2006سے پہلے آف شورکمپنیوں کی ملکیت ثابت ہوگئی تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا سپریم کورٹ
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے ضمنی جواب اور تقاریرمیں تضاد ہے،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے ضمنی جواب اور تقاریرمیں تضاد ہے جب کہ 2006سے پہلے آف شورکمپنیوں کی ملکیت ثابت ہوگئی تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔
پاناما لیکس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ کر رہا ہے۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ حامد خان بہت سینئر وکیل ہیں اور انہوں نے قانون پرکتاب بھی لکھ رکھی ہے لہذا میڈیا کو ان کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔
عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ریکارڈ سے ثابت کروں گا کہ وزیراعظم نے غلط بیانی کی اورٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے، وزیراعظم نے 13 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا اورقوم سے جھوٹ بولا، دوسرے خطاب میں بھی وزیراعظم نے سچ نہیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بیٹے سے پیسے لئے جب کہ وزیراعظم کے صاحبزادے کا این ٹی این نمبرہی نہیں ہے، مریم نوازوزیراعظم کی زیرکفالت ہیں اورلندن فلیٹس کی بینیفیشل آنرہیں، وزیراعظم کو یہ بات گوشواروں میں ظاہرکرنا چاہیے تھی جب کہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے موقف سے بالکل مختلف ہے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے، نیب وزیر اعظم کو بچانے میں لگا رہا جس پر نیب چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیا، جس پر جسٹس عظمیت سعید شیخ نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔ نعیم بخاری نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نے اپریل 1980 میں 33 ملین درہم میں فیکٹری فروخت کرنے کا بتایا، یہ رقم کل ملا کر90 کروڑڈالربنتی ہے، دبئی میں فیکٹری کب بنائی گئی وزیراعظم نے اپنے بیان میں نہیں بتایا جب کہ دبئی حکومت کے خط پرکوئی دستخط بھی نہیں ہیں، شیئرز کی فروخت کا معاملہ وزیراعظم کی ذہنی اختراع ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نے جدہ فیکٹری کے لئے بینکوں سے قرضہ لینے کا ذکر کیا، جدہ فیکٹری جون 2004 میں ایک کروڑ70 لاکھ ڈالرڈالرمیں فروخت کرنے کا کہا گیا جب کہ لندن فلیٹس 1993 سے 1996 کے درمیان خریدے گئے، جس پرجسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ دبئی اسٹیل مل کی طرح جدہ اسٹیل مل کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا جب کہ جسٹس اعجازالحسن نے استفسارکیا کہ سعودی بینکوں سے قرضہ کیسے لیا؟، جدہ فیکٹری کتنے میں اور کیسے فروخت کی گئی۔ عدالت میں پیش کئے گئے ضمنی جواب اور تقاریر میں تضاد ہے، دونوں مواقع پر کی گئی تقاریر میں بھی تضاد ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کے بقول تمام دستاویزات موجود ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ دستاویزات ہر جگہ موجود ہوں گی لیکن عدالت میں موجود نہیں ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے، دستاویزات سے لگتا ہے کہ طارق شفیع میاں شریف کے لیے کام کرتے تھے، دستخط طارق شفیع نے کیے تو شہباز شریف وہاں نمائندگی کس بات کی کررہے تھے؟، طارق شفیع کے 2 دستاویزات میں کیے گئے دستخطوں میں کوئی مماثلت نہیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ گلف اسٹیل مل2 کروڑ 10 لاکھ درہم میں فروخت ہوئی لیکن مل کی فروخت سے طارق شفیع کو ایک روپیہ تک نہیں ملا، طارق شفیع نے اپنے بیان میں آدھا سچ بولا، انہوں نے بیان حلفی میں کہا کہ دبئی کا کاروبار بے نامی تھا جب کہ شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستاویزات پر دستخط کیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لگتا ہے سب کچھ میاں محمد شریف نے کیا ہے، جدہ اور دبئی میں فیکٹریوں کے حوالے سے میاں شریف کے بچوں اور آگے سے ان کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا؟۔
نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ حسن نواز 21 جنوری 1976 میں پیدا ہوئے، حسین نواز 20 اکتوبر 1972 کو پیدا ہوئے اور مریم نواز 28 اکتوبر 1973 کو پیدا ہوئیں، لندن میں جائیدادیں میاں شریف نے خریدیں تو بھی ان کی جائیداد ثابت ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت شعید شیخ نے کہا کہ قطری شہزادے نے خط میں بڑے بھائی کا ذکر کیا لیکن نام نہیں بتایا، قطری شہزادے نے انگلینڈ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کا ذکر بھی نہیں کیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ دبئی سے پیسہ کب، کیسے اور کس بینک اکاؤنٹ کے ذریعے منتقل ہوا اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطر سے پیسہ لندن کیسے گیا یہ بھی نہیں بتایا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو 2006 سے پہلے شریف خاندان کی آف شور کمپنیو ں کی ملکیت ثابت کرنا ہوگی، اگر یہ ثابت ہوجائے تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ 21 