ریکوڈک معاہدے کی اصل شکل کو تبدیل کیا گیا سپریم کورٹ
2000 تک مسئلہ نہیں تھا،اب کیا ہوا کہ نئی دستاویزات جاری کرنا پڑیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اضافی دستاویزات کی مدد سے ریکوڈک معاہدے کی اصل شکل کو تبدیل کیا گیا۔
جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریکوڈک گولڈ مائنز کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ٹیتھیان کمپنی کے وکیل خالد انور نے اپنے دلائل میں کہاکہ بی ایچ پی نے کوئی خلاف قانون کام کیا نہ ہی کسی پردبائو ڈال کرمشترکہ معاہدے پردستخط کرائے۔ مشترکہ معاہدے کی اجازت گورنربلوچستان نے چئیرمین بی ڈی اے کودی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال کیاکہ ریکوڈک معاہدے اوراضافی دستاویزات پردستخط کرنے کی ضرورت اوربنیاد کیا تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 1993سے 2000تک ریکوڈک معاہدے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، اتنے سال بعد معاہدے میں کیا مسائل پیدا ہوئے کہ نئی دستاویزات جاری کرنا پڑیں۔ اضافی دستاویزات جاری کرکے معاہدے کی اصل صورت ہی تبدیل کر دی گئی۔ ٹیتھیان کے وکیل خالد انور نے کہا کہ حکومت کو نہیں بلکہ بی ایچ پی کو لوٹا جارہا ہے، بی ایچ پی نے لاکھوں ڈالرزخرچ کرکے معدنیات کی تلاش کی۔حکومت بلوچستان کے وکیل احمد بلال نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق صوبائی حکومت پارٹی نہیں تھی۔ حکومت بلوچستان نے بی ڈی اے کو کبھی اضافی دستاویزات جاری کرنے کی اجازت دی نہ ہی حکومت بلوچستان نے درخواست کادفاع کیا تھا۔ہم نے ریکارڈ کا جائزہ لیا جس میں بے قاعدگیاں پائی گئیں۔ ریکوڈک کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی گئی۔
جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریکوڈک گولڈ مائنز کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ٹیتھیان کمپنی کے وکیل خالد انور نے اپنے دلائل میں کہاکہ بی ایچ پی نے کوئی خلاف قانون کام کیا نہ ہی کسی پردبائو ڈال کرمشترکہ معاہدے پردستخط کرائے۔ مشترکہ معاہدے کی اجازت گورنربلوچستان نے چئیرمین بی ڈی اے کودی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال کیاکہ ریکوڈک معاہدے اوراضافی دستاویزات پردستخط کرنے کی ضرورت اوربنیاد کیا تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 1993سے 2000تک ریکوڈک معاہدے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، اتنے سال بعد معاہدے میں کیا مسائل پیدا ہوئے کہ نئی دستاویزات جاری کرنا پڑیں۔ اضافی دستاویزات جاری کرکے معاہدے کی اصل صورت ہی تبدیل کر دی گئی۔ ٹیتھیان کے وکیل خالد انور نے کہا کہ حکومت کو نہیں بلکہ بی ایچ پی کو لوٹا جارہا ہے، بی ایچ پی نے لاکھوں ڈالرزخرچ کرکے معدنیات کی تلاش کی۔حکومت بلوچستان کے وکیل احمد بلال نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق صوبائی حکومت پارٹی نہیں تھی۔ حکومت بلوچستان نے بی ڈی اے کو کبھی اضافی دستاویزات جاری کرنے کی اجازت دی نہ ہی حکومت بلوچستان نے درخواست کادفاع کیا تھا۔ہم نے ریکارڈ کا جائزہ لیا جس میں بے قاعدگیاں پائی گئیں۔ ریکوڈک کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی گئی۔