کیوں نہ سیوٹ جیسے جزیرے بنائے جائیں آخری حصہ
رضوی صاحب جو برٹش نیشنل ہیلتھ سروس سے متاثر ہیں
THE HAGUE:
اس کا حل کیا ہے؟ رضوی صاحب جو برٹش نیشنل ہیلتھ سروس سے متاثر ہیں۔ بقول اپنے''ہم ہر ایک کے پاس گئے اور ہم نے انھیں پارٹنر بنالیا مگر جب سیوٹ 1974 میں قائم ہوا تو ایک قدامت پسند مسلم ملک میں لوگوں کو عطیہ دینے کے لیے قائل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بہت سے لوگ اعضا کے عطیے کو خلاف اسلام سمجھتے تھے، اس جمود کو توڑنے کے لیے رضوی صاحب کو علمائے کرام کو اپنے ساتھ ملانا پڑا، بقول ان کے خوش قسمتی سے ان تمام لوگوں نے اتفاق کیا کہ اعضا کا ڈونیشن عین اسلامی ہے اور یہ اچھا کام کیا جانا چاہیے۔تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں اعضا عطیہ کرنے کی قدروقیمت کی آگاہی کم ہونے سے ہماری پروگریس متاثرہورہی ہے۔
جو کوئی بھی سیوٹ جاتا ہے وہ اس کے صاف و شفاف ماحول اور بے داغ درودیوار اور مثالی کارکردگی دیکھ کر سخت حیران ہوتا ہے کیوںکہ یہ چمک دمک کسی اور اسپتال میں نظر نہیں آتی۔ بچوں کے روشن وارڈ میں ہر عمر کے بچے صاف ستھرے سفید بستروں پر ڈائیلسز کے عمل سے گزرتے ہیں جہاں آسمانی رنگ کی دیواروں پر خوبصورت قد آدم تصویریں بھی پینٹ کی گئی ہیں۔
یہاں آپ کو بجلی کی سی سرعت سے نقل وحرکت کرتی میڈیکل سوشل ورکر صنوبر عنبریں بھی نظر آتی ہیں جن کا کام بقول ان کے اس تکلیف دہ عمل کے دوران مریضوں کو میوزک کلاسز، پینٹنگز اور ٹیلنٹ کوئیسٹ کے ذریعے پرسکون اور مطمئن رکھنا ہے، ان مریضوں میں 17 سالہ حنا حمید شامل ہے جو چار سال کی عمر سے ڈائیلسز پر ہے اور جسے اپنے علاج کی وجہ سے اسکول چھوڑنا پڑا ہے۔
ایک اور وارڈ میں ایک ملزم اعجاز مشتاق داخل ہے جس کے زنجیریں بندھی ہیں اور پولیس کی تحویل میں اس کے گردے جواب دے گئے اور اب وہ ہفتے میں دو مرتبہ پولیس کی حفاظت میں سیوٹ آتا ہے جیسا کہ رضوی صاحب بتاتے ہیں مشتاق جیسے مریض کو بھی وہی علاج کی سہولتیں ملتی ہیں جو وی آئی پی سمیت کسی اور مریض کو فراہم کی جاتی ہیں ایک ہی قسم کا کھانا ایک سا بیڈ۔بقول ان کے کچھ لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے اتنا دشوار کہ انھیں دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔
جن کو وہ خاطر میں نہیں لاتے بلکہ جیسا کہ انھوں نے خود کہا ہم بیٹھ کر ان سے بات کرتے ہیں انھیں بتاتے ہیں کہ اس شخص کو دیکھیے جس کا ہم علاج کررہے ہیں وہ بھی میرے اور آپ کی طرح کا ہے کیا میں اسے مرجانے دوں۔جب کہ اسپتال کے چپے چپے پر ان کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے رضوی پھر بھی کہتے ہیں ابھی انھوں نے سب کچھ حاصل نہیں کیا ہے اور وہ اب سرطان جیسے دشمن سے نبرد آزما ہونے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے خیال میں ایک ایسا کام ہے جو ہوسکتا ہے بالکل ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہ ریٹائرمنٹ کی تجویزکو جھٹک دیتے ہیں اورکہتے ہیں میرے ساتھی بھی میرے طرح کام کررہے ہیں، ان میں سے بیشتر ضرورت سے زیادہ حساس ہوگئے ہیں میں نہیں ہوا،آپ دیکھ رہے ہیں میں بالکل نارمل ہوں۔
ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی
