گلوبل وارمنگ کے خطرے میں شدید اضافہ
زیرزمین میٹھے پانی کی مقدار تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے
اقوام متحدہ نے پچھلے ہفتے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آیندہ برسوں میں دنیا کو بدترین خشک سالی، گرمی کی شدید لہر، سمندری ہوائی طوفانوں اور سیلابوں کا سامنا ہو گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011ء سے 015 2ء کے درمیان شدید نوعیت کے موسمیاتی واقعات وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن کی تعداد پچاس ہے۔ موسمی شدت سے متاثر ہونے والے دس ملکوں میں سے چار براعظم افریقہ میں واقعہ ہیں۔
اس رپورٹ میں 2017ء میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک جن کا زہریلی گرین گیسوں میں سب سے کم حصہ ہے وہی موسمی شدائد سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان غریب پسماندہ ترین ممالک میں جن کا گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے میں سب سے کم حصہ ہے اس میں براعظم افریقہ کا ملک موزمبیق سرفہرست ہے جو 2015ء میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ان دس ممالک کی فہرست میں انڈیا بھی شامل ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے بیس سالوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پوری دنیا میں5 لاکھ لوگ مر چکے ہیں، جس کے نتیجے میں سیلاب، ہوائی اور سمندری طوفان، خشک سالی انسانوں پر عذاب بن کر ٹوٹے اور ان سب کے نتیجے میں تین سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ان بیس سالوں میں دنیا کے جو دس ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سال دنیا کے لیے گرم ترین سال تھے جس میں سال پندرہ اور سولہ پچھلے گزرے ہوئے بیس سالوں میں گرم ترین تھے جس کی وجہ سے دنیا کو بہت بڑی تباہی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پچھلے ہفتے مراکش میں جو کانفرنس ہوئی ہے اس کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اگلے سال کے موسم گرما کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت سیلاب طوفانی اور بے وقت کی بارشیں برفانی طوفان اور خشک سالی لے کر آئے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ہمارے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہتے ہیں جب تک عوام تباہی سے دوچار نہیں ہو جاتے۔ موسم سرما کا دیر سے شروع ہونا اور پہاڑی علاقوں میں کم برفباری ہونا اور ان علاقوں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت جس نے پوری دنیا میں گلیشیئرز کو بڑی تیزی سے پگھلانا شروع کر دیا ہے نتیجہ سیلاب، فصلوں کی تباہی، لاکھوں لوگوں کی بے گھری اور خشک سالی شامل ہے۔
زیرزمین میٹھے پانی کی مقدار تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے اور ہم اس میٹھے پانی کو بیدردی سے ضایع کر رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ یہ میٹھا پانی جس کی مقدار پوری دنیا اور ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں بھی بہت محدود ہے اگر ختم ہو گیا تو ہم پینے کے پانی کو ترس جائیں گے۔ ہم گھر سے لے کر کھیتوں تک پانی کو بے تحاشا ضایع کر رہے ہیں۔ وہ پانی جو بیدردی سے ٹیوب ویل کے ذریعے نکالا جا رہا ہے سیم و تھور کا باعث بن کر پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین کو بنجر کر رہا ہے کیونکہ فصل کو جتنے پانی کی ضرورت ہے اس سے زیادہ پانی دیا جا رہا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ فصلوں کو پانی دینے کے لیے جدید ترین طریقے اختیار کیے جائیں تا کہ ہر فصل کو اتنا ہی پانی ملے جتنی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا کہیں تو پانی کی قلت کی وجہ سے کاشت کرنا ممکن نہیں اور کہیں اتنا زیادہ میٹھا پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے کہ وہی زمین سیم تھور کا شکار ہو رہی ہے۔ اب تک لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین سیم و تھور کی وجہ سے بنجر ہو چکی ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک انتہائی نیچے چلی گئی ہے ٹیوب ویلوں سے پانی نکالنے کی وجہ سے وہ پانی جو چند دہائیاں پہلے سو ڈیڑھ سو فٹ کی گہرائی پر دستیاب ہو جاتا تھا اب ہزاروں فٹ سے زیادہ کی گہرائی پر چلا گیا ہے۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو بدترین طور پر قلت آب کا شکار ہیں۔ اپنوں اور غیروں کی سازش کی وجہ سے ایک طویل مدت سے کوئی نیا ڈیم بن نہ پایا جب کہ چین اور بھارت میں اس عرصے میں سیکڑوں ڈیم بن چکے ہیں۔ پاکستان میں جو پرانے ڈیم ہیں وہ مٹی سے بھرتے جا رہے ہیں۔ نئے ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں ہائیڈل بجلی کا تناسب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ جن ذرایع سے بجلی حاصل کی جا رہی ہے وہ انتہائی مہنگے ہیں چنانچہ مہنگی بجلی معیشت پر انتہائی منفی اثر ڈالتے ہوئے نہ صرف قومی پیداوار میں کمی کا باعث بن رہی ہے بلکہ اس سے غریب عوام کی غربت اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ایوب خان دور میں ایک عالمی معاہدے تک پنجاب کے تین دریا راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو بیج دیے گئے اور چوتھے دریا چناب کی حالت یہ ہے کہ اس وقت یہ خشک پڑا ہے۔ کیونکہ بھارت نے اس پر ڈیم بنا لیے ہیں۔ بہت سے ڈیم بنانے کے باوجود بھارت بھی شدید پانی کی کمی کا شکار ہے۔ وجہ اس کی بھارت کا وسیع رقبہ اور سوا ارب سے زائد کی آبادی۔ اور تو اور پچھلے سال بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پینے کے پانی کی ایسی شدید قلت ہوئی کہ خانہ جنگی ہوتے ہوتے رہ گئی۔
بھارت کی کئی ریاستیں پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں پانی کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ دنیا اور بھارت پاکستان میں مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پر خوفناک جنگیں ہونے والی ہیں۔ کشمیر جو دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا باعث نزاع ہے۔ اب بنیادی طور پر یہ پانی کا مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ پانی کے تمام ممبعے کشمیر سے بہہ کر پاکستان آتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے جس کا مستقبل قریب میں کم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس ماحولیاتی آلودگی نے پچھلے دنوں اسموگ کی شکل اختیار کر لی جس سے لاہور دہلی تہران اور اصفہان شدید متاثر ہوئے جس کے نتیجے میں آخر الذکر شہروں میں کئی دنوں کے لیے اسکول بند کرنا پڑے تا کہ بچوں کو زہریلی گیسوں پر مشتمل دھند سے محفوظ کیا جا سکے۔
گلوبل وارمنگ یعنی شدید گرمی کی لہروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہر سال تقریباً پونے تین کروڑ افراد غریب ہو جاتے ہیں اور اسی طرح ان آفات کے نتیجے میں ہر سال پانچ سو ملین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی کی شدید لہر اور سیلاب جو کبھی کبھار ہی آتے تھے اب ہر سال معمول بن کر رہ گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبادی میں بے پناہ اضافہ' اگر یہ دونوں خطرے کی حدود میں داخل ہو جائیں جو کہ پاکستان اس حوالے سے داخل ہو چکا ہے' تو اس ملک کی تباہی کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔
گلوبل وارمنگ 2017ء اور2018ء میں بھی جاری رہے گی۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ اس کا زور ٹوٹ جائے۔
اس رپورٹ میں 2017ء میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک جن کا زہریلی گرین گیسوں میں سب سے کم حصہ ہے وہی موسمی شدائد سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان غریب پسماندہ ترین ممالک میں جن کا گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے میں سب سے کم حصہ ہے اس میں براعظم افریقہ کا ملک موزمبیق سرفہرست ہے جو 2015ء میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ان دس ممالک کی فہرست میں انڈیا بھی شامل ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے بیس سالوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پوری دنیا میں5 لاکھ لوگ مر چکے ہیں، جس کے نتیجے میں سیلاب، ہوائی اور سمندری طوفان، خشک سالی انسانوں پر عذاب بن کر ٹوٹے اور ان سب کے نتیجے میں تین سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ان بیس سالوں میں دنیا کے جو دس ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سال دنیا کے لیے گرم ترین سال تھے جس میں سال پندرہ اور سولہ پچھلے گزرے ہوئے بیس سالوں میں گرم ترین تھے جس کی وجہ سے دنیا کو بہت بڑی تباہی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پچھلے ہفتے مراکش میں جو کانفرنس ہوئی ہے اس کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اگلے سال کے موسم گرما کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت سیلاب طوفانی اور بے وقت کی بارشیں برفانی طوفان اور خشک سالی لے کر آئے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ہمارے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہتے ہیں جب تک عوام تباہی سے دوچار نہیں ہو جاتے۔ موسم سرما کا دیر سے شروع ہونا اور پہاڑی علاقوں میں کم برفباری ہونا اور ان علاقوں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت جس نے پوری دنیا میں گلیشیئرز کو بڑی تیزی سے پگھلانا شروع کر دیا ہے نتیجہ سیلاب، فصلوں کی تباہی، لاکھوں لوگوں کی بے گھری اور خشک سالی شامل ہے۔