جولائی 1995 کو فلیٹ نمبر 16 اور 16 اے خریدے گئے جب کہ فلیٹ 17 اے 2004 میں خریدا گیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ فلیٹس کتنے میں خریدے گئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حماد بن جاسم کی تاریخ پیدائش بھی انٹر نیٹ سے ڈھونڈیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ الثانی فیملی کے مردوں کے نام ایک جیسے ہیں اس لئے جاسم کی تاریخ پیدائش جاننا مشکل ہے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادے کو یہ سب کس نے بتایا کہ خط کے مطابق میاں شریف نے رقم حسین نواز کو دینے کا کہا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطری شہزادے نے خط کس کو لکھا، قطری شہزادے کا خط تصدیق شدہ نہیں، کیا اس خط کی قانونی حیثیت ہے، نعیم بخاری نے جواب دیا کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگرخط کی کوئی حیثیت نہیں تو اس کو کیوں پڑھیں۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں قطری سرمایہ کاری کی بات کرنا بھول گئے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ سرمایہ کاری اگر وزیر اعظم نے کی ہوتی تو شاید ان کو یاد ہوتا۔ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ والد کے ساتھ رہتی ہوں لیکن جائیداد سے تعلق نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں، لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت میں تسلیم کئے گئے ہیں، یونہی زور نہ لگائیں اور کچی دیواروں پر پیر نہ جمائیں، ہم سیاسی بیانات کا جائزہ نہیں لے سکتے، آپ سونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کیس میں اخباری خبروں کو کیوں لاتے ہیں، غیر ملکی اخباروں کی خبروں پر عمران خان نے بھی تنقید نہیں کی، کیا آپ کے موکل کے بارے انگریزی اخباروں میں جو 30 سال تک چھپتا رہا اسے بھی مان لیں، آپ کہتے ہیں کہ اخبار جو چھاپتا ہے اسے مان لیں، اخباری خبروں پر فیصلہ سنایا تو آپ کے موکل کے لئے بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔
عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کہ کہ مریم نواز کے مطابق ان کی ملک اور بیرون ملک جائیداد نہیں اور وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ مریم شادی شدہ ہے تو وہ والد کے ساتھ کیسے رہتی ہے؟، کیا ان کے شوہر بھی اپنے ساس سسر کے پاس رہتے ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے اپنا پتہ جاتی عمرہ لکھا ہے اور ان کے شوہر اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہتے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ زیادہ آگے نہیں جانا چاہیئے کیونکہ معاملہ ذاتی حیثیت کا ہے لیکن مریم نواز کے انٹرویو کا دوسرا حصہ اہم ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x541l4n
پاناما لیکس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ کر رہا ہے۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ حامد خان بہت سینئر وکیل ہیں اور انہوں نے قانون پرکتاب بھی لکھ رکھی ہے لہذا میڈیا کو ان کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔
عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ریکارڈ سے ثابت کروں گا کہ وزیراعظم نے غلط بیانی کی اورٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے، وزیراعظم نے 13 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا اورقوم سے جھوٹ بولا، دوسرے خطاب میں بھی وزیراعظم نے سچ نہیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بیٹے سے پیسے لئے جب کہ وزیراعظم کے صاحبزادے کا این ٹی این نمبرہی نہیں ہے، مریم نوازوزیراعظم کی زیرکفالت ہیں اورلندن فلیٹس کی بینیفیشل آنرہیں، وزیراعظم کو یہ بات گوشواروں میں ظاہرکرنا چاہیے تھی جب کہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے موقف سے بالکل مختلف ہے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے، نیب وزیر اعظم کو بچانے میں لگا رہا جس پر نیب چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیا، جس پر جسٹس عظمیت سعید شیخ نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔ نعیم بخاری نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نے اپریل 1980 میں 33 ملین درہم میں فیکٹری فروخت کرنے کا بتایا، یہ رقم کل ملا کر90 کروڑڈالربنتی ہے، دبئی میں فیکٹری کب بنائی گئی وزیراعظم نے اپنے بیان میں نہیں بتایا جب کہ دبئی حکومت کے خط پرکوئی دستخط بھی نہیں ہیں، شیئرز کی فروخت کا معاملہ وزیراعظم کی ذہنی اختراع ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نے جدہ فیکٹری کے لئے بینکوں سے قرضہ لینے کا ذکر کیا، جدہ فیکٹری جون 2004 میں ایک کروڑ70 لاکھ ڈالرڈالرمیں فروخت کرنے کا کہا گیا جب کہ لندن فلیٹس 1993 سے 1996 کے درمیان خریدے گئے، جس پرجسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ دبئی اسٹیل مل کی طرح جدہ اسٹیل مل کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا جب کہ جسٹس اعجازالحسن نے استفسارکیا کہ سعودی بینکوں سے قرضہ کیسے لیا؟، جدہ فیکٹری کتنے میں اور کیسے فروخت کی گئی۔ عدالت میں پیش کئے گئے ضمنی جواب اور تقاریر میں تضاد ہے، دونوں مواقع پر کی گئی تقاریر میں بھی تضاد ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کے بقول تمام دستاویزات موجود ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ دستاویزات ہر جگہ موجود ہوں گی لیکن عدالت میں موجود نہیں ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے، دستاویزات سے لگتا ہے کہ طارق شفیع میاں شریف کے لیے کام کرتے تھے، دستخط طارق شفیع نے کیے تو شہباز شریف وہاں نمائندگی کس بات کی کررہے تھے؟، طارق شفیع کے 2 دستاویزات میں کیے گئے دستخطوں میں کوئی مماثلت نہیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ گلف اسٹیل مل2 کروڑ 10 لاکھ درہم میں فروخت ہوئی لیکن مل کی فروخت سے طارق شفیع کو ایک روپیہ تک نہیں ملا، طارق شفیع نے اپنے بیان میں آدھا سچ بولا، انہوں نے بیان حلفی میں کہا کہ دبئی کا کاروبار بے نامی تھا جب کہ شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستاویزات پر دستخط کیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لگتا ہے سب کچھ میاں محمد شریف نے کیا ہے، جدہ اور دبئی میں فیکٹریوں کے حوالے سے میاں شریف کے بچوں اور آگے سے ان کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا؟۔
نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ حسن نواز 21 جنوری 1976 میں پیدا ہوئے، حسین نواز 20 اکتوبر 1972 کو پیدا ہوئے اور مریم نواز 28 اکتوبر 1973 کو پیدا ہوئیں، لندن میں جائیدادیں میاں شریف نے خریدیں تو بھی ان کی جائیداد ثابت ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت شعید شیخ نے کہا کہ قطری شہزادے نے خط میں بڑے بھائی کا ذکر کیا لیکن نام نہیں بتایا، قطری شہزادے نے انگلینڈ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کا ذکر بھی نہیں کیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ دبئی سے پیسہ کب، کیسے اور کس بینک اکاؤنٹ کے ذریعے منتقل ہوا اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطر سے پیسہ لندن کیسے گیا یہ بھی نہیں بتایا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو 2006 سے پہلے شریف خاندان کی آف شور کمپنیو ں کی ملکیت ثابت کرنا ہوگی، اگر یہ ثابت ہوجائے تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ 21 جولائی 1995 کو فلیٹ نمبر 16 اور 16 اے خریدے گئے جب کہ فلیٹ 17 اے 2004 میں خریدا گیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ فلیٹس کتنے میں خریدے گئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حماد بن جاسم کی تاریخ پیدائش بھی انٹر نیٹ سے ڈھونڈیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ الثانی فیملی کے مردوں کے نام ایک جیسے ہیں اس لئے جاسم کی تاریخ پیدائش جاننا مشکل ہے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادے کو یہ سب کس نے بتایا کہ خط کے مطابق میاں شریف نے رقم حسین نواز کو دینے کا کہا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطری شہزادے نے خط کس کو لکھا، قطری شہزادے کا خط تصدیق شدہ نہیں، کیا اس خط کی قانونی حیثیت ہے، نعیم بخاری نے جواب دیا کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگرخط کی کوئی حیثیت نہیں تو اس کو کیوں پڑھیں۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں قطری سرمایہ کاری کی بات کرنا بھول گئے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ سرمایہ کاری اگر وزیر اعظم نے کی ہوتی تو شاید ان کو یاد ہوتا۔ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ والد کے ساتھ رہتی ہوں لیکن جائیداد سے تعلق نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں، لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت میں تسلیم کئے گئے ہیں، یونہی زور نہ لگائیں اور کچی دیواروں پر پیر نہ جمائیں، ہم سیاسی بیانات کا جائزہ نہیں لے سکتے، آپ سونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کیس میں اخباری خبروں کو کیوں لاتے ہیں، غیر ملکی اخباروں کی خبروں پر عمران خان نے بھی تنقید نہیں کی، کیا آپ کے موکل کے بارے انگریزی اخباروں میں جو 30 سال تک چھپتا رہا اسے بھی مان لیں، آپ کہتے ہیں کہ اخبار جو چھاپتا ہے اسے مان لیں، اخباری خبروں پر فیصلہ سنایا تو آپ کے موکل کے لئے بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔
عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کہ کہ مریم نواز کے مطابق ان کی ملک اور بیرون ملک جائیداد نہیں اور وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ مریم شادی شدہ ہے تو وہ والد کے ساتھ کیسے رہتی ہے؟، کیا ان کے شوہر بھی اپنے ساس سسر کے پاس رہتے ہیں؟، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز نے اپنا پتہ جاتی عمرہ لکھا ہے اور ان کے شوہر اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہتے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ زیادہ آگے نہیں جانا چاہیئے کیونکہ معاملہ ذاتی حیثیت کا ہے لیکن مریم نواز کے انٹرویو کا دوسرا حصہ اہم ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x541l4n