اسی دوران ایک ڈاکٹر صاحب نے ایک اور ایسے ادارے کا تذکرہ کیا جسے ایک جزیرہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ کوشش محترم ڈاکٹر مسعود حمید نے ڈاؤ میڈیکل کالج کو اپنی محنت اور کاوش سے ایک بڑی یونیورسٹی میں تبدیل کرکے کی ہے جس کے مظاہر ہمیں شہر میں جابجا ڈاؤ پیتھالوجیکل سینٹرز کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر مسعود حمید کی کامیابی سے یہ اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی شخصیت خلوص محنت اور دیانتداری سے اپنے ادارے کی بہتری میں مصروف ہو تو ارباب حل و عقد بھی اس کے کام میں رکاوٹ بننے کے بجائے ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں اور یوں ایک جزیرہ وجود میں آجاتا ہے۔
تاہم جیساکہ ہمیں بتایا گیا ڈاؤ میڈیکل کو یونیورسٹی بنانے اور پھر مفاد عامہ کے ایک بڑے ادارے کا روپ دینے میں ایک بڑا کردار سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا بھی ہے انھوں نے بقول کسے اس کالج کے ایک سابق گریجویٹ کی حیثیت سے اس بات کو اپنی ذمے داری اور فرض جانا کہ ڈاؤ میڈیکل میں یہ انقلاب برپا کرنے میں اپنے اختیارات بروئے کار لائیں اور ایک ایسا کام کرجائیں جو صدقہ جاریہ میں شمار ہو اور جب تک لوگ اس سے استفادہ کریں وہ ڈاکٹر مسعود حمید اور ڈاکٹر عشرت العباد کو دعائیں دیتے رہیں۔اس طرح سابق گورنر کی دوسری سیاسی و سماجی خدمات کا تو ہمیں علم نہیں مگر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی بڑی حد تک ڈاکٹر عشرت العباد کے ''خاموش کارناموں'' میں شمار ہوگی۔
ہمیں یہ بھی احساس ہے صرف کراچی ہی نہیں سندھ کے دوسرے شہروں میں بلکہ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بہت سے دوسرے ادارے ہماری نظروں سے اوجھل خاموشی سے اچھی کارکردگی کے جزیروں کے طور پر پنپ رہے ہوں گے یا ان میں اس قسم کے جزیرہ بننے کی پوری پوری صلاحیت ہوگی ضرورت ایسی منفرد شخصیتوں کو دریافت کرنے کی ہے جو اس چیلنج کو قبول کریں اور اپنے ادارے کی کایا پلٹ دیں۔پھر کچھ ایسے منفرد لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہو جو انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہوں اعلیٰ افسری ان کے لیے محض ملازمت نہ ہو بلکہ اپنے اطراف کے تمام لوگوں بلکہ پورے معاشرے کا فائدہ چاہتے ہوں مثبت انداز میں اچھی شہرت کے طالب ہوں اور یہ خواہش رکھتے ہوں کہ ان کی امیج اچھی ہو، اور لوگ انھیں اچھے نام سے یاد رکھیں اور اس مقصد سے وہ عام ڈگر سے کچھ ہٹ کر کام کرتے ہیں۔مثلاً ہمیں ڈاکٹر سیمی جمالی کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ وہ جناح اسپتال میں خاصی امپرومنٹ لائی ہیں اور اس اسپتال کی وہ پرانی سرکاری اسپتال والی امیج نہیں رہی اب یہاں آنے والے مریض ان مسائل کا سامنا نہیں کرتے جن سے انھیں ماضی میں واسطہ پڑتا تھا یہاں بھیڑ بھاڑ پہلے سے کم ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر نرسیں اور دوسرا عملہ اب بہتر انداز میں مریضوں کو اٹینڈ کرتا ہے۔خرابی بسیار کے باوجود ہمارا میڈیا بھی اچھا کام کرنے والے اداروں اور شخصیتوں کو بجا طور پر پروموٹ کرتا ہے ان کی سرگرمیوں کو مثبت انداز میں رپورٹ کرتا ہے اتفاق سے آج ہم نے آپ کو جن گنے چنے جزیروں کی سیر کرائی ہے وہ اتفاق سے زیادہ تر اسپتال ہیں جب کہ تعلیمی اداروں میں بھی کئی ایسے جزیرے موجود ہیں جن میں آئی بی اے، لمز، گورنمنٹ کالج لاہور، این ای ڈی اور سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کا تفصیلی تذکرہ ہم آیندہ چل کر اپنے کسی اور کالم میں کریں گے۔
