرنظرڈالیے۔انتہائی سفاکی سے ہماری ہرحکومت قرضوں پے قرضے لیے جاتی ہے۔قرضوں کااصل بوجھ کتناہے۔مستند اعدادکسی کے پاس نہیں۔بین الاقوامی اداروں کے سربراہ ہمارے ملک میں قدم رکھنا پسند نہیں کرتے۔مگرہم فقیروں کی طرح دبئی اوردیگرممالک میں بھیک مانگنے چلے جاتے ہیں۔قرض دینے والے، ہمارے حکام کے کے بیش قیمت کپڑے اورزیرِاستعمال گاڑیاں دیکھ کرششدررہ جاتے ہیں۔ورلڈبینک کے اہلکاروں کے کپڑے،ہماری شاہی خلعتوں سے انتہائی کم دام کے ہوتے ہیں۔لگتایوں ہے کہ ہم امریکا،چین،ورلڈبینک اورآئی ایم ایف کوقرضے دینے جارہے ہیں۔

آزادی سے لے کرآج تک آپ ہمارے گورنر جنرل، صدور،وزراء اعظم اوروزراء اعلیٰ کے سرکاری اللے تللوں کو دیکھیں توکلیجہ مونہہ کوآتاہے۔ہرمقتدرشخص پہلے سے بھی بڑا سرکاری ہوائی جہازخریدنافرض سمجھتا ہے۔

دنیا کی قیمتی ترین گاڑیاں سرکاری گیراجوں میں موجود ہیں۔ ان کی مجموعی مالیت کاکوئی اندازہ تک نہیں لگاسکتا۔جاہ پسندی اس درجہ ہے کہ بادشاہ بننے والاشخص کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی نئی گاڑیاں خریدنااولین فرائض میں شمار کرتاہے۔یہاں کوئی ایساسیاسی یاغیرسیاسی قائدنہیں جو سرکاری ہوائی جہاز اور سیکڑوں بیش قیمت سرکاری گاڑیاں نیلام کرکے تمام پیسہ عوام کی صحت اورتعلیم پر صَرف کردے۔جواپنی مراعات اور تنخواہ کوخیربادکہہ کر حقیقت میں عوام کے دکھ دردمیں شامل ہونے کی اصل کوشش کرے۔پرنہیں۔ہمارے عظیم ملک میں سادگی کا صرف اعلان کیاجاتاہے۔یہاں سادہ رہنے پرکوئی بھی آمادہ نہیں،نہ خواص اورنہ ہی عوام!ایسے لگتاہے کہ ہمارے ملک میں سادگی اختیارکرناسنگین جرم ہے!
Load Next Story