زیرزمین میٹھے پانی کی مقدار تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے اور ہم اس میٹھے پانی کو بیدردی سے ضایع کر رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ یہ میٹھا پانی جس کی مقدار پوری دنیا اور ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں بھی بہت محدود ہے اگر ختم ہو گیا تو ہم پینے کے پانی کو ترس جائیں گے۔ ہم گھر سے لے کر کھیتوں تک پانی کو بے تحاشا ضایع کر رہے ہیں۔ وہ پانی جو بیدردی سے ٹیوب ویل کے ذریعے نکالا جا رہا ہے سیم و تھور کا باعث بن کر پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین کو بنجر کر رہا ہے کیونکہ فصل کو جتنے پانی کی ضرورت ہے اس سے زیادہ پانی دیا جا رہا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ فصلوں کو پانی دینے کے لیے جدید ترین طریقے اختیار کیے جائیں تا کہ ہر فصل کو اتنا ہی پانی ملے جتنی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا کہیں تو پانی کی قلت کی وجہ سے کاشت کرنا ممکن نہیں اور کہیں اتنا زیادہ میٹھا پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے کہ وہی زمین سیم تھور کا شکار ہو رہی ہے۔ اب تک لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین سیم و تھور کی وجہ سے بنجر ہو چکی ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک انتہائی نیچے چلی گئی ہے ٹیوب ویلوں سے پانی نکالنے کی وجہ سے وہ پانی جو چند دہائیاں پہلے سو ڈیڑھ سو فٹ کی گہرائی پر دستیاب ہو جاتا تھا اب ہزاروں فٹ سے زیادہ کی گہرائی پر چلا گیا ہے۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو بدترین طور پر قلت آب کا شکار ہیں۔ اپنوں اور غیروں کی سازش کی وجہ سے ایک طویل مدت سے کوئی نیا ڈیم بن نہ پایا جب کہ چین اور بھارت میں اس عرصے میں سیکڑوں ڈیم بن چکے ہیں۔ پاکستان میں جو پرانے ڈیم ہیں وہ مٹی سے بھرتے جا رہے ہیں۔ نئے ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں ہائیڈل بجلی کا تناسب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ جن ذرایع سے بجلی حاصل کی جا رہی ہے وہ انتہائی مہنگے ہیں چنانچہ مہنگی بجلی معیشت پر انتہائی منفی اثر ڈالتے ہوئے نہ صرف قومی پیداوار میں کمی کا باعث بن رہی ہے بلکہ اس سے غریب عوام کی غربت اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ایوب خان دور میں ایک عالمی معاہدے تک پنجاب کے تین دریا راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو بیج دیے گئے اور چوتھے دریا چناب کی حالت یہ ہے کہ اس وقت یہ خشک پڑا ہے۔ کیونکہ بھارت نے اس پر ڈیم بنا لیے ہیں۔ بہت سے ڈیم بنانے کے باوجود بھارت بھی شدید پانی کی کمی کا شکار ہے۔ وجہ اس کی بھارت کا وسیع رقبہ اور سوا ارب سے زائد کی آبادی۔ اور تو اور پچھلے سال بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پینے کے پانی کی ایسی شدید قلت ہوئی کہ خانہ جنگی ہوتے ہوتے رہ گئی۔
بھارت کی کئی ریاستیں پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں پانی کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ دنیا اور بھارت پاکستان میں مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پر خوفناک جنگیں ہونے والی ہیں۔ کشمیر جو دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا باعث نزاع ہے۔ اب بنیادی طور پر یہ پانی کا مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ پانی کے تمام ممبعے کشمیر سے بہہ کر پاکستان آتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے جس کا مستقبل قریب میں کم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس ماحولیاتی آلودگی نے پچھلے دنوں اسموگ کی شکل اختیار کر لی جس سے لاہور دہلی تہران اور اصفہان شدید متاثر ہوئے جس کے نتیجے میں آخر الذکر شہروں میں کئی دنوں کے لیے اسکول بند کرنا پڑے تا کہ بچوں کو زہریلی گیسوں پر مشتمل دھند سے محفوظ کیا جا سکے۔
گلوبل وارمنگ یعنی شدید گرمی کی لہروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہر سال تقریباً پونے تین کروڑ افراد غریب ہو جاتے ہیں اور اسی طرح ان آفات کے نتیجے میں ہر سال پانچ سو ملین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی کی شدید لہر اور سیلاب جو کبھی کبھار ہی آتے تھے اب ہر سال معمول بن کر رہ گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبادی میں بے پناہ اضافہ' اگر یہ دونوں خطرے کی حدود میں داخل ہو جائیں جو کہ پاکستان اس حوالے سے داخل ہو چکا ہے' تو اس ملک کی تباہی کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔
گلوبل وارمنگ 2017ء اور2018ء میں بھی جاری رہے گی۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ اس کا زور ٹوٹ جائے۔