سندھ کی حد تک یہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ وہ اپنے صوبے کے طول و عرض میں ایسے ادارے اور ایسی شخصیات تلاش کریں جن میں سیوٹ اور ڈاکٹر ادیب رضوی بننے کی صلاحیت اور امنگ ہو۔ پھر وہاں کے ایسے Committed سربراہ خواتین و حضرات کو کام کرنے کی آزادی، فنڈز اور وسائل مہیا کیے جائیں تاکہ رفتہ رفتہ ہمارے ملک میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایسے جزیرے وجود میں آجائیں جو صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کریں اور اس کے ساتھ ہی اس ملک کے وسائل کو ہڑپ کرنے والے سمندر کے سائز اور اثرات کو کم سے کم کرسکیں۔اگر آپ چھوٹا سا ادارہ چلا رہے ہوں تو اسے بھی ایک ایسے ہی چھوٹے موٹے جزیرے کا روپ دے سکتے ہیں مثلاً قسمت سے جن لوگوں کا روزگار آپ سے وابستہ ہوچکا ہو آپ ان کے حقوق ادا کرسکتے ہیں ان کو ممکنہ حد تک خوشیاں دے سکتے ہیں۔
ان کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس سے آپ کے ادارے کی نیک نامی بھی ہوگی اور خود آپ کی بھی۔ ایسے لوگ آپ کے ڈرائیور بھی ہوسکتے ہیں اور آپ کے ملازم بھی۔ ان کی زندگیوں میں جھانکیے اور ان زندگیوں کو اپنی کوششوں سے آسان بنائیے تھوڑی سی کوشش کرکے آپ اپنے ملازمین کے بچوں کو تعلیم دلانے میں بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی میں مدد کرسکتے ہیں۔ اگر خیر سے آپ فراخ دل ہیں تو اردگرد نظر دوڑائیے آپ کے اطراف ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوگی جن کو آپ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ رضوی صاحب جو برٹش نیشنل ہیلتھ سروس سے متاثر ہیں۔ بقول اپنے''ہم ہر ایک کے پاس گئے اور ہم نے انھیں پارٹنر بنالیا مگر جب سیوٹ 1974 میں قائم ہوا تو ایک قدامت پسند مسلم ملک میں لوگوں کو عطیہ دینے کے لیے قائل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بہت سے لوگ اعضا کے عطیے کو خلاف اسلام سمجھتے تھے، اس جمود کو توڑنے کے لیے رضوی صاحب کو علمائے کرام کو اپنے ساتھ ملانا پڑا، بقول ان کے خوش قسمتی سے ان تمام لوگوں نے اتفاق کیا کہ اعضا کا ڈونیشن عین اسلامی ہے اور یہ اچھا کام کیا جانا چاہیے۔تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں اعضا عطیہ کرنے کی قدروقیمت کی آگاہی کم ہونے سے ہماری پروگریس متاثرہورہی ہے۔
جو کوئی بھی سیوٹ جاتا ہے وہ اس کے صاف و شفاف ماحول اور بے داغ درودیوار اور مثالی کارکردگی دیکھ کر سخت حیران ہوتا ہے کیوںکہ یہ چمک دمک کسی اور اسپتال میں نظر نہیں آتی۔ بچوں کے روشن وارڈ میں ہر عمر کے بچے صاف ستھرے سفید بستروں پر ڈائیلسز کے عمل سے گزرتے ہیں جہاں آسمانی رنگ کی دیواروں پر خوبصورت قد آدم تصویریں بھی پینٹ کی گئی ہیں۔
یہاں آپ کو بجلی کی سی سرعت سے نقل وحرکت کرتی میڈیکل سوشل ورکر صنوبر عنبریں بھی نظر آتی ہیں جن کا کام بقول ان کے اس تکلیف دہ عمل کے دوران مریضوں کو میوزک کلاسز، پینٹنگز اور ٹیلنٹ کوئیسٹ کے ذریعے پرسکون اور مطمئن رکھنا ہے، ان مریضوں میں 17 سالہ حنا حمید شامل ہے جو چار سال کی عمر سے ڈائیلسز پر ہے اور جسے اپنے علاج کی وجہ سے اسکول چھوڑنا پڑا ہے۔
