فیصلہ کن قوتیں

موسم خوشگوار ہے۔ حکومت کے شب وروزسازگار ہیں

ejazkhan289@hotmail.com

ISLAMABAD:
موسم خوشگوار ہے۔ حکومت کے شب وروزسازگار ہیں۔اپوزیشن کی موج مستی جاری ہے۔ حکومت اس کے حضور کوئی نہ کوئی ایشو پیش کر دیتی ہے۔ یہ کہیںتو بہتر ہو گا کہ پلیٹ میں رکھ کرپیش کرتی ہے۔

اس پر اُسے داد دینا ہو گی کہ وہ ہضم نہیں ہونے دیتی۔ کبھی کبھار سیاسی موسم کے درمیان دل بھی آجاتا ہے۔اسے ہم'' دل گرہن'' بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس کے اثرات...شیخ رشید ہی بتا سکیں گے کہ کونسا مہینہ اہم ہے۔ شیخ صاحب عوامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ راولپنڈی میں اس کا شاندار مظاہرہ کیا۔ خوب شہرت سمیٹی۔ کچھ دن عمران خان سے آگے رہے۔یہ بھی عرض کریں گے کہ اُن کی پیش گوئیاں حکومت کے لیے کسی رحمت سے کم نہیں۔ جتنے دن وہ دیتے ہیں، حکومت اُتنی ہی دراز ہو جاتی ہے۔ دسمبر کے حسن پر بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ لکھا جاتا ہے۔

اس کا ہجر بھی کسی میٹھے درد سے کم نہیں۔ درد تو درد ہوتا ہے۔ دوا کرتے ہیں اور بڑھ جاتا ہے۔ مسیحا اور مریض ...ایک ندی کے دوکنارے۔ سیاسی طور پر آنے والادسمبر سرکار کے لیے پر سکون ہونا چاہیے۔ '' چاہیے'' کے سامنے بہت سے سوالات بھی کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔جس کے لیے یار لوگ کافی ہیں۔ اسلام آباد کا موسم تو ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ سزاوار عوام کیوں؟

پچھلا ہفتہ پیپلز پارٹی کے نام رہا۔ بلاول بھٹو پیارے لاہور کی چاہت سے لطف اندوز ہوئے۔ کبھی اس بے مثال شہر میں پیپلز پارٹی کی لہر تھی۔1970 ء کے الیکشن میں تمام سیٹیں جیتیں۔اب ایک بھی نہیں۔ اس ایک نہ ہونے کا ایک سے بڑھ کر ایک جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ کس کے حضور؟پارٹی کے پاس بھی تھنک ٹینکوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہ کس موسم میں چلیں گے؟ خالی جگہ پرکرنے کے ہمارے یہاں ایک سے بڑھ کر ایک فارمولا ہے۔ جگہ پھر خالی رہ جاتی ہے ۔اسے کس کا گیپ کہیں گے؟ اس سے بھی اہم سوال کہ اس کے ثبوت کہاں سے لائیں گے؟اکثر یہی دیکھا ہے، بہ قول اظہر ؔ سعید

ثبوت برق کی غارت گری کا کس سے ملے

کہ آشیاں تھا جہاں اب وہاں دُھواں بھی نہیں


بے شک دُھواں بہت سے گم شدہ گھروں کا پتہ دیتا ہے۔ اُس کے ہوتے ہوئے بے گھری ... بہاروں کے ستم کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ آج کل عمران خان مشق ِ ستم ہیں۔ ایسا کیا ہو گیا؟ادارے مضبوط ہونے چا ہئیں۔ لوگ آتے جاتے ہیں۔ یہ بات باعث ِ اطمینان ہے کہ اس سمت بات چل پڑی ہے۔ ابھی کارواں بننے میں کچھ وقت لگے گا لیکن... ہمارے سیاست دان سب سے بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ ان کا دھیان اُن کی طرف ہوتا ہے کہ آئینی طور پر جو سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ یہ لوگ کسی پل بھی ہلچل مچا سکتے ہیں۔ بابر اعوان نے عمران خان کا وکیل بننے پر زرداری صاحب کے تحفظات پر کہا کہ '' کوئی بات نہیں، وہ میرے دوست ہیں''۔ زرداری صاحب کی سیاست کا مرکز ہمیشہ دوست رہے ۔