ایک اور وارڈ میں ایک ملزم اعجاز مشتاق داخل ہے جس کے زنجیریں بندھی ہیں اور پولیس کی تحویل میں اس کے گردے جواب دے گئے اور اب وہ ہفتے میں دو مرتبہ پولیس کی حفاظت میں سیوٹ آتا ہے جیسا کہ رضوی صاحب بتاتے ہیں مشتاق جیسے مریض کو بھی وہی علاج کی سہولتیں ملتی ہیں جو وی آئی پی سمیت کسی اور مریض کو فراہم کی جاتی ہیں ایک ہی قسم کا کھانا ایک سا بیڈ۔بقول ان کے کچھ لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے اتنا دشوار کہ انھیں دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔
جن کو وہ خاطر میں نہیں لاتے بلکہ جیسا کہ انھوں نے خود کہا ہم بیٹھ کر ان سے بات کرتے ہیں انھیں بتاتے ہیں کہ اس شخص کو دیکھیے جس کا ہم علاج کررہے ہیں وہ بھی میرے اور آپ کی طرح کا ہے کیا میں اسے مرجانے دوں۔جب کہ اسپتال کے چپے چپے پر ان کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے رضوی پھر بھی کہتے ہیں ابھی انھوں نے سب کچھ حاصل نہیں کیا ہے اور وہ اب سرطان جیسے دشمن سے نبرد آزما ہونے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے خیال میں ایک ایسا کام ہے جو ہوسکتا ہے بالکل ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہ ریٹائرمنٹ کی تجویزکو جھٹک دیتے ہیں اورکہتے ہیں میرے ساتھی بھی میرے طرح کام کررہے ہیں، ان میں سے بیشتر ضرورت سے زیادہ حساس ہوگئے ہیں میں نہیں ہوا،آپ دیکھ رہے ہیں میں بالکل نارمل ہوں۔
ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی
اسی دوران ایک ڈاکٹر صاحب نے ایک اور ایسے ادارے کا تذکرہ کیا جسے ایک جزیرہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ کوشش محترم ڈاکٹر مسعود حمید نے ڈاؤ میڈیکل کالج کو اپنی محنت اور کاوش سے ایک بڑی یونیورسٹی میں تبدیل کرکے کی ہے جس کے مظاہر ہمیں شہر میں جابجا ڈاؤ پیتھالوجیکل سینٹرز کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر مسعود حمید کی کامیابی سے یہ اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی شخصیت خلوص محنت اور دیانتداری سے اپنے ادارے کی بہتری میں مصروف ہو تو ارباب حل و عقد بھی اس کے کام میں رکاوٹ بننے کے بجائے ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں اور یوں ایک جزیرہ وجود میں آجاتا ہے۔
تاہم جیساکہ ہمیں بتایا گیا ڈاؤ میڈیکل کو یونیورسٹی بنانے اور پھر مفاد عامہ کے ایک بڑے ادارے کا روپ دینے میں ایک بڑا کردار سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا بھی ہے انھوں نے بقول کسے اس کالج کے ایک سابق گریجویٹ کی حیثیت سے اس بات کو اپنی ذمے داری اور فرض جانا کہ ڈاؤ میڈیکل میں یہ انقلاب برپا کرنے میں اپنے اختیارات بروئے کار لائیں اور ایک ایسا کام کرجائیں جو صدقہ جاریہ میں شمار ہو اور جب تک لوگ اس سے استفادہ کریں وہ ڈاکٹر مسعود حمید اور ڈاکٹر عشرت العباد کو دعائیں دیتے رہیں۔اس طرح سابق گورنر کی دوسری سیاسی و سماجی خدمات کا تو ہمیں علم نہیں مگر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی بڑی حد تک ڈاکٹر عشرت العباد کے ''خاموش کارناموں'' میں شمار ہوگی۔
ہمیں یہ بھی احساس ہے صرف کراچی ہی نہیں سندھ کے دوسرے شہروں میں بلکہ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بہت سے دوسرے ادارے ہماری نظروں سے اوجھل خاموشی سے اچھی کارکردگی کے جزیروں کے طور پر پنپ رہے ہوں گے یا ان میں اس قسم کے جزیرہ بننے کی پوری پوری صلاحیت ہوگی ضرورت ایسی منفرد شخصیتوں کو دریافت کرنے کی ہے جو اس چیلنج کو قبول کریں اور اپنے ادارے کی کایا پلٹ دیں۔پھر کچھ ایسے منفرد لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہو جو انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہوں اعلیٰ افسری ان کے لیے محض ملازمت نہ ہو بلکہ اپنے اطراف کے تمام لوگوں بلکہ پورے معاشرے کا فائدہ چاہتے ہوں مثبت انداز میں اچھی شہرت کے طالب ہوں اور یہ خواہش رکھتے ہوں کہ ان کی امیج اچھی ہو، اور لوگ انھیں اچھے نام سے یاد رکھیں اور اس مقصد سے وہ عام ڈگر سے کچھ ہٹ کر کام کرتے ہیں۔مثلاً ہمیں ڈاکٹر سیمی جمالی کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ وہ جناح اسپتال میں خاصی امپرومنٹ لائی ہیں اور اس اسپتال کی وہ پرانی سرکاری اسپتال والی امیج نہیں رہی اب یہاں آنے والے مریض ان مسائل کا سامنا نہیں کرتے جن سے انھیں ماضی میں واسطہ پڑتا تھا یہاں بھیڑ بھاڑ پہلے سے کم ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر نرسیں اور دوسرا عملہ اب بہتر انداز میں مریضوں کو اٹینڈ کرتا ہے۔خرابی بسیار کے باوجود ہمارا میڈیا بھی اچھا کام کرنے والے اداروں اور شخصیتوں کو بجا طور پر پروموٹ کرتا ہے ان کی سرگرمیوں کو مثبت انداز میں رپورٹ کرتا ہے اتفاق سے آج ہم نے آپ کو جن گنے چنے جزیروں کی سیر کرائی ہے وہ اتفاق سے زیادہ تر اسپتال ہیں جب کہ تعلیمی اداروں میں بھی کئی ایسے جزیرے موجود ہیں جن میں آئی بی اے، لمز، گورنمنٹ کالج لاہور، این ای ڈی اور سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کا تفصیلی تذکرہ ہم آیندہ چل کر اپنے کسی اور کالم میں کریں گے۔
سندھ کی حد تک یہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ وہ اپنے صوبے کے طول و عرض میں ایسے ادارے اور ایسی شخصیات تلاش کریں جن میں سیوٹ اور ڈاکٹر ادیب رضوی بننے کی صلاحیت اور امنگ ہو۔ پھر وہاں کے ایسے Committed سربراہ خواتین و حضرات کو کام کرنے کی آزادی، فنڈز اور وسائل مہیا کیے جائیں تاکہ رفتہ رفتہ ہمارے ملک میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایسے جزیرے وجود میں آجائیں جو صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کریں اور اس کے ساتھ ہی اس ملک کے وسائل کو ہڑپ کرنے والے سمندر کے سائز اور اثرات کو کم سے کم کرسکیں۔اگر آپ چھوٹا سا ادارہ چلا رہے ہوں تو اسے بھی ایک ایسے ہی چھوٹے موٹے جزیرے کا روپ دے سکتے ہیں مثلاً قسمت سے جن لوگوں کا روزگار آپ سے وابستہ ہوچکا ہو آپ ان کے حقوق ادا کرسکتے ہیں ان کو ممکنہ حد تک خوشیاں دے سکتے ہیں۔
ان کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس سے آپ کے ادارے کی نیک نامی بھی ہوگی اور خود آپ کی بھی۔ ایسے لوگ آپ کے ڈرائیور بھی ہوسکتے ہیں اور آپ کے ملازم بھی۔ ان کی زندگیوں میں جھانکیے اور ان زندگیوں کو اپنی کوششوں سے آسان بنائیے تھوڑی سی کوشش کرکے آپ اپنے ملازمین کے بچوں کو تعلیم دلانے میں بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی میں مدد کرسکتے ہیں۔ اگر خیر سے آپ فراخ دل ہیں تو اردگرد نظر دوڑائیے آپ کے اطراف ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوگی جن کو آپ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