معزز قارئین ! ایک پنجابی فلم '' یارمار'' کو دیکھنے سے اس کی سمجھ آجائے گی ۔صدر ِ مملکت کے منصب پر زرداری صاحب کہا کرتے تھے کہ '' بلاول کے انکلز ، بے نظیر کے انکلزسے زیادہ وفادار ہوں گے''۔ بلاول کے ایک انکل بابر اعوان ہیں۔ سینیٹ کی نشست اُنہیں پیپلز پارٹی میں رکھے ہوئی ہے۔ اتنی سی بات ہے۔ اس کا بھی افسانہ ... وہ پاناما لیکس میں عمران خان کی ٹیم کے سب سے اہم رکن ہوں گے۔

کپتان کی کیپ نعیم بخاری کے سر پر ہے۔ نظریں بابر اعوان پر ہیں۔ نظر سے ملے تو ... ہجر اور صبر کے مقام بھی آتے ہیں۔ عدالت میں کیا ہو گا؟ اس پر رننگ کمنٹری کسی طور بھی مناسب نہیں۔سندھ کے صوبائی وزیر منظور وسان نے پاناما لیکس پر بھی پیش گوئی کر ڈالی۔ وزراء کا یہ حال ہے، میڈیا بھی کیا کرے۔ سیاست دانوں کے ہاتھ میں اُس کا دامن بھی ہے اور گریباں بھی۔ خدارا ! میڈیا کو بدنام نہ کریں۔ آج کا میڈیا پیارے پاکستان کے لیے کسی قیمتی تحفہ سے کم نہیں۔ یہ وہ خواب ہے، جس کی تعبیر میں خون بھی شامل ہے۔ اس کا ڈرتو رہے گا۔ افتخار ؔعارفؔ نے کیا خواب کشی کی ہے۔

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

پھر اُس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

ایک دن آنکھیں بھی خشک ہو جاتی ہیں۔ اس پر بھی لوگ خوش ہوتے ہیں۔ بابر اعوان کے نئے ایجنڈے میں عمران خان اور پیپلز پارٹی کو ایک کرنا بھی ہے۔ اسے رسمی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو کسی رسم کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے۔ بلکہ چڑھی ہوئی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ پیپلز پارٹی بمقابلہ عمران کیوں ہے؟ پنجاب کا ماحول اس لیے سیاسی نہیں۔ جیالے بھی خوش نہیں ہیں۔ کارکنوں کی خوشی ہو یا غمی... دونوں کے نصیب میں تنہائی اور پھر رسوائی ہے۔ نواز شریف حکومت اپنے مہرے کامیابی سے چلا رہی ہے۔ اُنہیں اپنے وزیروں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی بصورت دیگر ... کڑے موسم کی بہار بھی زرد آلود نظر آتی ہے۔ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ موجودہ موسم سیاسی جوڑ توڑ کے لیے کسی بہار سے کم نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کاایجنڈا بھی یہی ہے۔ '' مخبر '' کے مطابق'' ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو چکی ہے۔

لندن اور کینیڈا کے مشترکہ دوست کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں''۔ دونوں جماعتوں کے درمیان الیکشن میں اتحاد کسی پل ِ صراط سے کم نہیں۔ عمران خان اس کے لیے تیار نہیں۔وہ گنتی کی چند سیٹیں دینے کی پیش کش بہت پہلے کر چکے ہیں۔ عمران خان تو اگلا الیکشن جماعت ِ اسلامی کے بغیر لڑنا چاہتے ہیں۔ کیا سیاسی ماحول اس کی اجازت دے دے گا؟ خیبر پختون خوا حکومت میں اہم وزارتیں جماعت ِ اسلامی کے پاس ہیں۔ اسے اُس کا کمال کہیں ،جلال یا زوال؟ Aحکومت میں شامل ہونے کے لیے اُس کی نظریاتی سیاست بند ہو جاتی ہے۔ شیخ رشید احمد کو جماعت ِ اسلامی کی سمجھ نہیں آ رہی۔ ہمیں اس کی سمجھ نہیں آرہی کہ شیخ صاحب اُسے سمجھنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔ اُس کی تو کسی کو بھی سمجھ نہیں آتی۔ کرسی کی گردش میں سب کچھ چکرا جاتا ہے۔
Load Next Story